بسم اللہ الرحمن الرحیم
رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد اہل اسلام نے بالاتفاق حضرت ابوبکر صدیق رضی
اللہ عنہ کو رسول اللہ ﷺ کا جانشین منتخب کرلیا ،آپ نے خلافت کی عظیم ذمہ
داری کا بوجھ اٹھانے کےبعد سب سے پہلےا س عزم کا اظہار کیا کہ حالات ومصالح
کچھ بھی ہوں،رسول اللہ ﷺ کے شروع کئے ہوئے تمام منصوبو ں کو عملی جامہ
پہنایا جائے گا، جن میں لشکر اسامہ کی شام کی طرف روانگی سرفہرست تھی ،لیکن
رسول اللہ ﷺ کے سانحہ ارتحال سے مہاجرین و انصار نفسیاتی دباؤ کا شکار ہونے
کے علاوہ ، عرب قبائل کی بغاوت و ارتدادی سرگرمیاں دیکھنےمیں آ رہی تھیں ،جب
کہ یمن کا اسود العنسی ،یمامہ کا مسیلمہ اوربنی اسدکا طلیحہ جیسے جھوٹے
مدعیاں نبوت ریاست مدینہ کے لیے مستقل خطرہ بن چکے تھے ،اسی طرح منکرین
زکوٰۃ کے وفود مدینہ آکر باقاعدہ مذاکرات کرنے لگے کہ وہ زکوٰۃ کی ادائیگی
سے معافی چاہتے ہیں باقی وہ نماز ،روزہ اورحج کے معاملہ میں اسلام کی روش
پر رہیں گے ،اور ہر حال میں لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہتے رہیں
گے۔چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کے مطالبات کو یکسر ٹھکراتے ہوئے
ان سے اعلان جنگ فرما دیا اور کہا کہ اگر یہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں اونٹ
کے ساتھ رسی بھی ادا کرتے تھے ،اب وہ بھی وصول کی جائے گی۔ان حالات میں
لشکر اسامہ "جس میں حضرت عمر فاروق جیسے جلیل القدر صحابی بھی شامل تھے "کی
روانگی ایک بڑے چیلنج سے کم نہ تھی ،کبار صحابہ کرام کے اصرار کے باوجود آپ
رضی اللہ عنہ نے یہ کہ کر اپنے عزم کا اظہار کیا کہ بخدا ! مجھے یہ خوف
ہوتا کہ مجھے جنگلی درندے اچک کر لے جائیں گے ،تو بھی اسامہ اور اس کے لشکر
کو بھیجنے سے میں گریز نہ کرتا ۔"
بالآخر لشکر اسامہ کومہم جوئی کے لیے ضروری ہدایات کے ساتھ روانہ کردیا گیا
،جو شام کے اطراف میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ کر دو ماہ اور کچھ دن بعد
مدینہ لوٹ آیا ، لشکر اسامہ کی کامیابی کی وجہ مسلمان نفسیاتی دباؤ سے
نکلنے میں کامیاب ہوئے اورانہیں ازسر نو اپنی قوت کا احساس ہوا ۔
عرب قبائل میں بڑھتی ہوئی بغاوت اورارتدادی سرگرمیوں کی روک تھام کےلیے
خلیفۃ الرسول ﷺ نے ایک منظم مہم جوئی کا ارادہ فرمایا ،جس کے لیے گیارہ
لشکر تشکیل دیئے گے ،جن کی قائدین میں سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
کوحکم ہو ا کہ وہ سب سے پہلے طلیحہ اور اس کے ساتھیوں سے جنگ کرنے کے بعد
بنی تمیم کے مالک بن نویرہ کی طرف متوجہ ہوں گے ،حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ
بن ابو جہل کو مسیلمہ کذاب کی طرف ، حضرت مہاجر بن ابی امیہ کو الاسود
العنسی جو اس وقت قتل ہو چکا تھا ،اس کے پیرو کاروں کی سرکوبی کے بعد قبیلہ
کندہ کےمرتدین کے طرف اورخالد بن سعید بن العاص کو شام کی حدود پر روانہ
کیا ،جب کہ عمرو بن العاص کو قضاعہ سے ،خذیفہ بن محض کو اہل دَبَاء (عمان
کا قدیم پایہ تخت )سے اورعرفجہ بن ہرثمہ کو مہرہ سے جنگ کرنے روانہ کیا گیا
