حکمرانوں کا دعوی ہے کہ ملک ترقی کے زینے طے کرتا ہوا اس
مقام تک جا پہنچا ہے کہ جس کا خواب دیکھنابھی ناممکن تھا تاہم ہنوز کچھ
عوامی مسائل حل طلب رہ گئے ہیں جن میں توانائی کا مسئلہ سر فہرست ہے مگر
عندیہ دیا جا رہا ہے کہ2018تک اس بحران پر بھی قابو پا لیا جائے گا بظاہر
یہی لگتا ہے کہ ہم اگلے سال چین تک کو بجلی دینے کے قابل ہو جائیں گے غالباً
گیس اور پانی کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا اور وہ تمام منصوبے جن کے فیتے کٹ
چکے ہوئے ہیں مگر زیرالتوا ہیں وہ بھی مکمل ہوجائیں گے اورپورے ملک میں
موٹرویز کا جال بچھ چکا ہو گا جبکہ رنگیلی ٹرینیں و بسیں شاہراہوں پر دوڑتی
پھرتی نظر آئیں گی مگر پرانی گاڑیوں اور ٹرینوں کی حالت کون ٹھیک کرے گا یہ
کسی نے نہیں بتایا گویا جو گذشتہ چار سال میں نہیں ہو سکا ہے وہ آنے والے
پانچ سالوں میں ضرور ہو جائے گا حکمرانوں کا کہنا ہے چونکہ پرانی حکومتوں
نے اس قدر بگاڑ پیدا کر دیا ہواہے اس کو ٹھیک کرنے کے لیے کافی سال درکار
ہیں سوال یہ ہے کہ اگرآفتاب نو طلوع ہو چکا ہے اور راوی چین ہی چین لکھ رہا
ہے تو لوگ بھوک اور ننگ کے ہاتھوں خود سوزی کے مرتکب کیوں ہو رہے ہیں ؟
پاکستان کی کوئی بھی یونیورسٹی عالمی رینکنگ میں کیوں شامل نہیں ؟ آج بھی
ہسپتالوں کے فرشوں اور سیڑھیوں پر غریب دم توڑ رہے ہیں اور کیوں کوئی پرسان
حال نہیں ہے؟ اس منہ زورمہنگائی کے حالات میں حکومتی وزرا نے اپنی تنخواہیں
کیوں بڑھائی ہیں جبکہ غریبوں کو کہا گیا کہ مہنگائی تاریخ کی کم ترین سطح
پر پہنچ چکی ہے؟ اگر امن عامہ واقعتا مثالی بن چکا ہے توآپریشن ردالفساد کی
ضرورت کیوں درپیش ہے ؟نوکریوں کی تلاش میں عوام رنجیدہ اور خوار کیوں ہیں ؟
جرائم پیشہ اور کرپٹ افراد کیوں عہدے پا رہے ہیں اور حق داروں کو کیوں نظر
انداز کیا جا رہا ہے ؟آج کیوں عزت دار وہی ہے جو زیادہ گنہگار ملزم ٹھہراہے
؟گندا پانی کیوں ملک گیر مسئلہ بن چکا ہے ؟ میرٹ کے نام پر کیوں تعلق داروں
کو فوقیت دی جارہی ہے؟اور حاضر سروس افسران پر اعتماد کرنے کی بجائے ریٹائر
شدہ اعلیٰ عہدے داران کو کیوں نوازا جا رہا ہے ؟
جناب منیر نیازی نے سچ ہی کہا تھا کہ
رہبر کو ان کے حال کی ہو کس طرح خبر
لوگوں کے درمیان، وہ آکر نہیں رہا
مسئلہ یہی ہے کہ عوام کا حال بتانے والے غیر مخلص ہیں ان کے دلوں سے خوف
خدا ختم ہو چکا ہے ویسے تو حکمرانوں کے دل اس قدر نرم ہیں کہ ہسپتالوں کی
حالت زار کا ذکر کرتے ہوئے ان کی آنکھیں نم ہو جا تی ہیں اور فوراً سے
پیشتر پچاس نئے ہسپتال بنانے کا اعلان کر دیتے ہیں تو شاید عوامی حالات
جاننے کے لیے وہی طرز حکومت اپنانا ہوگا جو خلفائے راشدین کا وطیرہ تھا
بقول حیدر علی آتش
سن تو سہی جہاں میں ہے ترا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا ،غائبانہ کیا
جبکہ یہاں تو طرز حکمرانی ایک گورکھ دھندا اور سوالیہ نشان بن رہا ہے جیسا
کہ ڈاکٹر عاصم جن پر470ارب کی کرپشن کے الزامات تھے تفصیلات کے مطابق یہ
