فاتح خیبر، خلافت راشدہ ؓ کے چوتھے تاجدار ،امیر المومنین،خلیفتہ المسلمین حضرت سیدنا علی کرم اﷲ وجہ

 سیدنا علی المرتضیؓ اسلام کی گوہرنایاب ہستی کا نام ہے جو کسی تعارف کی محتاج نہیں، ا ٓپ ؓ کی پیدائش عام الفیل کے سات سال بعد ہوئی بعض سیرت نگار کھتے ہیں کہ نبی اقدس ﷺ کی ولادت کے تیس سال بعد سیدنا علی المرتضی ؓ پیدا ہوئے علماء یہ بھی فرماتے ہیں آنجناب ؓ کی ولادت بعثت نبوی ﷺسے دس برس قبل ہوئی متعدد اقوال کے اس اختلاف کے بعد سب ولادت کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں دیا جا سکتا۔آپ ؓ کی والدہ محترمہ نے آپ ؓ کا نام اسد اور والد ابوطالب نے علیؓ رکھا حضرت علی ؓ اورحضرت خدیجتہ الکبری ؓ کے بھا ئی حکیم بن حزامؓ کی طرح خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے آپ ؓ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ ؓ حضور کی کفالت وتربیت میں رہے حضور ﷺ نے حضرت علی رضی اﷲ تعالی عنہ کی تربیت فرما کر انھیں خصوصی فیض عطاء فرمایا۔
حضور ﷺ نے اعلان نبوت کے بعد جب رشتہ داروں کودعوت طعام دی اور ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش فرمائی تو حضرت علی ؓ نے آپﷺ کی نبوت ورسالت کی تائید کی اور ہر حال میں آپ کا ساتھ دینے کا عہد کیااس طرح بچوں میں سب سے پہلے اسلام لانے کا شرف بھی حضرت علی ؓ کو حاصل ہوا۔ جب کافروں نے حضرت حضور ﷺ اور آپﷺ کے ساتھیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دئیے تواﷲ کے حکم سے حضرت محمد ﷺ نے ہجرت فرمانے سے قبل حضرت علی ؓ کو اپنے بستر پر لیٹنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ لوگوں کی امانتیں واپس کرکے مدینہ آجانا اس وقت تمام سرکردہ دشمنان اسلام آپ ﷺکو شہید کرنے کے ارادے سے آپ ﷺ کے گھر کا محاصرہ کئے ہوئے تھے ایسے وقت میں بستر نبوت پرلیٹنا بہادری وبہادری ا ور اطاعت رسول کی اعلیٰ مثال ہے جو تاریخ اسلام میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھی جاتی رہے گی،حضرت علی ؓ سے بعد میں کسی نے پوچھا اے علیؓ ! جب حضور ﷺ نے ہجرت فرمائی اور آپؓ کو اپنے بستر پر لیٹنے کا حکم فرمایا تو آپ ؓ کو ڈر نہیں لگا تھا تو آپ ؓ نے فرمایا تھا کہ اس رات مجھے کوئی ڈر لا حق نہیں ہوا اس رات جتنے آرام وسکون سے نیند آئی پہلے کبھی نہیں آئی تھی ۔پوچھا گیا کیوں ڈر نہیں آیا تو آپ ؓ نے جواب دیا کہ جب میرے حضور ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ تم صبح لوگوں کی امانتیں واپس کرکے مدینہ منورہ آجانا تو مجھے یقین ہوگیا کہ میرے آقا ومولا کا فرمان کبھی غلط نہیں ہو سکتا، یہ کافر مجھے شہید نہیں کر سکتے ،اور میں ہر قیمت پر مدینہ منورہ جاؤں گا اس لئے آرام وسکون سے سو گیا ۔

