کشمیر میں بھارتی افواج کی آمد پر قائد اعظم غصے سے کانپنے لگے
(Ather Ali Wasim, Karachi)
۵فروری ۔یومِ یکجہتی کشمیر:۔
مسئلہ کشمیرپاکستان و بھارت کے دوران پچھلے70 سالوں سے درد سر بنا ہوا ہے۔
پاک بھارت فوجیں تنازعہ کشمیر کی وجہ سے تین بار ٹکرا چکی ہیں۔ اگر یہ کہا
جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ کشمیر کے قضیے نے برصغیر کو جوہری جنگ کے دہانے
پر لاکھڑا کیا ہے۔ کشمیر کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا بھارت سلامتی کونسل کی
قراردادوں کی روشنی میں آج کشمیریوں کو انکی خواہش کے مطابق حق خود ارادیت
تفویض کرسکتا ہے؟ کیا جہادی تنظمیں دوبارہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج
کو ناکوں چنے چبوا کر ازادی کشمیر کو ممکن بنانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں ان
سوالات کا جوابات تلاش کرنے کے لئے ہمیں ماضی کے بند دریچوں میں جھانکنا
ہوگا۔
کشمیر پاکستان کے شمال مشرق میں واقع ہے۔ کشمیر کی سرحدیں ایک طرف پاکستان
جبکہ دوسری طرف چین و بھارت کے ساتھ ملتی ہیں۔ بانی قوم حضرت قائد اعظم نے
کشمیر کی جغرافیائی صورتحال کی روشنی میں کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ کہا
تھا۔ وادی کشمیر کے دیدہ زیب حسن، قدرتی مناظر بکھیرنے والے سرسبز و شاداب
پہاڑوں و مستیوں کا سرور برسانے والے موسموں کو عالمگیر شہرت حاصل ہے۔
کشمیر کی آبادی کا ستر فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
تقسیم ہند کے وقت لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی سالاری میں برصغیر پر قابض استعماری
حکومت کے کل پرزوں نے جس چارٹر کو بنیاد بنا کر بٹوارے کے رہنما اصول بنائے
تھے ان کی رو سے برِ صغیر کے وہ تمام علاقے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ
پاکستان کو دیئے جائیں گے اور یہ کہ تمام ریاستوں کو پاکستان و بھارت کے
ساتھ الحاق کرنے کا اختیارہوگا۔ کشمیریوں کی اکثریت الحاق پاکستان کا نعرہ
لگا چکی تھی مگر کشمیری راجہ ہری سنگھ نے اسلاموفوبیا میں مبتلا مکار
انگریزوں کے گٹھ جوڑ سے کشمیری قوم کی دلی امنگوں کا خون کرتے ہوئے بھارت
کے ساتھ27 اکتوبر1947 کو اتحاد کا اعلان کردیا۔
بھارتی حکومت کے سیکریٹری وی پی مینن نے اسی روز جموں میں الحاق کی قرارداد
پر کشمیری راجہ کے دستخط کروائے۔ کشمیری خطے پر تحقیق کرنے والے کئی
محقیقین نے کشمیر و بھارت کے الحاق کی تاریخ24 اکتوبر بیان کی ہے۔ کشمیر و
بھارت کے الحاق کے فوری بعد 27 اکتوبر1947 کو بھارتی افواج نے کشمیری
مہاراجے کی درخواست کو بنیاد بنا کر جموں و سری نگر پر ہلہ بول دیا۔ بھارتی
افواج کی آمد پر قائد اعظم غصے سے کانپنے لگے اور پاکستانی فوج کے کمانڈر
انچیف جنرل گریسی کو حکم دیا کہ وہ کشمیر کو بھارتی فوجیوں کے تسلط سے
بازیاب کروائیں تو گریسی نے قائد کے حکم کو یکسر مسترد کردیا۔ بھارتی قبضے
کے رد عمل میں کشمیری نوجوانوں، قبائلی پٹھانوں نے بھارت کے خلاف آواز حق
بلند کی اور بھارتی فوجیوں و حریت پسندوں کے درمیان خوب معرکہ آرائی ہوئی۔
بھارت نے1جنوری1948 کو اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی درخواست دائر کردی۔
بھارت نے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ مجاہدین کے روپ میں پاکستانی فوجی
کشمیر میں لڑ رہے ہیں۔ بھارت نے سلامتی کونسل کو گارنٹی دی کہ بھارت
کشمیریوں کو انکے حق خود ارادیت سے ضرور ہمکنار کریگا، جس کے مطابق کشمیری
عوام کو پاکستان یا بھارت میں سے کسی کے ساتھ الحاق کرنے کے لئے اپنا حقِ
