ریڈیو،اسٹیج ،ٹی وی اور فلم کے معروف ورسٹائل فنکار معین اختر (مرحوم ) کی یاد میں !

پرائیڈ آف پرفارمنس یافتہ ( ملٹی ٹیلنٹڈ فنکار معین اختر کی چھٹی برسی کے موقع لکھی گئی خصوصی تحریر )

ریڈیو ،اسٹیج ،ٹی وی اور فلم کے شعبے میں اپنی منفرد اداکاری سے لوگوں کے دلوں پر راج کرنے والے ورسٹائل فنکار معین اختر24 دسمبر1950 کوکراچی میں اردو اسپیکنگ کشمیری والدین کے گھر پیدا ہوئے ۔معین اختر کے والدین پاکستان بننے کے بعد بھارتی شہر ممبئی سے ہجرت کرکے پاکستان آگئے تھے معین اختر ایک طویل عر صہ سے عارضہ قلب میں مبتلا تھے اور ان کا بائی پاس آپریشن بھی ہوچکا تھا۔22 ،اپریل 2011 کوکراچی میں 60 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیااور آج جبکہ ملک بھر میں اس ملٹی ٹیلنٹڈ فنکار کی چھٹی برسی منائی جارہی ہے ۔ راقم نے اس موقع کی مناسبت سے معین اختر مرحوم کے فن اور شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرنے اورفن اور فنکار وں سے محبت کرنے والے قارئین کے لیئے یہ خصوصی مضمون تحریر کیا ہے تاکہ پاکستان کے اس بے مثال فنکار کے بارے میں لوگ زیادہ سے زیادہ جان سکیں اور انہیں اندازہ ہوسکے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں معین اختر کو کس قدر مقبولیت اور عزت حاصل رہی اور آج جبکہ وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود ان کا نام اور کام لاکھوں دلوں میں زندہ ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اچھا اور سچا فنکار کبھی نہیں مرتا اس کا فن اس کے نام کو ہمیشہ زندہ رکھتا ہے۔

معین اختر کی موت سے دنیائے فن کا ناقابل تلافی نقصان ہوا اور فن کی دنیا ایک بہت بڑے حقیقی پرفارمر سے محروم ہوگئی۔وہ جتنے بڑے فنکار تھے اتنے ہی اچھے انسان بھی تھے اور لوگوں کے بہت کام آیا کرتے تھے۔جب عمران خان ،شوکت خانم ہسپتال بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے تو معین اختر نے ان کا بھر پور ساتھ دیا ۔معین اختر کی نمازہ جنازہ ملیر کینٹ کراچی کی ’’توحیدمسجد‘‘ میں سابق گلوکار جنیدجمشید نے پڑھائی جس میں معین اختر کے رشتہ داروں،دوستوں،فنکاروں اور ہزارروں مداحوں نے شرکت کی جس کے بعد معین اختر کوملیر کینٹ کے قبرستان میں سبپرد خاک کردیا گیا۔وہ اپنی آخری سانس تک فن کی دنیا سے وابستہ رہے اورجب ان کا انتقال ہوا تو ان دنوں بھی وہ کئی ٹی وی چینلز کے مختلف پروگراموں میں کام کررہے تھے۔ان کی موت سے کامیڈی اور اداکار ی کا ایک درخشاں باب بند ہوگیا۔
پاکستانی کامیڈینز میں جو شہرت،عزت اور کامیابی پرائیڈآف پرفارمنس یافتہ معین اختر کوملی وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے وہ ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ فنکار اورفن کی دنیا کے بے تاج بادشاہ تھے انہوں نے بحیثیت صدا کار،گلوکار،اداکار، کمپیئر، مصنف،میزبان اور ہدایتکار کے طور پر شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرکے ساری دنیا سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔وہ ایک پیدائشی فنکار تھے جنہوں نے اپنے لڑکپن کے زمانے سے ہی شوبز کی دنیا میں قدم رکھ دیا تھا انہوں نے اپنی ابتداء ایک صداکار کے طور پر کی اور اس زمانے میں وہ مختلف اسیٹیج شوز اور گھریلو محفلوں میں اپنے گلے سے مختلف نوعیت کی آوازیں نکال کر لوگوں کو حیرت زدہ کردیا کرتے تھے اور اس حوالے سے ان کا اس میدان میں کوئی مد مقابل نہیں تھا ،وہ مختلف فنکاروں کے لب ولہجے کی نقل بھی بہت کامیابی سے اتارا کرتے تھے اس کے علاوہ وہ کار کا دروزہ بند ہونے کی آواز،جہازوں کے اڑنے اور بم گرانے کی آوازیں،مشین گن چلنے کی آواز،فائر کی آواز،پانی کے نلکے سے بالٹی میں پانی گرنے کی آواز،ٹرین کے چلنے کی آواز،مختلف جانوروں کی آوازیں بہت کامیابی سے نکالا کرتے تھے اور اس فن میں خصوصی مہارت کی وجہ سے وہ فنکشنوں میں بلائے جاتے تھے بلکہ اس زمانے میں ان کی اس منفرد صداکاری کی آڈیو کیسٹس کی بھی بہت ڈیمانڈ تھی اور معین اختر کی اسٹائلش صداکاری والی یہ آڈیو کیسٹس گھر گھر سنی جاتی تھیں،پھر معین اختر نے گلوکاری بھی شروع کردی اور نامور گلوکاروں کی آوازوں میں گانے گا کر بھی بہت شہرت حاصل کی اور یہی شہر ت آخر کار ان کو اسٹئیج اور پھر ٹی وی تک لے گئی جہاں پہنچ کر انہوں نے اپنی خدادا د صلاحیتوں کے بل بوتے پر اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ دیئے۔

