صوبہ اتر پردیش میں کئی وارثین انبیا جلوہ فرما ہوئے
جنھوں نے چمن اسلام کی آبیاری کے لیے بے پناہ جدو جہد کی۔ تاریخ کے اوراق
جن کی حیات وخدمات سے روشن ہیں۔ دیدۂ انسانی کو خیرہ کردینے والا ایک نام
سیاحِ عالم،حضور مفکر اسلام حضرت علامہ قمرالزماں خاں اعظمی دامت بر کاتہم
القدسیہ کا بھی آتا ہے۔ علامہ موصوف کو 2010ء میں حج کے دوران خانۂ کعبہ کی
اندرونی زیارت کا شرف بھی حاصل ہواہے ۔2009 سے دی رائیل اسلامک اسٹریٹیجک
اسٹڈی سینٹر (جارڈن) پوری دنیامیں اثرورسوخ رکھنے والے پانچ سو مسلم افراد
پر مشتمل سروے رپورٹ پیش کررہاہے ۔2016ء اور2017ء کی سروے رپورٹ میں آپ کا
نام بھی شامل تھااور اُمید قوی ہے کہ مستقبل میں شائع ہونے والی تمام رپورٹ
میں آپ کانام موجود رہے گا۔حضور مفکر اسلام کی شان میں زبان وقلم سے کچھ
اظہار کرناسورج کو چراغ دکھانے کے مماثل ہے۔ علامہ موصوف اپنے علم ،تدبر،
تفکر، تقویٰ وطہارت، سادگی ومتانت، تواضع وانکساری، اور اپنے صاف وشفاف
کردار وعمل کے ذریعہ پورے عالم اسلام میں یکساں مقبولیت کے حامل ہیں۔بلکہ
یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ حسب ذیل شعر حضرت علامہ صاحب قبلہ کی شخصیت
پر حرف بہ حرف صادق آرہا ہے
اٹھائے کچھ ورق لالہ نے کچھ نرگس نے کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری
٭نام ونسب:
23؍مارچ 1946ء کو عبدالحمید عرف ناتواں ؔ کے علمی گھرانے میں خطیب اعظم
مفکر اسلام علامہ قمرالزماں خاں اعظمی صاحب کی ولادت ہوئی۔
٭تعلیم وتربیت:
ابتدائی تعلیم والد عبدالحمید خان اور دادا عبدالصمد خان سے حاصل کی۔8؍سال
کی عمر میں مدرسہ انوارالعلوم جین پور،اعظم گڑھ میں داخل ہوئے۔1958ء میں
مولوی کا امتحان الٰہ آباد بورڈ سے پاس کیا،اسی سال دارالعلوم اشرفیہ مبارک
پور میں داخل ہوئے اور حصول علم کے بعد دستار فضیلت سے نوازے گئے۔
٭بیعت وخلافت :
1963ء میں سرکار مفتی اعظم ہند کے دست حق پر بیعت ہوئے۔
٭اساتذہ کرام :
حضور حافظ ملت،بحرالعلوم مفتی عبدالمنان صاحب،علامہ عبدالرؤف صاحب،علامہ
ظفر ادیبی،قاری محمد یحییٰ،مولاناسیدحامد اشرف،مولانا شمس الحق اور
مولاناخلیل احمدصاحبان جیسے وقت کے جلیل القدر وممتاز علمائے کرام سے
اکتساب فیض کیا۔
٭تدریسی خدمات:
حضور حافظ ملت کے حکم پر دس سال1964ء سے 1974ء تک روناہی ضلع فیض آباد میں
تدریسی خدمات انجام دی۔1974ء کے بعد سے آپ باضابطہ کسی مقام پر تدریس کا
فریضہ تو انجام نہیں دیتے ہیں مگر آپ کی ہر مجلس اور ہرمحفل درس ونصیحت پر
مبنی ہوتی ہے۔آپ کی ایک مجلس نے سیکڑوں زندگیوں میں انقلاب پیداکیاہے۔
٭اخلاق واوصاف :
د ین وملت کی خدمات کے باب میں حضور مفکر اسلام بڑے متحرک وفعال ہیں ۔یوں
محسوس ہوتا ہے کہ دین وملت کی خدمت کا جذبہ آپ کی شریانوں میں لہو کے ساتھ
