جن صہیونی طاقتوں نے اپنے مخصوص مفادات کے حصول کیلئے
نائن الیون کاڈرامہ رچایاتھا،اس کی تفصیلات پرخود امریکامیں درجنوں کتب
اورفلمیں سامنے آچکی ہیں ۔اس سازش کے مرکزی کرداروں کوکٹہرے میں لانے کی
بجائے ابھی تک قصرسفید کے فرعون ان تمام رپورٹوں کواپنی ناکامی کے دبیز
پردوں میں چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔سابق صدر اوباما نے اقوام عالم سے وعدہ
کیاتھاکہ وہ ۲۰۱۶ء تک اپنے آخری فوجی کو بھی افغانستان سے نکال لے گاجبکہ
افغانستان میں امریکی فوجی کمانڈرنے پینٹاگون سے افغانستان کیلئے مزیدتین
ہزارامریکی فوجی بھیجنے کی درخواست کی ہے۔امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے
کہا کہ وہ افغانستان میں نئے فوجی منصوبے کیلئے سفارشات کو حتمی شکل دے رہے
ہیں اور وہاں اتحادی فوجیوں کی ضرورت ہے۔ ناروے کی وزیر دفاع ارکسن سے بات
چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہم اپنے اتحادیوں سے بھی بات کریں گے۔ امریکی
میڈیا نے رپورٹ جاری کی تھی کہ پینٹاگون نے افغانستان میں مزید تین سے پانچ
ہزار فوجی بھیجنے کے لئے صدر ٹرمپ کو تجویز دی ہے۔ موجودہ واقعات وحالات سے
واضح پتہ چل رہاہے کہ امریکاافغانستان سے انخلاء کی بجائے مختلف قسم کے
حالات پیداکرکے اپنے قیام کاجوازڈھونڈرہاہے۔یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے
پچھلے ماہ ننگرہارمیں داعش کے ٹھکانوں کوتباہ کرنے کی آڑمیں سب سے
بڑاغیرجوہری بم’’بموں کی ماں‘ ‘گراکراس خطے کے پڑوسیوں ممالک کواپنے خطرناک
عزائم سے آگاہ کرتے ہوئے امن دشمنی کاواضح پیغام دے دیاہے۔
یادرہے کہ پچھلے سال افغانستان میں قیام امن کیلئے حزب اسلامی کے سربراہ
گلبدین حکمت یارکے ساتھ مذاکرات کے کئی مراحل کے بعدواپسی کیلئے آمادہ
کیاگیاتھا۔گلبدین حکمت یارنے مسلسل کئی ماہ کی خاموش کاوشوں کے بعد بالآخر
کابل کے غازی اسٹیڈیم میں لاکھوں افرادکے اجتماع میں اپنے اگلے لائحہ عمل
کااعلان کرتے ہوئے طالبان کواپنابھائی قراردے کران سے تعاون کی جو درخواست
کی تھی بالآخرطالبان نے اس پرمثبت جواب دیتے ہوئے سیاسی جدوجہدمیں ان
کاساتھ دینے کااعلان کرکے اس خطے میں واضح حوصلہ افزاء تبدیلی کااشارہ دے
دیاہے، جب کہ اشرف غنی،عبداللہ عبداللہ اورحامدکرزئی نے بھی انہیں
افغانستان میں قیام امن کیلئے اپنے تعاون کے مکمل تعاون کایقین دلایا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں آئندہ پارلیمانی انتخابات جواس سال ہونے ہیں
اور۲۰۱۹ء کے صدارتی انتخابات کیلئے امریکااوریورپین ممالک پرمشتمل نیٹو
اتحادنے حکمت یارسے مدد طلب کرلی ہے اورانہوں نے انتخابات کوہرصورت میں
کرانے کیلئے بھرپوریقین دہانی بھی کرائی ہے۔
حزب اسلامی کے سربراہ حکمت یارکے ترجمان حمیدعزیزی نے اس حوالے سے تصدیق کی
