دارالفساد میں آپریشن ردالفساد۔۔۔۔دوسرا حصہ
(Syed Anwer Mahmood, Karachi)
ایک بات ہم سب کو مان لینی چاہیے کہ ہمارا معاشرہ دارالفساد بن چکا ہے۔ فساد کی صفائی ہمہ گیر، موثر اور منظم آپریشن کے بغیر ممکن نہیں ورنہ آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ کی مانند آپریشن ’’ردالفساد‘‘ بھی اپنے اہداف حاصل نہیں کرسکے گا۔ دہشتگردی کی اصل بنیاد کرپشن ہے، اگر ایسا کہا جائے کہ ہم بحثیت قوم کرپٹ ہو چکے ہیں تو غلط نہ ہوگا کیونکہ ہمارا ہر ادارہ اور لوگ کرپٹ ہو چکے ہیں۔ |
|
|
نوٹ:۔ پاکستان جو کبھی امن کا گہوارا تھا،
آج لوگ اسے دارالفساد کہہ رہے ہیں، جبکہ پاک فوج نے ایک نیا آپریشن شروع
کیا ہے جسکو ’’آپریشن ردالفساد‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ دارالفساد
اور’’آپریشن ردالفساد‘‘ کو سامنے رکھ کر یہ مضمون جو دو حصوں پر مشتمل ہے
لکھا گیا ہے۔ یہ مضمون کا دوسرا اور آخری حصہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیشنل ایکشن پلان بھی دہشتگردی کو روکنے اور مزید نقصان سے بچانے کی ایک
کڑی ہے۔ اس پلان پر تمام سیاسی جماعتیں متفق تھیں جو اس با ت کا ثبوت تھا
کہ قومی سطح پر تما م دہشتگردوں سے بغیر کسی رعایت کے آہنی ہاتھوںسے
نمٹاجائے گا۔سول و ملٹری قیادت نے ملک سے دہشتگردی کے خاتمے کیلئے اتفاق
رائے سے نیشنل ایکشن پلان کا اعلان کیا تھا، پچھلے دو سال میں نیشنل ایکشن
پلان کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھتے رہے ہیں، نیشنل ایکشن پلان کے کچھ نکات
ایسے بھی ہیں جن پر عمل نہیں ہوا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان
بنا اور سیاسی قیادت نے کریڈٹ لینے کے لئے امن بحال کرنے کے اعلانات کے
ڈھیر لگا دیے لیکن اس پر عمل کرنے میں اس جذبے اور یکسوئی کا مظاہرہ نہ کیا
گیا جس کی ضرورت تھی۔ کئی افراد نیشنل ایکشن پلان کے کمزور عمل در آمد کو
بھی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اے این پی کے رہنما افراسیاب خٹک نے اپنی
ٹوئٹ میں لکھا،’’طورخم بارڈر کی بندش پاکستان کی کمزور حکمت عملی کی
نشاندہی کرتی ہے۔ سہون کے غصے کو ہزاروں کلومیٹر دور افغانستان پر کیوں
نکالا جا رہا ہے؟ کیا افغانستان نے نیشنل ایکشن پلان کے عمل در آمد کو روکا
تھا ؟‘‘۔
نئے سال 2017 کے پہلے ماہ میں کرم ایجنسی کے صدر مقام پارا چنار میں 21
جنوری بروز ہفتہ سبزی و فروٹ منڈی میں صبح 8بجکر 50 منٹ پر ایک زوردار
دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں 25افراد جاں بحق اور 65افراد زخمی ہوگئے ۔ وزیر
اعظم نواز شریف اس وقت لندن میں تھے، وہاں سے ہی ان کا رسمی بیان آگیا
تھا۔فروری کے ماہ میں پے در پے ہونے والی دہشتگردیوں میں اب تک 200 سے
زیادہ بے گناہ افراد مارئے جاچکے ہیں جبکہ 400 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ ان
دہشتگرد کارروائیوں کے بعدمنگل 21 فروری کو کو فوج کی جانب سے آپریشن
’’ضرب عضب‘‘ کی جگہ ایک اور ملک گیرآپریشن’’ ردالفساد‘‘ کے نام سے شروع
