ہم کہاں جارہے ہیں

 پاناماکیس میں سپریم کورٹ کے جے آئی ٹی بنا نے کے فیصلے سے لیکرجے آئی ٹی (JIT)کی اب تک کی کار کردگی کو دیکھنے کے بعد عوا م کی آراء مختلف مدارج میں تقسیم ہو چکی ہے ،رائے دی جا رہی ہے کہ وزیرا عظم پاکستان محمد نواز شریف جو پاور فل لیڈر آف دی ہاؤ س ہیں، ان کے اور فیملی کے یوں جے آئی تی (JIT)کے سامنے پیش ہونے سے ملکی تاریخ رقم ہو ئی ہے ،بعض کی رائے ہے کہ ان کی پیشی اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ محمد نواز شریف اور ان کا خاندان نہ صرف آئین وقانون کا احترام کرتا ہے بلکہ اس کی بالا دستی پر پورا یقین رکھتا ہے۔

قیام پاکستان کے بعد سے ملک میں سیاسی افراتفری ہے ،لیاقت علی خان سے بے نظیر بھٹو کے قتل تک معاملات کے پیچھے وہ ہاتھ کار فرما رہے ہیں جنہوں نے اس ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہا ہے، سیاست میں ذاتی مفادات کار فرما رہے،سرکاری دولت کو بے دریغ خرچ کیا گیا،لیکن حساب کا نظام نہیں رہا، مارشل لاء دور میں نا جائز طریقے سے رقوم کو باہر منتقل کیا گیا اور آف شور کمپنیاں بنائی گئیں یعنی جرم کا ارتکاب کیا جس کا خمیازہ آج قوم کو بھگتنا پڑرہا ہے کیونکہ قیام پاکستان سے آج تک ہر گزرتے دن کے ساتھ احتساب کے خاتمے کا نعرہ لگا یا جاتا رہا لیکن ساتھ ہی کرپشن کی راہیں بھی ہموار کی جا تی رہی ہیں،حساب کا نعرہ لگا نے والے اپنے ہمنواؤں سے حساب لینے سے گریزاں رہے،ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے رہنما جمہوری رویوں کی قدر کرتے ہوئے اپنے تمام مسائل ان ہاؤس یعنی پارلیمنٹ میں حل کرتے خواہ وہ عوامی مسائل کے حل کا معاملہ ہوتا یاکسی کی کرپشن کے حساب کتاب کا،کسی کو اقتدار میں لانے کا معاملہ ہوتا یا ہٹانے کا لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک میں غیر جمہوری طریقے سے تبدیلی کو وطیرہ بنا لیا گیااور پھر سلسلہ یہیں تک موقوف نہیں رہا، ہمیشہ سیاستدانوں نے اپنے مفادات پر جمہوریت کو قربان کیا ، غیر جمہوری طرز عمل اپنا کر مفادات اٹھائے ۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ گزشتہ70سال میں ہر جمہوری حکومت اپنی مدت پوری کرتی تو وزرائے اعظم کی تعداد26 نہ ہو تی جو اس امر کا ثبوت ہے کہ جمہوریت کو بچانے کیلئے سیاستدانوں نے کبھی دانشمند ی کا مظاہرہ نہیں کیا ۔

پاکستان میں جمہوریت کی حیثیت ایک طوائف کی سی ہے جس طرح تماش بینوں کو رقاصہ سے کوئی بدمست اگر اس کی بے حرمتی یا کوئی اپنی حد سے تجاوز کرتے ہوئے اسے ناچنے سے روک دے تو تماش بین اس کا برا نہیں مناتے بلکہ اس کی بے حرمتی میں تماش بینوں کا جوش آسمان چھونے لگتا ہے، تماش بینوں کی گھن گرج اور تالیوں سے اس بیچاری رقاصہ پر کیا گزرتی ہے، اس کا اندازہ اسے ہی ہوتا ہے۔ رقاصہ سے ہماری مراد جمہوریت ہے اور بدمستوں سے مراد سیاستدان اور تماش بینوں سے مراد عوام ہیں جب تک ہمارے اندر سیاسی و جمہوری شعور نہیں آجاتا، جب تک جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی والوں کے عمل کو نہیں سمجھیں گے اور جب تک ہم جمہوریت کو ایک رقاصہ کی بجائے اپنے گھر کی خاتون جیسی عزت دینا نہیں سیکھیں گے ،تب تک ہماری حیثیت ایک تماش بین کی سی رہے گی۔

بدقسمتی سے آج پھر حکومتی بساط لپیٹنے اور منتخب وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کی باتیں ہو رہی ہیں ،گزشتہ4 سال میں بدخواہو ں نے ملک کو سیاسی مسائل میں الجھایا ہواہے جس سے عوامی مسائل بہت پیچھے چلے گئے ہیں ،آج عام آدمی کو نہیں معلوم تعلیم کے شعبے میں کیا ہورہا ہے ،صحت کیلئے کیا اقدامات کیے گئے ،ملک کے دیگر ادروں کی کیا صورتحال ہے، اداروں میں کون سی نئی ریفارمز آ رہی ہیں،غریت کے خاتمے کیلئے کیا گیا ،ان تما م معاملات سے نظریں ہٹانے کیلئے سیاسی انتشار پیدا کیا گیا ،حالانکہ گزشتہ دور حکومت میں عدالت عظمی ٰ میں کرپشن کے بہت سے کیسز چل رہے تھے جن میں اربوں ،کھربوں کی کرپشن کا ذکر آتا تھا آج وہ سے غائب ہو گئے جیسے کبھی یہ کیسز تھے ہی نہیں۔

