قاسم جنت ہے لقب شیرِ خدا کا
ہیں نبی ؑ کے چھیتے داماد بھی وہ
حسنؓ و حُسینؓ عترتِ رسولؑ ہیں
فاطمہؓ و علیؓ جگرِ رسول ؑ ہیں
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے21 رمضان المبارک 40ہجری کی صبح جام شہادت نوش
فرمایا۔ آپ کی تاریخ شہادت کے بارے میں مختلف روایات پائی جاتی ہیں لیکن اس
بات پر تمام ہی مورخین متفق ہیں کہ خارجی عبدالرحمٰن بن ملجم جو مصری تھا
نے رمضان المبارک کے تیسرے ہفتے کی کسی تاریخ کو حضرت علیؓ پر زہر سے بجھی
تلوار سے ایسا وار کیا کہ آپ جان بر نہ ہوسکے۔ بشیر ساجد نے اپنی کتاب’
فاتح خیبر حضرت علی رضی اﷲ عنہ ‘میں مختلف مورخین کے حوالے سے آپ کی شہادت
کی جو تاریخیں درج کی ہیں ان کے مطابق محمد ابن سعد نے واقدی کے حوالے سے
حضرت امام حسنؓ کی زبانی17رمضان بروز جمعہ40ھ (25جنوری 661ء) ، طبری ، میور
اور امیر علی کا بھی اس پر اتفاق ہے ، ابن سعد کی دوسری روایت یہ ہے کہ 17
رمضان کو جمعہ کے دن آپ پر حملہ ہوا اور 19رمضان کو اتوار کے دن وفات پائی،
یہی رائے مورخ عمر ابو النصر مصری کی ہے، سید قاسم محمود نے اسلامی
انسائیکلو پیڈیا میں 21 رمضام تاریخ لکھی ، مجلہ نقوش (رسول ﷺ نمبر) کے
مضمون نگار راجہ محمد شریف نے لکھا ہے کہ ’حضرت علی رضی اﷲ عنہ اسی روز جس
دن کہ آپ زخمی ہوئے یا اس کے تیسرے دن 20رمضان المبارک 40ھ کو انتقال
فرمایا،’محسن اعظم و محسنین ‘کے مصنف سید اطہر حسین نے اور’تاریخ اسلام جلد
اول‘ کے مصنف فقیر سید وحیدالدین بھی اس سے متفق ہیں ، ان سب کے برعکس شاہ
معین الدین احمد ندوی کی تحقیق یہ ہے کہ آپؓ 27رمضام کو زخمی ہوئے
اور30رمضان کو بروز یک شنبہ (اتوار) کو فوت ہوئے، ڈاکٹر طہٰ حسین (الفتنتہ
الکبریٰ ) کا بھی یہی خیال ہے۔ان کے علاوہ بیشتر مورخین نے حضرت علی کی
شہادت کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ پر حملہ 19 رمضان کو نمازِ فجر کی نماز کے
دوران ہوا اور دو دن بعد یعنی21رمضام المبا رک 40ہجری کی صبح آپ نے جام
شہادت نوش فرمایا۔ آپ کے صاحبزادے حضرت حسنؓ نے نماز جنازہ پڑھائی عراق کے
شہر نجف کی امام علی مسجد میں دفن ہوئے۔ ڈاکٹر نگہت نسیم نے حضرت علیؓ کی
شہادت پر تعزیت و تسلیت پیش کرتے ہوئے کہا
اک آہ و بُکا ہے کہ علی مارے گئے ہیں
غُل ہے کہ محمد ؑ کے وصی مارے گئے ہیں
اُمت نے عجب اجرِ رسالت دیا نگہت
سجدے میں امامِ ازلی مارے گئے ہیں
خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اﷲعنہ ، آنحضرت محمد ﷺ کے چچیرے بھائی ہی نہ تھے
بلکہ آپ نے حضور اکرم ﷺ کی آغوشِ نبوت میں پرورش پائی ۔ آپ ﷺ نے بچپن ہی سے
علیؓ کو اپنے دامنِ پرورش میں لے لیا تھا۔حضرت علی رضی اﷲعنہ کی پیدائش
