جمعہ کے روز سینیٹ کے منعقدہ اجلاس میں وفاقی وزراء
کی عدم موجودگی اورحکومت کی طرف سے جواب نہ ملنے پر چیئرمین سینیٹ رضا
ربانی نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے تاریخ میں پہلی مرتبہ رولز 23 کے
تحت سینیٹ کی کارروائی ملتوی کردی تھی۔ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا کہ
حکومت اور وزراء سینیٹ کو اہمیت نہیں دے رہے، حکومت کو ان سے کسی بات پر
رنجش ہے، اگروہ ایوان کی اتھارٹی برقرارنہیں رکھ سکتے تو عہدے پربیٹھنے
کاحق نہیں۔انہوں نے مزیدکہا کہ حکومت سینیٹ کوآئینی کردار سے محروم کر رہی
ہے۔ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی سرکاری پروٹوکول واپس کرکے گھر چلے گئے ، اور
سیکرٹریٹ کوہدایت جاری کی کہ کوئی سرکاری فائل مجھ تک نہ لائی جائے، میں اب
چیئرمین نہیں ہوں، ایوان کا وقار برقرار نہیں رکھ سکتا تو مجھے عہدے پر
بیٹھنے کا حق نہیں، انہوں نے استعفے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ میں استعفے
کیلئے تیار ہوں‘‘۔ وفاقی وزراء کے رویے پر چیئرمین سینیٹ کی برہمی اور
سینیٹ کا اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کئے جانے سے ملک میں آئینی بحران
کا خدشہ پیدا ہوگیاتھا۔ جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن)، اے این پی اور ایم کیو
ایم نے چیئرمین سینیٹ کے اقدام کو درست قرار دیا، اور مسلم لیگ ن کے
سینیٹرنثارمحمد نے چیئرمین سینیٹ رضا ربانی سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے
اپنی سیٹ سے استعفیٰ بھی پیش کردیا ، سینیٹرنثارمحمد کے علاوہ دیگر کئی
سینیٹرز بھی استعفیٰ دینے کو تیارتھے۔ جس پروزیراعظم پاکستان میاں محمد
نواز شریف نے معاملے کے حل کیلئے کمیٹی تشکیل دی ۔ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر
اسحاق ڈار، چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کو منانے میں ناکام رہے، سپیکر قومی
اسمبلی سردار ایاز صادق نے بھی چیئر مین سینیٹ سے ٹیلیفون پر بات کی اور
کہا تھا کہ ان کی پوری کوشش ہو گی کہ نوبت میاں رضا ربانی کے استعفیٰ تک نہ
جا پائے۔ بالآخر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ہفتہ کی شام چیئرمین سینیٹ رضا
ربانی سے تیسری بار ملاقات کی، اس موقع پر سینیٹر شیری رحمان ، پی پی پی کے
سینیٹر عثمان کائرہ اور اعظم موسیٰ خیل بھی موجود تھے۔ چیئرمین سینٹ کو
وزیراعظم کی طرف سے یقین دہانی کروائی گئی کہ وزراء سینٹ کے اجلاس میں
موجود رہا کریں گے اور اس سلسلے میں وزیراعظم نے بھی ہدایت جاری کر دی ہے
اورخود اس کی نگرانی بھی کریں گے۔ جس پر چیئرمین سینٹ نے حکومت کی طرف سے
ایوان کو اہمیت دینے اور وزیراعظم کی طرف سے وزراء کے ایوان میں آنے کی
یقین دہانی کو تسلیم کرتے ہوئے ناراضگی ختم کر دی ، اوروزیراعظم کے پیغام
کے بعد مستعفی ہونے کا اپنا فیصلہ واپس لے لیا ۔ اور سینٹ کا اجلاس پیر کی
شام 4 بجے طلب کر لیا ، جس میں میاں رضا ربانی چیئرمین کی حیثیت سے فرائض
سر انجام دیں گے۔
قبل ازیں ایوان میں کارروائی کے دوران چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کا بعض
