Happy Birth Dayکہہ کر فرد کی زندگی کا سال ۔۔۔گرنے پر
مبارکباد دی جاتی ہے۔ Happy Birth Dayہی کہہ کر اسے زندگی کا ایک سال ختم
ہونے اور ایک نئے سال کے پہلے دن کی مبارکباد دے دی جاتی ہے۔Happy Birth
Day ہی کہہ کر فرد کو زندگی کی نامعلوم مدت معیاد میں کچھ مدت کے ختم ہونے
اور بقیہ مدت کے آنے پر Wishکر دیا جاتاہے۔
گذشتہ صدی کے آخری عشرے میں شہر قائد کے ہی نہیں وطن عزیز کے اک بڑے ہسپتال
میں دوران ملازمت اک خود ساختہ سوشل کمیٹی بنا کر خدمات سرانجام دینے کی
کاوشیں کی جاتی رہیں۔ اک وارڈ میں 50سے زائد عملے میں سے ہر عملے کو ہی اس
کی جنم دن کی مبارکباد دینے کی تقریب منعقد کرانے کا اہتمام کیا کرتے تھے۔
اس کے ساتھ ہی کسی نئے عملے کے آنے اور پرانے کے جانے ، یوم آزادی ، عیدکی
مبارکبادوں سمیت جنم دنوں کی بھی کی تقریبات ہوا کرتی تھیں ۔ ان تقریبات
میں اس لکھاری کیلئے جنم دن کی تقریب کا اختتام کرنا بڑا مشکل اور کٹھن
مرحلہ ہوا کرتا تھا اس کے باوجود تقریب منعقد ہوتی ، پھولوں کے گلدستے
تحفوں سمیت دیئے جاتے اور کیک تو لازمی کاٹا جاتا تھا ۔ لکھاری کی حتی
الامکان یہ کوشش ہوا کرتی تھی کہ وہ اس فرد جس کی سال گرہ منائی جارہی ہوتی
تھی اسے یہ کہا کرتے تھے کہ آج کے دن آپ اپنی سابقہ زندگی کو سامنے رکھتے
ہوئے اور آج کے بعد سے نئے ایام و سال کے حوالے سے کوی بات ، کوئی واقعہ
سنائیں ۔ اس تقاضے کا وہ احترام کرتے ہوئے وہ کچھ بات بھی بتاتے اور کچھ
ہنستے مسکراتے سنا بھی دیا کرتے تھے۔اس کے بعد اس لکھاری کے چند جملے اس
تقریب کے آخر میں ضرور ہوا کرتے تھے جو کہ کچھ اس طرح سے ہوتے تھے ، اللہ
نے زندگی دی ہے اور اس زندگی کا خاتمہ اک روز ضرور ہوجانا ہے اس کے بعد وہ
ناختم ہونے والی زندگی کا آغاز ہونا ہے ۔ رب کائنات نے اس زندگی کا حساب
لینا ہے ۔ آج آپ نے اپنی زندگی کا ایک سال کم ہونے پر ایک عدد کیک کاٹا اور
کچھ خوشی کا مظاہرہ بھی کیا ، آج میری آپ سے اور ان تمام سامنے بیٹھے ہوئے
شرکاء سے یہ درخواست ہے کہ آج سب اپنی سابقہ زندگی پر چند لمحوں کیلئے ہی
سخی تنہائی میں بیٹھ کر سورج ڈھلتے وقت یا ڈھل جانے کے بعد جائزہ لیں اور
یہ تصور و احساس پختہ کریں کہ اس زندگی کا جو حساب دینا ہے اور یہ سارا
حساب بھی اللہ کو ہی دینا ہے تو ہم یہ حساب کیسے دیں گے اور آخر میں یہ بھی
سامنے رکھیں کہ ہم نے اب تک کیا ، کیا ہے؟اورجو بھی کیا ہے ، کیا اس کے
حساب کے بعد ہمیں جنت مل جائیگی ؟؟؟یہ چند جملے پوری محفل کے احساسات کو
اجاگر کرتے ، ہر چہرہ پر اک سوچ و تفکر کے اثرات سامنے آجاتے اور اسی وقت
لکھاری سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے تقریب کو ختم کرنے کا اعلان کر دیتا تھا۔
آج یہ باتیں اور اسی نوعیت کی بہت ساری باتیں اس وقت بہت یاد آئیں جب
موبائل فون پر آن والے اک پیغام پر نظر پڑی۔آج 2مارچ ہے اور اسی تاریخ یعنی
2مارچ 1972اس قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی شہر قائد میں پیدائش ہوئی