رائے دہی آزادانہ طور پر استعمال کرنے کا بھرپور موقع فراہم کیا جائے گا۔
بھارتی یقین دہانی کے بعد سکیورٹی کونسل نے17 جنوری کو پاکستان و بھارت سے
جنگ بندی کی اپیل کردی۔20 جنوری1948 میں کشمیر کمیشن کا تقرر کیا گیا21
فروری1948 میں سلامتی کونسل نے استصواب رائے کی منظور کردہ قراردادوں پر
عمل درامد کروانے کے لئے کمیشن قائم کیا جو رائے شماری کے منصفانہ انعقاد
کے لئے پاکستان و بھارت کی معاونت کے لئے بنایا گیا۔21 اپریل1948 میں
سیکیورٹی کونسل نے قرارداد نمبر47 کے ذریعہ فیصلہ دیا کہ کشمیری مسئلے کا
حل استصواب رائے سے کرایا جائے گا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل رائے
شماری کے ایڈمنسٹریٹر مقرر کئے گئے۔
13اگست1948 کو یو این او نے پاک بھارت کو چار دنوں کے اندر جنگ بندی کا آڈر
دیا تاہم جنگ بندی کی قرارداد پر یکم جنوری1949 کو عمل کیا گیا۔
5 جنوری1949 کو سلامتی کونسل نے کہا کہ استصواب رائے ہی کشمیری جھگڑے کا
انصاف پسندانہ حل ہے کیونکہ فرد واحد یعنی مہاراجہ ہری سنگھ کو لاکھوں
کشمیریوں کی آرا کو دھتکارنے کا کوئی حق نہیں۔ سلامتی کونسل نے ایک طرف جنگ
بندی کے معاہدے پر عمل کروانے کے لئے فوجی مبصرین مقرر کردئیے تو دوسری طرف
استصواب رائے کا طریقہ کار بھی وضع کیا۔
جون1953 محمد علی بوگرا اور پنڈت نہرو کے درمیان ہونے والی کراچی ملاقات کا
مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں استصواب رائے پر اتفاق کیا گیا۔
اپریل1954 میں وزرائے اعظموں کی ملاقات میں یہ طے پایا کہ دونوں ملک اپنے
تنازعات گفت و شنید سے طے کریں گے مگر سچ تو یہ ہے کہ آنے والے وقتوں میں
بھارت نے نہ صرف یواین او کی منظورہ کردہ قراردادوں کو ردی کے کاغذوں کا
درجہ دیا بلکہ بھارت رائے شماری کے معاہدے سے پھر گیا اور بھارتی قیادت نے
کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہہ دیا۔ پاکستان کے پاس کشمیر کی آزادی کے کئی
گولڈن چانس میسر آئے مگر ان سے فائدہ نہ اٹھایا گیا۔
1962 کی چین بھارت جنگ میں پاکستان جموں و سری نگر کو فتح کرنے کے قابل تھا
مگر مغرب کی ضمانت پر پاکستانی قیادت ہاتھ پر ہاتھ ملتی رہ گئی۔ بھارت نے
ایک طرف کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے صوبہ بنا دیا تو دوسری جانب
بھارتی فورسز نے حریت پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا۔ لاطینی امریکہ
کے لازوال حریت پسند رہنما جی گویرا نے کہا تھا کہ انصاف کا حصول صرف مسلح
جدوجہد سے ممکن ہے۔ کشمیریوں نے بھارتی عدم دلچسپی و عالمی بے حسی کے کارن
ازادی کشمیر کے لئے جی گویرا کے فارمولے کو اپنا لیا۔
90 کی دہائی میں تحریک آزادی کشمیر کا گراف آسمانوں کو چھو رہا تھا جبکہ
بھارتی فورسز کے سپیشل گروپسز نے تحریک کو پایہ زنجیر کرنے کے لئے قوت کا
بے رحمانہ استعمال کررہی تھیں۔ پورے پاکستان سے جنگجو سری نگر پہنچنے لگے
جہاں انہوں نے جہادی تنظیوں کے ساتھ سربکف ہونے کا عہد کیا۔ گلستانٍ تحریک
آزادی کو نوے ہزار سے زائد کشمیری جوانوں نے اپنے خون جگر سے سیراب کیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق بارہ ہزار کشمیری ابھی تک لاپتہ ہیں
جبکہ جیلوں میں بند کشمیری جوانوں کی تعداد سات ہزار ہے۔ نائن الیون کے بعد
دنیا بدل گئی۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں بمعہ پاکستان نے ہو ٹرن لے لیا،
ماضی کے مجاہدین و ہیروز پل بھر میں انتہا پسند بن گئے۔ بھارتی کشمیر میں