سوالات کے جوابات نہ آنے پر اور بعض وزارتوں کی طرف سے دوسری وزارتوں کو
بھجوائے گئے سوالات قبول نہ کئے جانے پر صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا۔
ایوان بالا میں وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر فرحت اﷲ بابر کا گریڈ 21اور
22کے افسران کو ریٹائرمنٹ پر دی جانے والی پنشن اور دیگر مراعات سے متعلق
سوال ایجنڈے پر تھا جس کا جواب دوسری بار ایوان کو نہیں دیا گیا۔ بلکہ
بتایا گیا کہ یہ سوال عملہ ڈویژن نے وزارت خزانہ کو منتقل کیا ہے لیکن ابھی
تک اس کی کوئی قبولیت موصول نہیں ہوئی ہے ، اس سوال کی باری آنے پر سینیٹر
فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ چیئرمین صاحب پھر اس سوال کا جواب نہیں آیا ہے اس
پر کوئی رولنگ دیدی جائے، اس پر چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ پارلیمینٹ کو اس
طرح ٹریٹ کیا جا رہا ہے ، وزیر قانون میری مدد کریں۔ اس دور ا ن او ایس ڈی
افسران کے حوالے سے سوال کے جواب میں جب وفاقی وزیر شیخ آفتاب احمد نے
بتایا کہ انہی افسران کو او ایس ڈی بنایا جاتا ہے جن کی کارکردگی صحیح نہ
ہو ، اس پر چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا
کہ ایسے افسران کو گھر بھجوا دیں ، خواہ مخواہ تنخواہیں اور مراعات لے رہے
ہیں اور پارلیمینٹ کو جواب بھی نہیں دینا چاہئے ، او ایس ڈی ہر ایک افسر
کیخلاف کیا کچھ ہے اگلے روٹر ڈے پر ایوان کو بتایا جائے۔ چیئرمین سینیٹ
میاں رضا ربانی نے کہا کہ حکومت سوالات کے ذریعے احتساب کیلئے تیار نہیں ہے۔
جس پر انہوں نے شدید ترہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ میں متعلقہ
افسران کی معطلی کیلئے حکومت کو نہیں کہوں گا بلکہ میں خود اس کیلئے رولنگ
دوں گا۔ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ ذمہ داروں کیخلاف ہاؤس کا
استحقاق مجروح کرنے پر کارروائی ہو گی۔ وزراء کی ایون بالا کے اجلاس میں
عدم شرکت کی خبریں اکثر و بیشتر سننے کو ملتی رہتی ہیں جس پر چیئرمین سینٹ
نے متعدد مواقع پر اس غیر ذمہ دارانہ رویئے اور طرز عمل کی نشاندہی کی اور
حکومت کو اصلاح احوال کیلئے توجہ دلائی جس کا حسب منشا نتیجہ برآمد نہ ہونے
پر انہیں سینیٹ رول 23 کا سہارا لے کر ایک انتہائی قدم اٹھانا پڑا۔ منتخب
فورمز پر وزراء کا اپنی حاضری کو یقینی نہ بنانا عوامی مسائل کے حل میں ان
کی عدم دلچسپی کے مترادف ہے، جس کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ وزراء اور ارکان
کو اپنے اپنے منتخب فورمز کی کارروائی میں ضرور شریک ہوناچاہئے۔ حکومت کی
زمہ داری ہے کہ انہیں اس کا پابند بنا کر ایوان کی کارروائی اور قانون سازی
کے کام میں بلاجواز رکاوٹیں دور کرے تاکہ اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ رویوں
سے ریاستی کردار کے حوالے سے کسی نئی اور ناخوشگوار صورت حال سے بچا جا سکے
، اسوقت جب ملک کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے ملک میں اقتصادی راہداری ،
آپریشن ردالفساد، خانہ و مردم شماری جاری ہے، ان حالات میں ملک کسی نئے
بحران کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ |