زمانہ موجود میں شاہ یابادشاہ تو رہے نہیں ، جہاں ہیں
وہاں کے حالات کی خبر نہیں، لیکن ماضی میں شاہوں کاراج تھا ۔ظاہر ہے جہاں
شاہ تھے وہاں شاہ زادے بھی تھے اورشاہ زادیاں بھی ، جتنا حق امور مملکت پر
شاہوں کاہوا کرتا تھا اسی قدر یہ امورشاہ زادوں اورشاہ زادیوں کے تصرف میں
ہواکرتے تھے گویا پورا ملک شاہ کے بعد شاہ زادو ں شاہزادیوں کے اشاروں کو
منتظر رہتاتھا۔ اچھا یہ تو حال ہوگیا شاہوں اور شاہ زادوں، شاہزادیو ں کا،
اب ذرا درباریوں کی حالت بھی ملاحظہ ہو، چونکہ بادشاہ کے مزاج اورموڈکے
مطابق چلنا ان درباریوں کی مجبوری ہوا کرتی تھی لہٰذا یہ درباری شاہ کی
مونچھوں سے ہی اندازہ لگالیتے کہ حضور کا مزاج گرامی کیسا ہے؟ ایک بادشاہ
نے اپنے ایک چہیتے درباری سے کہا ’’یار یہ بینگن بہت ہی اچھی سبزی ہے‘‘
درباری بھی درباری تھا لہٰذا مونچھ کے نیچے ہونے سے پہلے ہی بول اٹھا’’ جی
حضور اس جیسی سبزی تو پوری دنیا میں نہیں ،کیا کریلے، ٹماٹر، آلو ،سب اس کے
سامنے ہیچ ہیں۔ بادشاہ اس جی حضور ی پر مسکر ااٹھا اور جی ہی جی میں خوش
ہوتے ہوئے بولا ’’ لیکن میرے خیال میں بینگن جیسی بے ہودہ سبزی کوئی ہوہی
نہیں سکتی‘‘ درباری فوراً بول اٹھا ’’ جی حضور ! اتنی بے ڈھنگی سبزی ہے کہ
اس کامقابلہ ہی آلو، ٹماٹر اور دوسری سبزیوں سے کیا؟ بادشاہ نے حیران ہوکر
درباری سے پوچھا ’’ ابھی میں نے کہاکہ بینگن اچھی سبزی ہے تو تم تعریف میں
سب سے آگے اب اس کی برائی کی تو برائی میں سب سے آگے، آخر کیوں؟؟ درباری
بول اٹھا’’حضور! میں آپ کاغلام ہوں بینگن کانہیں؟؟ایک شاہ کے ضمن میں یہ
بھی سنا گیا ہے کہ جونہی کوئی راہ گیر ان کے محل کی جانب اشارہ کرتا تو
فوراً سے پہلے وہ انگلی اس کے ہاتھ سے الگ کردی جاتی ۔ خیر شاہوں کے مزاج
کے کیاکہنے، گھڑی تولہ گھڑی ماشہ،انصاف پہ آئیں تو اپنے ہی بیٹے کو قتل
کرڈالیں اور ظلم پہ آئیں توخون کی ندیاں بہادیں ۔ یہ مزاج شاہانہ ہوا،
صاحبو!چونکہ فی زمانہ دنیا میں بادشاہ خال خال نظرآتے ہیں جہاں جہاں ہیں
وہاں وہاں ابھی بی جمہوریت کا گزر نہیں ہوا ورنہ ہوسکتاہے کہ پاکستان کی
طرح ’’آدھا تیتر ،آدھابٹیر‘ ‘ کی سی کیفیت ہوتی، یاد آیا کہ دو ہی برس
بیشتر اقوام متحدہ کی جاری کردہ لسٹ میں ہمارے حاکم کانام شاہوں کی لسٹ میں
شامل تھا۔ بی جمہوریت چیختی چلاتی رہ گئی کہ ’’سنو سنو! میں پاکستان میں
رہتی ہوں چاہے اندھی لولی لنگڑی سہی(بقول سیاسی شخصیات ) لیکن ہوں تو سہی ،
یہ کیا کہ میرا اعزاز چھین کر میری بڑی بہن یعنی آمریت کو دیدیا۔ آمریت سے
یاد آیا کہ شاہی نظام کو بھی آمریت ہی تصور کیا جاتا ہے کیونکہ باپ کے بعد
بیٹا اوربیٹے کے بعد اس کا بیٹا، ہاں یہ الگ بات کہ باپ کے بعد بیٹے نالائق
ہوں تو پھر بیٹی یہ فریضہ انجام دے سکتی ہے۔ پاکستانی تاریخ کامطالعہ کریں
تو یہاں بھی دو’’شہزادیاں‘‘ نظرآتی ہیں، ایک تھی تو شہزادی لیکن مشکل کٹھن
وقت گزار کر تو ابدی نیند سوچکی ہے ،البتہ دوسری شہزادی کا مقدر کچھ زیادہ
اچھا نکلا، باڈی گارڈوں ،درباریوں کی لمبی لمبی لائنیں اور چھینک آنے پر
