ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے کے مصداق دل
بھی پاگل ہے نجانے کیا کیا سوچتا رہتا ہے۔ جمہوریت، جمہوریت کا راگ الاپا
جا رہا ہے۔ پاکستان کی تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں میں کیا واقعی ہی
جمہوریت ہے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے کہ ہر پاکستانی پوچھنا چاہتا ہے۔ کیا ان
جمہوری جماعتوں میں انٹرا پارٹی الیکشن خالص جمہوری انداز میں ہوتے ہیں؟
کیا کسی عام کارکن میں یہ جرأت ہے کہ وہ اپنے کاغذات نامزدگی اپنی جماعت کے
قائد نواز شریف، بلاول بھٹو زرداری، عمران خان، فضل الرحمان، سراج الحق اور
خان ولی خان کے خلاف جمع کرا سکے۔ اور اگر جمع کرانے کی غلطی کر ہی لے تو
کیا پھر وہ اُسی پارٹی میں رہنے میں کامیاب ہو سکے گا۔ ہمارے ہاں ایسا نہیں
ہوتا۔ یہاں کی جمہوری جماعتیں دراصل سب سے بڑی آمریت کی سوچ رکھنے والی نظر
آتی ہیں۔ کاش ایسا ہو جائے کہ جتنا پیسہ نواز شریف، آصف زرداری اور دیگر
ہزاروں پاکستانیوں کا سوئس بینکوں اور دیگر بین الاقوامی بینکوں میں موجود
ہے اُس کو پاکستان لے آئیں۔ صرف اپنے پاکستانی بینکوں میں ہی رکھ لیں تو
پاکستان کتنا خوشحال ہو سکتا ہے۔ کاش! پاکستان میں غریب اور امیر کے لئے
قانون ایک جیسا ہو جائے۔ سب کو برابر انصاف ملے۔ مگر یہاں تو اپنے پیٹ کی
بھوک مٹانے والا اگر تندور سے دو روٹی چوری کرتا ہے تو اُس کی جان بخشی
نہیں ہوتی اور شہر بھر کی چوریاں تھانیدار اُس کے ذمے ڈال دیتا ہے۔ ماڈل
آیان علی، ڈاکٹر عاصم حسین، شرجیل میمن اور رئیس جیسے کروڑوں کی بدعنوانی
کرنے والے باعزت ضمانت پر رہا کر دئیے جاتے ہیں۔ کاش! سارے پاکستان میں
قانون کی حکمرانی ہو اور تمام ضروریات زندگی کے ایک ریٹ مقرر ہو جائیں۔
رمضان بازار کی ضرورت ہی پیش نہ آئے اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈاؤن
بلاتفریق ہو۔ کاش! بجلی آگئی، بجلی چلی گئی جیسے منحوس فقرے سے پاکستانی
عوام کی جان چھوٹ جائے اور پاکستانیوں کو 24 گھنٹے سستی بجلی ملنا شروع ہو
جائے۔ کاش! پاکستان میں ہر خاص و عام کے لئے یکساں تعلیمی پالیسی اپنائی
جائے۔ معیاری اور سستی تعلیم عام ہو جائے۔ پاکستان میں کوئی بچہ ایسا نہ ہو
جس کے ہاتھ میں قلم نہ ہو۔ کاش! پاکستان جرائم اور اسلحے سے پاک ہو جائے۔
اسلحہ صرف اور صرف قانون نافذ کرنے والے اور سیکورٹی اداروں کے پاس ہو۔ عام
آدمی کے پاس اسلحہ قطعی نہیں ہونا چاہئے۔ کاش! ہم خود بدعنوانی کے خلاف
اُٹھ کھڑے ہوں۔ جو بھی سرکاری ادارہ اگر رشوت مانگتا ہے تو اُس کے خلاف
ڈھال بن جائیں، اس کو بے نقاب کرنے میں اپنا قومی فریضہ ادا کریں۔ کاش! ہم
انتخابات میں ووٹ کا استعمال تھانے، کچہری، محلے کی گلی اور نالی سے ہٹ کر
پاکستان کے وقار اور ترقی کو سامنے رکھ کر کریں۔ جب پاکستان میں معیار بلند
ہو گا تو پاکستان ترقی کرے گا اور تمام مسائل حل ہوں گے۔ کاش! ہر پاکستانی
سبز ہلالی پرچم کی سربلندی کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کرے۔ اس سوچ کو پس
پشت ڈالنا ہو گا کہ ایک میرے کرنے سے کیا ہو گا بلکہ اس سوچ کو پروان
چڑھانا ہو گا کہ ایک میرے کرنے سے ہی سب کچھ ہو گا۔ تبدیلی کا آغاز ہمیشہ
اپنے آپ سے کیا جاتا ہے۔ جب ہر پاکستانی اپنے سے آغاز کرے گا تو تبدیلی
رونما ہو گی۔ اپنے خوبصورت پاکستان کو ہم سب نے صاف ستھرا رکھنا ہے۔ ہم نے
اپنے گھر کا کچرا باہر گلی میں نہیں پھینکنا یہی نقطہ آغاز ہو گا۔ کاش!
ہمیں یہ سمجھ آجائے کہ ممبران اسمبلی ہمارے ووٹ سے بنتے ہیں، اگر ہمارا ووٹ
ان کو نہ ملے تو یہ اسمبلی میں داخل نہیں ہو سکتے اور جب ہم ان کو ووٹ دیتے
ہیں تو پھر ہم ان سے کام لینے کے بھی مجاز ہوتے ہیں مگر ہماری گنگا اُلٹی
بہنا شروع ہو جاتی ہے۔ ہم پہلے ووٹ دیتے ہیں، ان کو منتخب کراتے ہیں، پھر
ہم ان کو تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں چونکہ منتخب ہونے کے بعد یہ ہمیں بھول
جاتے ہیں۔ کاش! جتنی بھی باتیں آج لکھی ہیں وہ سب سچ ہو جائیں۔ ان باتوں کا
اثر ہر پاکستانی قبول کر لے تو پاکستان کتنا حسین ہو جائے۔ پاکستان کتنا
ترقی یافتہ بن جائے۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ |