محسن پاکستان کے احسان فراموش قوم سے شکوے

تحریر،راجہ منصور
محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ 15سال بعد تین گھنٹے کی طویل نشست ہوئی۔ پندرہ سال پہلے بھی میرے محسن سردار نجم الثاقب سیکرٹری سی بی آر نے مجھے یہ موقع فراہم کیا تھا کے میں اپنے کیرئیر کی ابتداء محترم ڈاکٹرعبدالقدیر خان جیسی عظیم شخصیت کیساتھ ملکر کرسکوں اور آج انہی کی سہولت کاری کی بدولت ہمیں پھر یہ اعزاز حاصل ہوا کے ہم اپنے ادارے سٹیٹ ویوز(آن لائن) کی پری لانچ کا افتتاح بھی ڈاکٹر صاحب جیسی عظیم شخصیت سے کراپائے۔ ایک انگریزی مصنف جان پرکنز نے اپنی کتاب میں یہ لکھا کہ "جدید جنگوں کی تھیوری میں قوموں کو اخلاقی طور پر دیوالیہ کرنے کا ایک آسان طریقہ یہ بھی ہے اس کے قوم کے محسنوں کو، اس قوم کے ہیروز کو، اس قوم کے نیک شہرت اورہر دلعزیز لیڈروں کو متنازع بنا کراتنی تذلیل کروائی جائے تاکہ ان کے بھیانک انجام دیکھ کرعام عوام اخلاقیات کی پستی تک جا پہنچے۔اس کے بعد آپ کو اس قوم پر جنگ مسلط کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ وہ قوم کرپشن، جھوٹ، فراڈ اورپیسے کو عزت و تکریم دے کر جائز قرار دے گی"۔ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی کھیل کھیلا گیا ہے اور اسی لیے آج ہم نے ظاہری جاہ وجلال رکھنے والے کرپٹ بھیڑیوں کو عظیم سمجھ کرسر پربٹھا رکھا ہے اوراپنے محسنوں کو انہی کرپٹ حکمرانوں سے پینشن جیسی بھیک مانگنے پر مجبور کیا ہوا ہے۔ ملاقات کے دوران جب میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ آپ نے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹر ویو دیتے ہوئے یہ کیوں کہا کے یہ قوم احسان فراموش ہے اس قوم پر احسان کرنا میری غلطی تھی۔ میں نے کہا کہ قوم تو آج بھی آپ کو ہیرو مانتی ہے آج بھی آپ سے پیار کرتی ہے تو جواب دینے سے قبل انہوں نے کافی دیر خاموشی اختیار کی، میں سمجھا شاید اس سوال کا جواب نہیں دینا چاہ رہے لیکن افسردہ سی آواز میں بولے آپ مجھے بتائیں یہ قوم چورسیاستدانوں، جاہل مولویوں کے کہنے پر لاکھوں کی تعداد میں انکے جلسوں اور ریلیوں میں امڈ آتی ہے لیکن کیا میرے لیے کوئی ایک فرد بھی نکلا، کیا کسی ایک نے بھی آواز اٹھائی؟ میں کیسے مان لوں کے یہ قوم مجھ سے پیار کرتی ہے جب تک اس کا اظہار مجھے نہیں نظر آتا۔ میں نے ہالینڈ سے اپنی عیش و آرام کی زندگی صرف اسی قوم کے لیے چھوڑ کر ساری زندگی کی جیل قبول کی۔ ان کی آواز کے اندر چھپے درد کو محسوس کرکے میرا دل بھی بوجھل ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب کے اس جواب کے بعد مجھے ان سوالوات کے جوابات بھی مل گئے تھے کہ یہ قوم پانامہ جیسے بین الاقوامی انکشاف پر کیوں نہیں نکلی۔ قوم ریمنڈ ڈیوس جیسے مجرم کی با عزت رہائی پر کیوں نہیں نکلی،ڈراون حملے لاکھوں معصوموں کو نگل گئے یہ قوم خاموش کیوں رہی۔ عافیہ صدیقی اور کئی بے گناہوں کو ڈالر کے عوض امریکہ کو بیچ دیا گیاپھر بھی قوم باہرنہیں نکلی۔ یہ قوم سپریم کورٹ پر حملے کے خلاف کیوں نہیں نکلی،یہ قوم مشرف، ضیاالحق اور ایوب خان کی آمریت کے خلاف کیوں نہیں نکلی، یہ قوم ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی موت پر کیوں نہیں نکلی۔ یہ قوم فاطمہ جناح کی تذلیل پر کیوں نہیں نکلی۔ لیاقت علی خان کو دن دھاڑے گولی مار دی گئی لیکن قوم نے زبان بندی کو ترجیح دی۔ مجھے امریکن لکھاری جاہن پرکن کی وہ بات بھی یاد آرہی تھی کہ" قوموں کے اندر چھپی تحریکوں کو دبانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ انہیں سماجی طور پر بے حس کر دو۔ انہیں معاشی طور پر اتنا مقروض کر دو کہ ان کے اندر سے عزت و غیرت کے تصورات ہی مٹ جائیں۔ اور قوموں کے لیے نیک جذبہ رکھنے والوں کو آنے والی نسلوں کے لیے عبرت کا نشانہ بنادو۔ کرپٹ اور بدنام لوگوں کو ان پر مسلط کر دو پھر وہ قوم کبھی سر نہیں اٹھا پائیگی"۔ ایٹمی پاکستان کے خالق اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر جن کی کاوشوں کی وجہ سے ہمیں آج یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم پہلی اسلامک ریاست ہیں جس کے پاس ایٹمی طاقت ہے۔ آج یہ ملک بھارت سے اس لیے محفوظ ہے کے ہم ایٹمی طاقت ہیں کشمیر کا مسلہ ابھی تک زندہ ہے کہ پاکستان ایٹمی طاقت ہے۔ عالمی طاقتیں پاکستان سے اس لیے بھی خوفزدہ ہیں کہ ہم ایٹمی طاقت ہیں لیکن یہ سب اعزازات دلوانے والے شخص کو ریاست کے سب سے بڑے عہدے پر بیٹھانے کے بجائے عالمی طاقتوں کے ایماء پرمتنازع شخصیت بنادی گئی۔اے پی جی عبدالکلام جنہوں نے بھارت کے لیے ایٹم بم بنایا ،باوجود اس کہ وہ ایک مسلمان تھے انھیں بھارت نے صدر بنایا اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک عظیم پیغام چھوڑا۔ ہمارے ملک میں نواز شریف صاحب کی تقاریر ریکارڈ کا حصہ ہے جہاں انہوں نے الیکشن کیمپین کے دوران یہ کہا کے ہم جیت کر ڈاکٹر عبدالقدیر کو پاکستان کا صدر بنائیں گے لیکن الیکشن کے بعد محسن پاکستان کو صرف اس لئے بھول گئے کے زمینی آقاوں کی ناراضگی نہیں مول لے سکتے ہیں۔ آفرین ہے ڈاکٹر عبدالقدیر جیسی عظیم ہستی پر جب پرویز مشرف نے غیر ملکی دباؤ میں آ کر ملکی مفاد کے نام پر قوم کے لیے ایک اور قربانی مانگی تو بلا جھجک اپنی ذات کی قربانی بھی دے ڈالی۔ یہ قوم کب اس بات کو سمجھے گی! کہ عالمی طاقتوں سے بھیک مانگ کر قوم کو مقروض بنانے والے دراصل ایک مخصوص ایجنڈے پر عمل درآمد کرانے آئے ہیں۔ امریکہ سے چندہ کھا کر انہی کو للکارنے والے کس کے ایجنٹ ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پرمالی امداد دینے والے ہی دہشت گردی کے موجد ہیں اور انہی کے سہولت کار بھی۔ ایماندار قیادت کو بدنام کر کے اقتدار کے ایوانوں سے دور رکھنے کی سازش کون کر رہا ہے۔ ادارے تباہ حال اور صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی لیکن مہنگے ترین ظاہری منصوبوں سے عوام کو کیوں بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ حکمران اقتدار میں آتے ہیں تو پاکستان کا ویزا لے لیتے ہیں لیکن جوں ہی اقتدار سے اترتے ہیں تو لندن، دبئی اور امریکہ شفٹ ہوجاتے ہیں۔ سوچنے کا مقام ہے کے یہ ملک ان کے لیے حکمرانی کرنے کے لیے تو بالکل ٹھیک ہے لیکن اپنا بزنس اور پیسہ منتقل کرنے کے لیے انتہائی غیر موزوں ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے قومی ہیروز کی عزت و تکریم بحال کر کے اخلاقی قدروں کی نئی راہ متعین کرنی ہوں گی۔ نوجوانوں کو اٹھنا ہوگا ہم آواز بن کر باہر نکل کر ڈاکٹر صاحب کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ یہ قوم احسان فراموش نہیں بلکہ اپنے محسنوں کو اپنی پلکوں پر بٹھانی والی قوم ہے۔ بین الااقوامی ایجنڈوں کے مہروں کو پہچان کر ان کو واپس اپنے وطن بیجھنا ہوگا جہاں ان کی بزنس اور جائیدادیں ہیں۔ الﷲ اس وطن کا حامی و ناصر ہو۔

Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 66156 views Columnist/Writer.. View More