جہاد کے میدان میں آپ ؓ آقائے دوجہاں ﷺ کے ساتھ رہے تمام غزوات میں سیدنا علی المرتضی ؓ نے بہادری کے ناقابل فراموش جوہر دکھائے حربی میدان میں انکے یہ کارنامے مسلمانوں کے لئے کامیابی کے زینوں کی حیثیت رکھتے ہیں جنگ بدر میں مہاجرین کی طرف سے علم حضرت علی ؓ کے ہاتھ میں تھاجنگ بدر کے مال غنیمت میں سے آپ ؓ کو اعلی قسم کا ناقہ اور اعلی تلوار ذوالفقار ملی۔

قرآن وحدیث میں آپ ؓ کے فضائل کثیر تعداد میں وارد ہوئے ہیں ان میں سے چند پیش خدمت ہیں حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں علم کا شہر ہوں ابوبکر اسکی بنیادیں،عمر اسکی دیواریں ،عثمان اسکی چھت اور علی اسکا دروازہ ہے۔صحیح بخاری میں سعدبن وقاص ؓ سے روایت ہے کہ جس وقت آیت مباہلہ نازل ہوئی تو رسول اﷲ ﷺ نے حضرت علی ؓ ،حضرت فاطمہ ؓ ،حسنین کریمین ؓ کو بلوا کر دعا کی کہ اے الٰہی! یہ میرے اہل بیت کے لوگ ہیں۔رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا علی ؓ مجھ سے ہیں اور میں علی ؓ سے ہوں ۔آقا کریم ﷺ نے مواخات کے موقع پر فرمایا کہ علی تم دنیا و آخرت میں میرے ساتھی ہو۔

ماہ رجب دو ہجری میں حضرت علی ؓ کا نکاح جگر گوشہ ٔ رسول حضرت سیدہ فاطمتہ الزہرہؓ سے حضور ﷺ نے کروا دیااس مقدس عظیم نکاح میں انتہائی سادگی کو مدنظر رکھا گیا اور اس زمانے کی رسومات کو بالکل نظر انداز کرکے اسلام کے سنہری اصولوں کو اپنایا گیا نکاح کی تقریب سعید میں خلفائے ثلاثہؓ اور دیگر صحابہ کرام ؓ شریک تھے طبقات ابن سعد میں ہے کہ سیدہ فاطمہ ؓ کی رخصتی کے موقعہ پر جو تحفہ نبی ٔ کریم ﷺ کی طرف سے آپ ؓ کو دیا گیا(جہیز ہر گز نہیں تھا) وہ ایک چار پائی،ایک بڑی چادر،چمڑے کا تکیہ(جو کھجور کی چھال یا خوشبودار گھاس سے بھرا ہوا تھا)،ایک مشکیزہ،دوگھوڑے اور ایک آٹا پیسنے والی چکی پر مشتمل تھا حضرت حارثہ بن نعمان ؓ نے حضرت علی ؓ کو حضور ﷺ کی وساطت سے مکان تحفے میں دیااسی مکان میں حضرت فاطمہ ؓ نکاح کے بعد رہائش پذیر رہے ۔ حضرت فا طمہ ؓسے آپ ؓ کی اولاد حضرت زینبؓ،حضرت رقیہ ؓ ،حضرت ام کلثوم ؓ، حضرت حسن ؓ، حضرت حسین ؓ اور حضرت محسن ؓ پیدا ہوئے ۔آپ ؓ حضور ﷺ کاکتنا احترام کرتے تھے اسکا اظہار صلح حدیبیہ کے موقعہ پر دیکھنے میں آتا ہے کہ جب صلح نامہ لکھ لیا گیا تو فریق دوم نے کہا کہ محمد ﷺ کے ساتھ لفظ رسول اﷲ مٹا دیا جائے کیونکہ اگر ہم آپ ﷺ کو رسول اﷲ مان لیں تو جھگڑا ہی ختم ہوجائے تو آنجنابﷺ نے حضرت علی ؓ سے کو ارشاد فرمایا کہ رسول اﷲ کا ٹ دیں حضرت علی ؓ نے عرض کیا میں تو اس لفظ کو کاٹنا نہیں چاہتااسکے بعد حضور ؓ نے خود اپنے ہاتھ س اسے محو فرما دیا۔

