قومی سیاست پر فی الحال عدالتوں کا اس قدر بول بالہ ہے
کہکبھی تو ایسا لگتا ہے گویا حکومت کی لگام عدالت کے ہاتھ میں اور کبھی یوں
محسوس ہوتا کہ عدالت کو حکومت نے یرغمال بنالیا ہے۔ اس پہلے کہ کیرالہ کی
عدالت کے ایک نادرِ روزگار فیصلے کا جائزہ لیا جائے دہلی آئی آئی ٹی میں
۲۸ سالہ منجولا دیوک کی خودکشی کو دیکھیں جو امریکہ میں ملازمت کرکے واپس
آئی آئی ٹی آئی تھیں ۔ منجولا کی شادی ۲۰۱۳ میں رتیش ورہا سے ہوئی تھی
لیکن دوستوں کے مطابق وہ اپنے شوہر اور سسرال والوں کی اذیت کا شکار تھی ۔
اگر منجولا مسلمان ہوتی تو اپنے شوہر سے خلع لے لیتی لیکن وہ تو سات پھیرے
لے کر سات جنم کے بندھن بندھ چکی تھی ۔ ان پھیروں سے نکلنے کے لیے اس کے
سامنے عدالت کا فولادی دروازہ تھا ۔جولوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں طلاق
کی شرح زیادہ وہ نہیں جانتے کہ مسلم خواتین کو اپنے شوہر سے الگ ہونے کے
لیے عدالت میں سرپھوڑنا نہیں پڑتا اور طلاق کی شرح کے حساب میں خلع کو بھی
شامل کردیا جاتا ہے۔ عدالت کا یہ حال ہے کہ اس کے ذریعہ چھٹکارہ پانے کیلئے
انوراگ تیواری جیسے ہونہارآئی ایس افسر کو ایسی مشکلات کا سامنا کرنا
پڑاکہ ۳۵ سال کی عمر میں ان کا دماغ کی نس پھٹنے سے انتقال ہوگیا۔
ہماری عدالتیں جو برسوں تک راضی خوشی کے طلاق کو نہیں نمٹاپاتیں وہ اچانک
ایک نکاح کو فسخ کرنے کے لئے کیسے حرکت میں آجاتی ہیں اس کا نمونہ کیرالہ
میں نظر آیا۔ وہاں پر اکھیلا نامی ۲۴ سالہ خاتون نےاسلام کی تعلیمات سے
متاثر ہوکر مذہب تبدیل کرلیا اور گھر چھوڑ دیا۔ اس کے والد اشوکن نے اس کو
گھر واپس لانے کے لیے عدالت سے رجوع کیا۔ اس بیچ اکھیلا نے ایس ڈی پی آئی
کے رہنما شفین جہان سے نکاح کرلیا۔ اشوکن نے عدالت سے درخواست کی کہ یہ
نکاح فسق کردیا جائے اور اکھیلا کو اس کے حوالے کیا جائے جبکہ اکھیلا ذرائع
ابلاغ میں اعلان کرچکی تھی کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی۔ اب
ذرا غور کیجئے کہ ایک بالغ اور ذی عقل خاتون کے معاملے میں کیرالہ جیسی
روشن خیال ریاست کی عدالت کا فیصلہ کیا ہونا چاہیے تھا اور دیکھیں کہ کیا
ہوا؟
عدالتی فتویٰ یہ ہے کہ ایک ۲۴ سالہ لڑکی نہایت کمزور و نحیف ہوتی ہےاورکئی
طرح سے اس کا استحصال کیا جاسکتا ہے ۔ اس کی شادی چونکہ زندگی کا سب سے اہم
فیصلہ ہے اس لیے والدین کی فعال شمولیت سے ہونا چاہیے۔اس طرح گویا یہ تسلیم
کرلیا گیا کہ کوئی بالغ خاتون اپنی مرضی سے نکاح نہیں کرسکتی اور اگر وہ اس
کی جرأت کرتی ہے تو والدین اس کی جبری طلاق عدالت سے لے سکتے ہیں ۔کیا یہ
تین طلاق سے بڑا جرم نہیں ہے جبکہ زن و شو کو یہ جدائی منظور نہ ہو۔ایک
شوہر اپنی بیوی سے کیسے الگ ہو اس پر تو رات دن پروچن سنایا جاتاہےلیکن
والدین اپنی بیٹی کی مرضی کے خلاف اس کو شوہر سے الگ کروالیں تو کوئی نہیں
بولتا۔حیرت کی بات ہے کہ حقوق نسواں کی دہائی دینےوالے سارے خدائی فوجداروں
اس ظالمانہ فیصلے پر مکمل خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ اس موقع پر امجد اسلام
امجد کا شعر(ترمیم کے ساتھ) یادآتا ہے؎
اگر یہی ہے عدالت ! اور آپ ہیں مُنصِف!