چلنے والی تمام تحریکوں کی مالی و اخلاقی امداد کا فریضہ پاکستان کے ذمہ
تھا، جسے مشرف دور میںبند کردیاگیا۔ دور مشرف میں تحریک آزادی کشمیر کو
زبردست جھٹکا لگا کیونکہ ملک بھر میں شدت پسند جماعتوں و عسکریت پسندوں کی
آڑ میںآزادیءکشمیر کی جدوجہد کرنے والی جماعتوں اور مجاہدین کے خلاف بھی
کریک ڈاؤن کیا گیا۔ ان کے دفاتر بند کردئیے گئے۔ پاکستانی فورسز نے مقبوضہ
کشمیر جانے والے تمام راستوں کو بند کردیا۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مشرف دور میں پاکستان کی کشمیر پالیسی
میں تحیر انگیز تبدیلی لائی گئی۔ جبکہ ممبئی حملوں کے بعد پاکستان اور
بھارت کے درمیان حالا ت مزید کشیدہ ہو گئے کشمیر سمیت تمام حل طلب معاملا ت
کھٹائی میں پڑ گئے دونوں ممالک کے درمیان دوبارہ جنگ چھڑ جانے کے امکانات
بڑھ گئے۔ دونوں ممالک کے درمیان ان حملوں کی تحقیقات کا نیا ایشو پیدا ہو
گیا۔ جون 2009 میں دوبارہ پاکستان اور بھارت نے جامع مذاکرات کی بحالی کے
لیے سفارتی رابطے شروع کر دیئے۔29ستمبر 2009 کو چین نے کہا ہے کہ پاکستان
اور بھارت کو پرامن اور دوستانہ ماحول میں مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرنا
چاہئے اور چین اس سلسلے میں تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے26
نومبر2009 برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت
ملکر مسئلہ کشمیر کا حل نکالیں۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل میں کسی
تیسرے ملک کی مداخلت کی ضرورت نہیں۔
22جنوری2010 کو امریکہ نے ایک بار پھر پاکستانی خواہش کہ مسئلہ کشمیر پر
امریکہ دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کرے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ
امریکہ صرف اور صرف پاکستان اور بھارت کی لیڈر شپ کو مسئلہ کشمیر کے حل کے
حوالے سے گائیڈ کرسکتا ہے۔ ایک بھارتی خبر رساں ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے
وائٹ ہاؤس کے ترجمان مائیک ہیمبر نے کہا کہ ہم یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ ہم
مسئلہ کشمیر میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے اور نہ ہی اس میں ہمارا کوئی کردار
ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ مسئلہ کشمیر پر کوئی ثالثی کرنا چاہتا ہے اور
نہ ہی اس بات کا خواہشمند ہے۔ جبکہ یہ کام پاکستان اور بھارت پر چھوڑ دیا
ہے کہ وہ اس تاریخی مسئلے کا متفقہ طور پر کوئی حل ڈھونڈھ کر نکالیں۔ انہوں
نے کہا کہ امریکہ مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے دونوں ملکوں کی لیڈر شپ کو
صرف اور صرف گائیڈ کرسکتا ہے جبکہ بہتر حل دونوں ممالک کے لیڈرز آپس میں
بیٹھ کر نکالیں۔
ایک طرف دنیا کو گلوبل ویلیج قرار دے کر امریکہ اور اس کی اتحادی قومیں
’نیو ورلڈ آرڈر‘ کے تحت دنیا پر اپنے کنٹرول کو وسعت دے رہی ہیں اور دوسری
طرف کشمیری عوام کے بارے میں بے حسی کا رویہ اختیار کیا ہوا ہے جسے کشمیری
عوام بھی محسوس کررہے ہیں۔ لیکن وہ بھارت کی غلامی کسی بھی قیمت پر بھی
قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں اور مسلسل احتجاج کی راہ اپنائے ہوئے ہیں۔ سالِ
گذشتہ کے وسط میں کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں مصروفِ عمل خالصتاً کشمیری
نوجوانوں پر مشتمل تنظیم ’خزب المجاہدین‘ کے مقبولِ عام نوجوان اور خوبرو
مجاہد ، برہان مظفر وانی،کی بھارتی فورسز کے ہاتھوں شہادت پر پوری کشمیری
قوم سراپا احتجاج بن گئی۔ وہ مجاہد کشمیری نوجوانوں میں اتنا مقبول ہوا کہ