گردش کر رہا ہو۔ اخلاق واخلاص آپ کا علامتی نشان ہے اسی لیے بیرون ممالک
میں آپ کو ’’ابو الاخلاص‘ ‘کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔آپ ہر وقت اسلام کے
ارتقاء اور مسلمانوں کی زبوں حالی کے سد باب کی فکر میں مصروف رہتے ہیں۔
مذہبی اعتبار سے مولوی ،مولانا ، حافظ،وقاری،ہوجانا آسان ہے مگر قائد مذہب
وملت ہوجانا ،قائد فکر ونظر ہوجانا یہ ہر انسان کے بس کی بات نہیں۔ جب
انسان ان مراحل سے گزرتا ہے تب دنیا اسے’’ مفکر اسلام‘‘ کہتی ہے۔ مفکر
اسلام محض آپ کا لقب ہی نہیں بلکہ صحیح معنوں میں یہ اسلام کے عظیم مفکر
اور قوم مسلم کے عظیم مدبر ہیں۔
٭تصنیف وتالیف:
آپ کی ادارت میں ورلڈ اسلامک مشن کی جانب سے 1965ء میں بریڈفورڈ سے
’’الدعوۃ الاسلامیہ ‘‘نامی رسالہ جاری ہواجو اَب بھی انگلش اور عربی میں
کراچی سے شائع ہورہاہے۔اس کے علاوہ 1986ء میں ’’حجاز انٹرنیشنل‘‘کے نام سے
ماہانہ پرچہ جاری ہوااور اس وقت جرمنی سے ’’صدائے حق‘‘ اور ساؤتھ افریقہ سے
’’دی مسیج‘‘وغیرہ شائع ہورہے ہیں۔آپ کی نعتوں کامجموعہ ’’خیابان مدحت‘‘کے
نام سے شائع ہوچکاہے، مقالات ومضامین کامجموعہ ’’مقالات خطیب اعظم‘‘ کے نام
سے اور تقاریر پر مبنی دو حصے ’’خطبات مفکراسلام‘‘کے نام سے شائع ہوکر
مقبول زد خاص وعام ہے۔ان کے علاوہ جمال مصطفی،الاسلام
والمسیحیۃ(عربی)،تفسیر قرآن الحکیم(چند پارے)اور حضور مفتی اعظم آپ کے قلمی
شاہکار ہیں۔
٭وعظ وخطابت:
پوری دنیامیں منعقد ہونے والی اسلامی کانفرنسوں ،اجلاس اور سیمینارس میں آپ
بحیثیت مقررشرکت فرماتے ہیں۔آپ کی آمد بڑے بڑے اجلاس کی کامیابی کی ضمانت
بن جاتی ہے۔ حضور حافظ ملت کے یہ شاگرد عظیم جب منبر خطابت پر جلوہ فرما
ہوتے تب حضور مفتی اعظم ہند اور برہان ملت علیہما الرحمہ والرضوان بھی آپ
کے خطبات کو سراہتے ۔اپنے خطابات میں الفاظ کی جاذبیت، کلام کی عظمت اور
زبان کی فصاحت وبلاغت کی وجہ سے کئی سالوں سے برطانیہ میں رہائش کے باوجود
ہندوستانیوں کے دلوں پر حکومت کر رہے ہیں۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں آپ
کے خطاب کو سننے کے بعد طلبہ کہتے ہیں کہ حضرت آپ کو تو علی گڑھ مسلم
نیورسٹی میں اردو کا ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ ہونا چاہیے۔ گلبرگہ شریف میں پروفیسرس
آپ کے خطاب کے اختتام پر کہتے ہیں کہ علامہ موصوف صرف زبان داں نہیں بلکہ
زبان گو اور اردو ساز بھی ہیں۔ اور رشاق کہتے ہیں کہ مقررین دوران تقریر
عمدہ الفاظ بولنے کو ترستے ہیں اور عمدہ الفاظ علامہ موصوف کی زبان پر آنے
کو ترستے ہیں۔
٭شعروادب:
آپ ایک بہترین اور پُر مغز سخن سنج ونعت گو شاعر بھی ہیں۔آپ کا شعری مجموعہ
’’خیابانِ مدحت‘‘کے نام سے مکتبۂ طیبہ ،سنّی دعوت اسلامی ممبئی کے زیر