ہے کہ امریکااوریورپی حکام نے افغانستان میں شفاف اور منصفانہ انتخابات
کیلئے حکمت یار سے مددکی درخواست کی ہے تاکہ افغانستان میں جمہوری نظام
کوآگے بڑھایاجاسکے۔جس کے جواب میں حزب اسلامی نے امریکااوریورپی حکام
کوکہاہے کہ شفاف انتخاب کیلئے ایک مرکزی الیکشن کمیشن کاقیام،تمام افغان
کوانتخابات میں حصہ ڈالنے اورلسانی اورقوم پرستانہ بنیادپرانتخابات میں حصہ
لینے پرپابندی عائدکرناضروری ہے۔افغانستان میں اگر سیاسی طورپرلوگوں
کوآزادانہ انتخابات میں حصہ لینے دیاجائے ، شفاف اوراقوام متحدہ کی نگرانی
میں انتخابات ہوجائیں توایک مستحکم پارلیمانی نظام وجودمیں آسکتاہے
جوافغانستان کے مستقبل کے فیصلے کرنے کا مجاز ہوگا۔اگرامریکا،یورپ
اوردیگربیرونی قوتیں اپنی مرضی کے لوگوں کومسلط کرناچاہیں توافغانستان میں
مستحکم جمہوری نظام کاخواب کبھی بھی شرمندہ تعبیرنہیں ہوسکتا۔
ادھرافغان کٹھ پتلی حکومت کی وزارت دفاع نے حزب اسلامی سے معاہدہ برقرار
رکھنے کیلئے حزب اسلامی کے چارہزارجنگجوؤں کوفوری طورپرفوج، پولیس ،
تحقیقاتی اداروں،وزارتِ داخلہ،انسدادمنشیات اوردیگرحکومتی شعبوں میں
ملازمتیں دینے پرآمادگی کااعلان کیاہے جس پرحزب اسلامی نے ان کو۳۵۰۰/
افرادکی فہرست فراہم کرتے ہوئے یہ شرط عائد کی ہے کہ فوج میں شامل ہونے
والے ان کے جنگجوؤں کونیٹومیں شامل امریکایاکسی مغربی ممالک کے انسٹرکٹرکی
بجائے صرف ترکی کے کمانڈرہی تربیت دیں گے ۔حزب اسلامی کی طرف سے مہیاکردہ
فہرست میں سے ۴۸۱/افرادکی چھان بین کرکے ان کو متعلقہ محکموں میں رپورٹ
کرنے کی ہدایات جاری کی جاچکی ہیں ۔دولت وزیری کے مطابق معاہدے کی ایک شق
کے مطابق حزب اسلامی اگراپنا اسلحہ حکومت کے حوالے نہ بھی کرے تواپنے
جنگجوؤں کوغیرمسلح کردے گی جس کے جواب میں حزب اسلامی نے حکومت سے کہاکہ
جب تک معاہدے کے مطابق ان کوفوج اورپولیس میں شامل نہیں کیاجاتا، انہیں
غیرمسلح کرنے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں کیونکہ انہیں اپنے اہل خانہ کی
حفاظت کیلئے اسلحے کی اشدضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کی جانب سے اب
افرادکوہنگامی بنیادوں پرملازمتیں دینے کاسلسلہ شروع ہوچکاہے تاہم حکمت
یارنے خودکوئی بھی عہدہ لینے سے انکارکردیاہے جبکہ انہیں چاروزارتوں کے
علاوہ صلح کمیشن کاسربراہ یا صدارتی سنیئرمشیرکے عہدے کی بھی پیشکش کی گئی۔
حزب اسلامی کے ذرائع کاکہناہے کہ حکمت یارافغانستان میں وسیع البنیادمنتخب
حکومت کاقیام چاہتے ہیں جس میں افغانستان کے سابق جہادیوں سمیت تمام دھڑوں
کوحقیقی عوامی نمائندگی حاصل ہواورانہیں آزادانہ طورپرانتخابات میں حصہ
لینے دیاجائے۔انتخابات جیتنے کی صورت میں تمام دھڑوں کوحکومت میں شامل
کیاجائے تاکہ وہ افغانستان میں قیام امن اورترقی کیلئے یکساں کوشش کریں
