پاکستان کی دھرتی انتی زرخیز ہے کہ اس میں جنم لینے والے
سپوت زندگی کے ہر شعبے میں اپنی خداداد صلاحتیں منوا کر دنیا بھر میں وطن
عزیز کا نام روشن کرتے آئے ہیں۔ یوں تاریخ کی کتابیں ایسے سپوتوں سے بھری
پڑی ہیں لیکن اس وقت میں ایک ایسی ذہین، جرات منداور قائدانہ صلاحیتوں کا
حامل شخصیت کا تعارف کروانا چاہتا ہوں جن کو دنیا ئیر وائش مارشل (ر) فاروق
عمر کے نام سے جانتی ہے۔ ائیر وائس مارشل (ر) فاروق عمر کی تمام تر زندگی
جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ لڑکپن ہی سے ان کی اٹھان دوسرے بچوں سے یکسر مختلف
اور برتر تھی۔ آگے بڑھنے کا جذبہ، بلندیوں پر پہنچانے کا ارادہ انہیں دوسرے
تمام ’’ہیروز‘‘ سے ممتاز اور منفرد بناتا ہے۔ ائیر وائس مارشل (ر) فاروق
عمر پاکستان ائیر فورس کے وہ عظیم ہیرو ہیں جنہوں نے نہ صرف ۱۹۶۵ء کی پاک
بھارت جنگ میں بھارتی فضائیہ کو اپنی جرات اور بہادری کے طفیل ناقابل تلافی
نقصان پہنچایا بلکہ ۱۹۷۱ء کی جنگ میں بھی انہوں نے کئی بھارتی جنگی جہازوں
کو ماگرا کے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اس جرات اور بہادری کے صلے میں
انہیں نہ صرف ہلال امتیاز (ملٹر)، ستارہ جرات، ستارہ امتیاز (ملٹری)، ستارہ
بسالت ملا بلکہ تمغہ بسالت سے بھی نوازا گیا۔ اتنے اعزازات حاصل کرنا شاید
ہی کسی اور شخص کے نصیب میں لکھا ہو۔
گزشتہ دنوں ائیر وائس مارشل (ر) فاروق عمر ، بطور خاص اردو ڈائجسٹ کے دفتر
واقع ۳۲۵۔جی تھری جوہر ٹاؤن لاہور تشریف لائے۔ اردو ڈائجسٹ کے ایگزیٹو
ایڈیٹر جناب طیب اعجاز قریشی، محمد اسلم لودھی غلام سجاد کے ساتھ تقریبا دو
گھنٹے پر مشتمل طویل نشست ہوئی جس میں سابق ائیر وائس مارشل (ر) فاروق عمر
نے اپنی زندگی کے مختلف گوشوں، مختلف شعبوں اور میدان جنگ میں ہونے والی
کامیابیوں کی داستان سنائی۔ پُر اثر اور ذہنوں کی مبہوت کردینے والی یہ
داستان محب وطن پاکستانی کے لیے مثال اور اہم دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔
اردو ڈائجسٹ کے قارئین کے لیے یہ داستان شجاعت پیش خدمت ہے۔
فاروق عمر ۲۴ جولائی ۱۹۴۱ء کو فیصل آباد کے محلہ طارق آباد کے ایک مذہبی
گھرانے میں پیدا ہوئے۔ دینی تعلیم اپنی والدہ ماجدہ اور مسجد نور کے امام
سے حاصل کی۔ پانچویں تک آپ برن ہال (Burn Hall)گرائمر پبلک اسکول ایبٹ آباد
میں زیر تعلیم رہے۔ مزید تعلیم کا حصول آپ کو لاہور کے مشہور سینٹ انتھونی
ہائی اسکول لے آیا۔ نمایاں پوزیشن حاصل کرنے کے بعد آپ سنٹرل ماڈل اسکول
لاہور میں داخل ہوئے۔ وہاں سے میٹرک کا امتحان ہائی فرسٹ ڈویژن سائنس گروپ
میں پاس کر کے عظیم تعلیمی درسگاہ گورنمنٹ کالج لاہور پہنچے۔ دوران تعلیم
ایک ساتھ طالب علم ائیر فورس کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا جسے دیکھ کر آپ
نے بھی تیاری شروع کی۔ وہ تو ائیر فورس کے امتحان میں کامیاب نہ ہوسکا لیکن
آپ آئی ایس ایس بی میں بہترین گریڈ حاصل کر کے پاکستان ائیر فورس میں شامل
ہو گے۔ ۱۹۵۷ء میں آپ رسالپور اکیڈمی پہنچے۔ جون ۱۹۶۰ء میں گریجوایشن کے وقت
بیک وقت Sword of Honor, Best Pilot Trophy and Academics Trophyحاصل کی جو
ایک ریکارڈ ہے۔ جنگی مہارت کے کئی کورسز مکمل کیے جن میں Fighter Leader
School, Masoor Bse Karachi ۱۹۷۱ء میں Top Gun Award بھی حاصل کیا۔
گرایجوایشن کے بعد اور ان کورسوں کے بعد آپ سکوارڈن نمبر 5 (Fighter
Squardron Number 5) سے منسلک ہوگئے۔ ابتدائی دنوں میں آپ کراچی شفٹ ہوگئے۔
جہاں ان دنوں ’’رن آف کچھ‘‘ کے محاذ پر بھارتی فوج پاک سرزمین پر یلغار کر
رہی تھی۔ وہاں پاک فوج کی مدد کا فریضہ آپ کے سکوادرن کو سونپا گیا۔ آپ نے
اسٹار فائٹر کی حیثیت سے کئی فضئای مشن کامیابی سے مکمل کیے اور بھارتی
فضائیہ کو جنگ میں مداخلت سے باز رکھا۔ ایک طرف پاک فوج دشمن کے چھکے چھڑا
رہی تھی تو دوسری جانب پاکستان ائیر فورس کے غیور ہواباز اپنی جرات اور
مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے بھارتی ائیر فورس کا ناطقہ بند کیے ہوئے تھے۔
معرکہ ’’رن آف کچھ‘‘ میں کامیابی کے بعد آپ کو سرگودھا بیس پر تعینات کر
