سہون لَہُو لُہان۔لعل شہباز قلند ؒ کے مزار کا تقدس پامال

مہر و مہ وانجم کا محاسب ہے قلندرؒ
ایام کا مرکب نہیں، راکب ہے قلندرؒ
(شاعر مشرق علامہ اقبالؔ ، ضرب کلیم)

دہشت گردوں نے سندھ کے شہر سہون شریف کو لہو لہان اور صوفی بزرگ حضرت سخی لعل شہباز قلند ؒ کے مزار مبارک کا تقدص پامال کردیا۔سہون کو خون میں نہلا دیاگیا،قلندر کے متوالے لہو لہان ہوگئے، مرنے والوں کے اعضاء مزار کے احا طے میں تِتَر بِتَر ہو گئے اور بے جان جسم ادھر اُدھر بکھر گئے۔دہشت گردی کے مرتکب خود کش تو جہنم میں چلے ہی گئے، دہشت گردی اور اس گھنوانے کام کے لیے تیار کرنے والوں پر اللہ کاعذات ضرور نازل ہوگا۔خود کش حملے کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دھماکے سے انسانی جانوں کو تو نقصان ہونا ہی تھا ساتھ ہی درو دیوار لرز گئے، شیشے ، کھڑکیاں، دروازے ٹوٹ گئے، یہاں تک کہ چھت پر لگے پنکھوں کے پر اوپر کی جانب مڑ گئے لیکن مزارِ مبارک کو زرہ برابر بھی نقصان نہیں پہنچا ،دہشت گردو دیکھو یہ ہے بزرگوں کامقام، مرتبہ،منصب اوررتبہ۔دہشت گردوں کے سرغناؤں کو سمجھ لینا چاہیے ، کہ وہ بے گناہوں کو تو اپنے زر خرید کارندوں کے ذریعہ ہلاک کر سکتے ہیں لیکن بزرگان دین کے مزارات کونقصان نہیں پہنچا سکتے۔ کسی پر زبردستی اپنا عقیدہ ہر گز ٹھونسا نہیں جا سکتا۔ہر ایک کو آزادی ہے کہ وہ جس عقیدے پر چاہے عمل کرے۔ کسی کے نذدیک قبر وں پر جانا جائز ہے تو کسی کے نذدیک جائز نہیں ۔ معمولی معمولی اختلافات کی بنیاد پر کسی بھی مسلمان کی حتیٰ کسی غیر مسلم کی جان لینا بھی کسی صورت جائز نہیں اسلام اس کی ہرگز اجاذت نہیں دیتا۔ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے ہے۔ کیادہشتگروں کا یہ عمل انہیں جنت میں لے جائے گا؟ کس قدر گمراہ ہیں اور لاعلم ہیں ان کے سربراہ اور یہ دہشتگرد خود ۔ یہ عمل کرنے والے مسلمان تو کیا یہ درندے تو انسان بھی کہلانے کے لائق نہیں۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؔ نے ایسے ہی لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے ؂
یوں تو سید بھی ہو‘ مرزا بھی ہو‘ افغان بھی ہو
تُم سبھی کچھ ہو ‘بتاؤ تو مسلمان بھی ہو ؟

پاکستان میں کسی مزار پر دہشت گردی کی یہ پہلی کاروائی نہیں اس کا آغاز مارچ 2005میں ہوا،دار الخلافہ اسلام آبادمیں موجود بری امام کے مزار پر عرس کے اختتامی دن حملہ کیا گیا ۔اس میں 20افراد شہید اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ بری امام کا مزار اسلام آباد کے معروف اور ان مزارات میں سے ایک ہے جہاں پر زائیرین کا بے پناہ ہجوم رہتا ہے۔ اس نوعیت کا دوسرا دہشت گرد حملہ 18 دسمبر 2007کو عبد الشکور ملنگ بابا کے مزار پر ہوا، دھماکے سے مزار کو نقصان پہنچا ، حملہ میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ مارچ2008میں تیسرا دہشت گرد حملہ پشاور کے نذدیک خیبر ایجنسی میں سید بابا کے مزار پر ہوا ، انہی دنوں میں دہشت گردوں نے ابو سید بابا کے مزار کو نقصان پہنچانے کی ناکام کوشش کی ، مزار کو بچانے کی کوشش میں 10افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ خیبر پختونخواہ میں پشاور کے مضافاتی علاقے چمکنی میں5 مارچ 2009کو رحمان بابا کے مزار کو دہشت گردوں نے شدید نقصان پہنچایا۔ رحمان بابا نامور صوفی شاعر بھی تھے۔11مئی 2009کو لنڈی کوتل میں امیر حمزہ خان شنواری جو پشتو کے معروف شاعر تھے کے مزار کی بیرونی دیوار کو دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ جولائی2010لاہور میں حضرت دادا گنج بخش ؒ کے مزار مبارک کو نقصان پہنچانے کی سازش کی گئی ۔ خود کش حملے میں 35افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اسی سال اکتوبر میں کراچی کے علاقے کلفٹن میں موجود صوفی بزرگ حضرت عبدا للہ شاہ غازیؒ کے مزار مبارک کے احاطے میں دو خود کش حملے کیے گئے جن میں 10افراد ہلاک ہوئے۔ اپریل2011میں ڈیرہ غازی خان میں حضرت سخی سرورکے مزار مبارک پر دو خود کش حملے ہوئے جن میں 43افراد لقمہ اجل بنے، زخمیوں کی تعداد درجنوں میں تھی۔ حملہ اس وقت کیا گیا جب حضرت سخی سرور کے عرس کی تقریبات جاری تھیں۔ عام طور پر عرس کے دنوں میں زائیرین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ 13نومبر2016بلوچستان کے علاقے خضدار میں دربار شاہ نورانی میں دہشت گرد کاروائی کی گئی جس میں54افراد لقمہ اجل بنے۔ ضلع جھل مگسی کے فتح پور کے مقام پر ایک مزار کو نشانہ بنا یا گیا جس میں مرنے والوں کی تعداد30تھی اور اب 17 فروری 2017جمعرات کی شام سات بجے کے قریب سہون شریف میں موجود حضرت لعل شہباز قلندر ؒ کے مزار پر ہونے والا مزارات پر ہونے والے حملوں میں 12واں اورسالِ نو میں مزارات پر ہونے والا پہلا خود کش حملہ ہے جس میں88افراد اپنی جان سے گئے ،250 زخمی ہوئے۔ ان کے علاوہ حضرت عبدالقادر جیلانی ؒ اور امام ابو حنیفہ ؒ کے مزارات پر بھی بمباری ہوچکی ہے ، لیکن یہ گھناؤنی اور قابل نفرت کاروائی دہشت گردوں نے نہیں بلکہ امریکی فوج نے 2003میں کی تھی۔ دہشت گردی کی لپیٹ میں پاکستان ہی نہیں دنیا کے بے شمار ممالک حتیٰ کے امریکہ جیسا بڑا ملک بھی دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ کچھ ممالک دہشت گردوں سے مقابلہ کرتے کرتے اپنی معیشت کو تباہ و بر باد کر چکے ہیں ۔ کئی ممالک تو پچیس تیس سال تک اس عذاب میں مبتلہ رہے ۔ دہشت گردی تو پاکستان کے قیام کے فوری بعد ہی شروع ہوچکی تھی ۔ پاکستان کا پڑوسی ملک جس سے ہم کئی جنگیں بھی لڑچکے ہیں نے پاکستان کو دل سے قبول ہی نہیں کیا۔ چنانچہ روزِ اول سے ہی پاکستان کے خلاف قسم قسم کے حربے اور ہتھکنڈے استعمال کرتا رہا ہے اس کا یہ عمل اب بھی جاری ہے ان کا مقابلہ پاکستانی عوام ، پاکستانی حکومتیں اور پاکستان کی مصلح افواج بہادری سے کرتی رہیں ہیں اور کررہی ہیں ۔علامہ قبال کا شعر ؂
روشن اس ضو سے اگر ظلمت کردار نہ ہو
خود مسلماں سے ہے پوشیدہ مسلماں کا مقام