اورکم ازکم اگلے آٹھ سال تک حزبِ اختلاف کاتصورنہ ہوبلکہ ہرکوئی حکومت
کواپنی حکومت تصورکرے جس سے افغانستان کی مختلف اقوام کے اندرپائی جانے
والی مایوسی اورمحرومیوں کوختم کیاجاسکے ۔افغانستان میں قبضہ کی جانے والی
تمام زمینوں کوواگزارکرایاجائے اورامریکاکے افغانستان پرقبضے کی ابتدائی
دنوں میں لوگوں سے بزورطاقت لی جانے والی زمینوں کوان کے اصل مالکان کوواپس
کیاجائے۔مہاجرین کوباعزت طورپرواپس بلایاجائے اورانہیں انتخابات میں مکمل
حصہ لینے دیاجائے اوران کی ووٹر رجسٹریشن سمیت دیگرعوامل کوقابل عمل
بنایاجائے ۔
حکمت یارنے لغمان میں اراکین پارلیمان پرواضح کردیاہے کہ جب تک تمام دھڑوں
کوپارلیمان اورحکومت میں ان کی حیثیت کے مطابق حصہ نہیں دیاجاتااس وقت تک
امن ممکن نہیں ہوگا کیونکہ امن کیلئے ضروری ہے کہ افغانستان میں ایک ایسی
حکومت کاقیام عمل میں لایاجائے جوکروڑوں لوگوں کی خواہشات کے مطابق ہونہ کہ
امریکاو مغرب کی خواہشات کے مطابق،جس دن اس طرح کی حکومت کاقیام عمل میں
لایاگیاافغان طالبان کے ساتھ مذاکرات بھی آسان ہوجائیں گے۔حکمت یارنے
وفدکومزیدبتایاکہ افغانستان میں اب لسانیت،قوم پرستی اورطاقت کے زورپرحکومت
قائم کرنے کاوقت گزرچکا،اب چوتھی نسل جنگوں سے تنگ آچکی ہے اورگزشتہ چالیس
سالوںسے ہونے والی جنگوں میں افغان نوجوانوں کو شدیدنقصان
کاسامناکرناپڑاہے۔ان کی تعلیمی،معاشی اور سیاسی سرگرمیاں تباہ ہو چکی
ہیں،اس لئے اب ہمیں اب ہرحال میں ہرقسم کے پرانے اختلافات کوختم کرنا ہوگا۔
بیس سال بعدمنظرعام پرآنے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں حزب اسلامی
کے سربراہ نے طالبان کومذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہاکہ حزب اسلامی اپنی
ماضی کی غلطیاں دہرانانہیں چاہتی اورماضی میں جوغلطیاں ہوئی ہیں یا حزبِ
اسلامی کے ساتھ جوزیادتی ہوئی ہے ،ہمیں اس سب کوبھلاکر آگے بڑھنا چاہئے
اوراس کیلئے تمام افغانوں کواپنے ماضی سے نکل کرمستقبل کی طرف
بڑھناہوگا۔گلبدین حکمت یارنے افغان طالبان سے بڑی دلسوزی سے درخواست کی کہ
وہ لڑائی چھوڑکربین الافغانی مذاکرات کی میزپرآ جائیں ، مغرب اوریورپ کی
بجائے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات میں اپنے مسائل کوحل کریں۔اس کے بعد
دنیااورامریکاکے ساتھ بات چیت میں ہم افغانوں کوآسانی ہوگی،مسجد میں پڑے
لوگوں پرگولیاں چلاناکون سا اسلام ہے اوراس طرح کی کاروائی سے کس طرح جنت
میں جایاجاسکتاہے کیونکہ یہ اسلامی جنگوں اورشریعت کے خلاف ہے۔ اگر طالبان
مذاکرات کے عمل میں شریک ہونا چاہتے ہیں تویہ ہمارے قابل احترام بھائی
ہیں۔اگروہ ہاتھ دیں گے تومیں آگے بڑھ کراپنے بھائیوں کوگلے لگاؤں گا۔
اگروہ ایک فٹ آگے آئے تومیں دوگزان کی طرف جاؤں گا۔طالبان سے درخواست ہے