انکشافات ہی نہیں بلکہ اعترافات بھی تھے اور یہ سب کچھ متعلقہ ویڈیو ز بھی
ثابت کر رہی تھیں کہ موصوف دہشت گردی اور کرپشن کے گٹھ جوڑ میں ریڑھ کی ہڈی
کی حثیت رکھتے ہیں مگر صرف پچاس لاکھ کی ضمانت پر آزادہوکر شاندار استقبال
کے مستحق ٹھہرے ۔شرجیل میمن جن کا نام کرپشن کیسسز میں نمایاں طور پرشامل
تھا وہ صرف بیس لاکھ کی ضمانت پر آزاد ہوئے اوراب اپنے بیانات میں حکومت
سمیت سب کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں ،رنگے ہاتھوں گرفتار ہونے والی منی
لانڈرنگ کی ملزم ایان علی آزادہو کر ملک سے باہر جا چکی ہے حاجیوں کے ساتھ
فراڈ کرنے والے مبینہ ملزم حامد سعید کاظمی جیل سے نہ صرف باہر آچکے ہیں
بلکہ ان کی اس آزادی کو حق کی جیت قرار دیا گیا ہے اور سبھی کچھ چھوڑیں
جناب آصف علی زرداری نیب سمیت حکومت کو للکارا اور تخت لاہور سمیت تمام
اضلاع کی بنیادیں ہلانے کا اعلان کیا مگر سب خاموش رہے بلکہ انھیں پروٹوکول
او رزیادہ عزت دی جارہی ہے یعنی ایسا کوئی قانون ہی نہیں ہے جو شہ زور اور
طاقتور کو سزا دے کیونکہ اشرافیہ کے ہر مسئلے کا حل ـ’’تگڑا وکیل ‘‘ اور
قصہ ختم باقی ثبوت اور دوسرے تمام گواہان کو وہ خود سنبھال لیتا ہے ایسے
میں خان صاحب کو یقین ہے کہ پاناما کا فیصلہ ملکی کرپشن کا خاتمہ کر دے گا
اور اشرافیہ کو بھاگنے کا موقع نہیں ملے گا مجھے خان صاحب کی خوش فہمی پر
اپنا ہی ایک شعر یاد آگیا ہے
منتظر ہے وہ اک تماشے کا
اور بازی ادھر پلٹ گئی ہے
صورتحال یہ ہے کہ پاناما وہ سرنامہ بن چکا ہے کہ جس میں نہ درد بچا ہے اور
نہ ہی کوئی ترنگ باقی ہے اگر بچا ہے تو حنوط شدہ فیصلہ جس کا تابوت جس دن
کھلا کسی نہ کسی کاسانس لینا محال ہوجائے گا مگر فی الحال غائبانہ امداد کے
تقاضے پورے کر رہا ہے یعنی کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ پانامہ لفافہ کھلے ایک
سال مکمل ہو گیا ہے ماسوائے پاکستان پاناما لیکس میں نامز د تقریبا ًتمام
سربراہان مستعفی ہو چکے جبکہ یہاں ایک سال کی شنوائی اور اعلیٰ عدلیہ کی
کاروائی کے بعد بھی فیصلہ محفوظ کر لیاگیا ہے جس پر تمام سیاسی ،صحافتی اور
سماجی حلقوں میں مختلف قسم کی قیاس آرائیاں عروج پر ہیں ویسے ایک بیان
سیاسی اور سماجی حلقوں میں بہت گردش کر رہا ہے جوکہ قابل فکرہے کہ’’
پاکستان میں تقریبا ًسب کچھ غیر محفوظ ہے صرف پانامہ کیس کا فیصلہ محفوظ ہے
‘‘ واقعی ملکی حالات کسی سے چھپے ہوئے نہیں ہیں اس پر بھی حکومت کا اطمینان
اور ترقی کا دعوی بلا شبہ سوالیہ نشان ہے جناب ناصر ملک نے ٹھیک کہا ہے کہ
عزم ِحاکم جواں، اس لیے رہ گیا
اس نے بیٹے کی میت اٹھائی نہیں
اب جب کہ ایک سال سے عوام کی نگاہیں سپریم کورٹ کی طرف لگی ہوئی ہیں تاہم
فیصلہ نہ آنے کی کوئی ٹھوس وجہ سامنے نہیں آسکی جس کی وجہ سے عوامی اعتماد
بھی متزلزل ہو رہا ہے اور قوم ذہنی تناؤ کا شکار ہورہی ہے کیونکہ انصاف
کرنے میں دیری سے مراد انصاف کرنے سے انکاری ہونا ہے ویسے وزیر اطلاعات و