دیا گیا۔ وہاں آپ کو ایک دلیر اور بہترین لڑاکا ہواباز کی شکل میں کمانڈر
انچیف ائیر مارشل نور خان کی سرپرستی میں دفاع وطن کے تقاضے پورے کرنے کا
موقع ملا۔ ائیر مارشل نور خاں نہ صرف بہادر انسان تھے بلکہ فلائنگ کے بے حد
شوقین اور خطرات سے بے نیاز دشمن پر جھپٹنے کا پختہ عزم رکھتے تھے۔ ایک دن
ائیر کموڈور ڈوگر (ستارہ جرات) نے حکم دیا کہ فاروق کشمیر میں حالات تیزی
سے خراب ہورہے ہیں کسی بھی وقت تمہاری ضرورت پڑ سکتی ہے۔ چناں چہ ذہنی طور
پر کسی بھی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہو۔
آپ تو پہلے ہی ایسے مواقع کی تلاش میں تھے جہاں بھارتی ائیر فورس کے ساتھ
دو دو ہاتھ کیے جا سکیں۔ انہیں دنوں کشمیر میں ایک واقعہ رونماہوا۔ جنرل
اختر علی ملک بھارتی فوج کو شکست فاش دیتے ہوئے جب کشمیر کی طرف اکھنور
سیکٹر میں تیزی سے پیش قدمی کررہے تھے تو بھارتی فضائیہ کے جنگی طیاروں نے
ان پر حملہ کر دیا۔ جونہی حملے کی اطلاع سرگودھا ائیر بیس پہنچی تو سکواڈرن
لیڈر سرفراز رفیق اور فلائٹ لیفٹیننٹ بھٹی نے ایف ۸۶میں جا کر نہ صرف
بھارتی طیاروں کو مار گرایا بلکہ پاک فوج کو فضائی چھتری بھی فراہم کر دی۔
پھر ہائی کمان کی جانب سے جنرل اختر علی ملک کو روک کر جنرل محمد یحییٰ خان
کو اکھنور کی جانب پیش قدمی کرنے کا حکم جاری ہوا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے
کہ اکھنور بھارتی فوج کی وہ شہ رگ ہے، اگر اسے دبا دیا جائے تو سارا کشمیر
پلیٹ میں رکھ کر پاکستان کی گرفت میں آسکتا ۔ چناں چہ حکمت عملی کے تحت
اکھنور پر قبضے کو ضروری سمجھا گیا۔
اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے بقول امریکا نے پاکستان کو یقین
دہانی کروائی تھی کہ کسی بھی حالت میں بھارتی فوج بین الااقوامی سرحد عبور
نہیں کرے گی۔ اس یقین دہانی کے بعد ہی آپریشن جبرالٹر پر عمل درآمد شروع
کیا گیا اور پاکستان ائیر فورس کو بین الااقوامی سرحدوں سے ہٹا کر کشمیر
میں اکھنور کیجانب منتقل کر دیا گیا۔ لیکن جب بھارتی فوج کو اکھنور سیکٹر
میں واضح شکست دکھائی دی اور کشمیر ہاتھ سے نکلتا محسوس ہوا تو کسی اعلان
کے بغیر بھارتی فوج نے پاکستان کے دل لاہور پر حملہ کر دیا۔ اس حملے کا
مقصد یہ تھا کہ صبح دس بجے سے پہلے پہلے لاہور پہنچ کر بھارتی جنرنیلوں نے
لاہور جم خانہ کلب میں جام سے جام ٹکرانے اور پاکستان کو کشمیر میں پیش
قدمی کا سبق بھی چکھانے کا عہد کیا گیا تھا۔ واہگہ بارڈر پر بھارتی فوج کا
حملہ قطعی اچانک تھا۔ سرحد پر باقاعدہ فوج موجود نہ تھی۔ رینجر کے چند جوان
ڈیوٹی دے رہے تھے جن کے لیے بھارتی ڈویژن فوج کو روکنا ممکن نہ تھا چناں چہ
وہ پے در پے شہادتوں کے جام پیتے رہے اور ان کا لہو پاک سرزمین کی مٹی میں
جذب ہو کر پاکستانی قوم کو نئی توانائی بخشتا رہا۔ آپ نے مزید گفتگو کرتے
ہوئے بتایا کہ ابھی جنگ کا بین الااقوامی سرحدوں پر آغاز نہیں ہوا تھا لیکن
حفظ ماتقدم کے طورپر ۵ ستمبر ۱۹۶۵ء کو مجھے ائیر ڈیفنس کی جانب سے حکم ملا
کہ میں امر تسر شہر کے اوپر سپر سونک (Super Sonic) دھماکا کروں اور دشمنوں
کے دلوں پر دہشت و ہیبت بٹھا دوں۔ اس دھماکے کا واحد مقصد یہ تھا کہ بھارتی
ائیر فورس کو بتا دیا جائے کہ پاکستان ائیر فورس مقابلے کے لیے تیار ہے۔ جب
میں ۱۰ ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتا ہوا سرگودھا سے لاہور پہنچا، تو
میری رفتار ۵۴۰ ناٹ تھی۔ میں آہستہ آہستہ نیچے آتا چلا گیا تا کہ امر تسر
کا ریڈار (Radar)مجھے دیکھ نہ سکے۔ پھر جیسے ہی میں نے ۹۰ ڈگری پر سرحد
عبور کی تو امر تسر شہر میرے سامنے تھا۔ میں نے Full after Burnerآن کر کے
۲۲۰ فٹ کی بلندی پر جہاز کی رفتا ر بڑھائی اور امر تسر کو نشانہ بناتے ہوئے
تقریباً ۲۵۰ فٹ کی بلندی پر امر تسر شہر کے اوپر پرواز کی۔ اس دوران امر
تسر ائیر فیلڈ پر نصب بھارتی توپوں نے مجھے مارنے کی کوشش کی، لیکن ان کے
گولے میری تیز رفتاری کی وجہ سے میرے پیچھے رہتے رہے۔ سپر سونک بوم نے بہت
دہشت پھیلا ئی اور اردگرد عمارتوں کے شیشے توڑدیے، مٹی کا طوفان پیدا ہوا،
گاڑیاں الٹا دیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ مشن مکمل کرنے کے بعد مجھے آرڈر ملا کہ