قبیلہ ہاشمی میں13 رجب المرجب ، بروز جمعہ مطابق 599ء میں ہوئی۔ والد ابو
طالب بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی، والدہ کا نام فاطمہ بنت
اسد بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی تھا۔ ابو طالب آنحضرت محمد ﷺ کے حقیقی چچا
تھے۔ ابو طالب نے اپنے بیٹے کا نام ’زید‘، والدہ نے ’حیدر‘ اور آ نحضرت
محمد ﷺ نے ’علی‘ رکھا۔ آپ اسی نام سے مشہور ہوئے۔ حضرت علیؓ آنحضرت محمد ﷺ
اور حضرت خدیجتہ الکبریٰ کی نگرانی اور سرپرستی میں پل کر جوان ہوئے۔ سعادت
اور نصیب کی بات ہے۔ حضرت علی رضی اﷲعنہ نجیب الطرفین ہاشمی تھے، حضرت علیؓ
تین بھائی تھے، عقیل ابن ابی طالب، جعفر ابن ابی طالب اور علی ابن ابی طالب
۔ حضرت علیؓ کو یہ سعادت بھی حاصل ہے کہ وہ بچوں میں سب سے پہلے ایمان
لائے۔ جب اﷲ تعالیٰ نے آنحضرت محمدﷺ کو اپنے آخری نبی کے طور پر مبعوث
فرمایا آپ ﷺ نے باقاعدہ طور پر اسلام کی دعوت دی تو مردوں میں سب سے پہلے
حضرت ابو بکر صدیقؓ ، عورتوں میں حضور ﷺ کی شریک حیات حضرت خدیجتہ الکبریٰ
نے اسلام کی دعوت کو قبول کی اور بچوں میں حضرت علی نے لبیک کہا۔ حضرت علیؓ
کا قول ہے کہ ’رسول اکرم ﷺ پیر کو مبعوث ہوئے اور میں منگل کو ایمان لایا‘۔
حضرت علیؓ، وصالِ نبوی تک دامن رسالت سے وابستہ رہے۔ نبی پاک حضرت محمد ﷺ
بھی علیؓ کو انتہائی عزیز رکھتے تھے، علیؓ نے بھی اپنی زندگی دامن نبوی سے
جوڑے رکھی ۔ اس رفاقت اور تعلق نے علیؓ کی زندگی میں نکھار پیدا کردیا تھا،
سایہ نبوی میں علم و تربیت کے جو مواقعے علیؓ کو حاصل ہوئے اور انہوں نے
بھی اس قربت اور تربیت کو اپنے لیے غنیمت جانا ۔آنحضرت محمد ﷺ سے دینی و
دنیاوی علم سیکھا، یہ خصوصیت اور مقام صرف علیؓ کے حصے میں آیا ، چنانچہ آپ
میں بلند پایہ اوصافِ کمالات اور آپ کا دامن تمام آلودگیوں سے بالکل محفوظ
تھا۔ مکتب بنوت سے آپ کو فیض حاصل ہونا قدرتی عمل تھا کیونکہ قبول اسلام کے
بعد آپ تبلیغ اسلام کے سلسلے میں منعقد ہونے والے تبلیغی اجتماعات اور
جلسوں میں آپ حضور ﷺ کے ہمراہ ہوتے۔ آپ علم کا دریا تھے، قرآن تفسیر، حدیث،
فقہ و دیگر علوم پر آپ کو کمال حاصل تھا۔ آپ کاتبِ وحی بھی رہے ۔ حضرت
عبداﷲ بن عباس جو خود بھی عالم تھے نے حضرت علیؓ کی علمیت کے بارے میں
فرمایا کہ دس حصوں میں سے خدا نے علیؓ کو نو حصے علم عطا فرمایا اور دسویں
حصے میں بھی آپ شریک تھے۔ خود آنحضرت محمد ﷺ نے علیؓ کو علم کا دروازہ قرار
دیا۔
حضرت علیؓ پر رسول اکرم ﷺ کا اعتماد ، بھروسہ، محبت ، پیار اس سے بڑھ کر
اور کیا ہوگا کہ آپ ﷺ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمتہ الزہرہؓ کی شادی حضرت علیؓ
