یوگی راج: کسانوں کا روگ قصابوں کا سوگ

یوگی ادیتہ ناتھ نے حلف برداری کے بعد بڑے طمطراق کے ساتھ یہ خوش آئند اعلان کیا کہ ’’جہاں کہیں کچھ غلط نظر آئے مجھے میسیج کریں پھر دیکھنا میں کیا کرتا ہوں‘‘۔ اس کے بعد وہ اپنے حلقۂ انتخاب گورکھپور میں وزیراعلیٰ کی حیثیت سے پہلی بارآئے تو ضلع بلیّا سے راجکمار بھارتی نامی کسان ان سے ملنے پہنچ گیا ۔اس غریب کیلئے موبائل خرید کر اس سے میسیج کرنا مشکل تھا اس لیے خود بذاتِ خود چلا آیا ۔ اس پر ڈھائی لاکھ کا قرض ہے اور وہ بیمار بھی ہے۔ وزیراعظم اور امیت شاہ نے انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ کسانوں کا قرض معاف کردیا جائیگا لیکن وزیراعلیٰ کسانوں کو بھول کر مکاملے بازی میں لگ گئے ۔ اس کو ملاقات تک کا موقع نہیں ملا تو اس نے خودسوزی کی کوشش کی اس لیے جیل بھجوا دیا گیا ۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ بی جے پی کے مینی فیسٹو میں پہلا نکتہ میں کسانوں کا سارا قرض معاف کرنے کے علاوہ انہیں بغیر سود کے قرض دینے کے سبز باغ بھی دکھلائے گئے تھے۔ آئندہ ۵ سالوں میںزراعت پر ۱۵۰ کروڈ خرچ کا وعدہ بھی تھا۔ بیچارے راجکمار نے ان پر یقین کرکے بڑے ارمان سے بی جے پی کو ووٹ دیا لیکن جب اپنے خوابوں کی تعبیر کیلئے وزیراعلیٰ سے ملاقات تک نہیں کرسکا تو خودکشی کے الزام میں جیل پہنچادیا گیا۔

اقتدار سنبھالنے کے بعداپنے ان ہندو رائے دہندگان کو بہلانا پھسلاناوزیراعلیٰ کیلئے سب سے بڑا چیلنج تھا اس لیے انہوں نےمینی فیسٹو کا حوالہ دے کر غیر قانونی مذبح خانوں کو بند کرنےکی مہم چھیڑ دی ۔ یہ دعویٰ ہی سرے سے حقیقت کے خلاف تھا ۔ بی جے پی کے مینی فیسٹو کے جو اہم نکات ذرائع ابلاغ میں آئے ان میں سرے سےمذبح خانوں کا ذکر ہی نہیں ہے۔ کسی کونے میں اس کا ذکر ہوتو اور بات ہے۔ مسلمانوں کے تعلق تین طلاق کی بابت کہا گیا تھا کہ بی جے پی تمام طلاق ثلاثہ سے متعلق تمام خواتین کی رائے لے کر عدالت عالیہ کے سامنے رکھے گی اور رام مندر کے بابت کہا گیا وہ قانون کی پاسداری کرتے ہوئےجلد از جلد مندر کی تعمیر کرے گی ۔ اس کے علاوہ بے شمار وعدے کئے گئے تھے جن کی بابت کوئی اقدام نہیں کیا گیا اور شاید کیا بھی نہ جائےلیکن وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر تھا اس پر ہنگامہ برپا کردیا گیا-

مذکورہ اعلان کے بعد غیر قانونی طور پرچلائے جارہے ذبیحہ خانوں اور گوشت کی دکانوں کے خلاف کارروائی شروع ہوگئی اور سڑک کنارے غیر قانونی طور سے چلائی جا رہی چھوٹی دکانوں کے غریب مالکان کی پریشانی کا آغاز ہوگیا ۔ اس دوران قصابوں کی ایسوسی ایشن نے دعوی کیا کہ قانونی طریقے سے چلائے جا رہے ذبیحہ خانوں اور دکانوں کو بھی راتوں رات غیر قانونی قرار دے دیا گیا اور بغیر لائسنس چل رہی دکانوں کو بند کیے جانے کے حکم کی وجہ سے لاکھوں لوگ مصیبت میں پھنس گئے ۔ ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری شہاب الدین قریشی کے مطابق لائسنس حاصل کرنے کی متعدد کوششیں ناکام رہیں ۔ یہ ان کا قصور نہیں ہے کہ شہر میں قانونی مذبح خانے نہیں ہیں اس لیےانہیں دکان کا لائسنس تو ملنا ہی چاہئے۔