دوبارہ سیکنڈ اٹیک کرو! لہٰذا میں حملہ کرنے کے لے مڑا، تو میں نے دیکھا کہ
اس دفعہ بھارتی توپیں میرے لیے تیار تھیں اور انہوں نے ایک توپ کے گولوں کی
چھتری بچھائی ہوئی تھی، آسمان سرخ تھا اور گزرنے کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔
لیکن میں نے اﷲ کا نام لے کے اس گولوں کی چھتری میں گھس گیا اور گولے میرے
اوپر، نیچے، میرے دائیں بائیں سے گزرتے رہے لیکن میں نے پرواہ نہ کی اور
اپنا مشن مکمل کیا۔ (جسے اﷲ رکھے اسے کون چکھے) مشن مکمل کرنے کے بعد اپنی
رفتار میں اضافہ کرتے ہوئے سرگودھا کا رخ کیا اور بھارتی ائیر فورس کی
مداخلت کے بغیر میں بحفاظت سرگودھا لینڈ کر گیا، تو میں نے آل انڈیا ریڈیو
پہ سنا ’’آج پاکستان کے آٹھ سیبر طیاروں (Sabre Jets) نے راکٹ اور گنز کے
ساتھ امرتسر پر حملہ کیا۔ جبکہ اصل میں ایک نہتا اسٹار فائٹر تھا۔ اس سے
ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی سونک بوم کی وجہ سے بوکھلا گئے اور یہ بھی ظاہر ہوا
کہ وہ بزدل ہیں۔ ۶ ستمبر کو جب بھارتی فوج نے لاہور کے محاذ پر حملہ کیا،
تو سرحد خالی ہونے کی بنا پر بی آر بی تک پیش قدمی کرتے پہنچ گئی۔ انہیں اس
وقت ہڈیارہ ڈرین بیدیاں روڈ کی جانب میجر شفقت بلوچ کی کمپنی نے ۱۰ گھنٹے
تک روکے رکھے۔ برکی، واہگہ اور سائفن کا علاقہ خالی تھا جہاں پاک فوج کا
کوئی جوان موجود نہیں تھا۔ جب حملہ ہوا، تومیجر عزیز بھٹی کی قیادت میں بی
آر بی کے کنارے ہنگامی طور پر مورچے کھود کے پاک فوج کے جوان جنگ میں مصروف
ہو گئے۔ جبکہ سائفن کی جانب میجر حبیب اپنے ساتھیوں کے ساتھ بھارتی فوج کی
پیش قدمی روکنے کے لیے پہنچ چکے تھے۔
میجر عزیز بھٹی نے بی آربی پر مورچہ بندی کر لی تو میجر شفقت بلوچ اپنے
جوانوں سمیت پیچھے آگئے لیکن انہوں نے صرف ۱۱۰ جوانوں سے پورے بھارتی
بریگیڈکو دس گھنٹے تک روک کے دنیا کی عسکری تاریخ میں اپنا نام سنہرے لفظوں
سے لکھوا لیا جن کو دو مرتبہ ستارہ جرات عطا کیا گیا۔ اﷲ تعالیٰ کی تائید
وحمایت اور پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے ۶ ستمبر کو اپنی جانوں کا
نذرانہ پیش کرکے بھارتی فوج کا لاہور پر قبضے کا ابتدائی خواب چکنا چور کر
دیا۔ اب باقاعدہ جنگ شروع ہو چکی تھی۔ پاکستان ائیر فورس بھی باقاعدہ جنگ
میں کودف پڑی۔ ونگ کمانڈر سجاد حیدر سیبر فائٹر جہازوں کے ساتھ پٹھان کوٹ
کے ہوائی اڈے پر حملہ آور ہوئے۔ اس حملے میں عباس خٹک ، دلاور حسین بھی
شریک تھے جو بعد میں ائیر چیف مارشل اور ائیر مارشل کے عہدوں تک پہنچے۔
پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے پر روسی مگ ۲۱ جنگی جہاز حملے کے لیے تیار کھڑے تھے
جو روس نے بطورخاص بھارت کو دیے تھے۔ یہ جدید ترین سہولتوں سے آراستہ جہاز
پاکستان ائیر فورس کے پاس موجود جنگی جہازوں سے کہیں زیادہ مؤثر، متحرک اور
فن حرب میں اپنی مثال آپ تھے۔ اسی لیے ہائی کمان کی جانب سے حکم دیا گیا کہ
پٹھان کوٹ پر روسی طیاروں پر حملہ کر کے انہیں اڑنے سے پہلے ہی راکھ کا
ڈھیر بنا دیا جائے۔ ہمارا یہ مشن بہت کامیاب رہااور پاکستان ائیر فورس کے
طیاروں نے پٹھان کوٹ ائیر فیلڈ پر روسی مگ ۲۱ جہازوں کو تباہ کر دیا۔ یہ
جارحانہ حملہ بھارتی ائیر فورس کے لیے بڑے صدمے کا باعث تھا۔
اس حملے کے بعد بھارتی جہازوں نے سرگودھا پر حملہ کیا۔ جہاں میں اور فلائٹ
لیفٹیننٹ عارف اقبال ایف ۱۰۴ اسٹار فائٹر میں پہلے سے فضامیں موجود تھے۔
دوسری جانب خطرے کو بھانپتے ہوئے سکواڈرن ایم ایم عالم بھی اپنے ساتھی ہوا
باز سمیت فضا میں نمودار ہوگئے۔ جونہی بھارتی جہاز سرگودھا کی حدود میں
داخہ ہوئے تو انٹی ائیر کرافٹ گنوں نے فائر داغنے شروع کر دیے۔ ریڈار چینل
پر ایم ایم عالم ہم سے پہلے بھارتی جہازوں کے تعاقب میں پہنچ چکے تھے۔ وہ
شعلے اگلتی اینٹی ائیر کرافٹ گنوں کی پروا نہ کرتے ہوئے بھارتی طیاروں پر
جھپٹ پڑے اور دو منٹ کے اندر اندر پانچ بھارتی جہازمارگرائے یہ بھارتی ائیر
فورس کا آدم پور اور ہلواڑہ سے پہلا جارحانہ حملہ تھا جو بری طرح ناکامی سے
ہمکنار ہوتا۔
اس فارمیشن کی ناکامی کے بعد مزید جنگی طیاروں نے سرگودھا ائیر بیس پر کھڑے
