جب زندگی شروع ہوئی - حصہ 1

پہلا باب: روزِقیامت
زمین کے سینے پر ایک سلوٹ بھی باقی نہیں رہی تھی۔ دریا اور پہاڑ، کھائی اور ٹیلے، سمندر اور جنگل، غرض دھرتی کا ہر نشیب مٹ چکا اور ہر فراز ختم ہو چکا تھا۔ دور تک بس ایک چٹیل میدان تھا اور اوپر آگ اگلتا آسمان۔ ۔ ۔ مگر آج اس آسمان کا رنگ نیلا نہ تھا، لال انگارہ تھا۔ یہ لالی سورج کی دہکتی آگ کے بجائے جہنم کے اُن بھڑکتے شعلوں کا ایک اثر تھی جو کسی اژدہے کی مانند منہ کھولے وقفے وقفے سے آسمان کی طرف لپکتے اور سورج کو اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کرتے۔ جہنمی شعلوں کی لپک کا یہ خوفناک منظر اور بھڑ کتی آگ کے دہکنے کی آواز دلوں کو لرزا رہی تھی۔

لرزتے ہوئے یہ دل مجرموں کے دل تھے۔ یہ غافلوں، متکبروں، ظالموں، قاتلوں اور سرکشوں کے دل تھے۔ یہ زمین کے فرعونوں اور جباروں کے دل تھے۔ یہ اپنے دور کے خداؤں اور زمانے کے ناخداؤں کے دل تھے۔ یہ دل اُن لوگوں کے تھے جو گزری ہوئی دنیا میں ایسے جیے جیسے انہیں مرنا نہ تھا۔ مگر جب مرے تو ایسے ہوگئے کہ گویا کبھی دھرتی پر بسے ہی نہ تھے۔ یہ خدا کی بادشاہی میں خدا کو نظرانداز کر کے جینے والوں کے دل تھے۔ یہ مخلوقِ خدا پر اپنی خدائی قائم کرنے والوں کے دل تھے۔ یہ انسانوں کے درد اور خدا کی یاد سے خالی دل تھے۔

سو آج وہ دن شروع ہو گیا جب ان غافل دلوں کو جہنم کے بھڑکتے شعلوں اور ختم نہ ہونے والے عذابوں کی غذا بن جانا تھا۔ ۔ ۔ وہ عذاب جو اپنی بھوک مٹانے کے لیے پتھروں اور اِن پتھر دلوں کے منتظر تھے۔ آج اِن عذابوں کا ’یوم العید‘ تھا کہ ان کی ازلی بھوک مٹنے والی تھی۔ ان عذابوں کے خوف سے خدا کے یہ مجرم کسی پناہ کی تلاش میں بھاگتے پھر رہے تھے ۔ ۔ ۔ مگر اس میدانِ حشر میں کیسی پناہ اور کون سی عافیت۔ ہر جگہ آفت، مصیبت اور سختی تھی۔ ۔ ۔ اور ان پتھر دل مجرموں کی ختم نہ ہونے والی بدبختی تھی۔

خبر نہیں اس حال میں کتنے برس۔ ۔ ۔ کتنی صدیاں گزر چکی ہیں۔ یہ حشر کا میدان اور قیامت کا دن ہے۔ نئی زندگی شروع ہو چکی ہے ۔ ۔ ۔ کبھی ختم نہ ہونے کے لیے۔ میں بھی حشر کے اِس میدان میں گُم سم کھڑا خالی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہا ہوں۔ میرے سامنے ان گنت لوگ بھاگتے، دوڑتے، گرتے پڑتے چلے جا رہے ہیں۔ فضا میں شعلوں کے بھڑکنے کی آواز کے ساتھ لوگوں کے چیخنے چلانے، رونے پیٹنے اور آہ و زاری کی آوازیں گونج رہی ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے ہیں، گالیاں دے رہے ہیں، لڑ جھگڑ رہے ہیں، الزام تراشی کر رہے ہیں، آپس میں گتھم گتھا ہیں۔

کوئی سر پکڑے بیٹھا ہے۔ کوئی منہ پر خاک ڈال رہا ہے۔ کوئی چہرہ چھپا رہا ہے۔ کوئی شرمندگی اٹھا رہا ہے۔ کوئی پتھروں سے سر ٹکرا رہا ہے۔ کوئی سینہ کوبی کر رہا ہے۔ کوئی خود کو کوس رہا ہے۔ کوئی اپنے ماں باپ، بیوی بچوں، دوستوں اور لیڈروں کو اپنی اس تباہی کا ذمہ دار ٹھہرا کر ان پر برس رہا ہے۔ ان سب کا مسئلہ ایک ہی ہے۔ قیامت کا دن آ گیا ہے اور ان کے پاس اس دن کی کوئی تیاری نہیں۔ اب یہ کسی دوسرے کو الزام دیں یا خود کو برا بھلا کہیں، ماتم کریں یا صبر کا دامن تھامیں، اب کچھ نہیں بدل سکتا۔ اب تو صرف انتظار ہے۔ کائنات کے مالک کے ظہور کا، جس کے بعد حساب کتاب شروع ہوگا اور عدل کے ساتھ ہر شخص کی قسمت کا فیصلہ ہوجائے گا۔

یکایک ایک آدمی میرے بالکل قریب چلایا: ’’ہائے ۔ ۔ ۔ اِس سے توموت اچھی تھی۔

اِس سے تو قبر کا گڑھا اچھا تھا۔‘‘ میں اردگرد کی دنیا سے بالکل کٹ چکا تھا کہ یہ چیخ نما آواز مجھے سوچ کی وادیوں سے حقیقت کے اس میدان میں لے آئی جہاں میں بہت دیر سے گم سم کھڑا تھا۔ لمحہ بھر میں میرے ذہن میں ابتدا سے انتہا تک سب کچھ تازہ ہو گیا۔ اپنی کہانی، دنیا کی کہانی، زندگی کی کہانی۔ ۔ ۔ سب فلم کی ریل کی طرح میرے دماغ میں گھومنے لگی۔