انہوں نے اداکار و ہدایتکار عمر شریف کے مشہور زمانہ اسٹیج ڈرامے ’’بکر ا قسطوں پر‘‘ کو اپنی منفرد اداکاری سے بام عروج پر پہنچا دیا۔معین اختر کے مشہور ٹی وی ڈراموں میں ’’انتظار فرمایئے ،آنگن ٹیڑھا،روزی،عید ٹرین،بڈھا گھر پر ہے اور ہاف پلیٹ جسیے معرکتہ الآراء ڈرامے شامل ہیں اس کے علاوہ ٹی وی کے بہت سے کامیڈی شوز جن میں ’’اسٹوڈیوٹو،سٹوڈیو ڈھائی،یس سر نو سر،شو ٹائم ،لیاری کنگ، اور لوز ٹاک جیسے مشہور زمانہ شوزان کے کریڈٹ پر ہیں جن کی وجہ سے معین اختر کو بین الاقوامی سطح پر شہرت حاصل ہوئی۔اس کے علاوہ انہو ں نے پی ٹی وی کے مشہور شو’’ ضیامحی الدین شو‘‘میں بھی پرفارم کیااور کئی بار پی ٹی وی ایوارڈز کی تقریب کی میزبانی بھی کی۔معین اختر نے فلم’’مسٹر K-2 ‘‘ اور فلم’’سب کا باپ‘‘ میں بھی کام کیا لیکن اس فیلڈ میں انہیں کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔

معین اختر نے اپنے فنی کیرئر کا آغاز 6 ستمبر 1966 کوپاکستان کے یوم دفاع کے موقع پر ایک تقریب میں پرفارمنس سے کیا۔معین اختر کو اردو،انگریزی،سندھی،پنجابی ،بنگالی ،میمنی ،گجراتی اور پشتو زبانوں پر عبور حاصل تھا۔معین اختر نے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرنی ممالک میں بھی اپنی صلاحیتوں کو منوایاانہوں نے کئی شہرہ آفاق اور بین الاقوامی نوعیت کے پروگراموں کی میزبانی بھی کی۔وہ ایک عر صہ سے عارضہ قلب میں مبتلا تھے اور ان کا بائی پاس آپریشن بھی ہوچکا تھا، ان کو اچانک جمعہ کے روز دل کا دورہ پڑا تو ان کو ہنگامی طور پر سی ایم ایچ ہسپتال لایا گیاجہاں تما م کوششوں کے باوجود جو جانبر نہ ہوسکے ۔ان کی اداکاری سے کامیڈی اور اداکار ی کا ایک درخشاں باب بند ہوگیا۔مرحوم نے تین بیٹوں،دوبیٹیوں اور ایک بیوہ کو سوگوار چھوڑا ہے۔معین اختر کی موت سے دنیائے فن کا ناقابل تلافی نقصان ہوا اور فن کی دنیا ایک بہت بڑے حقیقی پرفارمر سے محروم ہوگئی۔وہ جتنے بڑے فنکار تھے اتنے ہی اچھے وہ انسان بھی تھے اور لوگوں کے بہت کام آیا کرتے تھے۔جب عمران خان ،شوکت خانم ہسپتال بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے تو معین اختر نے ان کا بھر پور ساتھ دیا ۔معین اختر کی نمازہ جنازہ ملیر کینٹ میں اداکی گئی اورسینکڑوں سوگواروں کی موجودگی میں ان کوملیر کینٹ کے قبرستان میں سبپرد خاک کردیا گیا۔وہ اپنی آخری سانس تک کئی ٹی وی چینلز کے مختلف پروگراموں میں کام کررہے تھے۔انتقال کے وقت ان کی عمر 60 سال تھی۔