حضرت لعل شہباز قلندر ؒ کا نام سید عثمان مروندی ہے۔ آپ صوفی، شاعر، فلسفی اور قلندر کے مرتبہ پر فائز تھے۔ آپ کا صوفی سلسلہ سہروردیہ سے تھا۔ آپ کے والد سید ابرہیم کبیر الدین افغانستان کے ایک درویش صفت انسان تھے۔ آپ کا سلسلہ نسب امام جعفر صادقؓ سے جا ملتا ہے۔ آپ کے خاندان نے عراق سے مشہد المقدس (ایران) ہجرت کی بعد میں یہ خاندان ایران سے افغانستان منتقل ہوا اور افغانستان کے علاقے مروند کو آباد کیا۔اسی حوالے سے آپ مروندی کہلائے۔ حضرت لعل شہباز قلند آذربائی جان کے علاقے ’مروند‘ میں 538 ھ مطابق 1143ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کا لقب ’لعل‘ یا ’لال‘ یعنی سرخ کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ آپ کے چہرہ انور پر سرخ رنگ کے قیمتی پتھر ’لعل‘ کی مانند سرخ کرنیں پھوٹتی تھیں اس مناسبت سے آپ کا لقب ’لعل‘ ہوا۔ جب کہ شہباز سے مراد ولایت والا کے ہیں۔آپ صوفی درویش تھے اور اپنے جیسے درویش صفت بزرگوں کی صحبت میں رہا کرتے۔ سندھ میں آپ کی آمد حضرت بو علی قلندرؒ کے کہنے پر ہوئی۔ حضرت لعل شہباز قلندحضرت بہاء الدین زکریا ملتانی ؒ کے مرید اور خلیفہ تھے۔ان کے ہم عصر بزرگ اولیاء میں شیخ فرید الدین شکر گنج ؒ ، شمس تبریزی ؒ ، جلال الدین رومی ؒ اور سید جلال الدین سرخ بخاری ؒ شامل ہیں۔ آپ نے اپنی زندگی میں غزنوی اور غوری خاندانوں کی سلطنتوں کا مشاہدہ کیا۔ آپ کو فارسی، عربی، ترکی، سندھی اور سنسکرت پر عبور حاصل تھا۔ آپ روحانیت کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھے۔ سادگی پسند، سادہ زندگی گزارتے، جب چلا کرتے تو اپنی گردن کو نیچے کی جانب رکھا کرتے۔آپ کا لباس سادہ لیکن سرخ ہو اکرتا تھا آپ کو سرخ لباس کی مناسبت سے لوگ آپ کو لعل کے نام سے یاد کیا کرنے لگے۔ آپ کو جھولے لال بھی کہا جاتا تھا۔ حضرت لعل شہباز قلندؒ کا وصال 21شعبان 673ھ ،مطابق 1276ء کو ہوا،سندھ کے شہر سہون شریف میں مدفون ہوئے۔ آپ کے مزارِ مبارک کی تعمیر 1356ء میں ہوئی ۔ آپ کا عرس ہر سال 18 شعبان المعظم کو انتہائی عقیدت سے منایا جاتا ہے جس میں لاکھوں عقیدت مند شریک ہوتے ہیں۔ آپ کے عقیدت مند تو ہرروز اور ہروقت بڑی تعداد میں موجود ہوتے ہیں لیکن جمعرات کے روزعقیدت مندوں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ خود کش حملہ جمعرات کے روز عین اس وقت ہوا جب ان کے عقیدت مند جوش اور جذبے ، وجد کی کیفیت میں دھمال ڈال رہے تھے۔ شام سات بجے کا وقت تھا، مزار کی بجلی بند تھی، عقیدت مند دھمال میں مگن تھے عین اس وقت خود کش بمبار کسی طرح مزارِ مبارک میں داخل ہو نے میں کامیاب ہوگیا اور اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا لیا ۔ ایسی صورت حال میں بڑی تعداد میں انسانی جانوں کا نقصان ہوا۔90مرد ، عورتین اور بچوں کی ہلاکت کی خبر ہے، زخمیوں کی عداد 250سے زیاہ بتائی گئی ہے۔

