مریم نواز کو آئندہ قومی اسمبلی کا لاھور سے الیکشن لڑانے
پر فیصلے جیسی خبروں کا میڈیا پر آنے سے سوشل میڈیا میں تبصروں کا طوفان
کھڑا ھوگیا کہ آئندہ اندرون ملک کیا ھونے جا رھا ھے؟؟
جبکہ آثار بتا رہے ہیں کہ ایکسٹرا جوڈیشل ڈیل ہونے جارہی ہے۔ نوازشریف شاید
آئندہ چند روز میں طبیعت میں اچانک خرابی کا بہانہ بنا کر ایک مرتبہ پھر
لندن روانہ ہوجائیں گے جہاں ڈاکٹرز انکے دل کی حالت تشویشناک قرار دیتے
ہوئے اسے غیرمعینہ مدت کیلئے وہیں ایڈمٹ ہونے کا مشورہ دیں گے۔
نوازشریف قوم کے وسیع تر مفاد میں خرابئی صحت پر مستعفی ہونے کا اعلان کریں
گے اور احسن اقبال یا شاہد خاقان عباسی کو ایوان سے نیا وزیراعظم نامزد کرا
دیا جائیگا۔
نیا وزیراعظم اپنا عہدہ سنبھالتے ہی نئے انتخابات کروانے کی پیشکس کریگا جس
پر تقریباً تمام پارٹیاں مان جائیں گی پھر اتفاق رائے سے اسمبلیاں تحلیل
کرکے نئے انتخابات کا اعلان کردیا جائے گا۔
اس دوران سپریم کورٹ ایک نرم سا فیصلہ جاری کر سکتی ھے جس میں نیب اور ایف
آئی اے کی سرزنس کی جائے اور اراکین اسمبلی کو ایڈوائس جاری کرے کہ وہ ایک
" ٹروتھ فائنڈنگ کمیشن"
کے قیام کیلئے پارلیمنٹ کے ذریعے بل لائے جس کے
"ٹی او آرز"
کم و بیش وہی ہوں گے جو اپوزیشن پارٹیز نے تجویز کئے تھے۔
یوں تقریباً سبھی فریق کچھ نہ کچھ حاصل کرکے نئے الیکشن کی تیاری میں لگ
جائیں گے۔
اس دوران شریف فیملی میں شہبازشریف اور مریم نواز باقاعدہ خم ٹھونک کر ایک
دوسرے کے سامنے آچکے ہونگے۔
چچا اور اسکے بیٹے مابین بھتیجی کی اس لڑائی میں قوم کو بہت کچھ نیا جاننے
کو ملے گا۔
نوازشریف کے باعزت جانے کا اور سیاست میں اپنی باقیات رکھنے کا یہی اک کلیہ
ھے اور ایسا ممکن ھوسکتاھے
قرائن کہتے ھیں کہ اگر نوازشریف کیخلاف فیصلہ آنا ھوتا تو مختصر فیصلے کی
صورت میں سامنے آسکتا تھا
حال ھی میں ساری قوم نے دیکھا کہ
جہانگیر ترین اور عمران خان کے حق میں عدالتی فیصلہ آ چکا اور دونوں نااھل
قرار نہیں دیئے گئے، ان دونوں کو شاید ریلیف مل گیا
فاروق ستار گرفتار ھوئے اور ایک گھنٹے بعد رھا ھوگئے
شرجیل میمن گرفتار ھوئے اور پھر رھا ھوگئے
ایان علی بالاخر منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت مل جانے پر اور عدالتی حکم پر
اس کا نان ای سی ایل سے نکل گیا اور وہ فوراً دبئی چلی گئیں
ڈاکٹر عاصم ھسپتال منتقل اور کیس کی گرفت ڈھیلی
اک طے شدہ ڈیل کےتحت جسطرح زرداری راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان
چلے آئے اور انکے بھارت اور مودی کیخلاف بیانات و اچانک کشمیریوں کے حق میں
مؤقف سے ثابت ھوتاھےکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو واضح دوستی کا پیغام دے رھے ھیں
ان تمام حالات کے پیش نظر معلوم یہ ھوتاھے کہ نوازشریف " جہاں ھے جیسے ھے "
کی بنیاد پر بیمار ھوکر ایک بار پھر بیرون ملک علاج کیلئے چلے جائیں گے اور
ڈاکٹروں کا بورڈ انکے لمبے قیام برائے مکمل علاج کیلئے کہہ دیگا یوں بیرون