اس بھیانک دن کے آغاز پر میں اپنے گھر میں تھا۔ یہ گھر ایک ظاہر بیں نظر کے لیے قبر کا تاریک گڑھا تھا، مگر دراصل یہ آخرت کی حقیقی دنیا کا پہلا دروازہ اور برزخ کی دنیا تھی۔ وہ دنیا جس میں میرے لیے ختم نہ ہونے والی راحت تھی۔ اُس روز مجھ سے میرا ہمدمِ دیرینہ اور میرا محبوب دوست صالح ملنے آیا ہوا تھا۔ صالح وہ فرشتہ تھا جو دنیا کی زندگی میں میرے دائیں ہاتھ پر رہا۔ اس کی قربت موت کے بعد کی زندگی میں میرے لیے ہمیشہ باعثِ طمانیت رہی تھی اور آج بھی ہمیشہ کی طرح ہماری پرلطف گفتگو جاری تھی۔ دوران گفتگو میں نے اس سے پوچھا: ’’یار یہ بتاؤ تمھاری ڈیوٹی میرے ساتھ کیوں لگائی گئی ہے ؟‘‘

’’بات یہ ہے عبد اللہ کہ میں اور میرا ساتھی دنیا میں تمھارے ساتھ ڈیوٹی کیا کرتے تھے۔ وہ تمھاری برائیاں اور میں نیکیاں لکھتا تھا۔ تم مجھے دو منٹ فارغ نہیں رہنے دیتے تھے۔ کبھی اللہ کا ذکر، کبھی اس کی یاد میں آنسو، کبھی انسانوں کے لیے دعا، کبھی نماز، کبھی اللہ کی راہ میں خرچ، کبھی خدمت خلق۔ ۔ ۔ کچھ اور نہیں تو تمھارے چہرے پر ہمہ وقت دوسروں کے لیے مسکراہٹ رہتی تھی۔ اس لیے میں ہر وقت کچھ نہ کچھ لکھتا ہی رہتا تھا۔ تم نے مجھے تھکا کر مار ہی ڈالا تھا، لیکن ہم فرشتے تم انسانوں کی طرح تو ہوتے نہیں کہ برائی کا بدلہ برائی سے دیں۔ اس لیے تمھاری اس ’برائی‘ کے جواب میں بھی دیکھو میں تمھارے ساتھ ہوں اور تمھارا خیال رکھتا ہوں ۔‘‘، صالح نے انتہائی سنجیدگی سے میری بات کا جواب دیا۔

جواب میں میں نے بھی اسی سنجیدگی سے پلٹ کر کہا: ’’تم سے زیادہ ’برائی ‘میں نے الٹے ہاتھ والے کے ساتھ کی تھی۔ وہ میرا گناہ لکھتا، مگر میں اس کے بعد فوراً توبہ کر لیتا۔ پھر وہ بے چارہ اپنے سارے لکھے لکھائے کو بیٹھ کر مٹاتا اور مجھے برا بھلا کہتا کہ تم نے مٹوانا ہی تھا تو لکھوایا کیوں تھا۔ آخرکار اس نے تنگ آ کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اس شخص سے میری جان چھڑ ائیں۔ اس لیے موت کے بعد سے اب تم ہی میرے ساتھ رہتے ہو۔‘‘

یہ سن کر صالح نے ایک زوردار قہقہہ لگایا۔ پھر وہ بولا: ’’فکر نہ کرو حساب کتاب کے وقت وہ پھر آجائے گا۔ قانون کے تحت ہم دونوں مل کر ہی تمھیں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کریں گے ۔‘‘

یہ بات کہتے کہتے اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی کے آثار نمودار ہوگئے۔ وہ بولتے بولتے چپ ہوا اور سر جھکا کر ایک گہری خاموشی میں ڈوب گیا۔ میں نے اس کا یہ انداز آج تک نہ دیکھا تھا۔ چند لمحوں بعد اس نے سر اٹھایا تو اس کے چہرے سے ہمیشہ رہنے والی شگفتگی اور مسکراہٹ رخصت ہو چکی تھی اور اس کی جگہ خوف و حزن کے سایوں نے لے لی تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ مسکرانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بولا: ’’عبد اللہ! اسرافیل کو حکم مل چکا ہے۔ خدا کا وعدہ پورا ہونے کا وقت آ گیا ہے۔ اہلِ زمین کی مہلت ختم ہوگئی ہے۔ تم کچھ عرصہ مزید برزخ کے اس پردے میں خدا کی رحمتوں کے سائے میں رہو گے، مگر میں اب رخصت ہورہا ہوں۔ اب میں تم سے اس وقت ملوں گا جب زندگی شروع ہوگی۔ تمہاری آنکھ کھلے گی تو قیامت کا دن شروع ہو چکا ہوگا۔ میں اس روز تم سے دوبارہ ملوں گا۔‘‘
Assalam-u-Alaikum Qaryeen
Mera nam Owais hai jo tehreer mai apke pash-e-nazr kerne ja raha hn woh muje kahi se mili hai or itni pur asar tehreer hai k iske asrat ap per bhi kuch badlao ka sabab bany gay , is tehreer ke writer Yahya sahab ha Barah-e-karam unhe or muje apni duao me zaroor yad rakhiye gaa.. Shukriyaa
Owais
About the Author: Owais Read More Articles by Owais: 27 Articles with 28527 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.