کیا گیا ہے جس میں بری بحری فضائی افواج اور قانون نافذ کرنیوالے تمام
ادارے شامل ہونگے، جبکہ پنجاب رینجرز بھی اس آپریشن کاحصہ ہوگی۔ یہ اعلان
ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ملک میں ضرب عضب کے نام سے پہلے ہی ایک آپریشن
جاری ہے۔ 15 جون 2014 کو آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ آئی ایس پی آر کے ایک
اعلامیے سے کیا گیا، وزیر اعظم نواز شریف کو بھی شاید آئی ایس پی آر کے
اعلامیے سے ہی خبر ملی تھی اور اس نئے آپریشن ’’ ردالفساد‘‘کے وقت تو نواز
شریف ملک سے باہر ترکی میں تھے جب اس آپریشن کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس
اعلان میں کہا گیا ہے کہ آپریشن کا مقصد بلا تفریق دہشت گردی کا خاتمہ ہے،
ملک بھر میں جاری انسداد دہشت گردی کی تمام کارروائیاں اب آپریشن ردالفساد
کا اہم حصہ ہوں گی۔نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمداس آپریشن کا طرۂ
امتیاز ہو گا، ملک بھر سے غیرقانونی اسلحے اور گولہ بارود کا خاتمہ بھی اس
آپریشن کے نمایاں خطوط میں شامل ہیں، مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے
تمام ادارے آپریشن ’رد الفساد‘ کا حصہ ہوں گے۔
آپریشن ’’رد الفساد‘‘ کے اعلان کے ساتھ ہی یہ سوال اٹھا کہ آخرنیشنل
ایکشن پلان کی منظوری کے دو سال کے بعداورآپریشن ’’ضرب عضب‘‘ کی کامیابیوں
کے دعووں کے باوجود وہ کونسی وجوہات ہیں جن کے باعث فوج کو ایک بار پھر ایک
نئے آپریشن ’’ردالفساد ـ‘‘ کی ضرورت پڑی۔آرمی کو کیا ضرورت محسوس ہوئی کہ
ایک نئے نام سے آپریشن کیا جائے، کیا فوجی آپریشن کوئی پروڈکٹ ہے جو
مختلف ناموں سے مارکیٹ میں لایا جاتا ہے۔2007 میں سوات آپریشن کا نام تھا
’’آپریشن راہ حق‘‘، باجوڑ میں 2008 میں آپریشن ہوا تو’’ آپریشن شیر دل‘‘
2009 میں سوات میں دوسری بار’’ آپریشن راہ راست‘‘ کیا گیا، خیبر ایجنسی
میں ہونے والے آپریشنز کو ’’خیبر ون‘‘، ’’خیبرٹو‘‘ اور ’’خیبرتھری‘‘ کے
نام سے پکارا گیا، جنوبی وزیرستان کے آپریشن کو ’’آپریشن راہ نجات’’ کا
نام دیا گیا، 2014 کے آپریشن کو ’’ضرب عضب‘‘ کا نام ملا اور اب 2017میں
آپریشن ’ردالفساد‘ پرپورے جوش اور جذبے سے عمل ہورہا ہے۔ ایک عام آدمی کو
اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ آپ جو دہشتگردوں سے لڑرہے اس آپریشن کا
نام کیا، وہ صرف اتنا جانتے ہیں کہ ہماری فوج دہشتگردوں کے خلاف لڑرہی ہے۔
لہذا یہ بہتر ہوگا کہ آیندہ فوج کو اگر کسی اور آپریشن میں نئے نام کی
ضرورت پڑئے تو ضرور رکھے، لیکن یہ اس کا اندرونی معاملہ ہو تو بہتر ہے ، اس
کی تہشیر نہ کی جائے، کیونکہ اس وقت عام لوگوں کا سوال یہ ہے کہ کیا
آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ ناکام ہوگیا‘‘؟۔
دہشتگردوں کا بھی یہ ہی حال ہےکہیں یہ جماعت الاحرار کی شناخت رکھتے ہیں
اور کہیں وہ لشکر جھنگوی ہوجاتے ہیں، کہیں القاعدہ برصغیر ہند کراچی اور