دو پاکستانی جنگی طیاروں پر حملہ کر دیا۔ ان میں سے ایک جہاز تباہ ہو گیا
جبکہ دوسرا محفوظ رہا۔ جوابی کاروائی کے لیے میں نے ساتھی ہواباز کے ساتھ
بھارتی طیاروں کا تعاقب کیا لیکن وہ اپنے اڈوں پر پہنچنے میں کامیاب ہو
گئے۔ پھر چھے کینبرر بھارتی بمبار جہازوں نے رات کے اندھیرے میں یلغار کی
تو ان کے ساتھ آنکھ مچولی چلتی رہی، لیکن جب بھی ہم ان کو گرفت میں لا کر
تباہ کرنے لگتے تو وہ نہایت آسانی سے ہمارے چنگل سے بچ نکلتے۔ اس واقعے اور
گہری سوچ بچار کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ بھارتی جنگی طیاروں کو
امرتسر ریڈار سے راہنمائی ملتی ہے۔ یہ ہیوی ڈیوٹی ریڈار Russian 3D نے
بھارت کو دیا تھا۔ ہائی کمان نے فیصلہ کیا کہ اس روسی ریڈار کو ہر صورت
تباہ کیا جائے تا کہ پاکستان پر حملے کی غرض سے آنے والے بھارتی طیاروں کو
اس ریڈار سے راہنمائی نہ مل سکے اور حملے سے پہلے ہی ہم ان کی گردن دبوچ
سکیں۔
ریڈار حملے کے لیے ونگ کمانڈر انور شمیم (بعد میں چیف آف ائیر سٹاف) فلائٹ
لیفٹیننٹ منیرالدین احمد،فلائٹ لیفٹیننٹ سیسل چودھری اور ایسکورٹ امجد حسین
پر مشتمل فضائی سرفروشوں کے قافلے نے سرگودھا سے پرواز کی۔ یہ کاروائی اس
قدر جارحانہ انداز میں کی گئی کہ بھارتی فضائیہ کو مقابلے کی جرات نہ ہوئی
اور امر تسر کے روسی ریڈار کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا جس کے بعد
بھارٹی فضائیہ یتیم ہو کر رہ گئی۔ اب اکثر بھارتی ہوا باز اپنے ہوائی اڈے
سے حملے کی غرض سے اڑتے ضرور لیکن وہ حملہ آور ہوئے بغیر بہی ڈرکے واپس چلے
جاتے۔
پھر ہائی کمان کو اطلاع ملی کہ بے شمار فوجی گاڑیاں ٹینک اور توپیں جی ٹی
روڈ پر سرحد کی جانب آرہی ہیں۔ چناں چہ سکواڈرن سجاد حیدر کی قیادت میں
فلائٹ لیفٹیننٹ محمد اکبر، فلائٹ لیفٹیننٹ دلاور حسین، فلائٹ لیفٹیننٹ غنی
اکبر، فلائٹ لیفٹیننٹ خالد لطیف، فلائنگ آفیسر محمد ارشد چودھری اور فلائٹ
لیفٹیننٹ فاروق عمر نے بھارتی سرحد عبور کی اور نیچی پرواز کرتے ہوئے
بھارتی فوج کے اس قافلے کو منٹوں میں راکھ ڈھیر بنا دیا۔
لاہو رکی جانب پیش قدمی روکنے کے بعد بھارتی فوج نے سیالکوٹ کی جانب چونڈہ
کے محاذپر پانچ سو ٹینکوں سے یلغار کر دی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ کسی
بھی محاذپر ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ تھی۔ بھارتی مشن تھا کہ سیالکوٹ کو
کچلتے ہوئے گوجرانوالہ کے قریب پہنچ کر پاکستان کی ریلوے لائن پر قبضہ کیا
جاتا اور خاکم بدہن شمالی پاکستان کو دوحصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ بھارتی
فوج کو یہ گمان بھی نہیں تھا کہ ۵۰۰ ٹینکوں سے کیا جانے والا یہ حملہ کبھی
ناکام بھی ہو سکتا ہے۔ پاک فوج کے نڈر جوان بدن سے بم باندھ کر ٹینکوں کے
نیچے گھس گئے اور انہیں رائی کے گالوں کی طرح فضا میں اڑایا۔ ادھر پاک فوج
کے شدید ترین حملوں نے بھارتی فوج کی کمر توڑ دی اور چونڈہ کا محاذ بھارتی
ٹینکوں کا قبرستان بن گیا۔
ایک دن مجھے اور فلائٹ لیفٹیننٹ عباس مرزا کو حکم ملا کہ شکر گڑھ کے نزدیک
دو بھارتی طیارے موجود ہیں ان کو حملے سے روکا جائے۔ ہم دونوں بہت تیزی سے
شکر گڑھ کی جانب بڑھے تو وہاں بھارتی طیارے تعداد میں چھے سے بھی زیادہ نظر
آئے۔ پاک فضائیہ کے دلیر اور نڈر ہواباز فلائٹ لیفٹیننٹ یوسف علی خاں تنہا
ہی ان سے مقابلہ کر رہے تھے۔ تعداد میں زیادہ ہونے کی بنا پر فلائٹ
لیفٹیننٹ یوسف علی خاں کے طیارے کو نقصان پہنچ چکا تھا لیکن انہوں نے جان
کی پروا نہ کرتے ہوئے مقابلہ جاری رکھا۔ جیسے ہی ہم وہاں پہنچے تو بھارتی
طیارے ہمیں دیکھ کر بھاگ نکلے اور اﷲ کے فضل و کرم سے فلائٹ لیفٹیننٹ یوسف
علی بحفاظت سرگودھا ائیر بیس پر اترنے میں کامیاب ہو گئے۔ اسی طرح ۹ ستمبر
کی صبح گیارہ بجے اطلاع ملی کہ پسرور کے علاقے میں دو بھارتی جہاز حملہ آور
ہیں، ان کا تعاقب کیا جائے۔ فلائٹ لیفٹیننٹ حکیم اﷲ (بعد میں ائیر چیف
مارشل) نے سرگودھا سے پرواز کی اور پسرور کے علاقے میں ان کے سروں پر پہنچ
گئے۔ بھارتی ہواباز حملہ کیے بنا ہی بھاگنے لگے تو فلائٹ لیفٹیننٹ حکیم اﷲ