نشریات کی طرف سے یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ ہم یہ فیصلہ خدا کی عدالت
میں رکھیں گے اور سرخرو ہونگے اوریکے بعد دیگرے دئیے گئے بیانات سے یہی
ثابت ہوا کہ
ہم کوئے ملامت سے گزر آئے ہیں یارو
اب نہ چاک رہا ہے نہ گریباں رہا ہے
ویسے وزیر اطلاعات سے یاد آیا چند دن پہلے ٹی وی سمیت سوشل میڈیا پر ایک
ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وزیر اطلاعات و نشریات کی والدہ انڈوں سے ان کی
نظر اتارتی دکھائی دیں تو خیال گزرا اگر انڈوں سے واقعی نظر بد سے بچا جا
سکتا ہے تو عوام انڈوں سے نظر اتاریں شاید کہ اس بار بچ بچاؤ ہو جائے
کیونکہ انتخابی تیاریاں بھی عروج پر پہنچ چکی ہیں اورشنید ہے کہ آنے والے
فیصلے کی روشنی میں متوقع تیاری بھی کر لی گئی ہے جو کہ مسلم لیگ ن کی گرتی
ہوئی ساکھ کو سنبھالا دینے میں مدد دے گی ویسے بھی پنجاب کو مسلم لیگ ن کا
گڑھ مانا جاتا ہے باالفرض فیصلہ خلاف بھی آجاتا ہے تو بھی کیا ہوگا ؟اصل
سوال تو یہ ہے کہ اس سب تگ و دو کے نتیجہ میں لیت و لعل سے کام لینے میں
عوام کو کیا فائدہ ہوگا ؟
اسی وجہ سے حکمران تو ظاہر کر رہے ہیں کہ عوام کو تو اس فیصلے سے کوئی لینا
دینا ہی نہیں ہے حالانکہ پاناما جنگ جو کہ عوامی جنگ تھی اور عوام حساب
چاہتے تھے وہ انتہائی عیاری سے پارٹیوں کی جنگ بنا دی گئی ہے اور ایسے
بیانات داغے جا رہے ہیں کہ فیصلہ اﷲ کی عدالت میں ہے اور یہ کہ خان صاحب
منہ کی کھائیں گے جبکہ خان صاحب کہتے ہیں کہ وہ آخری سانس تک یہ جنگ لڑیں
گے بلاشبہ خوابوں کو امر کرنے میں تخیلاتی افکار اور ماورائی طاقتیں ماضی
سے اپنا تصور رکھتی ہیں جبکہ حقائق منشائے الہی اور کاوش انسانی سے مربوط
ہوتے ہیں خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں مگر خوابوں کو حقیقت کے آئینے
میں دیکھنے والے اکثر ہمیشہ خسارے میں رہتے ہیں کچھ ایسا ہی تحریک انصاف کے
قائدین کے ساتھ ہو رہا ہے ویسے بظاہر اگر تحریک انصاف کی سیاست کا جائزہ
لیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ خان صاحب اور ان کے رفقا ء نے بے مقصد اور بے
تحاشا بول بول کر اپنی وقعت گھٹا لی ہے در حقیقت میڈیا نے خان صاحب کو
پبلسٹی کا ذریعہ بنا لیا ہے کہ وہ سانس بھی لیں تو ایک خبر بن جاتی ہے اب
اسی سے اندازہ لگا لیں کہ پی ایس ایل کی انعقاد سے لیکر اختتام تک خان صاحب
کے تمام بیانات غیر ضروری اور افسوسناک تھے تو بقول شخصے اگر اس ملک کے
تبصرہ نگار اور صحافی خان صاحب کے بیانات کو غیر ضروری اہمیت نہ دیں تو ان
بیانات کی کوئی اہمیت نہیں ہے مگر میڈیا کا کاروبار بھی خان صاحب کے نام سے
چلتا ہے کہ ان کا کوئی نام بھی لے لے تو وہ بھی ہیرو بن جاتا ہے اس سے ثابت
ہوتا ہے کہ ان کی عوامی پسندیدگی کا عالم خوب ہے مگر لیڈر کون خوب ہے یہ
کہنا مشکل ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ موسی ؑنے جس راستے سے دریا پار کیا
تھا فرعون اسی راستے پر غرق ہوا یعنی طے ہوا کہ راستے نہیں بچاتے بلکہ رہبر