سے کردی اور فرمایا ’پیاری بیٹی میں نے اپنے خاندان کے بہترین شخص سے
تمہاری شادی کی ہے‘ ۔ شادی کے اس بندھن نے علی مرتضیؓ کو نبی پاک ﷺ کی قربت
اور چاہت میں باندھ دیا۔ فاطمتہ الزہرہؓ سے علیؓ کی چاہت کا اندازہ اس بات
سے لگا یا جاسکتا ہے کہ نکاح کے بعد جب تک فاطمتہ الزہرہؓ حیات رہیں حضرت
علیؓ نے دوسری شادی نہیں کی۔ حضرت بی بی فاطمہؓ سے تین بیٹے حس ابن علی،
حسین ابن علی، محسن ابن علی، اور دو بیٹیاں اُمِ کلثومؓ بنتِ علی اور زینب
بنت علی تھیں ۔ ان میں سے علیؓ کے صاحبزادے محسنؓ کم عمری میں ہی اﷲ کو
پیارے ہوگئے تھے۔ فاطمتہ الزہرہ اور حضرت حسنؓ ’جنت البقیع‘ میں آرام فرما
ہیں۔ راقم الحروف کو متعدد بار جنت البقیع میں اہل قبور کے قبروں پر حاضر
ہونے فاتحہ اور سلام عرض کرنے کا شرف حاصل ہوا، بی بی فاطمتہ الزہرہ کی قبر
مبارک پر بطور خاص حاضری کا شرف حاصل ہوا۔جنت البقیع میں کیسی کیسی متبرک و
محترم ہستیوں کی قبور کس حال میں ہیں سب جانتے ہیں، وہاں قیاس کی بنیاد پر
اور عام لوگوں کو کہتے سنتے ہیں کہ یہ قبر فاطمہؓ کی ہے، یہ حسنؓ کی ہے، یہ
عثمانؓ کی ہے ، یہ حضورﷺ کے ننھے بیٹے ابرہیم کی ہے، شروع ہی میں اندر کی
جانب حضرت عائشہ صدیقہؓ آرام فرما ں ہیں۔ کس عقیدے کو صحیح جانیں کس کو
درست اور کس کو غلط۔قبروں کی ظاہری حالت دیکھ کردل خون کے آنسوروتا ہے۔
امام حسینؓ واقعہ کربلا کے حوالے سے تاریخ میں اہم مقام رکھتے ہیں۔
مکہ سے مدینہ ہجرت کا مرحلہ آیا تو آنحضرت محمد ﷺ اپنے رفیق حضرت ابو بکر
صدیقؓ کے ہمراہ عازمِ مدینہ ہوئے ، مکہ میں امانتوں کے حوالے سے آپﷺ پر کچھ
ذمہ داریاں تھیں انہیں انجام دینے کے لیے آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ کا ہی انتخاب
کیا، آپ ﷺ نے حضرت علیؓ کو ہدایت کی کہ ہجرت کی شب آپ ﷺ کی چادر اوڑھ کر آپ
ﷺ کے بستر پر سوجائیں ،صبح لوگوں کی امانتیں واپس کر کے مدینہ تشریف لے
آئیں۔ مکہ میں یہی وہ رات تھی جب کہ کفار نے آنحضرت ﷺ کو کسی نہ کسی طرح
ڈھونڈ کر آپ ﷺ کی جان کو نقصان پہنچانے کا پروگرام تشکیل دے رکھا تھا، اس
کے لیے وہ غار ثور تک حضورﷺ کی تلاش میں گئے جہاں پر آپﷺ اپنے ساتھی حضرت
ابو بکر صدیقؓ کے ہمراہ موجود تھے ، لیکن کفار آپﷺ تک نہ پہنچ سکے۔ کفار
دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے ، وہ تو محمدﷺ کے انتظار میں تھے کہ آپﷺ کب فجر کی
نماز کے لیے اپنے کمرہ مبارک سے نکلتے ہیں اور وہ اپنے منصوبے کو عملی جامہ
پہناتے لیکن کفار کی تمام تر حکمت عملی ناکام ہوئی، حضرت علیؓ نے رات حضورﷺ
