کوٹ مومن کی اسسٹنٹ کمشنر اوراساتذہ آمنے سامنے
امتحانی مرکز گورنمنٹ کالج کوٹ مومن کے انچارچ نے شناخت کرانے کو کیوں کہا
عفو و درگز سے کام لیتے ہوئے معاملے کو حل کر نا مناسب ہے
*
ڈاکٹر رئیس صمدانی
کوٹ مومن ، سرگودھا کا ایک نواحی قصبہ ہے ۔ سرگودھا کی سرزمین بڑی زرخیز ہے
۔یہ شہر کینوؤ ں کا شہر بھی کہلاتا ہے، اسے شاہینوں کا شہر بھی کہا جاتا
ہے، یہ سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والوں کا شہر بھی ہے،سب سے بڑھ کر علم اور
ادب سے محبت اور عقیدت رکھنے والوں کا مرکز ہے۔ اس نے بڑے بڑے ادیب ،
دانشور، شاعر ،سیاست داں پیدا کیے، یہاں ایسے سیاست داں بھی پیدا ہوئے
جنہوں نے سیاست کے افق پر نام کمایا۔ ناصر کاظمی نے اس شہر کے حوالے سے کہا
تھا
زندہ دلوں کا گہوارہ ہے سرگودھا میرا شہر
سب کی آنکھوں کا تارہ ہے سرگودھا میرا شہر
علم و ادب تو گویا سرگودھا کی مٹی کی میراث ہے ۔ ڈاکٹر وزیر آغا علم و ادب
کی قد آور شخصیت ایک درخشندہ ستارہ، شخصیت نہیں بلکہ ایک انجمن ، سرگودھا
اسکول کے بانی، آج بھی ان کے پرستار ان کے مشن پر عمل پیرا ہیں۔ ڈاکٹر انور
سدید ، ڈاکٹر وزیر آغا کے مداحین میں سے تھے، احمد ندیم قاسمی جیسا بلند
پائے کے ادیب و شاعر نے سرگودھا کی مٹی سے جنم لیا۔ وہ خوشاب کے گاؤں
’انگہ‘ میں پیدا ہوئے۔ لمحہ موجود کے نو جوان اور مقبول شاعروصی شاہ
سرگودھوی ہی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی شخصیت ملک فیروز خان نون کا تعلق
سرگودھا سے تھا وہ تحصیل بھلوال کے گاؤں ’ہموکہ‘ میں پیدا ہوئے تھے،مشرقی
پاکستان کے گورنر ر، مغربی پنجاب کے تیسرے وزیراعلیٰ، وزیر خارجہ جیسے اہم
عہدوں پر فائز رہے، 1957 میں پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔ ان کے حوالے سے یہ
بات بہت اہم ہے کہ کراچی کی بندرگاہ ’گوادر‘ ملک فیروز خان نون کی سیاسی
بصیرت کے باعث ہی پاکستان کا حصہ بنی ہے۔ نام گنوا ئے جائیں تو بات بہت طول
پکڑ جائے گی۔ میرا تعلق سرگودھا کی مٹی سے بہت مختصررہا لیکن وہ میری زندگی
کا نہ بھلانے والادور ہے ، میں نے کچھ عرصہ جامعہ سرگودھا میں تدریس کے
فرائض انجام دیے ۔ میرا تجربہ و تجزیہ یہ رہا کہ سرگودھا کے لوگوں کی
اکثریت اعلیٰ صفات کی حامل ہیں،یہاں کے لوگ محبت کرنے والے ہیں، مہذب
وشائستہ ہیں۔ بھولنا یا کسی کو بھلا دینا ان کے خمیر کا حصہ نہیں۔ تمہید
کچھ زیادہ ہی طول پکڑ گئی یہاں میں اس واقعہ پر اظہار خیال کرنا چاہتا تھا
جو گزشتہ دنوں ٹی وی، سوشل میڈیا اور اخبارات کی زینت بنا۔ دیکھ کر اور پڑھ
کر بہت دکھ ہوا۔ یقین نہیں آرہا تھا کہ سرگودھا کا کوئی بھی استاد کسی
خاتون اسسٹنٹ کمشنر کے ساتھ بد زبانی، بیہودہ گفتگو یا گالم گلوچ کرسکتا
ہے۔
واقعہ کچھ اس طرح پیش آیا کہ 11مئی کی صبح سرگودھا کے قصبہ کوٹ مومن کی
اسسٹنٹ کمشنر عفت النساء امتحانی سینٹر گورنمنٹ کالج چک نمبر09جنوبی تحصیل
کوٹ مومن پہنچیں ۔ اسسٹنٹ کمشنر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے علاقے میں
جہاں چاہے ، جب چاہیے دورہ کرسکتا ہے۔ وہ مالک ہوتا ہے اپنے علاقے کا۔کوٹ
مومن کی خاتون اسسٹنٹ کمشنر اس امتحانی مرکز کی چیکنگ کو پہنچیں۔ کالج کے
دروازے پرامتحانی مرکز کے انچارچ اظہرعلی شاہ جو کہ اس کالج میں لیکچرر ہیں
نے خاتون اسسٹنٹ کمشنر سے دیافت کیا کہ آپ کون ہیں ، اپنی شناخت کرائیں اور
بقول عفت النساء کہ اس نے ان سے کہا کہ آپ کس اختیار کے تحت سینڑ چیک کرنے
آئی ہیں، آپ سینٹر چیک کرنے کا اختیار ہی نہیں رکھتی، آپ گریڈ 17کی
آفیسرہیں جب کہ ہم لوگ گریڈ 19اور20کے افسران ہیں لہٰذا آپ کسی قانون کے
تحت بھی ہمیں چیک نہیں کرسکتی ، یہ جملے عفت النسا ء کی اس’ انسی ڈینٹ
رپورٹ ‘ کے ہیں جو انہوں نے واقعہ رونما ہوجانے کے بعد اپنے اعلیٰ افسران
کو بھیجی۔ آگے لکھتی ہیں کہ زیردستخطی کالج کے پرنسپل صاحب سے بات کرنے کے
لیے دفتر گئی تو معلوم ہوا پرنسپل صاحب کالج ہی نہیں آئے، بلکہ غیر حاضر
ہیں، لکھتی ہیں کہ انہوں نے صورت حال سے فون پر پرنسپل صاحب کو آگاہ کیاتو
اظہر علی شاہ لیکچرر طیش میں آگیا اور اپنے ساتھی اساتذہ بلوا کر زیر
دستخطی کا گھیراؤ کر لیا اور زیر دستخطی کے ساتھ اونچی اونچی آواز میں بد
تمیزی شروع کردی۔ جس پر اپنے دفاع کے لیے زیر دستخطی کو پولس طلب کرنا پڑی۔
یہ بیان موصوفہ عفت النسا ء کا ہے جو انہوں نے لکھ کر دیا۔ پہلے اس بیانِ
حلفی پر بات کرلیں ، بات بہت گھمبیر نہ تھی، امتحانی مرکز میں کسی غیر فرد
خواہ مرد ہو یا عورت کو اندر آنے سے روکنا اور شناخت پوچھنا امتحانی مرکز
کی انتظامیہ کا فرض بنتا ہے، پرنسپل ضروری نہیں امتحانی مرکز میں موجود ہو
وہ کسی کو بھی امتحانی مرکز کا سربراہ بنا سکتا ہے۔ اس لیے پرنسپل کے لیے
یہ کہنا کہ وہ غیر حاضر تھے مناسب نہیں ، البتہ ایک اسسٹنٹ کمشنر سے اونچی
آواز میں بات کرنا اس کے منصب کی توہین ہے، ہم تو ایک پولیس والے کے سامنے
بہ آواز بلند بات نہیں کرسکتے وہ تو اسسٹنٹ کمشنر تھیں ، بھلاوہ یہ کیسی
برداشت کرسکتی تھیں۔ پھر اساتذہ کے احتجاج کا ذکر ہے ، انہوں نے کچہری کوٹ
مومن اور خاتون کے گھر پر احتجاج کیا بقول عفت النساء ان کے گیٹ کو ٹھڈے
مارے ،زور زور سے آوازیں دیتے رہے ، یہ بھی کہا کہ باہر نکلو آج ہم تم سے
نمٹ لیں گے، بقول ان کے گالیاں بھی دیں، اگر اساتذہ نے ایسا کیا تو کسی
صورت بھی مناسب نہیں کیا، یہ ان کے منصب کے خلاف ہے کہ وہ گری ہوئی زبان
بھی استعمال کریں، احتجاج کا حق تو قانون انہیں ہی نہیں ہر شہری کو دیتا ہے
، آگے عفت النساء کا اپنی’ انسی ڈینت رپورٹ‘ میں کہنا ہے کہ’ طارق کلیم
اسسٹنٹ پروفیسر جوسب سے زیادہ مشتعل تھا، نے زیر دستخطی کے گیٹ کو بار بار