ملک سے انکا بوجوہ بیماری وزارت عظمی سے استعفی آسکتاھے
اسمبلی سے جو نیا آئیگا اسکا اسمبلی تحلیل کرنے سے قبل مردم شماری (جوکہ
فوج خود ذمہ داری اور دلچسپی سے کرا رھی ھے) مکمل ھونے کےبعد نئی حلقہ
بندیاں ھونگی اور اسکے بعد وزیراعظم نئے انتخابات کرانے کیلئے اسمبلی کی
تمام پارلیمانی جماعتوں کے اعتماد کے ساتھ اسمبلی تحلیل کر دیں گے
اگلے الیکشن اگر نئی مردم شماری کے نتیجے میں بننے والی ووٹرز لسٹوں کی
بنیاد پر ھوۓ اور تحریک انصاف، ق لیگ و مسلم لیگی دیگر دھڑوں وغیرہ سے
انتخابی الائنس بنانے میں کامیاب ھوگئی تو ساری قوم الیکشن کا نتیجہ ایک
بڑا سرپرائز کے طور پر دیکھ سکتی ھے
جبکہ ن لیگ کے اندر نواز شریف اور شہباز شریف گروپ کا جو ڈرامہ اک عرصہ
دراز سے پارٹی کے اندر زھریلی بدمزگی پیدا کرچکا اور دونوں گروپس میں شامل
افراد کو ٹشو پیپر بناکر رکھا اور انکی جگہ مشرف باقیات کو مکمل فائدے
کیساتھ جگہ دی تو یوں ن لیگ کے اندر موجود اس بکواس خانے کی حقیقت کو
ساری قوم قریب سے دیکھ سکے گی کہ آیا شریف خاندان کے اندر گروپنگ حقیقت تھی
یا یہ ڈرامہ آپس میں لڑاؤ اور لوٹوں کو نوازو سکیم تھی ؟؟
موجودہ حالات اک بڑی سیاسی تبدیلی کا عندیہ دے رھے ھیں
اور نئے انتخابات میں ن لیگ کا اکثریتی نشستیں حاصل کرنے کے نتیجے میں
پارٹی صرف مریم نواز ھی پر اتفاق نہیں کرسکے گی بلکہ چند نام اور بھی آسکتے
ھیں جن میں سب سے پہلے اسحاق ڈار اور اسکے بعد شہبازشریف اور دو نام سردار
ایاز صادق اور احسن اقبال نظر آسکتےھیں
اور چونکہ اسحاق ڈار غیر متنازعہ واحد سیاسی ن لیگی شخصیت تمام سیاسی
جماعتوں میں ثابت شدہ ھیں یوں وہ سب سے اھم ھو سکتے ھیں اور اگر نئے
انتخابات کے نتیجے میں حکومت ن لیگ کی نہ بن سکی تب شہبازشریف قومی اسمبلی
میں قائد حزب اختلاف بنائے جاسکتے ھیں تاکہ اسحاق ڈار کی شخصیت سیاسی طور
پر بیک چینل ڈور ڈپلومیسی کیلئے کارآمد رھے...
چونکہ ابھی یہ سارا تبصرہ مریم نواز کا آئندہ انتخابات میں الیکشن لڑنے کی
خبر پر سامنے آیا تو یوں یہ حتمی نہیں کہ ن لیگ اکثریت حاصل کرکے مریم نواز
کو وزیراعظم بنادے بلکہ آئندہ الیکش میں جنرل الیکشن کیلئے متبادل قابل
قبول شخصیات کو بھی میدان میں اتارا جاسکتاھے جن میں اسحاق ڈار نمایاں ھیں
تاکہ مریم نواز جیسے نام پر باھمی اتفاق رائے نہ ھونے پر اسحاق ڈار جیسے
غیر متنازعہ سیاسی شخصیت کو نامزد کیاجاسکے اور شہبازشریف اگر مرکز میں آئے
تو وہ حکومت نہ بننے پر قائد حزب اختلاف بنائے جاسکتے ھیں
پنجاب میں اگر ن لیگ صوبائی اکثریت حاصل کرلے تو حمزہ شہباز ن لیگی مرکزی
قیادت کی منظوری پر چیف منسٹر پنجاب بن سکتے ھیں اور ن لیگ کی کوشش ھوگی کہ
اگر مرکز میں حکومت وجود میں نہ آسکی تو پنجاب میں ھم خیال جماعتوں اور
آزاد اراکین کی مدد سے حکومت بنالے مگر اس بار پنجاب میں حکومت بنانے کیلئے
تحریک انصاف سے بہت بڑے جوڑ توڑ کا سامنا نظر آسکتاھے.. پنجاب کی سیاسی
تاریخ کا نیا باب شروع ھو سکتاھے |