نے ان پر حملہ کر دیا اور ڈرکے مارے وہ بجائے لڑنے کے پسرور کے ناکارہ رن
وے پر اپنی جان بچانے کے لیے لینڈ کر گئے۔ نیہ نیٹ (Gnat) جہاز اب بھی پاک
فضائیہ کے عجائب گھر میں دیکھا جاسکتا ہے۔
اسی طرح ہائی کمان سے حکم ملا کہ آدم پور اور ہلواڑہ کے ہوائی اڈوں کی
تصویریں بنائی جائیں تاکہ وہاں کے حالات کے مطابق مشن تشکیل دیے جاسکیں۔
ہمارے پاس قدرے پرانی (R T-33) جہاز تھے جن کو بھارت کے اندر دور تک بھیجنا
بھی خطرے سے خالی نہ تھا۔ چناں چہ ایف ۱۰۴ دو نشستوں والے جہاز پر میں،
اسکواڈرن لیڈر مڈل کوٹ اور فلائٹ لیفٹیننٹ آفتا ب عالم دستی کیمرے باری
باری لیے مشن پر روانہ ہوئے۔ جب ہم نیچی پرواز کرتے آدم پور پہنچے تو جہاز
کو آواز کی رفتار تک تیز کر لیا تا کہ بھارتی ہنٹر طیارے ہمیں پکڑ نہ سکیں۔
آدم پور کے اوپر پہنچ کر جہا ز کو الٹا کر کے اڑایا گیا تاکہ کیمرہ پورے
ہوائے اڈے کی تصویریں بآسانی بنا سکے۔ اگلے دن یہی کاروائی ہلواڑہ کے ہوائی
اڈے کے اوپر دہرائی گئی جو نہایت کامیاب رہی۔
اسی دوران ہا ئی کمان کو اطلاع ملی کہ اسلحے سے بھری ایک گاڑی گرداسپور
ریلوے اسٹیشن پر کھڑی ہے جو سر حد کی جانب بھارتی فوج کو اسلحہ سپلائی کرنے
جارہی ہے۔ اسکوارڈن لیڈر علاؤ الدین اپنے تین ساتھی ہواباز وں کے ہمراہ اس
مشن پر روانہ ہوئے اور گرداسپور کے ریلوے اسٹیشن پر کھڑی اسلحے سے بھری
گاڑی کو آگ کے شعلوں میں نہلادیا۔ بھارتی فضائیہ کو ہمت نہیں ہوئی کہ
مقابلے کے لیے نکلے لیکن سکوارڈن لیڈر علاؤ الدین جب نیچی پرواز کرکے یہ
جائزہ لے رہے تھے کہ آیا گاڑی کا کوئی ڈبا تباہ ہونے سے بچ تو نہیں گیا، تو
ایک گولہ سکوارڈن لیڈر علاؤ الدین کے جہاز کو آ لگاجس سے جہاز میں آگ لگ
گئی۔ سکوارڈن لیڈر علاؤ الدین نے پیرا شوٹ کے ذریعے چھلانگ تو لگا دی لیکن
بھارتی فوج نے انہیں گرفتار کر کے گولی مار کر شہید کر دیا۔ انہیں بعد از
شہادت ’’ستارہ جرات‘‘ سے نوازا گیا۔
یہ ۱۹ ستمبر کی بات ہے کہ چار بھارتی جنگی جہاز لاہور پر حملہ آور ہوئے، تو
سکوارڈن لیڈر چنگیزی کی قیادت میں فلائٹ لیفٹیننٹ ملک جیلانی، امان اﷲ خان
اور فاروق عمر نے بھارتی جنگی جہازوں کی سرکوبی کے لیے سرگودھا سے پرواز
کی۔ لاہور کی فضا میں بھارتی طیارے ہماری دسترس میں آتے تو نیچے چھتوں پر
کھڑے لاہور کے زندہ دلان شہری دکھائی دیتے۔ ہم اس لیے بھارتی طیارے پر فائر
نہ کر سکتے تھے کہ نیچے ہماری معرکہ آرائی دیکھنے والے شہری بہت بڑی تعداد
میں اپنے گھروں کی چھتوں پر تھے ہمیں اس وقت حیرت ہوتی کہ موت کا خوف نہ تو
ہمیں تھااو رنہ ہی لاہو ر کے غیور عوام کو۔
اس دوران ملکہ ترنم نور جہان نے اپنے ملی نغموں کی بوچھاڑ جاری رکھی جس سے
فوجیوں کے حوصلے مزید بلند رہے۔ جب بھی ہمارے جہاز بھارتی جہازوں کے تعاقب
میں پہنچتے، تو وہ اپنے ہواباز کی جرات اور بہادری کی داد تالیاں بجا کر
دیتے ۔ اس سے ہمارا حوصلہ بڑھتا او رہم موت کے خوف سے بے نیاز پاک سرزمین
کی حفاظت کے لیے تابڑتوڑ حملے کرتے۔ ۶۵ء کی جنگ ختم ہوگئی لیکن بھارتی فوج
اور فضائیہ کو پتا چل گیا کہ پاکستان ان کے لیے تر نوالہ نہیں بلکہ فولاد
کا چنا ہے جسے چباتے ہوئے دانت ٹوٹ بھی سکتے ہیں۔
جنگ ختم ہونے کے بعد بھی یہ احساس ہوا کہ امریکہ پر بھروسہ نہ ہی کیا جائے
کیونکہ عین اس وقت جبکہ جنگ عروج پر تھی اس نے فاضل پرزہ جات کی سپلائی بند
کر دی۔ ہم ائیر چیف مارشل محمد اصغر خان کی دوراندیش حکمت عملی کی وجہ سے
کسی بڑے بحران سے محفوظ رہے کہ انہوں نے وقت سے پہلے مطلوبہ پرزہ جات اچھی
مقدار میں محفوظ کر لیے تھے جس کی وجہ سے ہماری جنگی صلاحت میں کمی واقع نہ
ہوئی۔ امریکا کے ناپسندیدہ رویے کو پیش نظر رکھتے ہوئے ائیر مارشل نورخان
نے عوامی جمہوریہ چین سے مگ ۱۹ اور مگ ۱۵ ٹرینر طیاروں کے سات سکوارڈن
خریدے اور ہوا بازی تربیتیاور مرمت و بحالی کا پروگرام ترتیب دیا۔
اس وقت میں (فاروق عمر) ایف ۱۰۴ اسٹار فائٹر اور نمبر ۵ سکوارڈن کا فلائٹ
کمانڈر تھا۔ میں نے اس پروگرام کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ پہلی فلائٹ
اسٹارفائٹر اوردوسری فلائٹ کو مگ ۱۹ کا نام دیا گیا۔ پاک فضائیہ میں اسے