کہیں داعش بن جاتے ہیں۔دہشتگردوں کے بارئےپاکستانی فوج کے ترجمان بھی یہ
نہیں بتاسکتے کہ یہ جو دہشتگردوں کے نظریات ہیں ان میں تحریک طالبان
(افغانستان و پاکستان)، جماعت الاحرار، القاعدہ برصغیر، داعش، کشمیری جہادی
گروپ، جیش محمد، لشکر طیبہ، حقانی نیٹ ورک ،اہلسنت والجماعت دیوبندی، لشکر
جھنگوی، لال مسجد نیٹ ورک، جماعت دعوہ کے درمیان کیا فرق ہے؟ کوئی فرق نہیں
ہے، اس کا صرف ایک نظریہ ہے ’’انسانیت سے دشمنی‘‘ ان کا کام صرف اور صرف
دہشتگردی ہے، ان کےکارندئے جہاں جس جماعت کا نام استمال کرنا ہے اس کا نام
لیتے ہیں اور دہشتگردی کرتے ہیں۔میرئے نزدیک یہ کوئی بھی نام استمال کرتے
ہیں لیکن ان کا مقصدبےگناہ لوگوں کو قتل کرنا اورشہریوں میں خوف و ہراس
پھیلاناہے اور عام لوگ یہ نہیں جانتے کہ یہ کونسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں
وہ ان کو صرف ایک ہی نام سے پکارتے ہیں،’’دہشتگرد‘‘۔
ایک بات ہم سب کو مان لینی چاہیے کہ ہمارا معاشرہ دارالفساد بن چکا ہے۔
فساد کی صفائی ہمہ گیر، موثر اور منظم آپریشن کے بغیر ممکن نہیں ورنہ
آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ کی مانند آپریشن ’’ردالفساد‘‘ بھی اپنے اہداف حاصل
نہیں کرسکے گا۔ دہشتگردی کی اصل بنیاد کرپشن ہے، اگر ایسا کہا جائے کہ ہم
بحثیت قوم کرپٹ ہو چکے ہیں تو غلط نہ ہوگا کیونکہ ہمارا ہر ادارہ اور لوگ
کرپٹ ہو چکے ہیں۔ ریلوے، پی آئی ائے، اسٹیل مل، واپڈا ، پولیس، عدلیہ،
پٹواری ،تحصیل دار وغیرہ سب کے سب کرپٹ ہیں اور رشوت دیئے بغیر جائز کام
بھی نہیں ہو سکتے۔ پاکستان میں ہروہ شخص لوٹ مار کررہا ہےجس کو موقع مل رہا
ہے۔جیلیں مجرموں کی پناہ گاہیں بن چکی ہیں، تھانوں میں پولیس اور عدالتوں
میں انصاف بکتا ہے۔ہم ایک دوسرئے کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں کھانے
پینے کی اشیا کی ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں اور ناجائز منافع خوری کر تے ہیں۔
پاکستانی سیاستدان، سیاست کاروبار کے طورپرکرتے ہیں اورکروڑوں لگاکراربوں
کماتے ہیں، صورتحال یہ ہے کہ ہمارے کرپٹ سیاستدان جو عوام کے بنیادی حقوق
روٹی کپڑا اور مکان کے علاوہ غربت کا خاتمہ، لوڈ شیڈنگ، تعلیم ، پانی اور
صحت جیسے عوامی مسائل پر روتے رہتے ہیں عملی طور پر کرپشن اور لوٹ مارسے
اثاثے بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں، پیپلز پارٹی کا پانچ سالہ دور اور موجودہ
حکومت پاناما لیکس اس کی بدترین مثالیں ہے۔
جنرل قمرجاویدباجوہ صاحب پاکستان جسے اب لوگ ’’دارالفساد‘‘ کا نام دے رہے
ہیں ، اور اس سےاگر آپ واقعی آپریشن ’’ردالفساد‘‘ کے زریعےدہشتگردی کا
خاتمہ کرنا چاہتے ہیں تو دارالفساد بن جانے والی اس ریاست پاکستان سے
آپکوسب سے پہلے کرپشن کا خاتمہ کرنا ہوگا کیونکہ ہر دہشتگردی کے پیچھے
کرپشن ہوتا ہے، دہشتگرد اپنے لیے وسائل کرپشن کے زریعے ہی حاصل کرکے
دہشتگردی میں کامیاب ہوتے ہیں۔اگرپاکستان میں کرپشن موجود رہاتو
شایدآپریشن’’ردالفساد‘‘ بھی کامیاب نہ ہوپائے۔
|
|