گزشتہ روز خورشید ملت کا یوم وفات منایا گیا۔11مارچ
1988کوتحریک پاکستان کے ایک سرگرم کارکن ، قائد اعظم کے دست راست، محترمہ
فاطمہ جناح کے منہ بولے بیٹے،آزاد کشمیر کے پہلے صدر، ایک مایہ ناز کشمیری
رہنماء خورشید حسن خورشید کا یوم وفات ہے۔ کے ایچ خورشید کے بارے میں خود
قائد اعظم اور بانی پاکستان نے فرمایا کہ پاکستان کو انھوں نے، ان کے
سیکریٹری(کے ایچ خورشید) اور ان کے ٹائپ رائٹر نے بنایا۔پاکستان قائم کرنے
والوں میں ایک کشمیری کا کلیدی کردار ہمارے لئے باعث فخر ہے۔ یعنی کے ایچ
خورشید مرحوم اور ان کے ٹائپ رائٹر کا کردار انتہائی اہم تھا کہ قائد اعظم
نے اس سے خود دنیا کو آگاہ کیا تا کہ ریکارڈ درست رہے۔ورنہ آج خود کو بڑا
لیڈر سمجھنے والے بھی کریڈٹ کے معاملے میں انتہائی کنجوسی سے کام لیتے ہیں۔
دوسروں کو کریڈٹ دینے کے بجائے ان کی کارکردگی کو بھی اپنے کھاتے میں ڈال
کر زرا بھر شرم محسوس نہیں کرتے۔ یہی لوگ اپنی ناکامیوں اور کوتاہیوں کا
اعتراف کرنا کجا ، انہیں دوسروں کے کھاتے میں ڈالنے پر فخر محسوس کرتے ہیں
اور خود بال بال بچ جانے کی کوشش ہی نہیں ،سازش بھی کرنے میں عار محسوس
نہیں کرتے۔ انھوں نے صدر بننے پر آزاد کشمیر سڑکوں کا نیٹ ورک بنایا۔
جاگیرداری سسٹم کا خاتمہ کیا۔ عوام کو ووٹ کا حق دیا۔ سیاستدانوں کو عوام
کے در پر لا کھڑا کر دیا۔ کشمیری انھیں خورشید ملت قرار دیتے ہیں۔کروڑوں
مسلمانوں میں سے قائد اعظم کی نظر اس ہونہار نوجوان پر ہی پڑی۔ کے ایچ
خورشید سرینگر میں 1924کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد محترم مولوی محمد حسن
اسلامیہ ہائی سکول راجوری کدل سرینگرمیں استاد تھے۔ ان کے والد نے قیام
پاکستان کے بعد جہلم کے قریب سرائے عالمگیر ملٹری کالج میں بغیر تنخواہ کام
کیا۔کے ایچ خورشید کے بھائی عبد العزیز فردوس کشمیر میں بخشی غلام محمد
صادق کے دور میں چیف کنسرویٹر فارسٹس کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ ان کا ایک
مکان سرینگر کے آبی گزر علاقہ اور دوسراجموں کی ریذیڈنسی روڈ پر بتھا۔ وہ
معروف صحافی جناب وید بھسین کے جموں میں پڑوسی تھے۔خورشید صاحب کی اہلیہ
ثریا حسن خورشید آج بھی لاہور میں زندگی کے ا یام گزار رہی ہیں۔انھوں نے ہی
کشمیر مسلم سٹوڈنٹس فیڈریش بنائی۔ 1942میں وہ قائد اعظم سے جالندھر میں
ملاقی ہوئے۔ کے ایچ خورشید اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ اس موقع پر قائد
اعظم نے انھیں مسلم لیگ کا ایک پرچم دیا ۔
آپ کے والد محترم کا تعلق جموں اور والدہ کا سرینگر سے تھا۔ والد گرامی
استاد تھے۔ ابتدائی تعلیم وادی اور گلگت میں حاصل کی۔ پھرسرینگر ایس پی