کامل ہوتے ہیں جبکہ بد قسمتی سے ہمیں ایسے راہبر ملے ہیں جنھیں ’’مال بٹورو
اور زندہ بھاگ جاؤ ـ‘‘ کی سیاست کے سوا کچھ نہیں آتا بدیں وجہ ہم آج بھی
وہیں کھڑے ہیں جہاں کل کھڑے تھے بلکہ ہمارے مسائل اور قرضوں میں مسلسل
اضافہ ہو رہا ہے یہ مقام افسوس نہیں تو اورکیا ہے کہ ہمارے حکمران پاناما
لیکس میں نامز د ہیں اور ہم اپنی شاہراہوں کو گروی رکھ رہے ہیں لینن نے کہا
تھا کہ کوئی بڑا لیڈر اس وقت بنتا ہے جب اختیار و طاقت ملنے کے بعد اپنے
ذاتی و خاندانی مفادات کو قربان کر کے عوام کی فلاح و بہبود کو ترجیح دے تو
ایسے میں لیڈر کون ہے ؟ ایسا کون ہے جو ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح
دیتا ہے ؟ ایسا کون ہے جو تعلق داروں کو نوازنے سے زیادہ حق داروں کو
نوازنا ضروری سمجھتا ہے ؟ یہی تو مسئلہ ہے کہ سیاست جو کہ ایک مقدس پیشہ
اور عظیم عبادت تھی اسے چند مفاد پرستوں اور زمانہ ساز سیاستدانوں نے گالی
بنا دیا ہے ایسے ہی سیاستدانوں میں سے کچھ ایسے تھے جنھوں نے جب دیکھا کہ
ان کے ہاتھ کچھ نہیں آرہا تو وہ خان صاحب کے گرد اکٹھے ہوگئے اور انھوں نے
اسے حق کی جیت سمجھاجس کاـ’’ باغی‘‘ نے بغاوت کر کے خوب تماشا بنایا اور اب
ایسے بھی سبھی منتظر ہیں کہ کب میاں نامہ ان کے نام آ تا ہے ویسے اس میں
برائی بھی نہیں کیونکہ سیاست دل سے نہیں دماغ سے کی جاتی ہے اور دل جذبات
کا مرکز ہے جبکہ دماغ مصلحت اور مفادات کا خیال رکھتا ہے ایسے میں سیاسی
کھیل وہی جیتے گا جوپرانا کھلاڑی ہوگا تاوقتیکہ مقدر آڑے نہ آجائے ویسے
دوسری طرف خان صاحب آج کل گدھوں کی خرید و فروخت پر کام کر رہے ہیں ایک خبر
گرم ہے کہ کے پی کے گورنمنٹ نے دو لاکھ گدھے چین برآمد کر کے زر مبادلہ
کمانے کا پروگرام بنا لیا ہے ویسے تشویشناک تو یہ ہے کہ دوسرے ممالک کو بھی
پتہ چل گیا ہے کہ پاکستان میں بہت سے گدھے ہیں بس خطرہ یہ ہے کہ کہیں گدھا
سیاست ہی شروع نہ ہو جائے-
بہر حال نمائشی اقدامات سے بہتری نہیں آئے گی اس مقصد کے لیے حکومت کا فرض
ہے کہ بے قابو حالات اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے رویے پر نظر ثانی
کر کے قوم کے حالات کو سنوارنے کی کوشش کرے اگر پاکستانی عوام بنیادی
سہولتوں کے حصول میں مطمئن ہو جائیں تو یہی عوام ایک مضبوط قوم بن جائے گی
اور پھر ہر طرح کی ترقی خود بخود نظر آنا شروع ہو جائے گی حکومت پر لازم ہے
کہ عوام کو بے رحم حالات سے نجات دلانے اور عوام الناس کا عتماد بحال کرنے
اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے بجائے عوامی فلاح و بہبود اور ملکی وقار و
سالمیت پر توجہ دے ۔آج جبکہ یورپئین طاقتیں مسلمانوں کو آڑے ہاتھوں لے رہی
ہیں تو اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ہمارے حکمران اقتدار کی جان نہیں
چھوڑتے اور اپنے مفادات کی خاطر قانون و انصاف کی دھجیاں اڑانے میں مصروف
ہیں ۔اگر مفاد پرستوں کو چھوڑ کر اخلاص سے کام لیں گے تو عوام کے دلوں پر
راج کریں گے اور دنیا میں عزت دار بنیں گے ۔ |