حضور اکرم ﷺ غزوۂ خیبرمیں قلعہ قموص یا قلعہ ناعم مسلسل حملوں کے باوجود فتح نہ ہونے پر فرماتے ہیں کہ کل پرچم اسے دیا جائے گا جس سے اﷲ تعالی اور اسکے رسول ﷺ محبت کرتے ہیں اس کے ہاتھوں یہ قلعہ کی فتح ہوگا۔ جب صبح ہوئی تو حضور ﷺ نے فرمایا علیؓ کہاں ہے؟ تو بتایا گیا کہ انکی آنکھیں خراب ہے حضور ﷺ نے چشم آشوب کے باوجود حضرت علی ؓ کو بلوایا آپ ﷺ نے سیدنا علیؓ کی آنکھوں پر لعاب دہن لگایا اس سے تکلیف فوراکافور ہوگئی تو قلعہ قموص کی طرف مہم جوئی کے لئے آپؓ کو پرچم دیا گیا جب آپ ؓ خیبر کے دروازے پر پہنچے تو آپؓ کا سامنا عرب کے مشہور یہود ی پہلوان مرحب سے ہوا مرحب نے اپنا تعارف حضرت علیؓ کے مقابلے میں آتے ہوئے اس طرح کراویا کہ خیبر کو معلوم ہے کہ میں مرحب ہوں،ہتھیار پوش،بہادر اور تجربہ کار!جب جنگ و پیکار شعلہ زن ہو ۔ اس کے بعد حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ میری ماں نے میرا نام حیدر( شیر) رکھا ہے جنگل کے شیر کی طرخ خوفناک ۔میں انہیں صاع کے بدلے نیزے کی ناپ پوری کروں گا۔ اس کے بعد مرحب حضرت علیؓ پر حملہ آور ہوا تو سیدنا علی المرتضی ؓ نے اس کا حملہ کمال مہارت سے روکا اور پھر حید رکرارؓ مرحب پر حملہ آور ہوئے تو اس پہلوان کا سر پہلے ہی وار میں تن سے جدا کرکے اس کا ہی نہیں بلکہ خیبر کے یہودیوں کا غرور خاک میں ملا دیا جب مرحب اپنے گھوڑے سے گرا تو اسکا نقشہ کسی شاعر نے کیا خوب کھینچا ہے کہ
آج مجھے کو پہلی بار شکست فاش ہے لگتا ہے تو ہی حیدر کرارؓ ہے
اسکے بعد یہ قلعہ فتح ہوگیا سیدنا علی المرتضی ؓ فاتح خیبر بن کر نبی اکرم ﷺ کے پاس لوٹتے ہیں
وصال نبویﷺ کے بعد تقرریٔ خلیفۂ بلا فصل میں باہم مشورے کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کو خلیفتہ الرسول،خلیفۂ بلافصل مقرر کیا گیا حضرت علی ؓ نے اکابر صحابہ کرامؓ کے ساتھ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ خلافت صدیقی میں شیرخداؓ علیؓ، سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے ساتھ ساتھ رہے انکے پیچھے نمازیں پڑھیں ،انکے ساتھ مل کر جہاد کیا،کسی نماز میں ان ؓ سے الگ نہیں ہوئے( البدایہ از حافظ ابن کثیر)۔ عہد صدیقی میں دینی مسائل،انتظامی امور میں مشاورت کے لئے بنائی گئی مشاورتی مجلس میں مہاجرین کی طرف سے حضرت علی ؓکو بھی شامل کیا گیا۔