پاکستان کے کامیڈی کرنے والے فنکاروں کی فہرست میں معین اختر کا نام سب سے نمایاں ہے جنہیں بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی یوں تو معین اختر نے اسٹیج اور ٹی وی پر بہت سے فنکاروں کے سا تھ کام کیا لیکن انہیں سب سے زیادہ انورمقصود اور بشرہ انصاری کے ساتھ پسند کیا گیا ۔انورمقصود اور معین اختر نے مشترکہ طور پر ٹی وی کے لیئے طویل ترین عرصے تک چلنے والا کامیڈی شو’’ لوز ٹاک ‘‘ بھی کیا جس میں معین اختر نے سینکڑوں بہروپ بھرے کامیڈی شو کے ہر پروگرام میں معین اختر ایک نیا بہروپ بھرا کرتے تھے اور ہر روپ میں معین اختر کی پرفارمنس لاجواب ہوا کرتی تھی معین اختر اور انور مقصود کا یہ کامیڈی شو آج بھی گھر گھر بہت شوق سے دیکھا جاتا ہے ۔معین اخترپرفارمنس کے دوران اسکرپٹ سے ہٹ کر برجستہ جملے بولنے کی وجہ سے بھی بہت پسند کیئے جاتے تھے وہ بلا کے حاضر جواب تھے اور سچویشن کے لحاظ سے فی البدیہ جملہ کسنا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔معین اختر نے ایک کامیڈین کے طور پر لہری کی طرح اپنی برجستگی اور شگفتہ مزاجی کا اسٹائل اختیا ر کیا اور پڑھے لکھے طبقے میں بہت زیادہ پسند کیئے گئے انہوں نے اپنے پورے فلمی کئیرئر میں کبھی رنگیلا اسٹائل کی اداکاری نہیں کی انہوں نے اپنی جسمانی حرکات سے نہیں بلکہ اپنے برجستہ جملوں اور حاضر جوابی سے شہرت اور عزت حاصل کی ۔پی ٹی وی کا شہرہ آفاق ڈرامہ ’’روزی ‘‘ان کے کیرئیر کا اہم ترین ڈرامہ تھا اس ڈرامے میں وہ ایک عورت بنے تھے اور اس کردار میں انہوں نے اپنی شاندار اداکاری سے جان ڈال دی تھی ان کا میک اپ ،گیٹ اپ اور اداکاری لاجواب تھی یہی وجہ ہے کہ یہ ڈرامہ بے حد مقبول ہوا ۔انہوں نے اداکاری کرنے علاوہ خود بھی متعدد ڈرامے لکھے اور ایک فلم کی ہدایتکاری بھی کی۔برصغیر میں معین اختر کو ایک لیجنڈ کا درجہ حاصل تھا اور ان کو پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت میں بھی بہت شہرت حاصل تھی۔وہ ہر طرح کا کردار ادا کرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے انورمقسود کے ساتھ ٹی وی کے کامیاب کامیڈی پروگرام’’لوز ٹاک‘‘ میں اتنے زیادہ بہروپ بھرے اور اتنی بڑی تعداد میں مختلف کرداروں کو ادا کیا ہے کہ شاید ہی پاکستان میں کسی اور فنکار نے اتنے مختلف کرداروں میں اداکاری کی ہو۔کامیڈی ٹاک شو’’لوز ٹاک‘‘ اے آر وائی ٹی وی چینلز سے 2005 میں شروع ہواجوبہت پسند کیا گیااس کے400 سے زائد پروگرام نشر ہوئے جس میں ہر پروگرام میں معین اختر ایک نئے گیٹ اپ کے ساتھ بالکل نئے کردار میں انٹرویو دینے کے لیئے آیا کرتے تھے اور اس پروگرام میں ان کا انٹرویو لینے والے انورمقصود ہوا کرتے تھے ،طنزومزاح سے بھرپور اس کامیڈی ٹاک شو میں معین اختر کی اداکاری دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے اس میں انہوں نے بہت سی نامور شخصیات کی نقل بھی بہت کامیابی کے ساتھ اتاری۔اس ریکارڈ بریکر پروگرام کے مصنف اور میزبان انورمقصود ،معین اختر سے انٹرویو کیا کرتے تھے اور معین اختر مختلف شخصیات اور کرداروں کے گیٹ اپ میں ان کے طنزومزاح سے لبریز جملوں کا بہت برجستہ جواب دیا کرتے تھے اس موقع پر معین اختر کے چہرے کے تاثرات اور باڈی لینگویج بھی دیکھنے کی چیز ہے۔معین اختر اور انورمقصود کی نوک جھونک سے سجا ہوا یہ پروگرام پڑھے لکھے طبقے میں بہت مقبول ہوا۔اس کے علاوہ معین اختر نے ایک ٹی وی گیم شو’’کیا آپ بنیں گے کروڑ پتی‘‘ کی میزبانی بھی بہت کامیابی سے کی ،واضح رہے کہ یہ پروگرام انگریزی پروگرام’’Who wants to be a Millionaire? ‘‘ اور بھارتی گیم شو’’کون بنے گا کروڑپتی‘‘ کی طرز کا تھا جسے معین اختر نے بہت عمدگی کے ساتھ ہوسٹ کیا تھا۔معین اختر کو ان کی اعلیٰ فنی کارکردگی کے اعتراف میں1996 میںDallas کی اعزازی شہریت بھی دی گئی تھی۔