اہتمام ۲۰۰۷ء میں طبع ہو کر منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوچکا ہے۔۱۰۴؍صفحات پر
مشتمل یہ مجموعۂ کلام علامہ اعظمی صاحب کی وارداتِ قلبی کا اظہاریہ ہے۔آپ
کی شاعری میں برجستگی ، سلاست، روانی، فصاحت وبلاغت کادور دورہ ہے۔پیچیدہ
سے پیچیدہ اور سخت سے سخت مضامین کو اس خوش اسلوبی سے شعری پیکر میں ڈھالتے
ہیں کہ وہ مضامین انھیں کے ہوکے رہ جاتے ہیں۔آپ کے کلام میں شعری وفنی
محاسن کی تہہ داریت ہے جو کہ بڑی پُرکشش اور دل آویز ہے۔حمد ونعت کے بعد
اسلام اور قوم ِ مسلم آپ کی شاعری کا محور و مرکز ہے۔ چند اشعار’’مشتے
نمونے ازخروارے ‘‘کے طور پر ملاحظہ فرمائیں
وہاں پر خواب گاہِ ناز سرکارِ دوعالم ہے
جہاں پر طائر سدرہ نشیں اب تک پر افشاں ہے
وہاں پر زندگی ہے بندگی ہے کیف و مستی ہے
یہاں پر دل پشیماں ،چشمِ گریاں آہِ سوزاں ہے
کرم اے رحمۃ اللعالمین کہ آپ کے در پر
غریب و بیکس و نادار یہ قمرالزماں خاں ہے
․․․․․․․․․․․
ملا رفعتوں کو عروجِ نَو وہ جہاں جہاں سے گزر گئے
ابھی تھے حرم میں وہ جلوہ گر، ابھی کہکشاں سے گزر گئے
وہ بڑھے تو رُک گئیں ساعتیں وہ بڑھے تو جھک گیا آسماں
ابھی سر بسجدہ تھے قدس میں تو ابھی جناں سے گزر گئے
نہ نظر کو تابِ نظارہ تھی نہ بصیرتوں کا گزر وہاں
وہ شعور و عقل و خیال و وَہم و ظَن و گماں سے گزر گئے
․․․․․․․․․․․
اے سرورِ ہر دوسرا اے تاجدارِ بحر و بر
تیرے کرم کے منتظر حور و ملک ، جن و بشر
سرمایہ داری اشتراکیت ہو یا جمہوریت
اُتری نہ کوئی آج تک اسلام کے معیار پر
․․․․․․․․․․․
اُف فلسطین کے بچوں کی کراہیں آقا
درد میں ڈوبے ہوئے بوسنۂ شیشاں
بلد قدس کے بچوں کے جنازہ کا ہجوم
وہ کفن پوش جواں اور وہ ماؤں کی فغاں
رقصِ ابلیس مسلمانوں کی لاشوں کے قریب
قہقہے کفر کے توہین متاع ارماں
ارضِ بغداد پر بمبار جہازوں کا ہجوم
برق کی زد پر شیراز و زمینِ تہراں
وہ جو فطرت کے تقاضوں کے محافظ تھے کبھی
جس طرف دیکھیے ہیں خاک و خوں میں غلطاں
پھر نہ فاتح کوئی غزنی سے نہ کابل سے اُٹھے
اس لیے توڑ دو بازوے غیور افغاں
یہ تو آغاز ہے انجام کسے ہے معلوم
دامنِ ظلم میں ہے کیسی قیامت پنہاں
رحم فرمائیں کہ سرکار خبر رکھتے ہیں
آپ پر اُمت مظلوم کی حالت ہے عیاں
ہم گنہگار کہاں بابِ اجابت کے قریب
ہم خطا کوش ہیں ملفوف رداے عصیاں
وہ نظر باعثِ تبدیلی قبلہ جو ہوئی
پھر اُٹھا دیں کہ بدل جائے نظام دوراں
۴۱؍اشعار کی یہ نظم’’استغاثہ‘‘ اسی قومی کرب پر مشتمل ہے جس کے حرف حرف سے
ایک مفکر کا اندرونی کرب مترشح ہے۔ اس نوعیت کے متعدد اشعار ’’خیابانِ
مدحت‘‘کے صفحات پر بکھرے ہوئے ہیں جو قارئین کے دامنِ ضبط کو اشکوں سے
بھگودیتے ہیں۔
٭ خدمات:
آپ نے ضلع فیض آبادکے قصبہ روناہی کواپنی تعلیمی اور تعمیری خدمات کے لیے
منتخب فرمایااور واقعی تعلیم وتعلم کے لحاظ سے ایک بنجرزمین کو اپنی محنت