کالج میں زیر تعلیم رہے۔ وہ طلباء سیاست میں کافی سرگرم تھے۔ بعد ازاں
برصغیر کی پہلی مسلم پریس ایجنسی ’’اورینٹ پریس آف انڈیا لمیٹڈ‘‘ (او پی
آئی)کے کشمیر میں نمائیندہ مقرر ہوئے۔اس کی شاخیں کلکتہ، پٹنہ، لکھنوء اور
لاہور میں بھی تھیں۔ اس طرح انھوں نے قومی آزاد صحافت میں قدم رکھا۔ یہ
ایجنسی انوسٹی گیشن میں زیادہ دلچسپی رکھتی تھی۔ جب ہندوستان ٹائمز نے
بنگال کے وزیراعظم جناب اے کے فضل الحق کا ایک فرضی بیان مئی 1941کو قائد
اعظم کے بارے میں شائع کیا۔ تو اورینٹ کی کلکتہ شاخ نے انوسٹی گیشن کی۔ تو
اس ایجنسی نے فضل الحق مرحوم کا درست بیان شائع کر کے دونوں مسلم رہنماؤں
میں غلط فہمیوں کو دور کر دیا۔
قائد اعظم جب اپنے پہلے وادی کے دورہ پر سرینگر آئے تو کے ایچ خورشید نے ہی
ان کے دورہ کی رپورٹنگ کی۔ قائد اعظم کا انٹرویو لیا۔ قائد کو اس نوجوان
میں قابلیت کے جوہر دکھائی دیئے۔ پھر مختلف مواقع پر ملاقاتیں ہوئیں۔ ایک
بار قائد اعظم نے مسلم لیگ کا پرچم کے ایچ خورشید کو دے دیا اور کہا کہ یہ
آپ کا پرچم ہے، اسے تھام لیں۔مسلم پارک نوہٹہ سرینگر میں 1944کوجب قائد
اعظم نے ان کی تقریر سنی تو اسی وقت انہوں نے ایک اہم فیصلہ کیا۔قائد اعظم
کے پرائیویٹ سکریٹری مسٹر لوب تھے۔ وہ تقاریر کا انگریزی سے اردومیں ترجمہ
کرنے میں دقت محسوس کرتے تھے۔ کے ایچ خورشید نے اس سلسلے میں تعاون کیا۔
قائداعظم نے ان کے کام کی تعریف کی اور انہیں پہلی اسائنمنٹ بھی دی۔
قائداعظم کے سرینگر میں قیام کے دوران کے ایچ خورشید کی ان سے مسلسل
ملاقاتیں ہوئیں۔ کے ایچ خورشید مرحوم کو قائد اعظم نے اپنا سیکریٹری مقرر
کرنے کی پیشکش کی۔ وہ ان کی قابلیت کے معترف ہو گئے تھے۔ قائد اعظم نے کے
ایچ خورشید کو بمئی ساتھ چلنے کو کہا۔ ان کے والد اس پر ہچکچائے۔ تو قائد
نے بتایا کہ آپ فکر مند ہوں ۔ میں ان کے مستقبل پر توجہ دوں گا۔ یہ ایک
وعدہ تھا جو پہلے قائد اور ان کے بعد ان کی بہن محترمہ نے خوب نبھایا۔
انھوں نے خورشیدصاحب کولنکن ان سے بار ایٹ لاء کرایا۔ اور وہ بیرسٹر بن گئے
۔ قائد اعظم نے خورشید صاحب کو شیخ محمد عبداﷲ سے ملاقات کے لئے سرینگر
بھیجا۔ وہاں انہیں گرفتار کر کے جیل بھر دیا گیا۔ قائد اعظم نے پنڈت نہرو
کو خط لکھ کر رہائی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ میرا کام بہت متاثر ہو رہا
ہے۔ قائد کی زندگی میں خورشید صاحب کورہائی نہ ملی۔ لیکن محترمہ فاطمہ جناح
نے رہائی کی مہم جاری رکھی۔ بعد ازاں انھیں ایک بھارتی جرنیل گنسارا سنگھ
کے بدلے رہائی ملی۔ قائد کی وفات سے ان کو بہت دکھ ہوا اور سیاست ترک کردی۔
ایک اخبار دی گارڈین نکالا۔ جسے بعد ازاں بند کر دیا گیا۔ قائد کی ہمشیرہ