حضرت لعل شہباز قلندر ؒ کے مزار مبارک پر دہشت گرد حملے کے بعد پاکستان کی حکومت اور فوج کی جانب سے سخت نوٹس لیا گیا وزیر اعظم نے افغان صدر سے بات کی اور پاک فوج کے سربراہ نے افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ سے بات کر کے افغانستان کی سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کیے جانے کی جانب توجہ دلائی۔عام طور پر ماضی میں جب کبھی کوئی واقع ہوتا تو سرکاری طور پر بات صرف مذمتی بیانات تک محدود رہتی تھی لیکن اس بار بات بیانات تک محدود نہیں رہی اور نہ رہنی چاہیے تھی، سخت سے سخت عملی اقدام کی ضرورت تھی۔ پاکستان میں کی جانے والے دہشت گردی کے تانے بانے پڑوسی مسلم ملک افغانستان میں موجود دہشت گردوں سے ملے ہیں چنانچہ پاکستان کی حکومت اور عسکری قیادت نے افغانستان کی حکومت سے سخت احتجاج کیا ، ملک کے اندر سخت اور فوری آپریشن کر کے بے شمار دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، افغانستان کے ان علاقوں جو پاکستانی سرحد سے ملتے ہیں اور وہاں دہشت گردوں کے ٹھکانے پائے جاتے ہیں پر بمباری کی اطلاعات بھی ہیں جن میں سو کے قریب دشت گردوں کو ہلاک کر دینے کی اطلاعات ہیں۔ اندرون پاکستان بھی مختلف شہروں کراچی اندرون سندھ رینجر ز نے کاروائی کر کے دہشت گردوں کو گرفتار بھی کیا اور کئی دہشت گرد ہلاک کر دیے گئے۔پنجاب خاص طور پر جنوبی پنجاب کو شدت پسندوں اور دہشت گردوں کے بڑے پیمانے پر موجود گی کی اطلاعات بہت پہلے سے موجود تھیں ۔ اس واقع کے بعد پنجاب کی حکومت نے پاکستان رینجرز کو پنجاب میں بھی کراچی طرز کی کاروائیوں کا اختیار دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہیں دنوں پنجاب کے اکثر شہروں سے بڑے پیمانے پر دہشت گرد گرفتار بھی ہوچکے ہیں۔حالیہ دہشت گردی میں افغانستان کے علاوہ ہمارے پیدائشی دشمن ملک بھارت کی پشت پناہی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔بھارت اس قسم کی کاروائیاں کر کے دنیا کی توجہ کشمیر میں اپنے سیاہ کرتوتوں سے ہٹانا چاہتا ہے۔ پاکستان کی سیکیوریٹی ایجنسیوں کی رپورٹ ہے کہ حالیہ دہشت گردی میں بھارت اور افغانستان انٹیلی جنس ملوث ہیں۔پاک فوج یا رینجرز دہشت گردوں کے خلاف جو کریک ڈاؤن کر رہی ہے اسے اسی شدت سے جاری رکھتے ہوئے شدت پسندوں کی کمر توڑ دینی چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ افغانستان سے مکالمہ کا عمل بھی شروع کر کے اسے باور کرایا جائے کہ اس نے دہشت گردوں کو اپنے ملک میں پنا ہ دے کر پاکستان کے لیے مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ وہ یا تو ان دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرے بصورت دیگر ان دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کردیا جائے۔ میرے نزدیک اس بات کی اہمیت نہیں کہ دھماکے کس تنظیم نے کیے، تنظیم خواہ کوئی بھی ہو، دہشت گرد تنظیمیں وقت اور حالات کے مطابق اپنے نام تبدیل کرتی چلی آرہی ہیں، ساتھ ہی اپنے ٹھکانے بھی بدل لیتی ہیں۔ دہشت گرد فردِ واحد ہو یا اُسے کسی تنظیم کی پشت پناہی حاصل ہو وہ دہشت گرد ہے اس کا نہ کوئی مذہب ہے اورنہ ہی اس کااسلام سے کوئی تعلق۔

