جب سے ڈونلڈ ٹرمپ مُکا لہرا کروائیٹ ہاؤس میں داخل
ہوئے ہیں تب سے عالمی دنیا بالخصوص اُمت کے مسائل دن بدن گھمبیر ہونا شروع
ہوچکے ہیں۔ دفاعی تجزیہ کار کرۂ ارض پر منڈلاتے جنگی بادلوں کے برسنے کی
پیشن گوئیاں بھی کررہے ہیں۔ جس کی سب سے بڑی وجہ امریکہ کی ڈوبتی معیشت کو
سنبھالا دینے کے لئے اسلحے کی فروخت کے معاہدے ہیں جن میں گزشتہ ماہ سے
کافی تیزی کے ساتھ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ یعنی اپنی معیشت کو گرداب سے
نکالنے کے لئے عالمی امن کو داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کیا جارہا ہے۔ اَب
تک کیے جانے والے معاہدوں میں سعودی عرب ، قطر ، بھارت ، جاپان اور جنوبی
کوریا سرفہرست ہیں۔ یہاں سب سے قابل ِ ذکر بات یہ ہے کہ یہ وہ ممالک ہیں جن
کے اپنے ہمسائیہ ممالک سے تعلقات کشیدہ چلے آرہے ہیں اور حالیہ معاہدے خطوں
کی دفاعی فضا میں عدم توازن کا مؤجب بن رہے ہیں۔ مودی نے امریکہ کے دورے کے
بعد سے علاقہ تھانیدار کی طرح رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ پاکستان کے ساتھ تو
ابتداء ہی سے حالات کشیدہ ہیں لیکن اَب ٹرمپ کی تھپکی سے سپر پاور ملک چین
کو بھی آنکھیں دکھا رہا ہے۔ شاید وہ 1962 ء کی جنگ کا انجام بھول گیا ہے۔
خلیجی بحران میں سات عرب ممالک نے قطر کے ساتھ امریکہ کے کہنے پر ہر طرح کے
تعلقات منقطع کئے ہیں۔ جس کا کھلم کھلا اظہار ٹرمپ نے سات جون کو یہ کہتے
ہوئے کیا کہ عرب ممالک کی جانب سے قطر پر پابندیاں اُن کی ایماء پر لگائی
گئی ہیں۔ پس اس میں کوئی شک و شبہے کی گنجائش نہیں رہی کہ خلجی بحران کا
اصل ذمہ دار اورفساد کی جڑ ٹرمپ ہی ہے۔ خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار
سنبھالنے کے بعد پہلا غیر ملکی دورہ تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب کا
کیا ۔ حالاں کہ یہ دورہ ٹرمپ کے ’’اسلام فوبیا ‘‘ بیانات کے بالکل برعکس
’’کہو کچھ، کرو کچھ ‘‘ کے مصداق تھا۔ دورہ باہمی تعاون کے بجائے دفاعی اور
اقتصادی نوعیت کا تھا۔ جس میں ساڑھے تین کھرب ڈالر کے دفاعی اور تجارتی
معاہدے طے پائے۔ جن میں ایک سو دس ارب ڈالر کی خطیر رقم سے امریکی اسلحہ
اور مہلک جنگی سازوسامان خریدا جائے گا۔ دورۂ سعودی عرب کے دوران امریکہ
عرب اسلامی کانفرنس کا سربراہی اجلاس بھی منعقد ہوا جس میں پچپن اسلامی
ممالک کے سربراہان نے شرکت کی ۔ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں ایران کو شدید تنقید
کا نشانہ بنایااور کہا کہ خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کا ذمہ دارہے لہٰذا
تمام اسلامی ممالک کو چاہیئے کہ وہ ایران کو عالمی سطح پر تنہا کر دیں۔
ایران کے خلاف اس کہانی کا پلاٹ اپریل 2017 ء سے تیاری کے مراحل میں تھا جب
امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے اپنے
ہم منصب سعودی نائب ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کی تھی اور اس بات کا
عندیہ دیا تھا کہ ہم نے ایران کے خلاف سعودی عرب کو مضبوط بنانا ہے۔ یہاں
یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ٹرمپ نے دورۂ سعودی عرب کی آڑ میں دو مقاصد حاصل
کیے۔ پہلا مقصد جیسے کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ امریکہ نے اپنی ڈوبتی ہوئی
معیشت کے لئے کھربوں ڈالر کے معاہدے کئے اور مسلم دنیا کے ایک اہم ملک قطر
پر پابندیوں میں اہم کردار ادا کیا۔ الزام یہ تراشہ گیا کہ قطر اخوان
المسلمون ، حماس اور داعش جیسی تنظیموں کی مدد کرتا ہے اور اُن کے قائدین
کو پناہ بھی دیتا ہے ۔ اس کے علاوہ وہ ایران کا غم گسار ملک بھی ہے۔ یاد
رہے کہ قطر اور ایران کے مشترکہ حدود کی حفاظت کے حوالے سے گہرے دفاعی
مراسم پائے جاتے ہیں۔ جن میں دونوں ممالک کے درمیان 2010 ء اور2015 ء کے
دفاعی معاہدے قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ تعلقات کی ایک اور وجہ دونوں ممالک
کی حدود میں واقع طبعی گیس کے کنویں ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ امیر قطر نے
ایرانی صدر روحانی کی دوسری بار منتخب ہونے پر اپنا تہنیتی پیغام بھیجاجو
دیگر خلیجی ممالک کے متفقہ منشور کے برعکس تھا۔ کیوں کہ وہ خلیجی تعاون
کونسل کا ممبر ملک ہے جو ایران کے خلاف اتحاد کا حصہ ہے۔یوں خلیجی بحران کے
نتیجے میں عرب ریاستوں کی تیس سالہ پرانی تنظیم گلف کونسل کے درمیان دراڑ
پڑ گئی۔ اس بحران کو مزید سنگین بنانے اور آگ کو دونوں جانب سے بھڑکانے کی
غرض سے امریکہ نے قطر کے ساتھ بارہ ارب ڈالر کا دفاعی معاہدہ کیا جس کے تحت
امریکہ قطر کو چھتیس ایف 15 فائٹر جیٹ طیارے فراہم کرے گا۔ ماضی کے مقابلے
میں یہ دونوں ملکوں کے مابین سب سے بڑی دفاعی ڈیل ہے۔ یعنی 2008 ء میں 794
ملین ڈالر اور 2014 ء میں گیارہ بلین ڈالر کے معاہدے ہوئے تھے۔ اَب آتے ہیں
دوسرے مقصد کی جانب، جس کے اثرات مرتب ہونا شروع ہورہے ہیں۔ یعنی ایران کے
خلاف محاذ کھولنے کا مقصد عالم اسلام کی شیعہ سنی بنیاد وں پر تقسیم کو
بڑھانا ہے اور اس کے اثرات کو دیگر اسلامی ممالک تک پھیلانا ہیں۔تاکہ اُمت
مسلمہ بیرونی خطرات کے ساتھ ساتھ اندرونی خلفشاروں میں بھی اُلجھی رہے۔ جس
کی ایک مثال عیدالفطر سے چند روز قبل کرم ایجنسی میں ہونے والے خودکش حملوں
کی صورت میں ملتی ہے۔ اس ساری صورت حال میں اُمت مسلمہ کے حکمرانوں پر
انتہائی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسلام دشمن عناصر کی ان سازشوں
کو بھانپتے ہوئے باہمی اتحاد و اتفاق سے کامیاب نہ ہونے دیں ۔ |