اس کی تصویر اپنی فیس بک کی پروفائل پکچر پر لگانے والے کشمیریوں نے سابقہ
تمام ریکارڈ توڑدیئے۔ اس کے جلوسِ جنازہ میں لاکھوں عوام کی شرکت نے ایک
مرتبہ پھر بھارت کی غاصب و جابر حکومت سے بیزاری اور نفرت کا بھرپور اظہار
کیا۔ لیکن اس کے باوجود بھارت کے ظالم اور جابر حکمرانوں کی آنکھیں نہیں
کھلیں۔ انہیں اندازہ نہیں کہ ظلم کی ناؤ سدا نہیں چلتی۔ بھارت کی آنجہانی
وزیرِ اعظم اندرا گاندھی ، جس کو اپنی طاقت اور سیاست پر بڑا گھمنڈ اور
تکبر تھا، جوہمیشہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دے کر کشمیر میں جنگِ آزادی
لڑنے والے مجاہدین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتی تھی۔ وہ کشمیر کی طرح مشرقی
پاکستان میں بھی ناجائز مداخلت اور جارحیت کی مرتکب ہوئی تھی۔ لیکن اس کا
اور اس کے لاڈلی اولادوں کا انجام اتنا بھیانک ہوا کہ دنیا نے دیکھا۔ بھارت
کے موجودہ حکمران بھی شائد اسی طرح کے انجام کے منتظر ہیں تبھی اپنے پیشرو
حکمرانوں کاسا رویہ اختیار کیئے ہوئے ہیں۔
بات مکمل نہیں ہوگی اگر ہم امریکہ کے خودغرضانہ رویہ کا ذکر نہ کریں۔
معاملہ سیاست کا ہو یا بین الاقوامی تعلقات کا اس نے اکثر اپنے اتحادیوں کے
ساتھ بے وفائی کا غیر اخلاقی رویہ اختیار کیاہے، اور خاص طور پر اگر اتحادی
کوئی مسلم اکثریت والا ملک ہو۔ پاکستان کی مدد سے دوسری ورلڈ پاور سوویت
یونین کو شکست دینے کے بعد پاکستانیوں کو امید ہو چلی تھی کہ اب امریکہ
پاکستان کو بھی مسئلہ کشمیر کے گرداب سے باہر نکالنے کوشش کرے گا لیکن اس
نے اپنی روائیتی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان اور پاکستانی عوام کی
امیدوں کے علی الرغم بے وفائی کا رویہ اختیار کیا۔ پاکستانی عوام امریکہ کے
اس رویہ سے بھی ہمیشہ شاکی رہے ہیں کہ جب 1971 میں پاکستان کا ایک بازو ٹوٹ
رہا تھا اور بھارت کی مکروہ چالوں کی پُشت پر دوسری سوپر پاور سوویٹ یونین
کھڑی تھی تو امریکہ نے پاکستان کی مدد کے لیئے نام نہاد بحری بیڑا مشرقی
پاکستان کے ساحلوں پر بھیجنے کا جھانسہ دیا لیکن وہ وہاں کبھی نہ پہنچا
یہاں تک کہ بھارتی مسلح افواج صوبائی دارالحکومت ڈھاکہ میں داخل ہوگئیں ۔
یہی اسباب ہیں کہ پاکستانی عوام مختلف پروجیکٹس میں امریکی تعاون اور اسکی
تمام تر اقتصادی امداد کے باجود اپنے دلوں میں کبھی ان کے لیئے سافٹ کارنر
پیدا نہیں کرسکے۔
اب معاملہ پھر پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کے مابین ہے لیکن پاکستان
کوبھارت میں برسرِ اقتدار ہندو انتہاپسند جماعتوں، کہ جن کو ہندو دہشت گرد
تنظیموں کی بھی مکمل حمایت حاصل ہے، سے کسی مفاہمتی فارمولے پر پیش رفت کی
کوئی امیدنہیں رکھنی چاہیئے اور نہ ہی عالمی اداروں سے ثالثی کی کوئی امید
کی جاسکتی ہے۔ لہٰذا مسئلہ کشمیر بھی اسی طرح فضا میں جھولتا رہے گا جیسے
مسئلہ فلسطین عالمی اداروں کی بے حسی کا شکار ہے۔ اب یہ انڈونیشیا کا ایسٹ
تیمور یا ساؤتھ سوڈان تو نہیں ہے کہ جہاں کے عوام کی اکثریتی رائے کے مطابق
ان کا حق دلانے میں عالمی اداروں نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ لہٰذا
حالات یہی بتا رہے ہیں کہ پاکستانی عوام کو اگلی 5فروری کو بھی کشمیری عوام
کے حقوق کی حمایت میں اسی طرح ’یومِ یکجہتی کشمیر‘ منانا پڑے گا جیسے اس
ماہ اور اس سال منا رہے ہیں کہ زندہ قومیں وقت کی گَرد میں اپنے قومی تشخص
اور وقار کو دفن نہیں ہونے دیتیں۔ کشمیر ¿ں اور بزرگوں کی قربانیاں رائیگاں
نہیں جائیں گی اور ایک دن فتح حق اور سچ کی ہی ہوگی۔ |
|