ایف ۶ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ابتداء میں ہمیں سخت دشواریوں کا سامنا
کرنا پڑا لیکن یہ مرحلہ بھی بالآخر طے کر ہی لیا۔ اب ہم نے چینی طیاروں کا
اڑانے اور دیگر ہوابازوں کو تربیت بھی دینے لگے۔ میں چونکہ اس وقت فلائٹ
کمانڈر تھا اس لیے دونوں قسم کے جہاز اڑانے کا مجھے موقع ملا۔ چینی جہازوں
کے انسٹرومنٹ (پرزہ جات) کی لکھائی چائینز زبان میں تھی اس لیے ہمیں سمجھنے
میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا لیکن جذبہ جوان اور عزم صمیم ہو تو ہدف مشکل
نہیں رہتا۔ ہم نے مختصر مدت میں چینی جہاز اڑانے میں مہارت حاصل کر لی جس
پر خود چینی انجینئر بھی حیران تھے۔ پھر فرانس سے میراج طیارے خریدنے کا
معاہدہ ہوا تو مجھے، ایم ایم عالم اور چند دیگر تجربے کار ہوابازوں کو
تربیت کے لیے فرانس بھیج دیا گیا جہاں ہم نے کم ترین مدت میں میراج طیارہ
اڑانے اور ہنگامی حالت درست کرنے کے طریقے سیکھ لیے۔ وہاں بھی ہمیں
فرانسیسی زبان سے واسطہ پڑا لیکن زبان کی مشکل کو ہم نے آسان کر ہی لیا۔
وہاں ہماری ملاقات اسرائیلی ہوا بازوں سے بھی ہوئی جو خود وہاں تربیت لینے
آئے ہوئے تھے۔ جب ان کا سامنا ایم ایم عالم سے ہوا، تو ان کی زبانیں گنگ ہو
گئیں۔ یہی وہ عظیم پاکستانی لڑاکا ہواباز ہے جس نے ایک منٹ میں پانچ بھارتی
جنگی طیارے گرا کے عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔ پھر ہمیں سپین کی سرحد سے
نوکلو میٹر دور جرمن بارڈر پر (Strass Brug) ائیر بیس لے جایا گیا جہاں
ہمیں دس دس گھنٹے فی پائلٹ سیمولیٹر کی مشق کرائی گئی۔
فلائنگ کی تربیت مکمل کر کے ہم پاکستان پہنچے، تو ملک میں سیاسی سرگرمیاں
عروج پر تھیں۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کی سیاسی جماعیتں ووٹروں کو ترغیب
دینے کے لیے اپنا اپنا منشور بنار ہی تھیں۔ پھر ۱۹۷۰ء کے انتخابات ہوئے اور
مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کے حالات پیدا ہوگے۔ ہمیں اس سے غرض نہیں کہ
کس سیاسی لیڈر نے کیا کردار ادا کیا، ہمیں تو اپنی ذمے داریاں ہر حال میں
نبھانی تھیں وہ ہم نبھاتے رہے۔ مشرقی پاکستان کی خانہ جنگی نے پاکستان ائیر
فورس کو اس اعتبار سے نقصان پہنچایا کہ اس میں جو بنگالی ہوا باز اور عملہ
موجو دتھا ان کو گراؤنڈ کر دیاگیا ۔ ہماری فضائیہ کی آپریشنل کمانڈمغربی
پاکستان یعنی ڈھاکہ میں تھی جبکہ ایک ایف ۸۶ سکوارڈن مشرقی پاکستان یعنی
ڈھاکہ میں بھی تھا۔ ان حالا ت میں جبکہ بنگالی اور مکتی باہنی کے لوگ
’’را‘‘ کے اکسانے پر پاکستان اور پاکستان آرمی کے خلاف ہو گئے تو نتیجہ
یقینا ہمارے خلا ف ہی نکلنا تھا۔ پھر مشرقی پاکستان میں بھارت کی جانب سے
جو مشکل حالات پیدا کیے گئے تھے، ان کا دباؤ کم کرنے کے لیے ۳ دسمبر ۱۹۷۱ء
کو مغربی سرحدوں پر پاکستان نے یلغار کر دی۔ پاک فوج کے افسروں اور جوانوں
نے ایک بار پھر جرات اور بہادری کی انمٹ داستانیں اپنی لہو سے رقم کی۔
۵ دسمبر ۱۹۷۱ء کی رات سرگودھاکی فضا میں بھارتی کینبرا طیارے نمودار ہوئے،
تو انہوں نے رسالے والا ’’سرگودھا، پشاور، سیکسر، میانوالی، شور کوٹ اور
کراچی‘‘ پر پے درپے حملے کیے۔ اس جنگ میں پاک فضائیہ کی پوزیشن ۱۹۶۵ء کی
نسبت مختلف تھی۔ لیکن ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ بھارتی جنگی طیاروں کو
حملوں سے باز رکھا جائے۔ بھارت کے پاس جدیٹیل وارنگ ریڈار کے ساتھ بمبار
طیارے موجود تھے جو ہمارے ریڈار پر دکھائی نہ دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی
طیارے ہم سے بچ کر نکل جاتے۔ ایک بار ہمیں اطلاع ملی کہ بھارتی طیارہ
پہاڑیوں کی آڑ میں چھپتے چھپاتے سیکیسر کی جانب جار ہا ہے تا کہ بمباری کر
سکے۔ میرے ساتھی فلائٹ لیفٹیننٹ نعیم عطا اس کا پیچھا کر رہے تھے۔ جب وہ
کھیوڑا سالٹ رینج کے قریب پہنچا تو اس نے ہزار فٹ کی بلند پر پرواز شروع کر
دی۔ اس اثناء میں فلائٹ لیفٹیننٹ نعمی عطا نے میزائل داغا دیا جو نشانے پر
لگا اور وہ بھارتی بمبار طیارہ پہاڑیوں میں جا گرا۔ اس طیارے کے گرنے سے
بھارتی فضائیہ کو پیغام مل گیا کہ ان کے بمبار طیارے بھی پا ک فضائیہ گرا
سکتی ہے۔