عہد فاروقی میں اسد اﷲ ؓکو شوری کی رکنیت اکابر صحابہ ؓ کے ساتھ شامل کیاگیا اس دور میں آپ ؓ کو افتاء وقضاء کا منصب دیا گیااس ذمہ داری کو آپ ؓ نے جس احسن طریقے سے نبھایا یہ آپ ؓ کا ہی کمال تھامجلس مشاورت میں انکے مشورے کو خاص اہمیت دی جاتی تھی بعض اوقات حضرت علی ؓ کو حضرت عمرؓ کی نیابت مدینہ منورہ پر حاصل ہوتی تھی۔ حضرت علیؓ نے بخوشی سیدنا عثمان ؓ کے ہاتھ پر بیعت کی عہد فاروقی کی طرح اس دور میں بھی عہدہ قضاء ،مجلس مشاورت کے رکن ،ملکی معاملات میں شرکت جیسے اہم مسلے میں ساتھ دینا،اس دور کی ملکی جنگوں میں اولاد ابو طالب کا شریک ہونا اور غنائم مالی حاصل کرنا وغیرہ یہ تمام امور حضرت علی ؓ کے عملی کردار و اخلاق کو واضح کرتے ہیں ۔انعقاد خلافت کے بعد جب آپؓ مدینہ منورہ سے کوفہ منتقل ہوئے توآپ ؓ نے کوفہ کے محل قصرا بیض میں قیام فرمانے کی بجائے ان جھونپڑیوں کو تر جیح دی جن میں غریب لوگ رہا کرتے تھے ،حضرت علیؓ جب سریرائے خلافت ہوئے تو انھوں نے مملکت کو عہد فاروقیؓ کی روشنی سے منور کیا ایک طویل عرصہ سے جو عرب و عجم میں روشن تھی حضرت علی ؓ نے حکومتی اختیارات کا استعمال قرآن وسنت کے مطابق کیا انھوں نے حکومتی طرز میں عزیمت کا راستہ اختیار کیا۔نصربن منصور نے عقبہ بن علقمہ سے روایت کی ہے کہ حضرت علی ؓ کے پاس انکے عہد خلافت میں ان سے ملنے گیا تو انکے سامنے پڑا ہوا کھٹا دودھ مجھے تکلیف دے ر ہا تھا اسکے ساتھ سوکھی ہوئی روٹی کا ٹکڑا رکھا ہوا تھا میں نے کہا کہ امیرالمومنین! کیا آپ ایسی روٹی کھاتے ہیں ؟ آپؓ نے فرمایا ابوالجنوب !رسول اﷲ ﷺ اس سے زیادہ سوکھا کھاتے تھے اور ان سے موٹا پہنتے تھے اگر میں ان کی روش پر نہ چلوں تو اندیشہ ہے کہ مجھے ان کا ساتھ نصیب نہ ہو۔ایک دن حضرت علی ؓ اور انکے گھر والوں کے پاس ستو کی بنی ہوئی تین روٹیاں تھیں تین روٹیوں کے سوا کچھ بھی نہ تھا یہ روٹیاں انھوں نے ایک یتیم،ایک مسکین ،ایک قیدی پر صدقہ کر دیں مسکین ،یتیم،قیدی سیر ہوگے مگر خود بھوکے رہے۔(اسلام میں اجتماعی عدل)