کے بستر پر گزاری صبح ہوکر وہ تمام امور انجام دیے جو آپﷺ نے علیؓ کے سپرد
کیے تھے۔ بعد ازاں علیؓ بخیر و عافیت مدینہ چلے گئے۔ اب علیؓ کی مدنی زندگی
کا آغاز ہوتا ہے ، مکی زندگی کے تجربات اور آنحضرت ﷺ کی سرپرستی میں علیؓ
نے ایک بہ ہمت ، برد بار، فرض شناس ،بہادر، نڈرہونے کے ساتھ حکمت ، فصاحت و
بلاغت اور شعر و خطابت میں بھی کمال حاصل کر لیا تھا۔ آپ نے بچپن سے دامن
نبوت میں پروش اور تعلیم و تربیت پائی ، جوانی میں شرف و صاہرت سے سرفراز
ہوئے اور وصال نبوی تک دامن رسالت سے وابستہ رہے۔چنانچہ آپ میں بلند پایہ
اوصاف کمالات اور آپ کا دامن تمام طرح کی آلودگیوں سے بالکل محفوظ تھا۔
مکتب نبوت سے آپ کو فیض حاصل ہونا قدرتی تھا کیونکہ قبول اسلام کے بعد آپ
تبلیغ اسلام کے سلسلے میں منعقد ہونے والے اجلاسوں اور اجتماعتات میں ہر
چھوٹی بڑی تبلیغی محافل میں آپ ﷺ کے ہمراہ ہوتے۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس نے
جوخود بھی عالم تھے حضرت علی رضی اﷲعنہ کی علمیت کے بارے میں فرمایا ہے
دس(۱۰) حصو ں میں سے خدا نے علی کرم اﷲ رجہ‘ کو نو حصے علم عطا فرمائے اور
دسویں حصے میں بھی آپ شریک تھے۔ خود حضور پرنور نبی دو عالم محمد مصفطےٰ ﷺ
نے آپ کو علم دروازہ قرار دیا۔
حضرت علی رضی اﷲعنہ کی مدنی زندگی ہمیں مکی زندگی سے زیادہ متحرک اور سرگرم
نظر آتی ہے۔ یہاں بھی علیؓ رسول اکرم ﷺ کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہا کرتے
تھے۔ ہجرت کے دوسرے سال ہی کفارِ مکہ اور دیگر کفار سے چپقلش شرو ع ہوگئی
اور نوبت جنگوں تک پہنچی۔ حضرت علی رضی اﷲعنہ نے تمام غزوات میں اور آپﷺ کے
وصال کے بعد اپنی شہادت تک تمام جنگوں میں کفار کے ساتھ عملی طور پر شرکت
کی اور اپنی بہادری ، حکمت عملی کے جوہر کا اظہار کیا۔ غزوہ بدر، غزوہ
احد،غزوہ خندق میں علیِ مرتضیٰ نے دشمنوں کو عبرت ناک شکست سے دوچار
کیا۔حضرت علی رضی اﷲعنہ نے ہی 6 ہجری میں صلح حدیبیہ کے معاہدے کی عبارت
تحریر کی، اگلے ہی سال 7 ہجری میں خیبر فتح ہوا جس میں حضرت علی رضی اﷲعنہ
کا بنیادی کردار تھا،8 ہجری میں آپؓ فتح مکہ اور غزوہ حنین میں شریک تھے،
فتح مکہ کے روز آپؓ نے آنحضرت ﷺ کے ہمراہ خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے تمام
بتوں کو توڑ کر گرادیا۔ اسی طرح غزوۂ حنین میں بھی حضرت علی رضی اﷲعنہ جواں
مردی اور بہادری سے کفار کے روبرو اپنی بہادری کو دب دبہ قائم کرنے میں
کامیاب ہوئے، یہاں تک کہ دشمن کو الٹے منہ بھاگنے پر مجبور کردیا۔ تبوک کا
واقعہ 9ہجری میں پیش آیا، اس میں علیؓ مسلمانوں کے لشکر کا حصہ نہیں تھے اس
لیے کہ آنحضرت ﷺ نے از خود آپؓ کو اپنے نائب کے طور پر مدینہ میں چھوڑ دیا