حکومت کی جانب سے ضرب عضب، کراچی آپریشن اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں سست روی نظر آرہی ہے۔ حالیہ دہشت گردی کے پے در پے واقعات کا رونما ہونا ست روی کا پیدا ہوجانا ہی نظر آتا ہے۔ دہشت گرد ایسی بیماری ہے کہ اس کا علاج ہر دم ، ہر وقت اور ہر لمحہ تندہی سے کیا جاتا رہے ۔ حکومت مختلف قسم کے معاملات جیسے پاناما لیکس، قومی راز کا افشا ہونا، مادل ٹاؤن واقعہ، عمران خان کے دھرنے، لانگ مارچ، اسلام آباد کو بند کردینے جیسے معاملات میں الجھ کر رہ گئی ہے۔ حکومت کی پوری مشینری پاناما لیکس کے گرد گھوم رہی ہے، درجن سے زیادہ وزیروں کاکام سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کی سنوائی میں اپنی حاضری لگونا ، عدالت بر خاست ہونے کے بعد عدالت سے باہر آکر پہلے عمران خان کی پریس کانفرنس کا انتظار کرنا اور پھر ایک ایک کر کے ہروزیر کا کام عمران خان کو کرارے جوابات دینا رہ گیا ہے۔ ایک سیاست داں نے ایک وزیر کے بارے میں کہا کہ وہ ’انسان‘ بنے تو اس بیان کے جواب میں میاں صاحب کی ٹیم فرنٹ فٹ پر کھیلنے والے نے جواب دیا کہ ’وہ انسان کا بچہ بنے ، نام کے ساتھ بھٹو لگانے سے بھٹو نہیں بن سکتا‘۔ یہ ہے ہماری سیاست اور ہمارے سیاست داں۔ پاناما لیکس میں صرف پاکستانیوں کے نام ہی تو نہیں، پاناما کی وجہ سے کئی ملکوں کے سر کردہ لیڈر پھنسے اور انہوں نے عافیت اِسی میں جانی کہ خاموشی سے اپنے عہدہ سے رخصت ہوجائیں ۔ کسی ملک میں اس طرح کی عدالتی کاروائی اور اس کے بعد مداری والا تماشہ نہیں لگایا جارہا۔ ملک کی ترقی کا پہیہ جام نہیں تو رک چکا ہے، وزیر اعظم صاحب نے حکومتی سرگرمیوں کو فیتے کاٹنے، افتتاح کر نے اور سنگِ بنیاد رکھنے تک محدود کردیا ہے۔ گزشتہ ہفتہ میرا حیدر آباد سندھ یونیورسٹی جانا ہوا، ڈیوو بس کے ذریعہ سفر کیا۔ کچھ دن ہی ہوئے تھے میاں صاحب نے کراچی سے حیدر آباد تک سپر ہائے واے کی تعمیرکا افتتاح کیا تھا، جب کہ صورت حال یہ ہے کہ وہ سفر جو کبھی ڈیووبس سے ڈیڑ گھنٹے میں ہوجایا کرتا تھا اب ڈھائی سے تین گھنٹے لگ رہے ہیں ۔ اس لیے کہ ابھی تو پچاس فیصد کام بھی مکمل نہیں ہوا اور وزیر اعظم صاحب نے اس شاہرہ کا افتتاح کر دیا۔ اس قسم کی باتیں ماضی میں جب بھی حکمراں کرتے رہے ہیں،اس زمانے کے لوگ گواہ ہیں کہ اس قسم کی حرکتیں کرنے والے حکمراں کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ بس اب اُس کا چل چلاؤ کا وقت قریب ہے اور ایسا ہوا بھی۔ لگتا ہے کہ میاں صاحب کے چل چلاؤ کا وقت قریب آگیا ہے۔ وہ کوئی بھی صورت ہو، محسوس ایسا ہی ہورہا ہے اللہ اپنا رحم کرے۔ حکومت اور عسکری قوتوں نے دہشت گردی کے خلاف جو پرزور کریک ڈاؤن شروع کیا ہے اُسے اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک دہشت گردوں کا مکمل صفایا نہیں ہوجاتا۔ (20فروری2017)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1273940 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More