معین اختر نے جن ڈراموں اور شوز میں کام کیا ان کے میں،روزی،ہیلوہیلو،انتظارفرمائیے،ڈالر مین،مکان نمبر47 ،ہاف پلیٹ،فیملی 93 ،عیدٹرین،بندرروڈسے کیماڑی،سچ مچ،آنگن ٹیڑھا،بے بی،رفتہ رفتہ،لوز ٹاک،گم،اسٹوڈیو ڈھائی،اسٹوڈیو ٹو،ہریالے بنے،شو ٹائم،سچ مچ پارٹ ٹو،کچھ کچھ سچ مچ،سچ مچ کی عید،نوکر کے آگے چاکر،یس سر نوسر،چارسوبیس،ففٹی ففٹی،شوشا،اسٹوڈیو پونے تین اور معین اختر شو وغیرہ شامل ہیں اس کے علاوہ ایک صدار کار اور گلوکار کے طور پر بھی معین اختر کی کئی البمز ریلیز ہوئیں جن میں معین اختر نے جو گیت گائے ان میں ،چھوڑ کر جانے والے،چوٹ جگر پر کھائی ہے،رورو کے دے رہا ہے ،تیرا دل بھی یوں ہی تڑپے،درد ہی صرف دل کوملا،دل رو رہا ہے اور ہوتے ہیں بے وفا جیسے گیت شامل ہیں جن میں معین اختر نے فن گائیگی کا عمدہ مظاہر ہ کیا۔ جبکہ ایک کمپیئر اور میزبان کے طور پر معین اختر کو جورڈن کے بادشاہ حسین،گیمبیا کے پرائم منسٹرداؤدی الجوزا،پاکستانی صدر جنرل یحییٰ خان ،پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو،صدر غلام اسحاق خان ،پاکستانی صدر جنرل ضیاالحق،جنرل پرویز مشرف اور معروف بھارتی اداکار دلیپ کمار نے اپنے ذاتی مہمان کی طور پر بلایا اور ان کی قدر افزائی کی۔
اسٹیج اور ٹی وی کی شہرت نے ان کو فلموں تک پہنچا دیا لیکن فلم کے میدان میں وہ زیادہ کامیاب نہیں رہے جبکہ ان کے ہم عصر فنکار عمر شریف نے اسٹیج اورٹی وی کے ساتھ فلموں میں بھی کافی کامیابی حاصل کی۔انہوں نے چند فلموں میں کام کیا جن میں سے ایک فلم انہوں نے خود بھی پروڈیوس کی لیکن فلمی دنیا ان کو راس نہ آئی اور وہ بہت جلد دوبارہ اسٹیج اور ٹی وی کی طرف لوٹ آئے۔معین اختر کو ان کی اعلیٰ پرفارمنس کی وجہ سے بہت سے ایوارڈز بھی ملے جن میں پاکستان کا سب سے بڑا سرکاری اعزاز’’تمغہ برائے حسن کارکردگی‘‘ اور تمغہ امتیاز بھی شامل ہیں۔معین اختر کے فن کی شہرت برصغیر سے نکل کر ساری دنیا میں پھیل چکی تھی اور باہر کی دنیا میں انہیں ایک نامور پاکستانی فنکار کے طور پر پہچانا جاتا تھا یہی وجہ ہے کہ ان کے انتقال کے بعد سندھ میں ایک خوبصورت پارک کو معین اختر سے منسوب کیا گیا جس کے بعد اب یہ خبریں سننے میں آرہی ہیں کہ لندن کے مشہور زمانہ ’’مادام تساؤ‘‘میوزم میں ان کا مومی مجسمہ بنا کر نصب کیا جائے گا ،واضح رہے کہ اس بین الاقوامی شہرت یافتہ میوزم میں دنیا بھر کے نامور فنکاروں اور سیاسی شخصیات کے مومی مجسمے بنا کر انہیں خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے ،پڑوسی ملک بھارت کے تو کئی فنکاروں کے مومی مجسمے وہاں نصب کیئے جاچکے ہیں لیکن اب تک کسی پاکستانی فنکار کا کوئی مجسمہ وہاں موجود نہیں ہے اور اگر موصولہ خبروں کے مطابق معین اختر کا مومی مجسمہ مادام تساؤمیگزین میں لگادیا جاتا ہے تو یہ معین اختر اورپاکستان کے لیئے بہت بڑا اعزاز ہوگااور معین اختر وہ پہلے پاکستانی فنکار ہوں گے جن کا مومی مجسمہ مادام تساؤ میوزم کی زینت بنے گا۔