کہ افغانستان میں ایک مضبوط حکومت کی بنیادڈالنے میں اپناکرداراداکریں۔
طالبان کاروس کے خلاف جہادمیں ایک کرداررہاہے اورافغان قوم نے ایک
بھرپورجہادی زندگی گزاری ہے لیکن اب چھوتھی نسل کوجنگ کاسامناہے۔ جنگ ہم
خودختم کرسکتے ہیں اور سیاسی جدوجہدکے ذریعے بغیر کسی خون خرابے کے
افغانستان میں امن لا سکتے ہیں۔
افغانستان ایک طویل تاریخ رکھتاہے اوراس تاریخ کے پس منظرمیں ہم سے جو
پرانے زمانے میں غلطیاں ہوئی ہیں،ہم افغان قوم سے ان غلطیوں پرمعذرت خواہ
ہیں اورآئندہ کیلئے غلطیوں کی بجائے افغان قوم کوآپس میں پرانے زخموں اور
لغزشوں کوبھول کرآگے بڑھناچاہئے کیونکہ پرانے واقعات کو دوبارہ دہرانے اور
اس پرآپس میں لڑائی سے افغان قوم کوکوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔انہوں نے
کہابزور طاقت افغانستان پرنہ توطالبان حکومت کرسکتے ہیں نہ حزب اسلامی،نہ
کوئی اورگروپ اورنہ ہی غیرملکی طاقت، اس لئے سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار
کرنا پڑے گااوراس سلسلے میں افغان حکومت کوبھی چنداہم اقدامات اٹھاناپڑیں
گے کہ ایک مرکزی حکومت کی تشکیل ہواورمضبوط لوگوں کو حکومت میں شامل
کرناپڑے گاجومرکزیت پریقین رکھیں۔لسانی اورقوم پرست گروپوں کی بجائے مرکزی
لیڈروں پراعتمادکرناہوگاکہ وہ ایک مضبوط افغانستان کی بنیادرکھیں،جس دن
افغانستان میں ایک مضبوط مرکزی حکومت کاقیام عمل میں آگیااسی دن سے
افغانستان میں حالات خودبخودٹھیک ہونے شروع ہو جائیں گے۔ایک مضبوط مرکزی
حکومت کے قیام کیلئے قانون سے وفاداری عوام کی مشکلات کاحل اور رشوت
کاخاتمہ لازمی ہے۔ ادھرطالبان ذرائع کے مطابق کابل میں اشرف غنی، عبداللہ
عبداللہ اورحامدکرزئی کی موجودگی میں گلبدین حکمت یارکی جانب سے افغان
طالبان کوبھائی کہنے اورافغان حکومت پر براہِ راست تنقیدکے بعدطالبان کو
دعوت دینے اورامریکی انخلاء پرزوردیئے جانے پرطالبان نے حکمت یارکی مخالفت
ترک کرکے سیاسی جدوجہدمیں ان کاساتھ دینے کافیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے حزب
ِاسلامی اورافغان طالبان کے درمیان ابتدائی رابطے بھی ہوئے ہیںجن میں
غیرملکیوں کے انخلاء اور ایک نئے اسلامی آئین کی تشکیل پرتبادلہ خیال کیا
گیاہے۔ طالبان نے اپنے تمام رہنماؤں کوآئندہ حزبِ اسلامی پر تنقیدکرنے سے
بھی منع کردیاہے اوراشرف غنی،عبداللہ عبداللہ اورحامدکرزئی کی غیر
دانشمندانہ تقاریرپرکڑی تنقید کرتے ہوئے کہاکہ یہ صرف طاقت اورڈالرکے حصول
کیلئے قابض افواج کی مرضی پرچلتے ہیں اورامریکیوں کی زبان بولتے ہیں اگریہ
واقعی ملک میں امن چاہتے ہیں توفوری طور پرغیرملکیوں کے انخلاء کاپیغام دیں
۔
دوسری جانب حکمت یارکی طرف سے استادربانی اورسابق جہادیوں کوایک پلیٹ فارم
پرجمع کرنے اورطالبان کومذاکرات پررضامندکرنے کیلئے جو کوششیں شروع کی گئی
ہیں،اس کوسبوتاژکرنے کیلئے ایک نیاسیاسی اتحادبنانے کی کوششیں بھی شروع
ہوچکی ہیں جس میں حزبِ وحدت کے کریم خلیلی ،پارلیمان کے سابق سپیکرحراست
اورسبات،شوریٰ کے نمائندے محمدیونس قانونی، عمر داؤدزئی اورصبغت اللہ
مجددی نے ایک اجلاس منعقدکرتے ہوئے موجودہ افغان حکومت کاحزبِ اسلامی
کوزیادہ اہمیت دینے پرشدیدتنقیدکانشانہ بناتے ہوئے قیام امن کیلئے ایک
عدالتی کمیشن بنانے کامطالبہ کیاجولوگوں سے ہونے والی زیادتیوں کی تحقیقات
کرے جس کے جواب میں افغان صدرنے ان کے مطالبوں کومسترد کرتے ہوئے کہاکہ یہ
تمام افرادپہلے افغان اہم عہدوں پر رہ کربھی ملک میں امن قائم کرنے میں
ناکام رہے ہیں جبکہ ان دنوں طالبان اس قدرمضبوط اور طاقتوربھی نہ تھے۔
باوثوق ذرائع کایہ بھی کہناہے کہ دراصل حزب اسلامی کی طرف سے ایران
پرتنقیدکے بعدتہران نے اپنے دیگرغیرملکی دوستوں کے مشورے کے بعدحزبِ وحدت
کومیدان میں اتاراہے لیکن زمینی حقائق نے فی الحال اس سازش
کویکسرمستردکردیاہے۔
ادھرافغانستان میں بھارتی سفیروہرامن پریت نے چندروزقبل حزب اسلامی کے
سربراہ گلبدین حکمت یارسے ملاقات کیلئے درخواست دی تھی تاہم چینی
وفداوراقوام متحدہ کے وفود سے میٹنگ کے سبب یہ ملاقات کافی تاخیر
کاشکارہوئی ۔ بھارتی سفیراپنے سفارتی عملے کے ساتھ کابل میں حزب اسلامی کے
دفترمیں پہنچے جبکہ گلبدین حکمت یارکی معاونت کیلئے ان کے بیٹے انجینئرحبیب
الرحمان کے علاوہ حزب اسلامی کی فارن کمیٹی کے دوارکان حمید عزیزی اور
سلطنت وطن یارموجودتھے۔ اس ملاقات کے بعد انجینئرحبیب الرحمان نے میڈیا سے
گفتگوکرتے ہوئے بتایاکہ حزب اسلامی کے سربراہ نے اس ملاقات میں وفد پرواضح
کردیاکہ بھارت اگرافغانستان کے اندرامن چاہتاہے تواسے اپنے آپ کو ترقیاتی
کاموں تک ہی محدودرہناہوگااورافغانستان کے برادرِ عزیزپڑوسی ملک پاکستان کے
خلاف ہماری سرزمین کواستعمال کرنے سے اجتناب کرناہوگاکیونکہ یہ ایک عالمی
ریکارڈہے کہ پاکستان پچھلے چالیس برسوں سے ۳۲لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی
کررہاہے اوران مہاجرین کی وہاں چارنسلیں وہاں پلی بڑھی ہیں اورہماری مضبوط
خونی رشتہ داریاں ان سے قائم ہیں۔اب بھی بیشترافغان عوام نہ صرف علاج
معالجے اورتعلیم کیلئے وہاں آتے جاتے ہیں بلکہ زندگی کی روزمرہ کی اشیائے
خوردونوش اوردیگراہم باہمی تجارت کاانحصارپاکستان پر ہے۔ حزب اسلامی کے
سربراہ نے بھارتی سفیراوران کے ہمراہ وفدکوکشمیرمیں جاری انسانی حقوق کی
سنگین خلاف ورزیوں بالخصوص کشمیری عوام پرپیلٹ گن کے بے رحمانہ اورانسانیت
سوزظلم کانوٹس لیتے ہوئے اپنی برہمی کااظہار بھی کیا اورحریت کانفرنس کے
سربراہ سیدعلی گیلانی کی صحت کے بارے میں اپنی سخت تشویش کااظہارکرتے ہوئے