شاقہ اور انتھک جدوجہد کا نذرانہ دے کر علم وآگہی کاایک سدابہارگلستان
بنادیا۔ ’’الجامعۃ الاسلامیہ‘‘ نہ صرف یوپی میں بلکہ ہندوستان کی گنی چنی
چند مشہور درس گاہوں میں ایک مثالی ادارہ ہے۔ہند وبیرون ہندبالخصوص یورپین
ممالک میں آپ کے تلامذہ دین متین کی عمدہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔فیض
آبادمیں تدریسی دس سالوں میں آپ تدریس کے ساتھ ہندوستان کے تمام قابل ذکر
قصبات ،اضلاع اور صوبوں میں کانفرنسوں ، سیمینار اور اجتماعات میں بحیثیت
مقرر شریک ہوتے رہے۔
آؤ ڈھونڈیں اُس مالی کو جس نے قلم لگائی تھی
گل سے کھیلنے والویہ گلشن اک دن ویرانہ تھا
٭تنظیمی خدمات:
1974ء میں رئیس القلم علامہ ارشدالقادری صاحب کی دعوت پر ورلڈ اسلامک مشن
کے سکریٹری کی حیثیت سے انگلینڈ پہنچے۔مانچسٹر (برطانیہ) کی مرکزی مسجد کے
آپ بانی اور خطیب و امام بھی ہیں۔ اس کے علاوہ آپ جامعہ مدینۃ الاسلام
(ہالینڈ) کے نائب صدر، النور سوسائٹی، ہوسٹن (امریکہ) کے ٹرسٹی، ورلڈ
اسلامک مشن کینیڈا اور ڈیلاس (امریکہ) کے ٹرسٹی، الفلاح یوتھ موؤمنٹ، بریڈ
فورڈ(امریکہ) کے بانی اور عالمی تحریک سنی دعوت اسلامی ممبئی (انڈیا) کے سر
پرست ہیں۔ایران،عراق،لیبیا، برطانیہ،ہالینڈ، ناروے،بلجیم،ڈنمارک،
فرانس،جرمنی، افریقہ، امریکہ کی تمام اسٹیٹس،ہیوسٹن، ٹیکساس ،شکاگو،نیویارک
اور ایشیائی ممالک میں مدارس،مساجداور مختلف اداروں کا قیام فرمایااور امت
مسلمہ کی دینی وملّی اصلاح کی غرض سے مذکورہ مقامات پر تبلیغی دورے
فرمائیں۔
٭ایوارڈ:
۴؍اپریل ۲۰۱۱ء میں رضااکیڈمی ممبئی کے زیراہتمام ممبئی میں ایک عظیم الشان
پروگرام کاانعقاد ہواجس میں حضور مفکراسلام کی بے لوث خدمات کااعتراف
کیاگیااور ’’توصیف نامہ ‘‘اور ’’مفتی اعظم گولڈ میڈل ‘‘پیش کیاگیا۔اس
پروگرام میں علامہ موصوف کی حیات وخدمات پر مبنی مختلف قلمکاروں کے مضامین
کامجموعہ بنام ’’تجلیات قمر‘‘بھی شائع کیاگیا۔
٭اہم کارنامہ:
سیاسیات کے تعلق سے ورلڈ اسلامک مشن کی یہ پالیسی رہی ہے کہ پوری دنیامیں
سیاسی پارٹیوں یاملکوں کے ایسے فیصلے جواسلام اور روحِ اسلام سے متصادم
ہوں،ان کے خلاف احتجاج کیاجائے اور مختلف اشاعتی ذرائع سے ان کی غیراسلامی
حیثیت کو واضح کیاجائے اور حکومتوں پر دباؤڈالاجائے کہ وہ اس طرح کے فیصلے
مسلمانوں پر مسلط نہ کریں۔دنیابھر میں درپیش ایسے مسلم مسائل پر علامہ
اعظمی صاحب اپنی منفرداور بے مثال خدمات انجام دے رہے ہیں۔
٭حوالہ جات:
(۱)خطبات مفکر اسلام،جلد اول ،ص؍۱۱،مکتبۂ طیبہ ممبئی،۲۰۰۷ء
(۱)تجلیات قمر،رضااکیڈمی،۲۰۱۱ء
(۲)تجلیات رضا،بحرالعلوم نمبر،ص؍۴۱۷،امام احمدرضااکیڈمی۲۰۱۳ء
(۳)دی مسلم ۵۰۰،۲۰۱۶ء اور ۲۰۱۷ء، دی رائیل اسلامک اسٹراٹیجک اسٹڈی
سینٹر(جارڈن )
()خیابان ِ مدحت، مکتبۂ طیبہ ممبئی،۲۰۰۷ء
٭٭٭ |