تھا۔ المختصر یہ کہ کفار کے ساتھ مقابلے کا سفر جو جنگ بدر سے آنحضرت ﷺ کی
زندگی میں شروع ہوا تھا غزوہ حنین پر اختتام پذیر ہوا یہ سفر حضور ﷺ کی
زندگی کا آخری سفر تھا ، حضرت علی رضی اﷲعنہ تمام غزوات میں اپنے پیارے نبی
ﷺ کے شانا بہ شانہ دکھائی دیتے ہیں۔
اعلانِ برأ ت یعنی اس بات کا اعلان کہ کفارو مشرکین پر کعبہ کے دروازے
ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دینے کا اعلان بھی حضرت علی رضی اﷲعنہ نے نبی
اکرم ﷺ کی ہدایت کے مطابق ہزاروں کفار و مشرکین کی موجودگی میں کیا جب کہ
اس موقع پر مسلمان صرف تین سو تھے۔ یہ واقع کچھ اس طرح سے پیش آیا کہ
سن9ہجری میں آپﷺ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کی سربراہی میں تین سو مسلمانوں پر
مشتمل قافلہ حج بیت اﷲ کے لیے مکہ روانہ کیا ۔ گویا ابو بکرؓ امیر حج تھے۔
قافلے کے روانہ ہوجانے کے بعد سورۂ توبہ کی ابتدائی چالیس آیات نازل ہوئیں۔
ان آیات میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے حج کے احکامات اور کفار اور مشرکین کا
خانہ کعبہ میں داخلہ ممنون قرار دینے کا حکم صادر فرمایا۔ آپ ﷺ نے حضرت علی
رضی اﷲعنہ کو مدینہ سے مکہ روانہ کیا کہ وہ حج کے اجتماع میں حکم خداوندی
کا اعلان کریں۔چنانچہ حج کے موقع پر ایک جانب حضرت ابو بکر صدیقؓ نے
مسلمانوں کو حج کی تعلیم اور مسائلِ حج سے آگاہ کیا جب کہ حضرت علی رضی
اﷲعنہ نے اس حج کے موقع پر سورۂ توبہ کی پہلی چالیس آیات پڑھ کر سنائیں جن
میں کہا گیا تھا کہ آیندہ سال سے کوئی مشرک حج نہیں کرسکے گا اور جن مشرک
قبائل کے مسلمانوں سے معاہدے ہیں وہ چار ماہ کے بعد ختم ہوجائیں گے۔ کفار
اور مشرک اس اعلان پر شسدر رہ گئے اُس وقت سے آج تک خانہ کعبہ میں کوئی غیر
مسلم داخل نہیں ہوسکتا۔ جب ہم مکہ کی حدود میں داخل ہوتے ہیں تو گیٹ کے
اوپر جلی حروف میں لکھا ہے ’’ غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے‘‘۔
غزوات کے علاوہ حضرت علی رضی اﷲعنہ کو مختلف اوقات میں کفار اور مشرکین کی
سرکوبی اور تبلیغ اسلام کی غرض سے مسلمان دستوں کے سربراہ کی حیثیت سے بھی
بھیجا جاتا رہا جیسے بنی سعد کے مقابلے کے لیے فدک ایک دستہ بھیجا گیا ،
یمن میں ہمدان کی جانب ایک دستہ بھیجا گیا جس کو کامیابی نصیب ہوئی ۔ حجتہ
الوداع کے موقع پر حضرت علی رضی اﷲعنہ یمن میں تھے آپ وہاں سے سو اونٹ ساتھ
لے کر یمن سے مکہ پہنچے۔ واپسی پر عذیر خم جو اب ربغ کہلاتا ہے کے مقام پر
آپﷺ نے پڑاؤ ڈالا اور ایک خطبہ دیا جس میں حضرت علی رضی اﷲعنہ کی تعریف
کرتے ہوئے فرمایا کہ ’میں جس کا مولا ہوں، علیؓ بھی اس کے مولا ہیں، جو