سرکارکا دعویٰ ہے کہ صوبے میں گوشت فروخت کرنے والی تقریبا ً ۹۰ فیصد دکانیں سالوں سے بغیر لائسنس اورغیر قانونی طور پر چلائی جا رہی ہیں۔ لکھنؤ میونسپل کارپوریشن کے مطابق ان دكانوں کو گوشت کی فراہمی کرنے والی تین ذبیحہ خانوں کو سال ۲ یا ۳ سال قبل بند کر دیا گیا تھا۔ سیٹی کارپوریشن نے گوشت فراہمی کے متبادل انتظامات کا یقین دلایا تھا لیکن یہ وعدہ کبھی پورا نہیں ہوا۔ ساتھ ہی ان دو سالوں میں کارپوریشن نے نہ تو گوشت کی دکانوں کو نئے لائسنس جاری کئے اور نہ ہی پرانے لائسنسوں کی تجدید کی گئی۔، لکھنؤ میونسپل کارپوریشن کے مطابق گوشت کی ۳۰۰ دکانوں کو لائسنس جاری کرنے کے بعد نصف تعلیم اداروں یا مذہبی مقامات کے قریب ہونے کی وجہ سے منسوخ کر دیے گئے۔ اس معاملے قصور کس کا ہے؟ عوام کا یا حکومت کا ؟ اور حکومت کس کی بی جے پی کی یا سماجوادی اور بہوجن سماج پارٹی کی؟یہ سنجیدہ سوالات قابلِ غور ہیں ۔

وطن عزیز میں غیر قانونی کاروبار ایک عام سی بات ہے۔ لائسنس کی تجدید کے بغیر بہت ساری تجارت دھڑلے سے بلاروک ٹوک چلتی ہے اور چل رہی ہے ۔ اتر پردیش میں جدید مذبح خانے بنانے کی اپنی ذمہ داری کو مسلمانوں کی ہمدرد سمجھی جانے والی حکومتوں نے پورا نہیں کیا ۔ اس کے نتیجے میں جن مذبح خانوں کا لائسنس ختم ہوگیا تھا یا جن دوکانوں کے لائسنس کی تجدید نہیں ہوسکی تھی ان کا کام جاری رہا ۔ حکومت چونکہ روک ٹوک نہیں کررہی تھی اور سارے لوگوں کا کام چل رہا تھا اس لیے کام چلاو مزاج کے تحت عوام اور حکومت نے اس جانب توجہ نہیں کی۔ سیکولر حکومت کے دور اقتدار میں نئے مذبح خانوں کو تعمیر کرانے کا لائسنس لینے کا کام آسان تھا لیکن کسی نے نہیں کیا ورنہ بی جے پی کو اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ملتا اور ریاست گیر ہڑتال کی ضرورت نہیں پیش آتی ۔ اس احتجاج کے ایک ہفتہ بعد جمیعت القریش کے ایک وفد نے عمر چودھری کی قیادت میں وزیراعلیٰ سے ملاقات کی ۔

اس ملاقات کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ وزیراعلیٰ نے وفد کے ارکان سے مشکلات و مسائل کو سننے کے بعد کہا کہ یہ حکومت سب کی ہے اور ذات پات یا مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز یا ناانصافی نہیں کی جائیگی۔ التواء شدہ لائسنس کی تجدید کی جائیگی اور جدید مذبح خانوں کی تعمیر تک متبادل انتظامات کیے جائیں گے۔ اس شکایت پر خودساختہ تنظیمیں اس پیشے سے متعلق لوگوں کو ہراساں کررہی ہیں وزیراعلیٰ نے یقین دلایا کہ اس کی اجازت نہیں دی جائیگی اس لیے کہ وہ کسی ایک مذہب یا ذات کے نہیں بلکہ سارے لوگوں کے وزیراعلیٰ ہیں ۔ وزیراعلیٰ نے وزیرصحت کو ضروری اقدامات کرنے کی تلقین کی اور وزیرصحت نے ہڑتال ختم کرنے کیلئے اصرار کیا۔ سراج الدین قریشی کی قیادت میں ملاقات کرنے والے وفد نے فیصلہ کیا کہ وہ نوراتری تک انتظار کریں گے تاکہ لائسنس کی تجدید ہوجائے اور پھر اپنا کاروبار شروع کردیں گے ۔ اس میں شک نہیں کہ اس جذباتی مسئلہ کو اچھال کر یوگی جی نے اپنی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ کیا اور یہ بھی دیکھنے والی بات ہے خودساختہ گئو سیوک جن پر خود وزیراعظم تنقید کرچکے ہیں اس حدتک قابو میں رہتے ہیں لیکن اگر اس بہانے سارے لائسنس رینیو ہوجاتے ہیں تو اس گوشت بیوپاریوں کو بڑی راحت ملے گی۔

اپنے پہلے ہفتے میں غیر قانونی مذبح خانوں پر چھاپہ مارنے کے علاوہ جو اہم کام ہوا ہے وہ یوگی جی کے خلاف سوشیل میڈیا پر لکھنے والے ۶ لوگوں کے خلاف پولس کارروائی ہے۔ ان میں سے پہلا شکار فلم ڈائرکٹر شیریش کندر تھا جس نے معافی مانگ لی۔ اس کے علاوہ بنگالی شاعر بندوپادھیائے نے نظم لکھی تو اسے ہندو جذبات کے خلاف قرار دیا گیا ۔ اس نے بھی فیس بک سے اپنی متنازع نظم ہٹالی ۔ غازی پور، نوئیڈا، بنگلورو اور ممبئی میں تصاویر بنانے پر اعتراض کیا گیا اور پولس گھروں تک پہنچ گئی ۔ ان کے علاوہ کشمیر کے کانگریسی رہنما سلمان نظامی نے لکھا ذاکر نائک کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے اس کے باوجود انہیں دوڑایا جارہا ہے جبکہ یوگی ادتیہ ناتھ کے خلاف فساد اور قتل کا مقدمہ ہے اس کے باوجود انہیں وزیراعلیٰ بنادیا گیا۔ نظامی نے اپنا بیان واپس لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا میں نہیں ڈرتا اور اپنے موقف پر قائم ہوں ۔ میں اپنے وکیل کے ذریعہ جواب دوں گا۔ وہ لوگوں کو اپنی پسند کا نغمہ گانے کیلئے مجبور نہیں کرسکتے ۔ نظامی نے لکھا ’’مجھےیقین ہے یوگی ادتیہ ناتھ وزیراعلیٰ کے عہدہ کا حقدار نہیں ہیں ‘‘۔ سلمان نظامی نے انہیں ملنے والی دھمکیوں کے جواب میں کہا کہ میں دھمکی دینے والوں کو عدالت میں کھینچ سکتا ہوں۔

یوگی جی کیلئے انتظامیہ کی مدد سے عام لوگوں کو ڈرانا دھمکانا تو ممکن ہے لیکن وہ الہ آباد ہائی کورٹ کے معمر وکلاء اور شہریوں کا کیا کریں گے جنہوں نے الہ باد ہائی کورٹ میں ایک عرضداشت داخل کرکے چیف جسٹس سے گزارش کی ہے کہ ۲ اپریل کو ہونے والے ۱۵۰ ویں تقریب میں وزیراعلیٰ کو دعوت نہیں دی جائے۔ اس لیے کہ ان کے خلاف جملہ ۲۲مجرمانہ مقدمات زیرِتفتیش ہیں۔ ان میں سے ایک کا حکم خود الہ باد ہائی کورٹ نے دیا ہے۔ اس عرضداشت کے مفاد عامہ کے مقدمہ میں بدلنے کے امکانات ہیں ۔ اس پر دستخط کرنے والوں میں کے کے رائے، آر بی دیوی ، وی بی یادو جیسے وکلاء اور انشو مالویہ، اوم دت سنگھ ، جاوید محمد اور ڈاکٹر اشیش متلّ جیسے جانے مانے سماجی کارکن شامل ہیں۔ ان لوگوں نے مطالبہ کیا ہے کہ وزیراعلیٰ کے خلاف مقدمات پر اعلیٰ سطحی عدالتی تفتیش ہونی چاہیے۔ اس درخواست میں یاددہانی کرائی گئی ہے کہ خود مختار عدلیہ دستوری جمہوریت کی ڈھال ہے اور دستخط کنندگان کو تشویش ہے کہ اس طرح نادانستہ سمجھوتہ کیا جارہا ہے ۔درخواست کنندگان نےاستفسار کیا ہے کہ کیاایسے شخص کا عزت مآب سپریم کورٹ اور الہ باد ہائی کورٹ کے ججوں کے ساتھ عدالت کے احاطے میں ایک اسٹیج پر بیٹھنا مناسب ہے؟