ٹھڈے مارے اور گالیاں بکتا رہا اور طرح طرح کے نازیبا الفاظ استعمال کرتا
رہا‘۔ یہاں عفت النساء صاحبہ نے تحقیق کیے بغیر اپنے کسی اردلی یا پولس
والے کے کہنے پر یہ سب کچھ سمجھ لیا، اس لیے کہ دورانِ احتجاج وہ تو سامنے
تھیں نہیں ، جو کچھ باہر ہوا اس کی رپورٹنگ ان کے ماتحت عملے یا پولیس نے
کی ہوگی، اس میں بہت سی باتیں نمک مرچ لگا کر بیان کردی گئیں اور عفت النسا
ء صاحبہ نے سچ سمجھ لیا اور غصے میں آگئیں ۔
طارق کلیم کو میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں، اس سے کئی بار ملا ہوں، اس کے
مزاج سے واقف ہوں، پڑھا لکھا انسان ہے، استاد ہے اسسٹنٹ پروفیسر کے مرتبے
پر یوں ہی نہیں پہنچ گیا،پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہے، لکھاری ہے، صحافت کے پیشے سے
وابستہ رہ چکا ہے، سرگودھا کے پڑھے لکھے شعر و ادب سے تعلق رکھنے والوں کے
درمیان اٹھتا بیٹھتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر تونسوی اور ڈاکٹر خالد ندیم جیسے پائے
کے اساتذہ کا شاگرد اور تربیت یافتہ ہے۔ میں وثوق اور یقین سے کہہ سکتا ہوں
کہ احتجاج ضرور ہوا ہوگا، شور ضرور مچا ہوگا، عفت النساء کے خلاف نعرے لگے
ہوں گے لیکن جہاں تک گالم گلوچ کا تعلق ہے ایسا ہرگز نہیں ہوا ہوگا، عفت
النساء کے ماتحت عملے نے اس مسئلہ کو خراب کیا، بگاڑا، نمک مصالہ لگا کر
رپورٹنگ کی، جس سے خاتون اسسٹنٹ کمشنر غصہ میں آگئیں اور انہوں نے کسی
استاد کو اٹھوا بھی لیا، ایس ایچ او اور اسسٹنٹ کمشنر اور کر بھی کیا سکتے
ہیں۔ ان کے اختیار میں یہی کچھ ہے کہ جس کو چاہیں اٹھوا لیں اور بند
کردیں۔کیا یہ عفت النساء نے سمجھ داری کی بات کی؟ نہیں ہر گز نہیں انہیں
ایک عام آدمی اور استاد میں فرق کرنا چاہیے تھا۔ ایک ڈنڈے سے سب کوہانکنا
مناسب نہیں۔خاتون نے یہ الزام نہیں لگایا کہ امتحانی مرکز میں نقل ہورہی
تھی، شور غل ہورہا تھا، کلاسوں میں اساتذہ نہیں تھے۔ آپ سے آپ کی شناخت
چاہی اس میں کوئی بری بات نہیں، آپ کسی کے گھر میں یوں ہی منہ اٹھا کر گھس
جائیں گے،کبھی عفت النساء یہ برداشت کرسکتی ہیں کہ ان کے آفس میں کوئی بلا
اجازت داخل ہوجائے، پرندہ پر نہیں مارسکتا ان صاحبان کے آفسوں کے
سامنے۔ڈگری کالج کا پرنسپل20 گریڈ کا ہوتا ہے اس کا آفس ہر ایک لیے کھلا
ہوتا ، ایک ادنیٰ طالب علم اس کے آفس میں جا سکتا ہے، لیکن اسسٹنٹ کمشنر کے
آفس کیا اس عمارت میں کوئی بلااجازت داخل نہیں ہوسکتا۔یہ ہر ایک کا حق ہے
کہ وہ سامنے والے سے معلوم تو کرے کہ تم کون ہو۔ آپ کو کالج کے گیٹ پر جانے
سے قبل کالج کے پرنسپل یا سینٹر انچارچ سے بات کرنا چاہیے تھی، کہ آپ سینٹر
کا دورہ کرنا چاہتی ہیں، اس سے آپ کی شان میں کمی نہیں آجاتی، اساتذہ عزت
کے ساتھ آپ کا استقبال کرتے اور آپ سینٹر کا دورہ کر کے واپس چلی جاتیں۔