علیؓ کا دشمن ہے وہ میرا دشمن ہے۔اے اﷲ ! جو علیؓ سے محبت کرے تو بھی اس سے
محبت رکھ‘۔ اس خطبے سے حضرت علی رضی اﷲعنہ سے آپﷺ کی محبت کا اندازہ لگا یا
جاسکتا ہے۔اس خطبے میں علیؓ کی تعریف کی وجہ اس لیے پیش آئی کہ کچھ لوگ
حضرت علیؓ کے بارے میں غلط قسم کی باتیں کہنے لگے تھے۔
آنحضرت محمد ﷺکا وصال 12 ربیع الا ول 11 ہجری کو ہوا، آپ ﷺ کے قریبی عزیزوں
نے تجہیز و تکفین میں شرکت کا شرف حاصل کیا ان سب میں حضرت علی رضی اﷲعنہ
پیش پیش تھے۔ یہ شرف بھی حضرت علی رضی اﷲعنہ کو حاصل ہوا کہ انہوں نے آپﷺ
کو قبر اطہر میں اتارا۔ اس فریضہ کی ادائیگی کے بعد حضرت علی رضی اﷲعنہ
اورنبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کا دنیاوی ساتھ اختتام کو پہنچا۔ وصالِ نبی
ﷺ کے بعد مسلمانوں میں جو کیفیت بر پا ہوئی وہ ایک لازمی امر تھا۔ خلافت کا
تاج رفیق اور دوست حضرت ابو بکر صدیقؓ کے سر سجا دیا گیا ، علیؓ تو نبی ﷺ
کے تربیت یافتہ اور تعلیم یافتہ تھے انہوں نے ابو بکر صدیق کے انتخاب کو نہ
صرف قبول کیا بلکہ واشگاف الفاظ میں فرمایا کہ ’آپ کو یعنی ابو بکر کو نبی
کریم ﷺ نے نماز میں مقدم فرمایا ، اب کون سی ہستی آپ کو موخر کرسکتی ہے‘۔
خلیفہ اول کے انتقال کے بعد حضرت عمر فاروقؓ کو خلیفہ دوم منتخب کیا گیا اس
موقع پر بھی علیِ مرتضیٰؓ نے خندہ پیشانی سے خلیفہ کے انتخاب کو لبیک کہا
اور حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں ہر طرح کا تعاون کیا۔خلیفہ دوم کے بعد جب
خلیفہ سوم کے انتخاب کا مرحلہ آیا اس وقت بھی نبی ﷺ کے فرما بردار ، محبت
کرنے والے نے خاموشی کے ساتھ حضرت عثمانؓ کی بیت کر لی۔ حضرت عثمانؓ کی
شہادت کا آپ کو انتہائی دکھ ہوا ۔تینوں خلفاء کے ساتھ حضرت علی رضی اﷲعنہ
نے جو تعاون کیا وہ قابل تعریف ہے۔ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد مدینہ منورہ
پر باغیوں نے اپناتسلط قائم کر لیا تھاجو تین دن قائم رہا اور مسند خلافت
خالی رہی۔ اب حضرت علی رضی اﷲعنہ کی ذات گرامی اکابر صحابہ میں ایسی تھی جس
پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہوسکتا تھا۔ چنانچہ مہاجرین و انصا ر کاا یک
گروہ جن میں طلحہ ا ور زبیر پیش پیش تھے حضرت علی رضی اﷲعنہ کے پاس تشریف
لے گئے اور خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی درخواست کی آپ نے ارشاد فرمایا
’میں امیر ہونے سے وزیر ہونے کو بہتر سمجھتا ہوں تم جن کو منتخب کرو گے میں
بھی اس کو منتخب کروں گا‘۔ لیکن تمام لوگوں نے آپ کی منت سماجت کی اور کہا
کہ ’ہم آپ سے زیادہ کسی کواس کا مستحق نہیں پاتے اور نہ ہی آپ کے سوا کسی