بھارتی سفیر پرزوردیا کہ انہیں فی الفور علاج کیلئے کسی اسلامی ملک یاکسی
یورپی ملک میں جانے کی اجازت دی جائے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے کشمیرکے مسئلے
پربھارتی لیت ولعل نے خطے کونیوکلیرفلیش پوائنٹ کی طرف دھکیل دیاہے۔بھارت
کوافغانستان سمیت ان تمام مالک سے سبق سیکھناچاہئے جنہوں نے عوامی خواہشات
کے برعکس طاقت استعمال کی۔اگربھارت چاہے تووہ مسئلہ کشمیرپرپاک بھارت
مذاکرات پرثالثی کیلئے اپنامثبت کرداراداکرنے کیلئے تیارہیں۔اس پیشکش
پربھارتی سفیرنے کہاکہ وہ اپنی حکومت سے بات کرکے جواب دیں گے ۔
انجینئرحبیب الرحمان نے میڈیاکے پوچھنے پریہ بھی بتایاکہ بھارتی سفیروہرامن
پریت نے حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یارکوبھارت کے دورے کی بھی دعوت
دی تاہم حکمت یارنے اس دعوت کوقبول کرنے سے انکارکرتے ہوئے کہاکہ وہ صرف
اسی صورت آسکتے ہیں اگربھارت سیدعلی گیلانی سمیت دیگر حریت رہنماؤں کے
ساتھ ملاقات کرنے کی سہولت فراہم کرنے کی ٹھوس ضمانت دے اوربھارتی حکام
پریہ بھی واضح کردیاکہ بھارت اس وقت تک خطے میں اس وقت تک کوئی اہم
کردارادانہیں کرسکتاجب تک وہ پاکستان کے ساتھ اپنے معاملات ٹھیک نہ
کرلے۔ذرائع کے مطابق حکمت یارکایہ دو ٹوک جواب سن کر بھارتی سفیراوران کے
ہمراہ وفدسکتے میں آگئے اورصرف اتناکہاکہ وہ آپ کا یہ پیغام اپنی حکومت
تک پہنچادیں گے۔
اہم ذرائع کے مطابق بھارتی سفیرکاحزب اسلامی کے سربراہ حکمت یارسےملنے
اوران سے مراسم بڑھاکران کی حمائت حاصل کرنے کے دہرے مقاصد تھے کہ کل کلاں
اگر گلبدین حکمت یارافغانستان کی حکومت کی باگ ڈورسنبھالتے ہیں (جس کے کافی
روشن امکانات ہیں)توافغانستان میں بھارت کے مفادات کومحفوظ بنایاجائے
اوردوسراانہیں افغان دوستوں نے مشورہ دیاتھاکہ کشمیرمیں بڑھتی ہوئی کشیدگی
کوقابو میں کرنے کیلئے اگرحریت کانفرنس سے مذاکرات کرنے ہیں توحکمت یارسے
مددلی جاسکتی ہے تاہم اس ملاقات کے بعدانہیں یہ ڈرہے کہ اگرحزبِ اسلامی کے
سربراہ بھارت آکرسیدعلی گیلانی اور حریت کے دیگر رہنماؤں سے ملاقات کرتے
ہیں تواس سے کشمیرمیں تحریک آزادی میں مزید تیزی آجائے گی،اس لئے بھارت
نے اپنی اس ناکامی کو چھپانے کیلئے حزبِ اسلامی کی بجائے حزبِ وحدت کے ساتھ
اپنے مراسم جوڑلئے ہیں۔
میڈیانے جب پاکستانی سفیرکی طرف سے کسی رابطے کے متعلق سوال کیاتو
انجینئرحبیب الرحمان نے جواب میں کہاکہ پاکستانی سفیرکو ملاقات کیلئے کسی
درخواست کی ضرورت نہیں،وہ جب چاہیں ملاقات کیلئے تشریف لاسکتے ہیں۔ بھارتی
سفیراوران کے وفدکی حکمت یارسے ملاقات کی تصاویر منظر عام پرآنے کے بعد
پاکستان میں یہ سوالات بڑی شدت سے اٹھ رہے ہیں کہ پاکستانی سفیرنے اب تک
افغانستان کے سابق وزیراعظم گلبدین یارحکمت سے ملاقات کیوں نہیں کی؟ |