اپنے طیاروں کی تباہی کے بعد بھارتی فضائیہ نے ایک نئی تکنیک استعمال شروع
کرنا شروع کی۔ دھماکا خیز بم کی بجائے (سپائک) بم استعمال کیے جنہیں اینٹی
پرسنل بھی کہا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار سے بموں کے ٹکڑے کچھ اس انداز سے بکھر
کر رن وے میں پوست ہو جاتے کہ وہ استعمال کے قابل نہ رہتا۔ اس حالت میں
کوئی بھی گاڑی یا جہاز وہاں سے گزر نہیں سکتا تھا۔ رات کے اندھیرے میں یہ
رکاوٹیں دو ر نہ ہو پاتیں۔ خوش قسمتی سے ہمارے کسی جہاز کو نقصان نہ پہنچا
لیکن رن وے چند گھنٹوں کے لیے ناقابل استعمال ہو گیا۔ دوران جنگ ہم بھارتی
جنگی طیاروں کو اپنی تکنیک اور مہارت سے بھگاتے اور تھکاتے رہے اور ممکن حد
تک حملے سے باز رکھتے رہے لیکن ایک مرتبہ جب بڑی تعداد میں بھارتی طیارے
سرگودھا، میانوالی اورپشاور کے ہوائی اڈوں پر حملہ آور ہوئے تو واقعی
صورتحال کچھ پریشان کن ہو چکی تھی۔ میں اس وقت نگرانی پر مامو رتھا اس
دوران میرے جہاز میں نقص پیدا ہو گیا تو میں نے لینڈ کرنے کی اجازت مانگی۔
سرگودھا ائیر کنٹرول کا پیغام ملا کہ ہم پر حملہ ہو چکا ہے اس لیے میانوالی
کی طرف جائیں، جب وہاں پہنچا تو وہاں سے پشاور جانے کا پیغام ملا۔ جب میں
پشاور پہنچا تو پشاور والوں نے بھی لینڈ کرنے سے یہ کہتے ہوئے اجازت نہیں
دی کہ بھارتی طیارے حملہ آور ہو رہے ہیں اس لیے لینڈ کی سہولت فراہم نہیں
کی جا سکتی۔ جب خطرہ کچھ کم ہوا تو اجازت ملنے پر میں نے پشاور ائیر بیس پر
لینڈ کیا۔ وہاں فلائٹ لیفٹیننٹ ذوالفقارعلی اپنے میراج طیارے کے ہمراہ تھے۔
انہوں نے بھی بھارتی طیاروں کے حملے ناکام بنائے۔
پشاور سے واپسی پر میں اور فلائٹ لیفٹیننٹ ذوالفقار علی شاہ نے میراج
طیاروں کو لیے دس ہزار فٹ کی بلند پر سرگودھا کا رخ کیا تو ریڈار کو اطلاع
ملی کہ کوئی بھارتی فارمیشن نظر آئے تو بتائیں تاکہ ہم انہیں مار گرائیں۔
ہم چوکنے ہو کر محو پرواز تھے جب ہم کھیوڑا کے قریب سالٹ فیلڈ رینج عبور کر
رہے تھے تو ریڈار نے بتایا کہ رسالے والا ائیر فیلڈ پر چھے بھارتی ہنٹر
طیارے حملہ کر رہے ہیں، آپ انہیں جا کر روکیں۔ ہم نے فیول ٹینک گرا کر
جہازوں کو ہلکا کیا اب دو میراج طیاروں کی چھے ہنٹر طیاروں کے ساتھ جنگ
تھی۔ ہم انہیں مارگرانے کی جستجو میں تھے اور وہ ہمیں نقصان پہنچا کر
بھاگنا چاہتے تھے۔ پھر ہمیں قدرت نے موقع فراہم کیا دھند کے باوجود ہم نے
دو طیاروں کو زخمی کیا اور باقی طیارے موسم کی آڑ لیتے ہوئے چھپتے چھپاتے
انڈیا کی طرف بھاگ نکلے۔
اس کامیاب معرکہ آرائی کے بعد ہمیں ہائی کمان کی جانب سے حکم ملا کہ
سیالکوٹ سیکٹر میں بھارتی فوج پانچ سو ٹینکوں سے حملے کرنے کی تیاری میں
مصروف ہے۔ آپ وہاں جائیں اور فوٹو ریکی مشن مکمل کر کے آئیں میں اور فلائٹ
لیفٹیننٹ ریاض شیخ نے وہاں پہنچ کر کامیابی سے کم و بیش ایک ہزار تصویریں
بنائیں او رسرگودھا پہنچ کر ائیر ہیڈ کوارٹر کو پیش کر دیں۔ پھر مجھے پٹھان
کوٹ ائیر فیلڈ کی تصویر کشی کا مشن سونپا گیا۔ یہ ایک مشکل کام تھا کیونکہ
وہاں دو سو چالیس ملی میٹر طیارہ شکن توپیں نصب تھیں اور میں اکیلا تھا۔
میزائل اور جہا ز ائیر فیلڈ کی حفاظت پہ مامور تھے اور بچنا مشکل تھا ۔
لیکن مشن ضروری تھا۔ میں پسرور کے راستے نیچی پرواز کرتا پٹھان کوٹ پہنچا
تو بھارتی گنوں نے طیارے پر گولیوں کی بارش کر دی اور مجھے گرانے کی کوشش
کی۔ پھر ایک زور دار دھماکا ہوا اور جہاز کانپ اٹھا۔ بلکہ جہاز کے انجن نے
وائبرٹ کرنا شروع کردیا کہ جیسے ابھی گر جائیگا۔ میں نے سیکیسر کے ریڈار کو
بتایا کہ میں نے مشن تو مکمل کر لیا ہے لیکن میرے جہاز میں خرابی پیدا
ہوگئی ہے، ہو سکتا ہے کہ میں بخیر واپس نہ پہنچا سکوں۔ اس لمحے میرا جہاز
جھٹکے کھا رہا تھا اور جہاز کی رفتا ۵۱۰ ناٹ تھی۔ بھارتی طیارے تب مجھے
آسانی سے گرا سکتے تھے لیکن اﷲ کے فضل وکرم سے ان کو میرے قریب آنیکی ہمت
نہ ہوئی۔ میں زگ زیگ کرتا شکر گڑھ کے راستے بخیریت سرگودھا پہنچ گیا۔ جیسے
ہی رن وے پر اتر ا تو انجن کا کمپریسر سٹال گر گیا اور جہاز کی پشت سے آگ
کے شعلے نکلنے لگے۔ جب قریب ہو کر دیا تو معلوم ہوا کہ ایک پندرہ کلو گرام