کو منتخب کرسکتے ہیں‘۔ حضرت علی رضی اﷲعنہ نے پھر عذر پیش کیا لیکن لوگوں
کے بے حد اصرار پر آپ نے اسے قبول فرمایا اور مجمع عام میں مسلمانوں نے آپ
کے ہاتھ پر بیعت کی۔
بیعت خلافت کے بعد حضرت علی رضی اﷲعنہ خلیفہ سوم حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کا
پتہ لگانے اور ان کے قتل کا قصاص لینے کا مطالبہ زور شور سے کیا جانے
لگاحتیٰ کہ طلحہ اور زبیر نے حضرت علی رضی اﷲعنہ سے کہا کہ چونکہ ہم نے
بیعت اسی شرط پر کی ہے کہ حدود و قصاص جاری و قائم کروگے اس لیے حضرت
عثمانؓ کے قاتلوں کو ڈونڈ نکا لو اور قصاص لو ۔ حضرت علی رضی اﷲعنہ کا موقف
یہ تھا کہ جب تک لوگ راہِ راست پر نہ آجائیں اور کُل امور منظم نہ ہوجائیں
اس وقت تک ایسا کرنا ممکن نہیں۔ مجھ میں ایسی قدرت نہیں ہے حالانکہ مجھ کو
خود عثمانؓ کے حقوق و قصاص کی فکر ہے۔ اس کے بعد قاتلین عثمانؓ کے قصاص کی
بابت سرگوشیوں نے آگ کی صورت اختیار کر لی جس کے نتیجے میں جنگِ جمل ظہور
پذ یر ہوئی جس میں ایک اﷲ اور ایک رسول ﷺ کے ماننے اور کلمہ پڑھنے والے صف
آرا تھے۔ جنگ کے اختتام پر حضرت علی رضی اﷲعنہ از خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی
اﷲ عنہا کی مزاج پرسی کے لیے حاضر ہوئے اور پوچھا’ اماں مزاج کیسا ہے، حضرت
عائشہؓ نے فرمایا اچھی ہوں‘۔ حضرت علی رضی اﷲعنہ نے فرمایا ’خدا ہم دونوں
کو معاف فرمائے‘، جنگ کے کچھ عرصے کے بعد حضرت عائشہؓ نے لوگوں سے مخاطب
ہوتے ہوئے فرمایا ’میرے بچوں یہ جنگ محض غلط فہمی کا نتیجہ تھی اس لیے ہمیں
ایک دوسرے کے ساتھ زیادتی سے کام نہ لینا چاہیے‘۔ جواب میں حضرت علی رضی
اﷲعنہ نے فرمایا ’اُم المومنین سچ فرماتی ہیں ۔ خدا کی قسم میرے اور ان کے
درمیان اس کے علاوہ کوئی بات نہ تھی وہ دنیا اور آخرت دونوں میں تمہارے نبی
کی حرم ہیں‘۔
حضرت علی رضی اﷲعنہ کا دور خلافت خانہ جنگی اور اندرونی جھگڑوں سے عبارت
دکھائی دیتا ہے۔ آپ کے شب و روز جنگی تیاریوں اور اندرونی خلفشار کو نمٹانے
میں صرف ہوئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خلافت کا نظم و نسق کے قیام اور بیرونی
فتوحات کی طرف بہت کم توجہ دی گئی۔دراصل آپ کو منصب خلافت جن حالات میں ملا
اور جو حالات بعد میں ہوئے ان کا لازمی نتیجہ اسی قسم کا نکلنا تھا۔آنحضرت
ﷺ کے وصال کے بعد مملکت کے حالات رفتہ رفتہ بدلتے گئے حضر ت ابو بکر صدیقؓ
اور حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت تک حالات بہتر رہے، حضرت عثمانِ غنیؓ کے
دورخلافت سے حالات نے منفی رخ اختیار کرنا شروع کردیا تھا، آپ کی شہادت نے