معین اختر کے انتقال پر سماجی اورثقافتی حلقوں کے ساتھ سیاسی حلقوں کی بڑی بڑی نامور شخصیات نے بھی گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے انہیں زبردست الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ معین اختریڈیو،ٹی وی،اسٹیج اورفلم کی دنیا کا بہت بڑا نام تھا ان کا انتقال نہ صرف پوری پاکستانی قوم بلکہ پوری دنیا میں فن کے مداحوں کے لیئے ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔ معین اختر کے حوالے سے بہت سے فنکاروں کے تاثرات پڑھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر معین اختر کے فن اور شخصیت کو لوگ کتنا پسند کیا کرتے تھے ،آج ان کی چھٹی برسی کے موقع پر معین اختر کے بارے میں مشہور فنکاروں کے تاثرات قارئین کی دلچسپی اور معلومات میں اضافے کے پیش نظر ذیل میں تحریر کیئے جارہے ہیں۔
نامور فلم اسٹار مصطفی قریشی نے معین اختر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ:’’معین اختر واقعی چاہے جانے کے لائق تھا اور اس کے ہر کام میں ایک مقصدیت ہوتی تھی چاہے وہ کامیڈی ہو،ڈرامہ ہو،کمپیئرنگ ہویا وہ کوئی تحریر لکھتا ہو ان سب چیزوں میں ایک مقصد ہوتا تھا جس سے ہم اچھی طرح واقت تھے اور ہم سب کو اس کا یہ مشن آگے لے کر جانا چاہیئے۔معین نے مجھ سے اسٹیج پر کام کروادیا حالانکہ میں فلم کا بندہ تھا۔اﷲ اس کی مغفرت فرمائے وہ پورے برصغیر کو ویران کرگیا ہے اس کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ اب شاید ہی پر ہوسکے‘‘۔

فلموں اور ٹی وی کے مقبول اور کامیاب اداکار فلمسٹار ندیم نے کہاکہ:’’معین اختر کی تعریف کے لیئے جتنا بھی کچھ کہا جائے وہ کم ہے،وہ اداکاری ،کامیڈی اور کمپئیرنگ میں طاق انسان تھا،ہم نے ایک ساتھ کافی عرصہ گزارا ہے لیکن ایک ساتھ کام زیادہ نہیں کیا۔میں معین سے کہا کرتا تھا کہ تمہار انام معین اختر نہیں معین ایکٹر ہونا چاہیئے تھا ،وہ بہت زبردست فنکار تھا جو کچھ وہ کیمرے کے سامنے کیا کرتا تھا اور جو کچھ وہ کیمرے کے پیچھے کرتا تھا وہ ہم سب جانتے ہیں اس لیئے ہم سب کو اس کے فلاحی مشن کو آگے لے کر چلنا چاہیے اور معین کی طرح لوگوں کی مدد کرنے کے لیئے اپنے طورپر بھی کچھ کرنا چاہیئے ۔معین اسٹیج پر جب کسی آرٹسٹ کو بلاتا تھا چاہے وہ آرٹسٹ بڑا ہو یا چھوٹا وہ اس کو بڑی اپنائیت اور عزت کے ساتھ بلاتا تھا،معین کو مرحوم کہنے کو دل نہیں چاہتاکیونکہ اس کی یادیں آج بھی دل میں موجود ہیں وہ ہمیشہ ہم میں رہے گا‘‘۔

موجودہ دور کے مشہور فنکار فیصل قریشی نے کہا کہ:’’معین بھائی میرے مارننگ شو میں آئے اور بہت افسردہ باتیں کیں جبکہ اس وقت ان کی صحت بھی بہت گری ہوئی لگ رہی تھی ہم معین بھائی کے مشن کو یوں آگے بڑھا رہے ہیں کہ ہم کچھ فنکاروں نے مل کر فنکاروں کی فلاح وبہبود کے لیئے ایک تنظیم بنائی ہے جس کے پلیٹ فارم سے ہم مستحق فنکاروں کی مدد کیا کریں گے۔اس نیک کام میں میرے ساتھ سعود ،اعجاز اسلم اور دیگر فنکار شامل ہیں‘‘۔