کی بڑی گدھ جہاز کے ریڈار کو ہٹ کرتی، دائیں انجن کو پھاڑتی کمپریسر کو
نقصان پہنچاتی اور فیوز لاج کو توڑتی ہوئی باہر نکل گئی۔ یہ بہت بڑا حادثہ
تھا جس سے اﷲ تعالیٰ نے مجھے محفوظ رکھا۔
ابھی بھارتی طیاروں سے ہماری آنکھ مچولی جاری تھی کہ مشرقی پاکستان بنگلہ
دیش بن گیا۔ ہم سب نے یہ خبر نہایت دکھ اور افسوس کے ساتھ سنی اور ہماری
آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
۱۹۷۱ء کی جنگ کے فوراً بعد ۱۹۷۲ء میں مجھے حکومت پاکستان نے کرنل قذافی،
صدر لیبیا کی معاونت کرنے کے لیے چھ عمدہ میراج لڑاکا ہوابازوں کے ہمراہ
لیبیا بھیجا تاکہ ہم لیبیین ائیر فورس قائم کر سکیں اور ادھر رہتے ہوئے
مصری ہوابازوں کو بھی تربیت دیں یہ ہمارے تربیت یافتہ مصری ہوا باز ہی ہیں
جنھوں نے عرب اسرائیل جنگ ۱۹۷۳ء میں عرصہ دراز کے بعد عربوں کو سائنر کینال
اور Barlev Lineکے مقام پراسرائیل کے خلاف پہلی دفعہ لڑائیوں میں فتح یاب
کیا۔ ساتھ ساتھ ہمارے تربیت شدہ ہوابازوں کی بدولت مصر نے سوئینر کینال پر
قبضہ واپس لیا۔ یہ عربوں کے لیے بہت بڑی فتح تھی جس سے سارے مسلمان ملکوں
کے سر فخر سے بلند ہوگئے۔
بعد ازاں پاکستان میں واپسی کے بعد مجھے کامرہ ائیر نوٹیکل کمپلیکس کا چیف
ایگزیکٹو اور ڈائریکٹر جنرل بنا دیا گیا۔ میرے زمانے میں کمپلیکس کے ہنر
مندوں نے قراقرم تربیتی جیٹ طیارہ تیار کیا۔ یہ پاک چین مشترکہ پروجیکٹ تھا
جواب ساری دنیا میں شہرت حاصل کر چکا۔ اسی دوران میں نے جے ایف ۱۷ تھنڈر
منصوبے کی ابتدائی بنیاد بھی رکھی جس پر پاکستان کو اب بلا شبہ فخر ہے۔
کامرہ سے رخصتی کے بعد مجھے شاہین ائیر لائن بنانے کا حکم ملا۔ مجھے شاہین
ائیر لائن کے پہلے بانی چیف ایگزیکٹو ہونے کا اعزاز حاصل ہے جو ائیر بلیو
کی طرح اچھا کام کر رہی ہے۔
دسمبر ۱۹۹۲ء میں ائیر وائس مارشل کی حیثیت سے میں پاک فضائیہ سے سبکدوش
ہوگیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وزیرا عظم میاں محمد نواز شریف کے حکم پر مجھے
گریڈ ۲۲ میں مجھے ترقی دے دی گئی۔ساتھ ہی پاکستان ائیر لائن پی آئی اے کا
سربراہ بنادیا گیا۔ پی آئی اے کو منافع بخش رکھنے کے لیے میں نے چھے ممالک
میں پروازیں شروع کرائیں تاکہ ائیر لائن کی معاشی حالت اور بزنس مضبوط ہو
سکے۔ پاکستانیوں کی دنیا کے وسیع ترنیٹ ورک تک رسائی ممکن بنائی اور مارچ
۱۹۹۶ء میں ائیر لائن کو بڑی اچھی فنانشل پوزیشن میں خیر باد کہا۔ میرے جانے
کے دو سال بعد اندر اندر ائیر لائن مالی بحران کا شکار ہونا شروع ہوئی اور
اس وقت پی آئی اے دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکی ہے۔
پی آئی اے کے ساتھ ساتھ مجھے پاکستان ہاکی فیڈریشن کا صدر بھی منتخب کیا
گیا جہاں میں نے سفارش اور رشوت کے رجحان کی سر سطح پر حوصلہ شکنی کرتے
ہوئے میرٹ کو اپنایا۔ نتیجے میں پاکستان ہاکی ٹیم ۱۹۹۴ء میں لاہو رمیں
منعقد ہونے والا عالمی چمپییئن ٹرافی جیت لی۔ اس کے بعد آسٹریلیا کیشہر
سڈنی میں ہونے والے آٹھویں ورلڈ کپ میں بھی پاکستانی ہاکی ٹیم کو گولڈ کپ
کی کامیابی حاصل کرائی اورپاکستان ہاکی ٹیم کو زیرو سے ہیرو بنا دیا۔ اس سے
چودہ سال پہلے پاکستان متواتر ہار رہا تھا۔ اس فتح کے بعد جب میں چلا گیا
تو آج تک اٹھارہ سال مزید گزرنے کے بعد پاکستان ہاکی ٹیم کو کوئی اہم فتح
حاصل نہیں کر سکی۔
۱۹۹۶ء میں پی آئی اے اور پاکستان ہاکی فیڈریشن، دونوں کو خیر باد کہہ دیا
اور اب ایک فلاحی تنظیم ’’فاروق فاؤنڈیشن‘‘ چلا رہا ہوں جو چار سال پہلے
قائم کی گئی تھی۔ اس کے تحت نوجوان نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جارہا
ہے ۔ میں مختلف کتابیں بھی لکھ رہا ہوں اور میری پہلی کتاب جو کہ نوجوانوں
کے لیے ہے جس کانام ’’Learn the Secrets of Success‘‘ہے۔ اس کا اداریہ ایم
ایم عالم ’’ہیرو آف پاکستان‘‘ نے خود اپنے ہاتھ سے لکھا۔ اس کے بعد اب میں
دوسری کتاب ’’سوانح حیات جلد اول‘‘ مکمل کر رہا ہوں۔ جو تقریباً تقریباً
پروف ریڈنگ کے مراحل پار کر رہی ہے۔ اس کے بعد مزید کتابیں لکھ کر شائع کر
وں گا۔ میرا نوجوان نسل کے لیے بس ایک ہی پیغام ہے ’’پاکستان کے لیے زندہ
رہو اور پاکستان کے لیے مرمٹو‘‘َ |