بلا شبہ قاتلین عثمان کے بدلہ میں آپ ؓ جن حالات کا سامنا کرنا پڑا ایسے حالات میں کوئی اور شخص عنان اقتدار ہاتھ میں لیتا تو چند روز سے زیادہ حکومت نہیں کر سکتا تھا حضرت علی ؓ کا دور حکومت ساڑھے پانچ سال تک ۲۲ لاکھ مربع میل کے وسیع و عریض خطے پر محیط تھا۔ایک مرتبہ آپ ؓ سے کسی نے خلفائے ثلاثہ کے عہد امن اور آپ ؓ کے دور حکومت کی بدامنی کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے اسکی وجہ پوچھی تو آپ ؓنے فرمایا کہ ان کے دور میں ہم (علیؓ)جیسے انکے وزیر تھے اب تمھارے جیسے ہمارے وزیر ہیں ۔
آپؓ کے فیصلے تاریخ اسلام کا ایک عہد زریں ہیں جن میں سے دو فیصلے پیش کرکے اہل ایمان کے ایمان کو تقویت پہنچانا مقصود ہے ۔ایک بار ایک لڑکے کو زنا کے جرم میں شرعی سزا دینے کیلئے لایا جا رہا تھا وہ لڑکا اونچی اونچی آواز سے کہہ رہا تھا لوگو !میں نے کوئی زنا نہیں کیا مجھے غلط سزا دی جا رہی ہے ،حضرت علیؓ اتفاق سے اسی طرف آ رہے تھے،جب حضرت علیؓ نے اس لڑکے کی پکار سنی تو انتظامیہ کے لوگوں کو رکنے کا کہا ۔حضرت علی ؓ نے سرسری طور پر لڑکے سے پوچھا کیا معاملہ ہے؟ تو لڑکے نے جواب دیا کہ جس عورت نے میرے اوپر اپنے ساتھ زنا کا الزام لگایا ہے وہ میری ماں ہے ۔حضرت علی ؓ نے انتظامیہ کے لوگوں سے کہا کہ ابھی اس نوجوان کو سزا نہ دی جائے ،پہلے میں اس کیس کو دوبارہ سن لوں پھر فیصلہ ہوگا کہ اس کو سزا دینی ہے یا نہیں ۔حضرت علیؓ نے اس لڑکے اور مدعی عورت کو بلوایا ۔آپؓ نے عورت سے پوچھا کہ کیا یہ نوجوان تیرا بیٹا ہے ؟اس عورت نے کہا کہ نہیں،بلکہ اس نے میرے ساتھ زنا کا ارتکاب کیا ہے ۔لڑکے سے پھر آپ ؓ نے پوچھا کہ عورت تیری کیا لگتی ہے ؟ تو اس لڑکے نے کہا کہ یہ عورت میری ماں ہے ۔

دونوں کے جواب کے بعد حضرت علیؓ نے کہا کہ میں ان لوگوں کی موجودگی میں اتنے حق مہر کے عوض اے عورت !تیرا نکاح اس لڑکے سے کرتا ہوں ۔تو اس پر عورت چلا اٹھی کہ اے سیدنا علی المرتضیٰ ؓ کیا کسی ماں کا بیٹے سے نکاح ہو سکتا ہے حضرت علیؓ نے فرمایا کہ نہیں ،عورت نے کہا کہ یہ لڑکا میرا بیٹا ہے ،اس پر حضرت علیؓ نے فرمایا کہ کیا کوئی لڑکااپنی ماں سے بدکاری کر سکتا ہے ؟تو عورت نے فوری جواب دیا کہ نہیں۔