جہاں تک اختیار کا تعلق ہے اختیار تو آپ رکھتی ہیں لیکن کسی کسی جگہ قانون
اور اختیار ات سے بڑھ کا اخلاقیات کو ترجیح دیناپڑتی ہے۔ یہ بات مناسب نہیں
تھی کہ آپ پرنسپل کی کرسی پر جا بیٹھیں اور ان کی حاضریاں چیک کریں کہ کون
آیا کون نہیں آیا۔عفت النساء کا تعلق فیصل آباد سے ہے ، یقیناًمیرٹ پر ان
کا انتخاب ہوا ہوگا، معاملے کو مزید بگاڑنے کے بجائے افہام و تفہیم سے کام
لیں، عفت النساء کی فیس بک میں جو کورتصویر ہے اس میں وہ ڈینگی کے خلاف
جلوس میں شریک نظر آرہی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے ، گویا وہ اس قسم کی
ایکٹیوٹی میں حصہ لیتی رہی ہیں۔ اگران کے خلاف اساتذہ نے جلوس نکال ،
احتجاج بھی کیا تو اُسے خندہ پیشانی سے برداشت کرتیں ، گفت و شنید کی راہ
اختیار کی جاتی ۔ استاد بہت بڑے دل کا مالک ہوتا ہے ، وہ تو اپنے بچوں کو
در گزرکا سبق دیتا ہے، آپ بھی جس منصب پر پہنچی ہیں وہ اساتذہ کا ہی مرہون
منت ہے۔ استاد ہر صورت میں استاد ہوتا ہے اس کی عزت و تکریم ہونی جاہیے۔
ہماری بد قسمتی ہے کہ طبقہ اشرافیہ کے حاکموں اوربیوروکریٹس ،سپاہی اور
تھانیدار سے اعلیٰ افسر تک سب اس سوچ میں ڈوب جاتے ہیں کہ وہ اعلیٰ و عرفا
مخلوق ہیں، انہیں حکمرانی کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے، یہ ایک مائینڈ سیٹ
ہے جو عرصہ دراز سے چلا آرہا ہے۔کبھی کوئی اسسٹنٹ کمشنر ، علاقہ مجسٹریٹ
تنہا کسی جگہ دیکھا گیا ہے ، پروٹوکول کے بغیر یہ حضرات ایک قدم چل نہیں
سکتے۔ ان کے آگے پیچھے بندوق تانے سپاہی نہ ہوں تو گویا یہ ان کی شان کے
خلاف ہوتا ہے۔ ایک تصویر میں کوٹ مومن کی اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ کو پرنسپل کی
کرسی پر بیٹھے ہوئے دکھا یا گیا ہے۔ یہ کوئی خاص بات نہیں ، اس عہدے اور اس
مرتبے کی مخلوق کا یہی حال ہے کہ یہ جس جگہ موجود ہوں ، انہیں سب سے آگے
ہونا چاہیے۔ ایک واقعہ یاد آرہا ہے یہاں بیان کرنا مناسب لگتا ہے۔ میں ایک
زمانے (1974 (1997-میں حاجی عبداللہ ہارون گورنمنٹ کالج میں ہوا کرتا تھا۔
یہ وہی کالج ہے جس کے بانی پرنسپل فیض احمد فیضؔ تھے۔ وہ 1962سے 1972تک
کالج کے پرنسپل رہے۔ فیض ؔ صاحب کے زمانے میں مَیں اس کالج کا طالب علم
تھا۔ کراچی میں یہ وہ دور تھا جب ہڑتالیں ، شہر بند ہونا روز کا معمول بن
گیا تھا۔ سیاسی جماعت ہڑتال کی کال دیا کرتی، انتظامیہ جواب میں اعلان کرتی
خبر دار سب کچھ کھلا رہے گا، انتظامیہ کا کسی اورپر تو بس چلتا نہیں
تھابیچارے اسکولوں اور کالجوں پر انتظامیہ کے احکامات پر عمل کرانا آسان
ہوتا تھا۔ میرا کالج اولڈ کراچی یعنی کھڈا مارکیٹ میں تھا اب بھی ہے۔ تمام
ٹیچر دور دور سے آیاکرتے تھے، سب کے پاس موٹر سائیکل بھی نہیں تھی، اب کالج
پہنچیں تو کیسے، بسیں چلانا، رکشہ ٹیکسی چلوانا انتظامیہ کے بس سے باہر