تھی ، یوں آج کا دن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا جنم دن ہے ، آج ان کی سال ۔۔۔گرہ
کا دن ہے۔
عافیہ کا جنم دن ، وہ عافیہ جو ناکردہ گناہوں کی سزا 14برسوں سے امریکی
جیلوں میں بھگت رہی ہیں ۔وہ عافیہ کہ جس کی رہائی کیلئے ان کی بہن ڈاکٹر
فوزیہ صدیقی نے اپنی زندگی کو داؤ پر لگادیا ہے ، وہ عافیہ جس کے تین بچوں
میں ایک کا ابھی تک علم ہی نہیں ہوپایا ہے کہ وہ کہا ں ہے اور کس حال میں
ہے اور ہے بھی یا نہیں ۔۔۔ وہ عافیہ جو اس ملک کے موجودہ وزیر اعظم نواز
شریف پر سابقہ صدر مشرف کے مظالم ڈھائے جانے کے خلاف راتوں کے آخری پہر میں
اٹھ ، اٹھ کر دعائیں مانگا کرتی تھیں اور وہی عافیہ جس کو واپس لانے کیلئے
اسی وزیر اعظم نواز شریف نے وعدہ پوری قوم سے ، عافیہ کی والدہ اور بچوں سے
کیا لیکن اب تک وہ وعدہ وفا نہیں ہو ا۔ وہ وزیر اعظم اپنی بیٹی مریم کیلئے
تو قطری حکمرانوں سے پانامہ لیکس کے معاملات میں خطوط لکھوانے کیلئے نہ صرف
تیار ہوا بلکہ خطوط لکھواڈالے لیکن عافیہ کی مریم کیلئے اس نے اک خط بھی
امریکی سرکار کو نہیں لکھا ۔
وہ عافیہ ، قوم کی بیٹی عافیہ ، آج اس کی سال ۔۔۔گرہ کا دن ہے اور وہ جیل
میں ہے۔ امریکی حکومت جو کہ خود کو انسانیت کا علمبردار ،انسانی حقوق کا
چیمپئن کہا کرتاہے ، آج کے دن وہ اپنی کہاوت کا ذرا سا بھی مظاہر ہ کر کے
اپنے اس دعوے کو ثابت کردے ۔ وہ آج کے دن عافیہ کو رہا کر دے تو امریکی صدر
ٹرمپ کی بڑھتی ہوئی اندرونی اور بیرونی مخالفتوں میں کمی آسکتی ہے ۔نواز
شریف جو پانامہ لیکس سے چھٹکارا نہیں پا رہے ، سو نہیں پارہے ہیں ، انہیں
بھی عافیہ کی رہائی کے بعد کچھ سکون کے لمحات مل جائیں گے اور ان کے ساتھ
اسی شہر قائد کے باسی جو اس وقت ملک کے صدر ہیں اور ان نام ممنون حسین ہے
وہ بھی اپنی خودساختہ نیند سے کچھ دیر کیلئے ہی سخی ، جاگ سکیں گے۔ان تمام
باتوں کے باوجود ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو امید کسی سے نہیں ہے ان کو صرف اور
صرف اللہ سے امید ہے اور اسی اللہ سے اپنی امید کے پورا ہونے کیلئے کاوشیں
جاری ہیں ۔ اس کے ساتھ اس ملک کے عوام سمیت عالمی عوام بھی یہی چاہتے ہیں
کہ عافیہ کو رہائی مل جائے۔ ان کی یہ چاہتیں کب پوری ہونگی اس بات کا کسی
کو علم نہیں تاہم جدوجہد جاری ہے اور یہ جدوجہد جاری رہے گی اس وقت تک کہ
جب تک عافیہ باہر آزاد فضا میں نہیں آجاتیں ۔
عافیہ باہر آئیں گی اور ضرور آئیں گی اور اک روز ایسا بھی ہوگا کہ جب اسے
یہ لکھاری سال ۔۔۔گرہ کی تقریب کے آخر میں یہ کہے گا کہ آج آپ بتائیں اور
آج آپ ہی سنائیں کوئی بات ، قصہ ، واقعہ ، کوئی گیت ، غزل یا اور کچھ بھی،
اپنی سابقہ زندگی پر اور اس کو مدنظر رکھتے ہوئے مستقبل کی زندگی پر ۔۔۔ہاں
وہ وقت آئیگا اور ان شاء اللہ ایسی تقریب بھی ہوگی اور عافیہ کچھ نہیں ،
بہت کچھ کہے گی اور ہم سب سنیں گے اور سنتے ہی رہیں گے۔
|