،اسی طرح شرجیل بن حسنہ کو حکم ہوا کہ وہ حضرت عکرمہ بن ابو جہل کی مسیلمہ
کذاب کے خلاف مہم جوئی میں مدد کرنے کے بعد قضاعہ کی مہم میں حضرت عمرو بن
العاص کی نصرت کریں،اور طریف بن حاجن کو سُلیم اور ان کے حلیف اہل ہوازن سے
،سُوید بن مقرّن کو تہامہ یمن کے مرتدین اور العلاء بن الحضرمی کو بحرین
میں جنگ کرنے کے لیے بھیجا ۔ایک بڑے جانی نقصان کے بعد تمام فتنوں کا قلع
قمع کردیاگیا،جس کا ثمرہ حضرت خالد بن ولید کی قیادت میں اسلامی لشکر کا
عراق کی فتح اور شام کی مہم کی صورت میں ظاہر ہو ا اور یوں دور صدیقی میں
ہی اسلامی فتوحات کے سلسلہ کی مضبوط بنیاد پڑگئی ، جس کی تکمیل حضرت عمر
فاروق رضی اللہ عنہ کے تابناک دور خلافت میں ہوئی ۔
مسیلمہ کذاب سے جنگ کے دوران بارہ سو صحابہ کرام جن میں اکثر حفاظ تھے،شہید
کردیئے گے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حفاظ وقراء کی شہادتوں کے پش نظرخلیفۃ
الرسول ﷺ کو قرآن پاک کے متفرق حصوں کو جمع کرنے کا مشورہ دیا جسے کچھ تردد
کے بعد آپ نے منظور کرکے یہ ذمہ داری کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ
عنہ کے سپرد فرمائی،جسے آپ نے باحسن و خوبی سرانجام دیا ،یہ وہی نسخہ ہے جو
امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ رہا ،اور آپ کے بعد امیر
المؤمنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضر ت ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنھا
سے منگوا کر اس کے نسخےنقل کروا کر مختلف اضلاع اور صوبوں کی طرف بھیجوایا
تھا اور اسے ہی مصحف امام کہتے ہیں ۔
ہجرت کے تیرہویں سال جمادی الآخر کے آخری عشر ے میں بیمار ہوئے،اس دوران ام
المؤمنین اور آپ کی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے آپ کی
تیمارداری کے فرائض سرانجام دیئے ،اس دوران آپ نے وصیت فرمائی کہ مرنے کے
بعد انہیں دو طیب اور طاھر کپڑوں میں غسل دیا جائے ،جن کو پہن کر وہ نماز
ادا کیا کرتے تھے ،بالآخر 22 جمادی الآخر 13 ہجری پیر کےدن مغرب و عشاء کے
درمیان 63 سال کی عمر میں آسمان ِصداقت کا آفتاب غروب ہوگیا ،یوں ایک عظیم
انسان ،ایک بڑی سلطنت کے حکمران اور خلیفۃ الرسول ﷺ کو ان وصیت کے مطابق
پرانے کپڑوں میں کفن دیا گیا ،آپ کی نماز جنازہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ
عنہ نےپڑھائی جب کہ حجرہ اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا میں امام الانبیاء
حضرت محمد ﷺ کےپہلو مبارک میں ہمیشہ کے لیے محو استراحت ہو گئے۔
آپ رضی اللہ عنہ کی احتیاط،ورع و تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ مرض الوفات میں
بحیثیت خلیفہ گزر اوقات کے لیے لی گئی ساری رقوم ،اپنی زیر استعمال ملکیتی
زمین ،ایک غلام، ایک دودھ دینے والی اونٹنی اور پانچ درھم ملکیت کی قبا
،بیت المال میں واپس کردیں ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بحیثیت خلیفہ جب حضرت
ابوبکر کے زیر استعمال چیزیں سپرد کی گئیں تو آپ نے روتے ہوئے فرمایا "
ابوبکر نے اپنے جانشینوں کے لیے بڑا کھٹن معیار پیش کردیا ہے "۔
|