ہوتا تھا۔ اس زمانے میں ایک اسسٹنٹ کمشنر صاحب جن کانام یاد نہیں اس علاقے
کے حاکم اعلیٰ تھے۔ جب بھی پڑتال کا اعلان ہوتا وہ صبح صبح اپنے پروٹوکول
کے ساتھ کالج میں آموجود ہوتے اور اِسی طرح پرنسپل کی کرسی پربراجمان ہو کر
حاضری رجسٹر منگوالیا کرتے اور جو ٹیچر موجود نہ ہوتا حتیٰ کہ پرنسپل بھی
اس کے سامنے کراس کا نشان لگا دیا کرتے۔ گویا انہیں اپنی حیثیت میں پرنسپل
کے اختیارات بھی حاصل تھے۔ میں اس زمانے میں موٹر سائیکل استعمال کیا کرتا
تھا، میرا ایک دوست اسدمرحوم میرے گھر کے پاس ہی رہا کرتا تھا ۔ جب ہڑتال
کا اعلان ہوتا ہم اس اسسٹنٹ کمشنر کے ڈر و خوف سے اپنی اپنی موٹر بائیک پر
دستگیر سوسائیٹی اور گلشن سے ہوتے ہوئے چھپتے چھپاتے، گلیوں ، کوچوں سے
ہوتے ہوئے بہ مشکل تمام کالج پہنچا کرتے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انتظامیہ
کے اس طبقے کا مزاج ہی ایسا تشکیل دیا جاتا ہے کہ تمہیں ہر ایک پر برتری
اور سبقت حاصل ہے۔ یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ تم نے بھی اسکولوں اور کالجوں
اور جامعات میں پڑھا ہے، تمہارے بھی اساتذہ نے تمہیں علم سے بہرہ مند کیا
ہے۔ عہدے کا غرہ، اختیارات کا زعم ،غرور ، گھمنڈ، برتری کا غمار،حبِ ذات ،
خود ستائی اور خود پرستی میں یہ سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ
ماں ، ماں ہوتی ہے، ہماری نہیں تو کسی کی تو ماں ہے، باپ ہمارا نہیں کسی کا
تو ہے، استاد جسے باب کا درجہ دیا گیا اگر ہمارا نہیں تو کسی کا استادتو
ہے، بہت ممکن ہے کہ آپ استاد سے بھی زیادہ قابل ہو گئے ہوں،ڈگری ، عہدے،
مرتبے ، علم و ادب میں آگے نکل گئے ہوں اور ایسا ہوتا بھی ہے ، کیا ہمارے
سب استادوں نے پی ایچ ڈی کیا تھا ؟ نہیں ، ہم نے کر لیا، بہت سے استاد
اسکول ٹیچر کی حیثیت سے ریٹا ئر ہوگئے اور ہم کالج اور یونیورسٹی میں
پروفیسر چیئر مین کے عہدے تک پہنچ گئے تو کیا ہمارا رتبہ اور ہمارامرتبہ
ہمارے استاد سے بلند ہوگیا، ہر گز بلند و بالا نہیں ہوسکتا۔ استاد چاہے
کوئی بھی ہو وہ قابل احترام ہے۔ ایک سرکاری تقریب میں صدر پاکستان ایوب خان
صاحب اسٹیج پر بیٹھے تھے اچانک ان کی نظر سامنے سامعین میں بیٹھے ایک شخص
پر پڑی ، جب انہیں یہ یقین ہوگیا کہ یہ تو ان کے استاد ہیں ، تو تقریب کی
کاروائی کے دوران ایوب خان صاحب اپنی کرسی سے اٹھے اور سامعین میں جاکر
اپنے استاد کے گلے لگ گئے۔ یہ ہے استاد کا مقام اور مرتبہ۔ انہوں نے اپنی
کرسی پر بیٹھے بیٹھے حکم نہیں دیا کہ فلاں شخص کو میرے پاس لے آو۔ استاد کا
مقام و مرتبہ بہت بلند ہے۔ یہ معاملاجہاں تک بڑھ چکا اسے اسی جگہ روک دینا
چاہیے، عفت النساء صاحبہ صبر و تحمل سے کام لیں، اساتذہ بھی خاتون اسسٹنٹ
کمشنر کو معاف کردیں اور درگزر سے کام لیتے ہوئے صلح کر لیں۔ اسی میں ہر
ایک کی بھلائی اور عافیت ہے۔ (15مئی2017)
|