راز دانِ رسول ﷺ

ایک دن حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا گزرمکہ کی ایک وادی سے ہوا۔ جہاں ایک نوجوان کو دیکھاجس کے پاس بکریوں کا ریوڑ تھا۔ آپ ﷺ نے نوجوان چرواہے کو مخاطب کرکے بکری کا دودھ طلب کیا۔ نوجوان نے عرض کیا ۔ ’’ یہ بکریاں میری نہیں دوسروں کی ہیں۔ میں تو اجرت پر انہیں چراتا ہوں اور اپنے مالک کی اجازت کے بغیر دودھ نہیں دے سکتا ‘‘۔ نوجوان چرواہے کا جواب سُن کر آپ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کسی قسم کی ناگواری یا ناراضگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ انہوں نے نوجوان کے اس جواب کو پسند فرمایا۔اس کے بعد رسول اﷲ ﷺ نے نوجوان سے کہا۔ ’’ اچھا تو کوئی بغیر دودھ والی بکری لاؤ ‘‘۔ نوجوان نے ایک چھوٹی سی بکری آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کردی ۔ سرکار عالم ﷺ نے بکری کے تھنوں پر ہاتھ پھیرا اور دعا فرمائی تو دودھ سے لبریز ہوگئے۔ یہ معجزہ نبوی ﷺ دیکھ کر وہ چرواہا آپ ﷺ کی خدمت حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے اس دعا کی تعلیم دیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ۔ ’’تم تو تعلیم یافتہ لڑکے ہو ‘‘۔ اس واقعہ کا اتنا گہرا اثر ہوا کہ فوراً مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اس کم سن چرواہے کا نام حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھا۔جو روزانہ مکہ کے ایک رئیس عقبہ ابن معیط کی بکریاں کو مکے کی پہاڑیوں اور وادیوں میں چرایا کرتا تھا۔ اسلام لانے والوں میں آپ ؓ کا نمبر چھٹا تھا۔ اس حقیقت کے متعلق آپ ؓ خود فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو مسلمانوں میں چھٹا مسلمان دیکھا جب کہ ہمارے علاوہ روئے زمین پر کوئی مسلمان نہیں تھا۔

اسلام قبول کرنے بعد اس خوش بخت اور سعادت مند نوجوان نے خود کو رسول اﷲ ﷺ کی خدمت کے لئے وقف کردیا۔وہ ہر وقت سائے کی طرح آپ ﷺ کے ساتھ رہنے لگے۔جب آپ ﷺ سو جاتے تو وہ آپ ﷺ کو بیدار کرتے ، جب آپ ﷺ گھر سے باہر جانے کا قصد کرتے تو وہ آپ ﷺ کو جوتے پہناتے ، جب آپ ﷺ گھر میں داخل ہوتے تو وہ جوتوں کا پائے مبارک سے نکالتے اور آپ ﷺ کے عصا اور مسواک کی حفاظت کرتے۔ یہاں تک کہ حجرہ رسول میں آپ ﷺ سے پہلے داخل ہوجاتے۔غرض حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ ان کے قرب و تعلق کا یہ حال تھا کہ آپ ﷺ نے انہیں اپنے تمام رازوں سے واقف رہنے کی ااجازت دی۔ اسی وجہ سے آپ ؓ نے راز دان ِ رسول ﷺ کے لقب سے شہرت پائی۔اس کے علاوہ آپ ؓ ظاہری و باطنی اصلاح کے ساتھ ساتھ فقہی مسائل کی باریک بینی میں بھی اعلیٰ درجے کی بصیرت کا وصف رکھتے تھے جس کی بنا ء پر فقہائے کرام کے نزدیک آپؓ افقہ الصحابہ کے لقب سے مشہور و معروف ہیں۔

آپ ﷺ کے نہایت قریب ہوجانے کی وجہ سے حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نبی اکرم ﷺ سے بہت زیادہ فیض حاصل کیا۔ آپؓ کو قرأت و تجوید میں غیر معمولی کمال کے ساتھ قرآن پاک کی تفسیر میں بھی خصوصی مہارت حاصل تھی۔ آپ ﷺ نے جن چار صحابہ کرام ؓسے قرآن سیکھنے کی ہدایت فرمائی تھی اُن میں ایک حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی شامل تھے۔ آپ ؓ صرف ایک عالم و قاری اور عابد و زاہد ہی نہیں تھے بلکہ ایک باہمت ، دور اندیش اور زبردست مجاہد بھی تھے۔آپؓ نے تمام مشہور اور اہم غزوات میں بڑھ چڑھ کر شرکت فرمائی۔ جنگ ِ یرموک میں بھی شریک ہوئے اور دشمنوں کا جرأت و شجاعت سے مقابلہ کر کے اپنی جنگی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے دور ِ خلافت میں آپ ؓ کوکوفہ کا قاضی اور بیت المال کا متوالی بنایا۔ خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی ؓ کی خلافت کے ابتدائی زمانے میں بھی وہ اسی عہدے پر فائز رہے۔ پھر مدینے آگئے جہاں 32 ہجری میں وفات فرمائی۔ آپ ؓ کی نماز جنازہ حضرت عثمان غنی ؓ نے پڑھائی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔
Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 205 Articles with 265662 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.