عدالت سے یہ گہار بھی لگائی گئی ہے کہ اس صورت میں نچلی عدالتوں کی حوصلہ شکنی ہوگی جنہیں مستقبل میں یوگی ادتیہ ناتھ کے مقدمات پر فیصلہ سنانا ہے۔ ویسے یہ ساری دنیا اور ہندوستان کی معروف روایت ہے کہ جرائم کا ریکارڈ رکھنے والوں کو عدلیہ سے دور رکھا جاتا ہے۔ اس سے سارے ملک میں غلط پیغام جائیگا۔ یوگی ادتیہ ناتھ نے اپنے حلف نامہ میں ۲۲ مقدمات کا اندراج کیا ہے اس لیے اس الزام کو محض سیاسی جملہ بازی قرار دے کر مسترد کرنا ممکن نہیں ہے ۔ یوگی جی کے خلاف۲ نومبر ۲۰۰۸کو؁ الہ باد ہائی کورٹ کے اصرار پر ایف آئی آر درج کی گئی اور تحقیقات کا آغاز ہوا۔ گواہوں کے بیانات اور ثبوتوں کی روشنی میں ڈرافٹ فائنل رپورٹ ۹ اپریل ۲۰۱۵؁ کو اعلیٰ افسران کی توثیق کیلئے روانہ کی گئی لیکن ابھی تک واپس نہیں آئی۔ اس معاملے میں شریک ملزم انجو چودھری کی درخواست سپریم کورٹ ۲۰۱۲ ؁ میں مسترد کرچکا ہے۔ الہ باد ہائی کورٹ کو یاد دلایا گیا ہے کہ ادتیہ ناتھ کی اس تقریب میں مہمان کی حیثیت سے شرکتعوام کی واحد نجات دہندہ عدالت کے وقار اور آزادی کی توہین ہے۔ خودمختار عدلیہ کوخوف اور جانبداری کے بغیر بڑے اور چھوٹے کا خیال کئے بغیر سیاسی دباو سے بے نیاز ہوکر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔

اتر پردیش میں سماجوادی پارٹی پر یہ غنڈوں اور بدمعاشوں کو کھلی چھوٹ دینے کا الزام تھا اور بی جے پی نے صوبے کو جرائم سے پاک کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔ بی جے پی اگر کوئی صاف ستھری شبیہ کے باصلاحیت اور تجربہ کاررہنما کو وزیراعلیٰ بناتی اور ان وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتی جو انتخابی مہم کے دوران کئے گئے تھے تو اس سے عوام اور پارٹی دونوں کا بھلا ہوتا لیکن سنگھ پریوار میں قحط الرجال کے سبب اسے یوگی ادتیہ ناتھ سے بہترفرد نہیں ملا ۔ مختلف مقدمات میں الجھے ہوئے یوگی کا وزیراعلیٰ بننے کے بعدیہ نعرہ بلند کرنا کہ ’’ غنڈے مافیا پردیش چھوڑ کر چلے جائیں اب وہ ایسی جگہ جائیں گے جہاں کوئی نہیں جانا چاہے گا‘‘ کچھ عجیب سا لگتا ہے ۔ اترپردیش میں گئو رکشا اور اینٹی رومیو دستوں کے نام پرراتوں رات جو غنڈہ راج قائم ہوگیا ہے اس پر راجو شریواستو کولطیفہ سنانا پڑا کہ یوگی راج میں میاں بیوی فلم دیکھنے کیلئے جاتے ہیں تو انہیں ۳ ٹکٹ لینے پڑتے ہیں اس لیے کہ درمیان رومیو دل کا آدمی بیٹھا رہتا ہے۔