حضرت علیؓ نے اس عورت سے پوچھا تو پھر تم نے اس اپنے بیٹے پر بدکاری کا لزام کیوں لگایا ؟عورت نے کہا کہ اے علیؓ ! میری شادی ایک امیر آدمی سے ہوئی تھی اس کی کافی جائیداد تھی جب یہ بچہ میرے شکم میں آیا تو میرا خاوند فوت ہوگیا ،بعد میں یہ بچی پیدا ہوا تو میرے بھائیوں نے مجھے کہا کہ یہ تیرا لڑکا ساری جائیداد کا وارث بن جائے گا اسے کسی کو دے دو میں کہیں دور دراز اسے کسی اجنبی کے پاس چھوڑ آئی اس نے ہوش سنبھالا اور اپنی ماں کو تلاش کرتے کرتے میرے پاس آگیا ،میں اس کی حقیقی ماں تھی یہ میرے پاس رہنے لگا ۔میرے بھائیوں نے مجھے ورغلایا کہ تم اس پر بدکاری کا الزام لگا دو پھر یہ راستہ سے مستقل طورپر ہٹ جائے گااور تمہارے خاوند کی ساری جائیداد بلاشرکت وغیرے ہماری ہو جائے گی ۔میں نے اپنے خاوند کی جائیداد اپنے بھائیوں کے حوالے کرنے کیلئے یہ سب کچھ کیا ۔میں اپنی غلطی کا اعتراف کرتی ہوں۔ جب اس واقعہ کا علم خلیفہ ٔ دوم حضرت سیدنا عمر بن خطابؓ کو ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر آج علی ؓ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا۔
اسی طرح ایک بچہ لایا گیا اس بچہ کی ماں ہونے کی دعویدار د و عورتیں تھیں یہ کیس حضرت سیدنا علی المرتضیٰ ؓ کی عدالت میں لایا گیاتا کہ فیصلہ فرما دیں کہ یہ بچہ کس کا ہے ؟
حضرت علیؓ نے دونوں عورتوں سے پوچھا تو ہر ایک نے اقرار کیا کہ یہ میراہی ہے،
حضرت علی ؓ نے کمال حکمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر یہ بچہ تم دونوں کو ہے تو ایسے کرتے ہیں کہ اس بچے کوکاٹ کر دو حصوں میں تقسیم کردیتے ہیں آدھا آدھادونوں عورتوں کو دے دیتے ہیں ۔
جب حضرت علیؓ نے یہ جملہ ارشاد فرمایا تو دونوں میں سے ایک عورت نے فوراً کہا کہ اے علیؓ ! اس بچے کو دو ٹکڑے نہ کرناآپؓ یہ بچہ دوسری عورت کو دے دیں ۔میں نہیں لینا چاہتی جبکہ دوسری عورت خاموش رہی ۔
حضرت علی ؓ نے عورت سے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کہا؟
تو عورت نے کہا کہ جناب سیدنا علیؓ ! یہ میرا بچہ ہے اگر یہ دو ٹکڑے ہو جائے گا تو مرجائے گا اورمیں اسے دیکھ ہی نہیں سکوں گی ۔اس لئے میں نے سوچا کہ کیوں نہ بچہ دوسری عورت کو دے دیا جائے کبھی نہ کبھی تودیکھنے کو مل جا ئے گا ۔
عورت کے اس جواب پر حضرت علی ؓ نے پہلی عورت کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ بچہ پہلی عورت کا ہے جس نے بچے کو دو ٹکڑے کرنے سے منع کیا۔ کیوں کہ کوئی ماں اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بچے کو مرتا نہیں دیکھ سکتی لہٰذا بچہ اس عورت کو دے دیا جائے۔
جنگ نہروان کا بدلہ لینے کے لئے خارجیوں کی سازش کے نتیجے میں انکے بھیجے ہوئے آدمی عبدالرحمان بن ملجم نے۱۷رمضان ۴۰ہجری کو فجر کی نماز کے اوقات میں امیرالمومنین سیدنا علی ؓ پر قاتلانہ حملہ کیا نماز تیار تھی نماز کے لئے جعدہ بن ہیرہ کو آپ ؓ نے فرمایا کہ نماز ادا کروائیں پس فجر کی نماز کے بعد ابن ملجم کو جکڑ کر آپؓ کی خدمت میں لایا گیا تو آنجنابؓ نے فرمایا اگر میں نہ بچ سکوں تو اسے قتل کردینا اور اگر زندہ رہوں تومیں جو معاملہ مناسب سمجھوں گا اس سے کروں گا(البدایہ والنہیا)۔

خلیفہ چہارم سیدنا علی المرتضی ؓ کی شہادت ۲۱ رمضان المبارک ۴۰ ہجری کو ہوئی۔ واضح رہے کہ اسی تاریخ کو خارجیوں نے سیدنا امیر معاویہؓ اور سیدنا عمرو بن العاص پر بھی قاتلانہ حملے کرکے اسلام کی ان عظیم شخصیات کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ سیدناعلی المرتضی ؓ کو غسل انکے صاحبزادوں سیدنا حسنین کریمین ؓ اور سیدنا جعفر طیارؓ نے دیا اور کفن پوشی کی گئی آپؓ کا کفن تین کپڑوں پر مشتمل تھااسکے بعد آپ ؓ کے صاحبزادے سیدنا حسن نے آپؓ کی نماز جنازہ پڑھائی اور چا تکبیروں کے ساتھ یہ نماز ادا کی گئی(المستدرک للحاکم)آنجناب ؓ کو کوفہ میں مسجد الجماعتہ کے قریب الرحبہ کے مقام پر قبل از نماز فجر رات ہی کو دفن کیا گیا۔
 

Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 244656 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.