جمہوریت ڈی ریل کرنے کی کوششیں کر نے والوں کا طرز عمل ہمیشہ نا خوشگوار رہا ہے ۔مثلاً مارشل لاایڈ منسٹریٹر زنے 58/2/B کا استعمال کرتے ہوئے منتخب اسمبلیوں کو برخاست کیا ۔انہوں نے کچھ ایسا طرز عمل اپنایا جس میں منتخب حکومت پر لگنے والے الزامات کم مگر جمہوریت کی تذلیل زیادہ نظر آئی ۔ملک میں آمریت کو کبھی بھی اچھا نہیں سمجھا گیا ،لیکن سوال یہ ہے کہ آمریت کا تسلط نہ سہی کیا، اب سیاستدان سیاسی تناؤ اور غیریقینی کی صورتحال پیدا کر کے اس کی راہ ہموار کریں گے ،کیا اب عدلیہ کا بھی سہارا لیا جائے گااور اس کا ملک کو کیا فائدہ ہو گا۔

آج وزیر اعظم نوازشریف اوران کے خاندان پرجس قسم کے الزامات ہیں اس تناظرمیں حالات و واقعات میں مماثلت دیکھیے ! سابقہ حکومت جس کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی تھے اور صدر آصف علی زر داری تھے ۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخارچوہدری تھے ۔کچھ اسی طرح کے الزامات خصوصاً سوئس بینکوں میں پڑے کالے دھن کے حوالے سے یا سوئس حکام کو خط لکھنے کے حوالے سے گیلانی صاحب پرتھے جس کے سبب ان کی پیشیاں لگوائی گئیں جبکہ سب جانتے تھے کہ آئین میں صدر کو استثنیٰ حاصل ہوتا ہے، آخر کار گیلانی صاحب کو تو ہین عدالت کا چارج لگا معزول کردیا گیا۔ اس بات سے قطع نظر کہ زرداری صاحب کا کتنا کہاں کا لا دھن اور بیرون ملک جائیدادیں ہیں، انہیں کچھ نہیں کہا گیا،بس اعلیٰ عدلیہ کی بالا دستی کیلئے ایک منتخب وزیر اعظم کو گھر بھیج دیا گیا، جیت کس کی ہوئی سب نے دیکھ لیا ،عدلیہ کی یا جمہوریت کی ہے ،ہم سمجھتے ہیں کہ جیت جمہوریت کی ہوئی کیونکہ گیلانی صاحب نے وزارت عظمیٰ کو ٹھوکر مار کر آئین اور عدلیہ کہ پاسداری کی،آئین وقانون کی بالادستی اس وقت محسوس کی جاسکتی تھی جب اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری آصف علی زرداری کے عہدہ صدارت چھوڑنے کے بعد انہی سے سوئس حکام کو خط لکھواتے ۔آج کچھ اسی طرح کے حالات و واقعات موجودہ حکومت کو درپیش ہیں۔پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے لے کر جے آئی ٹی (JIT) کی جاری تفتیش اور سابقہ حکومت میں این آر ا و NROسے لیکر وزیر اعظم کے گھر جانے تک کیا ایسا محسوس نہیں ہوتا جیسے قانون اور جمہوریت میں بلاوجہ ایک جنگ چھیڑی گئی ہو۔

4سال میں حکومت کو یہ سمجھنے نہیں دیا گیا عوام کے مسائل کیا ہیں ـ ؟ اور ان کیلئے کیا ہونا چاہیے؟ پاناما کیس پر شور مچانے والے عمران خان سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی (JIT)کے دفتر کے باہر عوام کو لمحہ بہ لمحہ آگاہ کرنے کیلئے اپنی دکان سجا تے رہتے ہیں ہیں۔وہ گزشتہ رور حکومت میں کہاں تھے جب این آر او (NRO) کیس میں سپریم کورٹ کا سارا فوکس زرداری پرتھا ۔ اس وقت وہ کہاں تھے ،کیا ان کی نظر میں یہ کیس بے معنی تھا اور ہم انہیں یاد لانا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ افتخار چوہدری جن مشہور زمانہ کیسز پر روزانہ کی بنیاد پر سماعت کررہے تھے، ان میں اہم NRO ،مسنگ پرسنز،کے آر کے رینٹل پاور و دیگر کیسز شامل تھے،لیکن کسی بھی کیس کا نتیجہ ان سے نہ نکل سکا اور وہ انتہائی خاموشی سے اعلیٰ عدلیہ سے رخصت ہو گئے، عمران صاحب آپ کا فرض بنتا تھا افتخار چوہدری کی رخصتی کے بعد اعلیٰ عدلیہ سے دوبارہ وہ کیسز ری اوپن کرنے کی درخواست کرتے کیونکہ وہ انتہائی اہم کیسز تھے جو اب قصہ پارینہ بن چکے،اس بات سے قطع نظر کہ جے آئی ٹی کی تحقیقات کا کیا نتیجہ آئے گا،ہم سوال کرتے ہیں کہ کہ ماضی میں کسی کا کچھ نہیں بگڑ سکا وزیراعظم کو گھر بھیج کر قوم کو کیا حاصل ہو گا۔
 

Arshad Majeed
About the Author: Arshad Majeed Read More Articles by Arshad Majeed: 2 Articles with 1206 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.