یوگی ادتیہ ناتھ یہ اعلان بھی خوب چلا کہ ’’ ہم ایسا پردیش بنانا چاہتے ہیں جہا ں مائیں اور بہنیں محفوظ ہوں‘‘ ۔ اس دعویٰ کی قلعی گریٹر نوئیڈا میں کھل گئی جہاں صبح ۴ بجے ایک افریقی طالبہ کو ٹیکسی میں سے اتار کر زدوکوب کیا گیا ۔ اس سے قبل چار نائیجیریائی طالب علموں کے ساتھ مار پیٹ کی گئی۔ اس واقعہ کے بعد وزیر خارجہ سشما سوراج نے وزیراعلیٰ سے گفتگو کی اور ۵ لوگوں کو گرفتار بھی کیا اس کے باوجود ایک غیر متعلق لڑکی بھیڑ کے غم غصے کا شکار ہوئی۔ اس علاقہ میں ۲۵ مارچ کو منیش کھاری نامی ۱۲ ویں جماعت کا طالبعلم اچانک غائب ہوگیا۔ اگلے دن وہ نشے میں لوٹا اور خون کی قہ کرکے چل بسا۔ اس کے والد کرن پال سنگھ نے نائیجیریائی طلباء پر اپنے بیٹے کے اغواء کا الزام لگایا۔ اس شکایت کے بعد پولس نے ۵ طلباء کو حراست میں لے کر تفتیش کی لیکن شواہد کی عدم موجودگی کے سبب ان کو چھوڑ دیا گیا۔ اس کے باوجود لو گ دن دہاڑےافریقی طلباء کو راستوں پر پکڑ پیٹ رہے ہیں اور یہ معاملہ اب خواتین تک پہنچ گیا ہے۔

ذرائع ابلاغ میں خبر آئی کہ اترپردیش انتخابی نتائج کے تین ہفتہ بعد ٹرمپ نے مودی کو فون پر مبارکباد دی لیکن اس خبر میں یہ نہیں لکھا تھا کہ وزیراعظم نے امریکہ میں ہندوستانیوں کے خلاف ہونے والے حملوں کا ذکر کیا یہ نہیں ؟ اس سال فروی میں کنساس کے اندر شری نواس نامی نوجوان ہلاک اور اس کا ساتھی آلوک زخمی ہوا۔ اس کے بعد کیرو لینا میں ہریش پٹیل کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا اور ایک سکھ نوجوان کو قتل کردیا گیا ۔ ایکتا دیسائی اور راج پریت نامی خواتین کے ساتھ ٹرین میں بدکلامی کی گئی۔ یہ اسی طرح کا ماحول ہے جیسا کہ مودی اور یوگی کی کامیابی کے بعد وطن عزیز میں بنا ہے اس لیے مودی جی کہتے بھی تو کیا کہتے؟ لیکن وزارت خارجہ کی جانب سے امریکہ کے اندر ہندوستانیوں پر ہونے والے نسلی حملوں کے خلاف احتجاج ہورہا ہے اسی کے ساتھ یوگی راج میں دارالخلافہ کے قریب و ہی سب ہورہا ہے ۔
ان حالات میں ساری دنیا بڑے غور سے ہندو راشٹر کی حقیقت سے واقف ہو رہی ہے اور اس سے پناہ مانگ رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اقتدار کی ہوس میں مودی جی اور یوگی جی ہندو دھرم کا بیڑہ غرق کرکے رہیں گے۔ اس طرح کی حکومت کے خلاف انسانی ضمیر کا ردعمل ہوکررہے گا۔ خوشحالی اور تحفظ کی خاطر بی جے پی کو ووٹ دینے والے کسانوں اور خواتین کو بالآخر اپنی غلطی کا احساس ہو گا لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی اور پوری قوم اس کی بہت بڑی قیمت چکا چکی ہوگی۔ وزیراعظم کی تقریر سے تو لوگ بہت دیر کے بعد بیزار ہوئے لیکن یوگی جی تقاریر کے دوران ان کے اپنے وزراء اور ارکان کے گہری نیند میں سونے کی تصاویر اخبارات کے صفحات کی زینت بننے لگی ہیں جنہیں دیکھ کر یہ شعر یاد آتا ہے کہ ؎
بڑے زور سے کہہ رہا تھا فسانہ
سبھی سو گئے داستاں سنتے سنتے