حالات کو بد سے بد تر کردیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت علی رضی اﷲعنہ کا
دور خلافت پریشانیوں ، کفار کے علاوہ اپنوں سے نبرد آزما ہونے، جنگیں لڑنے،
فتوحات کرنے اور حالات کو بہتر کرنے میں ہی گزرا۔ شدید اختلافات کے اسباب
میں بنیادی عنصر حضرت عثمانؓ کے قتل کا قصاص تھا ۔ حضرت امیر معاویہ ؓ اور
حضرت علی رضی اﷲعنہ کے درمیان اختلا ف کی اصل وجہ یہی تھی جس کی وجہ سے
دونوں صحابہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوگئے تھے۔باوجود اس کے کہ حضرت علی
رضی اﷲعنہ کا پورا دورِ خلافت جنگیں کرنے، شورشوں سے نمٹنے میں صرف ہوا پھر
بھی آپ نے نظام خلافت کی اصلاح کی اور انہیں دوبارہ صحیح سمت میں لانے کی
بھر پور کو شش کی ۔ وقت نے مکمل ساتھ نہ دیا لیکن جہاں تک ممکن ہوسکا آپ نے
خلافت کے جملہ نظام کی اصلاح کی پوری پوری کوشش کی۔ مال میں ایسی اصلاحات
کیں جس سے آمدنی میں اضافہ ہوا۔ آپ فطرتاً سپاہی ، بہادر اور میدان جنگ کے
فاتح تھے۔ فوج اور فوجی ساز و سامان کی جانب آپ کی خاص توجہ رہی، عمال اور
عمال سے محاصل و فراج کی آمدنی کا سختی کے ساتھ احتساب کرتے، مقررہ وقت سے
اگر تاخیر ہوجاتی تو احکام جاری کیا کرتے، تحریری باز پرس کے علاوہ کمیشن
مقرر کر کے عمال کے طرز عمل کی تحقیقات کراتے۔ بیعت المال کی حفاظت حضرت
عمرؓ کے طرز کی تھی ۔ زمینوں کے حقوق کا خاص خیال رکھتے ، عمال کو ان کے
ساتھ نرمی حسن سلوک کی ہدایت فرماتے، عدل و مساوات میں آپ بے مثال تھے، آپ
کے نذدیک سب برابر تھے،تمام علوم میں آپ کو کمال حاصل تھا ۔ کلام الہٰی سے
آپ کو خاص رغبت تھی ۔ کلام اﷲ پر آپ کی نظر نہایت وسیع تھی، تفسیر کی
کتابیں اور احادیث کے ابواب تفسیر آپ کی رویتوں سے معمور ہیں۔ حضرت عبداﷲ
ابن مسعودؓ جن کے فتاویٰ پر فقہ حنفی کی بنیاد ہے آپ کے فیض یافتہ تھے۔
تصوف جیسے دقیق موضوع پر آپ کو مکمل عبور حاصل تھا، آپ کے خطبات فصاحت و
بلاغت کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔فن تحریر کی بنیاد آپ نے رکھی اور ابو الا سود کے
ذریعہ نحو کے قواعد مرتب کرائے۔ حضرت علی رضی اﷲعنہ فطرتاً سلیم تھے، آپ کی
ذات خلق نبوی کا پیکر اور تعلیمات اسلامی کی تصویر تھی۔ آپ کے فضائل اخلاق
میں سب سے نمایاں زہد تقویٰ ہے، عبادت و ریاضت آپ کی زندگی کا اہم جز تھا۔
آپ امین اُمت تھے۔ اپنے حق سے زیادہ بیت المال سے کچھ لینا حرام تصور کیا
کرتے، آپ کی پوری زندگی سادگی کا نمونہ تھی۔ نماز کی حالت میں عبدالرحمٰن
ملجم کے ہاتھو ں زخمی ہوجانے کے بعد 21رمضان المبارک کو آپ تریسٹھ سال کی
عمر میں شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔
|