جمعیت کی صدسالہ تقریب

جمعیت علمائے اسلام کی صد سالہ تقریب بخیروعافیت اختتام پذیر ہوچکی ہے، جس کے ساتھ ساتھ اب فیس بک پر بھی اس تقریب کی پوسٹیں، اشتہار، لڑائیاں وغیرہ آخری مراحل میں ہیں۔

اس تقریب میں ہزاروں علمائے کرام نے شرکت کی، جس میں کثیر تعداد بڑے بڑے علمائے کرام کی بھی تھی۔ تقریب سے پہلے ، تقریب کے دوران اور ختم ہونے کے بعد بھی بہت ہی خوشی کا اظہار کیا جاتا رہا، سوشل میڈیا سمیت اجتماع گاہ کے اندر کا ماحول بھی میلے کا منظر پیش کررہا تھا، ہر کوئی خوش کے شادیانے بجا رہا تھا۔۔۔ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ کیا یہ مقام اور یہ وقت خوشیاں منانے کا ہے یا استغفار کرنے کا۔؟؟
جمعیت علمائے اسلام ہو یا دیگر مذہبی جماعتیں بلاشبہ ان کی بنیاد نیک نیتی اور اسلام کی ترقی کے لئے رکھی گئی تھی۔ ہر جماعت کی کوشش یہی ہے کہ اسلام غالب ہوجائے۔ چونکہ یہ ایک نیک مقصد ہے، اور اقامت دین ایک فرض ہے تو اس اعتبار سے اس تقریب کو صدسالہ خوشی کے بجائے توبہ واستغفار کا اجتماع بنا کر انعقاد کیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ شریعت نے ہمیں نماز کے بارے بھی یہی تعلیم دی ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد استغفار کیا جائے کہ جس طرح نماز قائم کرنے کا حق تھا ہم اس طرح نہیں قائم کرسکے۔
صدسالہ تقریب کے تین دنوں کو ایام احتساب کے طور پر منایا جاتا اور اپنا محاسبہ کیا جاتا کہ آج سے سوسال پہلے ہم جہاں کھڑے تھے، اس کے مقابلے میں اب کہاں کھڑے ہیں؟۔ 1947 میں پاکستان بننے کے بعد ہم جہاں کھڑے تھے اب 2017 میں کہاں کھڑے ہیں؟۔ جس مقصد کے لئے جمعیت بنی تھی اس مقصد میں کتنی پیش رفت ہوئی؟ کتنا کام باقی ہے؟ کتنی محنت کی اور کتنی مزید کرنے کی ضرورت ہے۔

تحریکیں اور جماعتیں تو بڑی چیز ہیں، جو چھوٹے چھوٹےادارے بھی اپنا احتساب نہیں کرتے، اپنی پیش رفت کا جائزہ نہیں لیتے انہیں کامیابی ملنا مشکل ہوجاتا ہے۔

کیا کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ تین دن کی تقریب میں کارکنوں کو کیا سبق دیا گیا، آئندہ کا کیا لائحہ عمل دیا گیا۔ تین دنوں میں کارکنوں کی تربیت کے حوالے سے کیا کیا گیا؟۔ اگر سٹیج سے صرف اپنی تعریفیں ہی ہوتی رہی، روایتی سیاسی نعرے ہی لگتے رہے،عام روایتی جلسوں کی طرح ایک بڑا تین روزہ جلسہ ہی کردیا گیا، اور تقریب کا وہی رنگ رہا جو عام معاشرے میں سالانہ تہواروں میں خوشی مناتے ہوئے دیکھا جاتا ہے تو کیا فائدہ۔؟

اگر عقل وشعور میں یہ بات ہو کہ میں ایک مقدس فرض کی ادائیگی کررہا ہوں تو ایسا شخص سو سال کے بعد اگر 100 فیصد بھی کامیابی حاصل کرلے پھر بھی وہ استغفار اور عاجزی ہی کرتا ہے نہ کہ خوشیاں اور تفاخر کے نعرے لگاتا ہے۔

حضور ﷺ نے بیس سالہ محنت کے بعد جب مکہ فتح کیا توصحابہ کرام نے اتنی خوشیاں نہیں منائی جتنی یہاں سوسال بعد صفر نتیجے پر منائی گئی ہیں۔1924 میں خلافت کا خاتمہ ہوا اگرچہ وہ برائے نام ہی تھی لیکن مسلمانوں کا ایک امیر اور حدود وتعزیرات وغیرہ نافذ تھے۔ اس وقت سے آج تک بانوے تیرانوے سالوں سے ساری دنیا کے مسلمان بغیر امیر کے ایک مسلسل گناہ کی زندگی گزار رہے ہیں، ایسے میں بجائے استغفار کرنے اور بجائے تربیت کرنے کے روایتی تہواروں سے ملتی جلتی تقریبات کا انعقاد کرنا، اپنے مدمقابل سیاسی پارٹیوں کو دکھانے کے لئے پاور شو کرنا نہایت ہی غفلت کی نشاندہی کرتا ہے۔
 

Syed Abdulwahab Sherazi
About the Author: Syed Abdulwahab Sherazi Read More Articles by Syed Abdulwahab Sherazi: 78 Articles with 73673 views Writer, Speaker, Mudarris.
www.nukta313.blogspot.com
.. View More