یوگی ادتیہ ناتھ کے بارے میں بجا طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ پانچ مرتبہ دارالعوام یعنی لوک سبھا میں منتخب ہوئے ہیں لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ انہوں نے وہاں کون سا کارنامہ انجام دیا ہے۔ یو ٹیوب پر ان کی جو پارلیمانی تقریر کا فیتہ سب سے زیادہ مشہور ہواہے اس میں وہ پھوٹ پھوٹ کر روتے نظر آتے ہیں ۔ یہ رونا دھونا کسی قومی مسئلہ پر نہیں بلکہ خودان کی اپنی گرفتاری کو لے کرتھا۔ دس سال قبل انہیں فساد کرانے کے الزام میں ملائم سنگھ یادو نےگرفتار کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا تھا۔ سیاستداں تو ہنستے ہوئے جیل جاتے ہیں اور مسکراتے ہوئے لوٹ آتے ہیں لیکن کوئی یوگی ادتیہ ناتھ کی ٹسوے نہیں بہاتا۔

ادتیہ ناتھ نے آنسو پونچھتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ وہ ان کے خلاف سیاسی سازش تھی۔ سات دنوں تک ان کو گرفتاری کی وجہ نہیں بتائی گئی اور جس جرم میں ۱۲ گھنٹوں سے زیادہ حراست میں نہیں رکھا جاسکتا ہے انہیں ۱۱ دنوں تک جیل میں رکھا گیا۔ یوگی جی نہیں جانتے کہ اپنے ملک میں برسوں تک بے قصوروں کو جیل میں رکھ کر باعزت بری کیا جاتا ہے لیکن ان میں سے کوئی عورتوں کی طرح نہیں روتا ۔ ایوانِ پارلیمان میں بھگوادھاری شیر نے لوک سبھا اسپیکر سے دہائی دی تھی اگر انہیں تحفظ نہیں دیا گیا تو استعفیٰ دے دیں گے۔ ادتیہ ناتھ کی اس حرکت پر ملک بھر کے ٹھاکر نادم ہوئے مگر پھر یہ کہہ کر لیپا پوتی کی گئی وہ رحمدل اورجذباتی طبیعت کے مالک ہیں۔

اتر پردیش انتخاب کے بعد ایسا ماحول بنایا گیا کہ گویا مودی جی کا پونرجنم ہوگیا اور ادتیہ ناتھ کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد تو جیسے ہندوستان میں رام راجیہ قائم ہوگیا۔ زرخرید ذرائع ابلاغ تو صبح و شام ’’جوگی ہم تو مٹ گئے تیرے پیار میں ‘‘ کی دھن سنانے لگا۔ اخبارات میں یوگی ادتیہ ناتھ کا اس قدر چرچا بڑھاکہ اس بار مودی جی کے من کی بات بھی ماند پڑگئی۔ سوشیل میڈیا کےکارٹونس میں یوگی کی مقبولیت پروزیراعظم اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے امیت شاہ سے کہتے نظر آئے کہیں ہم سے غلطی تو نہیں ہوگئی۔ اس موقع پر یوگی جی نے کمال احسانمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہہ کر مودی جی کا دل جیت لیا کہ ’’ ایک ایسے دور میں جبکہ لوگ سادھو کو بھیک بھی نہیں دیتے مودی جی نے مجھے اترپردیش سونپ دیا‘‘۔ کسی راجپوت کی زبان پر یہ جملہ زیب نہیں دیتا اس لئے دس سال بعد پھر ایک بار یوگی جی اپنی قوم کے وقار کو ٹھیس پہنچانے کا کام کیا ہے۔ مظلوموں پر گرجنے برسنے والے یوگی جی زبان سے یہ فقرہ اس شعرکی مصداق ہے ؎
آج سے قومی پرندہ ہےہماراطوطا
نسل شاہین کی چن چن کے مٹا دی جائے
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1222919 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.