ٹی وی کی مشہور فنکارہ دردانہ بٹ نے کہا کہ:’’میرا معین اختر سے 40 سال سے تعلق تھاوہ اور میں روحانی دوست بھی تھے اس کی تعریف کیا کروں جہاں ساری دنیا وی تعریفیں ختم ہوتی ہیں وہیں سے معین کی تعریف شروع ہوتی ہے۔معین مجھے ڈوڈی کہہ کر بلاتا تھا۔وہ ہمیشہ حقوق العباد کی بات کیا کرتا تھا فنکاروں کی فلاح وبہبود کے لیئے سوچا کرتا تھا۔وہ پاکستان کو اپنی ماں کہا کرتا تھااور اس ملک سے اسی طرح پیار کیا کرتا تھا‘‘۔

مشہور گلوکار تحسین جاویدنے معین اختر کے حوالے سے کہا کہ:’’معین اختر بہت دور ملیر ہالٹ میں رہا کرتے تھے جہاں ہم بھی مشکل سے جاپاتے تھے لیکن ان کے جنازے میں اتنے زیادہ لوگوں کا ہجوم دیکھ کر یہ اندازہ ہوا کہ لوگ ان سے کتنا پیا رکیا کرتے تھے اور اگر یہ جنازہ بیچ شہر ہوتا تو کیا حال ہوتا ،و ہ میرے ہر کام میں آگے آگے رہتے تھے اورمیری فیملی کا کام وہ فوراً کردیتے تھے‘‘ ۔تحسین جاوید نے معین اختر کی یاد میں ایک مشہور گانا بھی گنگنا کر سنایا جس کے دوران ان کی آنکھ بھر آئی،اس گانے کے بول تھے کہ:تجھے اپنے دل سے میں کیسے بھلادوں تیری یاد ہی تو میری زندگی ہے۔

اسٹیج اور ٹی وی کے مشہور فنکار شکیل صدیقی نے کہا کہ:’’میں پہلی بار امریکہ معین بھائی کے ساتھ ہی گیا تھا اور ان کا بیگ بھی میں اٹھایا کرتا تھا لیکن معین بھائی نے مجھے منع کیا کہ میں ایسا نہ کیا کروں وہ بہت اچھے اور دوستوں کو چاہنے والے انسان تھے کوئی آرٹسٹ کسی مشکل میں پھنس جاتا تو معین بھائی ہمیشہ اس کے کام آیا کرتے تھے،اﷲ ان کی مغفرت کرتے ہوئے ان کو جنت میں بلندمقام عطا فرمائے‘‘۔
اسٹیج اور ٹی وی کے آرٹسٹ علی حسن نے کہا کہ:’’معین اخترمیرے استادوں میں سے تھے ،بہت کمٹمنٹ والے آدمی تھے ،انہوں نے انڈیا کے ایک پروگرام کے آٹھ شو صرف دبئی کے ایک پروگرام کے لیئے چھوڑ دیئے تھے کیونکہ انہوں نے دبئی میں پہلے سے معاہدہ کیا ہوا تھا‘‘۔

ٹی وی پروڈسراورہدیتکار اقبال لطیف نے کہا کہ :’’میرا معین کے ساتھ 50 سال سے تعلق تھا،بچپن سے ہم ایک دوسرے کے ساتھ پڑھے اور بڑھے ہیں۔معین نے اسٹیج کا راستہ چنا اور میں نے ہدایتکاری کا،اس نے اے آر وائی سے ’’لوزثاک‘‘ جیسا کامیاب شو کیا جو انورمقسود نے لکھا اور میں اس کا ایگزیکٹیو پروڈیوسر تھا اور ہم تینوں نے یہ پروگرام بہت محنت اور لگن سے کیا‘‘۔

Fareed Ashraf Ghazi
About the Author: Fareed Ashraf Ghazi Read More Articles by Fareed Ashraf Ghazi : 119 Articles with 142504 views Famous Writer,Poet,Host,Journalist of Karachi.
Author of Several Book on Different Topics.
.. View More