بھی ویدحاضر، ہم نے کہیں نہیں پڑھا یا کسی سے نہیں سنا کہ شاہ یا شاہ زادے،
شاہ زادیاں کسی عدالت یا قاضی کے پاس پیش ہوئے یا کسی کو جواب دہ ہوئے،
البتہ خلفائے وقت کی بابت ضرور سنا تھاکہ کوئی بھی عام شہری انہیں قاضی کی
عدالت میں طلب کرسکتاتھا۔ خیر شاہ اول تو کسی کو جوابدہ نہیں ہوتے اگر کوئی
بھولے سے پوچھ بھی لے تو ․․․․․․․ایسا کسی صورت ہونہیں سکتا۔ جیسا کہ ابھی
عرض کررہے تھے کہ اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر پاکستان بھی ان خوش نصیب
ملکوں میں شمارہوتاہے جہاں بادشاہ حکومت کرتا ہے، لکھنے والوں نے یہ نہیں
بتایا کہ یہ شاہی نظام کب سے ہے ؟ البتہ یہ نہیں بتاسکتے تھے کہ شاہی نظام
کب تک رہیگا، بعض بھولے بھالے درباریوں کا خیال ہے کہ شاہ وقت آئندہ بھی
بادشاہ ہی رہیں گے۔ ویسے حیران کن بات ہے عوام نے ووٹ دیا تو شاہ نہ تھے
لیکن بعد میں بن گئے تو عوام بے چارے کیاکرتے؟ اب بھی سن گن یہی ہے کہ
انتخابات ہونگے اور شاہ وقت بھی حصہ داری کی خواہشمندمیں ضرور حصہ لینگے۔
ویسے شاہی نظام میں یا جنگل واسیوں میں انتخابی رجحان نہیں ہے، کہتے ہیں کہ
جنگل بادشاہ یعنی شیر (اصل والا سچ مچ کا) سے درباری بند ر نے سوال کیا ’’
حضور ! یہ جمہوریت کیا ہوتی ہے؟‘‘ بادشاہ نے جواب دیا کہ جس نظام میں عوام
شامل ہوں وہ جمہوریت کہلاتا ہے‘‘ بند ر چونکہ خود بادشاہ بننے کاخواہشمند
تھا اس نے تجویزدیدی کہ ہم بھی انتخابات نہ کرالیں۔خیر شاہ وقت تو راضی نہ
تھے البتہ بندر جیسے قابل اعتماد درباری کی چکنی چپڑی باتوں نے کام کردکھا
یااور پھر بادشاہ راضی ہوگیا، انتخابی رولا شروع ہوا ، شیر کو امید تھی کہ
اس کے خوف سے کوئی امیدوار سامنے نہیں آئیگا لیکن ہوا یہ کہ وہی قابل
اعتماد درباری یعنی بندر امیدوار بن کرسامنے آگیا، انتخابات ہوئے اورپھر
بند ر جیت کر ’’بادشاہ‘‘ بن گیا۔ سنانے والے نے یہ نہیں بتایا کہ ایسی کوئی
مشابہت ہمارے ہاں بھی پائی جاتی ہے ۔یوں بھی داستان گو نے جنگل کایوں نقشہ
کھینچا کہ ان میں سے کوئی ایک صفت ہمیں اپنے ہاں نظر نہ آئی سو مشابہت کا
سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہاں یار لوگ اگر ڈھونڈلیں تو ہم ذمہ دار نہیں۔
خیر ان دنوں شاہ زادی کا ذکر بڑا ہے، درباری بھی اپنی جگہ ناچتے گاتے
نظرآتے ہیں کہ ’’ہرا رنگ ضرور اثر دکھاتاہے‘‘ البتہ باہر بیٹھے بغلیں بجانے
والے اپنی جگہ خوش کہ دیکھا کیسے رلادیا؟ اب بھولے بھالے لوگ کبھی تو ہرے
رنگ کی خوشی مناتے ہیں اورکبھی کسی کے رونے رلانے کی بات پر تالیاں پیٹتے
نظرآتے ہیں، ویسے سیانے کہتے ہیں کہ تالیاں پیٹنے کا ایک ہی فائدہ ہے کہ
بندہ دونوں ہاتھوں کو لال ضرور کرلیتا ہے۔ یعنی جس کیلئے بجائی جارہی ہوں
اس کو فائدہ ہونہ ہو اپنے ہاتھ ضرور لال ہوجاتے ہیں۔ سو ہرے رنگ پر تالیاں
بجانے والے ہوں یا پھر رونے رلانے کی بات کرنیوالوں پر خوش ہونے والے، بات
تو یہ ہوئی کہ دونوں طرف سے ہاتھ لال کرنے والے کون ہیں؟ عام آدمی ،بیوقوف
،اپنی بھوک کوفراموش کرکے شاہوں کے ’’کھابوں‘‘ پر خوش ہونے والے بیوقوف یا
پھر سادہ لوح عوام |