محترمہ فاطمہ جناح نے انہیں اپنا بیٹا سمجھا۔ بیرسٹری بھی محترمہ نے کرائی۔
قائد نے ہی آپ کو سرینگر میں مہاراجہ ہری سنگھ ار دیگر سیاسی لیڈر شپ سے
ملاقاتوں کے اپنی ایلچی کے طور پر بھیجا۔ وہ قائد کے معتمد خاص تھے۔ اس لئے
ان پر قائد اور ان کی ہمشیرہ مکمل اعتماد کرتے تھے۔ کے ایچ خورشید نے یہ
ثابت کیا کہ کشمیری دنیا کی ایک بااعتماد اور قابل بھروسہ قوم ہے ۔جو اپنے
معتمد کے ہر راز اور ہر بات کو امانت سمجھتے ہیں ۔ اس میں کبھی خیانت نہیں
کی گئی۔ الا ماشاء اﷲ۔ جس طرح کے ایچ خورشید نے قائد کا مرتے دم تک ساتھ
نبھایا، ایسا کوئی دوسرا ہر گز نہ کر سکتا تھا۔ پاکستان قائد اور ایک
کشمیری نے مل کر قائم کیا۔ یہ سچ ہر کسی کے مدنظر ہو گا۔ اس لئے کوئی بھی
کشمیری اس پر فخر کر سکتا ہے۔ ہر کوئی کے ایچ خورشید پر فخر کرے گا۔ کہ
انھوں نے اس قوم کا سر فخر سے بلند کیا۔اپنے زاتی مفاد یا مراعات کے لئے
ضمیر کا سودا نہ کیا۔ قوم کا استحصال نہ ہونے دیا۔ اپنے نفس کی غلامی نہ
کی۔ آزاد کشمیر کے پہلے صدر بنے لیکن سادگی کی زندگی گزارنے سے باز نہ آئے۔
پاکستان قائم کرنے والا اہم کردار،قائداعظم ، بانی پاکستان، گورنر جنرل کا
سکریٹری، آزاد کشمیر کا پہلا صدر، فاطمہ جناح کا منہ بولا بیٹا کے ایچ
خورشید ایک مسافر گاڑی میں سفر کرتا رہا۔ کرایہ کے مکان میں عمر گزار دی۔
کوئی جائیداد، کوٹھیاں، پلاٹ، مربے، فارم ہاؤس ، بینک بیلنس نہ تھا۔ یہاں
تک کہ جب وفات پائی تو اس وقت بھی ایک مسافر بس میں سفر کر رہے تھے۔ جس کو
حادثہ پیش آیا۔ وہیں وفات پائی۔ جس خاکی دفن کرنے کے لئے مظفر آباد لایا
گیا۔ آج وہ اسی شہر میں آسودہ خاک ہیں۔ وفات کے وقت آپ کی جیب سے بتایاجاتا
ہے ، 37روپے اور کچھ پیسے تھے۔ یہی ان کا کل اثاثہ تھا۔ بیگم ثریا خورشید
لاہور میں رہائش پذیر ہیں۔ انہیں فخر ہے کہ وہ ایک عظم شخصیت کی شریک حیات
رہیں۔ ایسی شخصیت جو پا ک و صاف اور بے داغ رہی۔ کرپشن، دھوکہ، فراڈ، جھوٹ،
مکاری، عیاری جیسی زلالتوں سے پاک۔ ان کی سیاست اور حکمرانی خدمت خلق پر
مبنی تھی۔ اس کا تقابلہ آج کی سیاست اور طرز حکمرانی سے کر لیں۔ بالکل الٹ
نطر آتا ہے۔ آج کے حکمرانوں کا تکبر اور غرور، ان کا ٹھاٹ باٹھ، کروفر،
فلیگ والی بڑی گاڑی،ہوٹرز، کوٹھیاں ،
محلات، بینک بیلنس ، یہ بی ایمانی خیانت چیخ چیخ کر بیان کرتی ہے کہ یہ سب
کے ایچ خورشید کت جانشین نہیں۔ یہ فرعونوں کے جانشین ہیں۔ جنھیں لوگ آج بھی
اور ان کے مرنے کے بعد بھی حقار ت اور نفرت سے یاد کریں گے۔ مگر کے ایچ
خورشید جیسے لوگوں کو دنیا اچھے نام سے یاد رکھے گی۔ ایسے لوگ تاریخ میں
امر ہو جاتے ہیں۔ اﷲ پاک آپ کی تمام بشری خطائیں معاف فرمائے اور آپ کو جنت
الفردوس نصیب کرے۔ |