عجب نہیں کہ جو یہ خاندان ٹوٹتا ہے
کیرالہ کی عدالت نے ایک پرانے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے ڈی ایس پی کو اس
سازش کا پتہ لگانے کا حکم دیا ہے جس کے تحت ہندو لڑکیوں کو ورغلا کر مسلمان
بنایا جاتاہے۔ تعجب کی بات ہے کہ ایک بالغ اور باشعور لڑکی ورغلایا گیا ہے
اس کا علم اس کے والدین کو ہوتا ہے، پولس اور عدالت بھی یہ جان جاتی ہے
لیکن خود لڑکی کو اس کا پتہ نہیں چلتا ؟کیا اس فیصلے میں فاضل جج نے عورت
کو ناقص العقل نہیں قرار دےدیا؟ کیا کسی خاتون کی شخصی آزادی کو سلب کرنے
کا اور اس کے انفرادی تشخص کو ختم کرنے کا اس سے بہتر کوئی اورطریقہ ہوسکتا
ہے؟ وہ تو خیر اشوک سنگھل اور مرلی منوہر جوشی نے عدالت سے رجوع نہیں کیا
ورنہ مختار عباس نقوی اور شاہنواز حسین کا گھرکب کا اجڑ چکا ہوتا۔
اس دلچسپ فیصلے میں عدالت نے اکھیلا کے قبولیت اسلام پر اعتراض نہیں کیا
لیکن والدین کو اس کی شادی کا حق دےکر اس کو زبردستی ان کے حوالے کر دیا ۔
اب اگر اشوکن اپنی بیٹی کا نکاح کسی ہندو سے کردے تو کیاہوگا؟ اکھیلا پر
کیا گذرے گی ؟ اس کا احساس کسی کو نہیں ہے اور اس کے شوہر شفین جہان کا کیا
حال ہوگا اس پر کوئی غور نہیں کرتا اس لیے کہ عدالت کی نظر میں وہ دونوں تو
انسان ہی نہیں ہیں۔ ہندو طرز حیات میں والدین اپنی بیٹی کا کنیادان کرتے
ہیں اور خیرات اس شئے کو کیا جاتا ہے جو اپنی ملکیت ہوتی ہے۔ یہی تصور
ملکیت ہندو والدین سے قتل وغارتگری تک کرواتا ہے ۔
۱۷ مئی ۲۰۱۷ کو جئے پور میں ایک شخص کا اس کے گھر میں گھس کر اس لیے قتل
کردیا گیا کہ اس نے اپنے خسر کی مرضی کے خلاف ان کی بیٹی سے شادی کرلی تھی۔
۱۹ مئی ۲۰۱۷ کو راجستھان ہی کے شہر بھرت پور میں ایک شخص اپنی بیٹی کا قتل
کرکے اس کی لاش نہر میں بہادی اس لیے کہ اس کی مرضی کے خلاف بیٹی نے شادی
کی جرأت کی تھی۔ پچھلے سال ایک بھائی نے سب کے سامنے اپنی بہن کو زندہ
جلادیا اس لیے اس نے دوسری ذات کے ایک مرد سے وواہ کرلیا تھا۔ اس طرح
واقعات کی پردہ داری کے لیے تین طلاق کا ہواّ کھڑا کردینے سے سہل راستہ اور
کون سا ہوسکتا ہے؟ خواتین کے ساتھ ناروا سلوک میں دن بہ دن اضافہ ہوتا
جارہا ہے ۔ اترپردیش میں اس پر قابو پانے کے لیے بی جے پی نے رومیو بریگیڈ
قائم کی جو خود خواتین کے ساتھ بدسلوکی کرنے لگی ۔
یوگی جی کے راج میں جنسی حیوانوں کے حوصلے اس قدر بلند ہیں کہ رامپور سے
قریب ۱۴ غنڈے ۲ خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں اور اس کی فلمبندی کرکے
سماجی رابطے کی سائٹ پر پھیلا دیتے ہیں ۔ سہارنپور روڈ پر چار خواتین کی
اجتماعی عصمت دری کی جاتی ہے اور مزاحمت کرنے والے مرد کو ہلاک کردیا
جاتاہے۔حد تو یہ ہے مسافروں کی حفاظت پر تعینات ریلوے کانسٹبل کمل شکلا خود
اس گھناونے جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ایک سوال یہ بھی ہے کہ اس طرح کی مجرمانہ
ذہنیت کا فسطائیت سے کیا تعلق ہے؟کیونکہ جنسی جرائم اور خاص طور پر
آبروریزی کے معاملے میں سرِ فہرست ریاستیں مدھیہ پردیش ، مہاراشٹر اور
راجستھان میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ کیا وہ لوگ زعفرانی اقتدار میں اپنے
آپ کو محفوظ تر محسوس کرتے ہیں ؟جس سماج کے مرد غیر عورتوں پر بھیڑیوں کی
مانند پل پڑتے ہوں اس کی خواتین اگر دیگر قوم کے مردوں کے ساتھ نکاح کرکے
اپنا گھر بسائیں تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ
آبروریزی کے واقعات میں شاذونادر ہی کسی مسلمانوں کے ملوث ہونے کاذکر آتا
ہے۔اس کے باوجود جیلوں میں مسلمانوں کی بڑی تعدادکا حوالہ دے کر اور تین
طلاق کا مسئلہ اچھال کر مسلمانوں کو اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی
ہے۔ عدالتوں میں جب ان کے معاملات پہنچتے ہیں تو فیصلوں پر ملک زادہ منظور
کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
وہی قاتل وہی منصف عدالت اس کی وہ شاہد
بہت سے فیصلوں میں اب طرف داری بھی ہوتی ہے
|