سماجی تنظیموں اور دہشتگردوں کا گٹھ جوڑ!

دنیا بھر میں ہر سال اربوں کی تعداد میں صدقات ، خیرات، عطیات دیئے جاتے ہیں۔ World Giving Index کے مطابق پاکستان دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ صدقات ، خیرات، عطیات دیئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال 650 ارب چیریٹی دی جاتی ہے۔ یہ رقم دنیا کے کئی ممالک کے جی ڈی پی سے بھی زیادہ ہے۔ وزارتِ اطلاعات و نشریات کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں 78 فیصد افراد ایسے ہیں جو صدقات ، خیرات، عطیات میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں ۔ جس میں 69 فیصد افراد ایسے ہیں جو اپنے صدقات خیرات، عطیات بہ ذریعہ کیش دیتے ہیں۔ ۔ لیکن صرف 2 فیصد افراد ہی ہیں کہ جن کو اس بات کا علم ہے کے ان کے دیئے ہوئے عطیات کہاں استعمال ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ امداد مدارس ، مساجد، امام بارگاہوں، سماجی اداروں اور سب سے کم اسپتالوں اور اسکولوں کو دی جاتی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق 35 فیصد رقم کسی نہ کسی طریقے سے کالعدم ، انتہاپسند تنظیموں اور دہشت گردوں تک پہنچ جاتی ہے اور پھر اس رقم کے ذریعے ملک بھر میں پرتشدد کارروائیاں کی جاتی ہیں۔

02 جون 2017کو حکومت کی جانب سے پانچ ہزار سے زائد مشکوک بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیئے گئے۔ یہ بینک اکاؤنٹ ملک بھر میں دہشت گردی کی امداد کیلئے استعمال ہورہے تھے۔ ملک بھر میں ان تنظیموں کا نہایت مضبوط نیٹ ورک موجود ہے جو ان کالعدم تنظیموں اور ملک بھر میں دہشت گردی کیلئے رقم جمع کرتا ہے۔ یہ افراد مدارس اور فلاحی اداروں کے نام پر رقم اکٹھی کرتے ہیں ۔ کچھ عرصہ قبل بلوچستان کے علاقے ژوب سے تعلق رکھنے والے JUI کے ایک دھڑے کے رہنماہ مولوی اﷲ داد نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہم کافی عرصے سے کالعدم تنظیموں کیلئے صدقات خیرات، عطیات جمع کرتے ہیں اور کوئٹہ شہر میں اس وقت پندرہ مقامات ایسے جہاں کالعدم تنظیموں اور بلخوص طالبان کیلئے فنڈنگ اکٹھی کی جاتی ہے۔

جیسے ہی حکومت کی جانب سے ان کالعدم تنظیموں کی بڑی فنڈنگ پہ قدغن لگائی گئی جو بیرون ممالک سے بینک اکا ؤنٹ کے ذریعے منتقل کی جاتی تھی تو ان کالعدم تنظیموں نے سماجی اور فلاحی اداروں کا لبادہ اوڑھ کے ملک کے مختلف علاقوں سے فنڈ ریزنگ کرنا شروع کردی۔ یہ کالعدم تنظیمیں ا س رقم کا استعمال دہشت گردی اور انتہاپسندی کیلئے کرتی ہیں۔ یہ کالعدم تنظیمیں مختلف ناموں سے اپنا نیٹ ورک چلاتی ہیں۔

1980 کی دیہائی میں جب امریکا اور SOVIET یونین کے درمیان جنگ جاری تھی اس وقت امریکا میں ریفوجیز کیلئے ایک ادار ہ قائم ہوا ۔ یہ ادارہ امریکا میں فلاحی کام سرانجام دینے لگا اور پھر نائن الیون کے بعد جب امریکی خفیہ اداروں نے القائدہ اور اس کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تو علم ہوا کے یہ ادارہ نائن الیون کے واقعہ میں ملوث تھا اور اس ادارے سے ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ۔ تفتیش کے دوران علم ہوا کہ وہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ اسامہ بن لادن کا قریبی ساتھی تھا۔ یہ تنظیم بظاہر تو فلاحی کام کرتی تھی لیکن کہانی اس کے بلکل برعکس تھی۔ پاکستان میں بھی کچھ ایسی طریقے کا نیٹ ورک استعمال کیا جارہا ہے۔ نام نہاد مدرسوں اور فلاحی تنظیموں کی آڑ میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کو فروغ دیا جارہا ہے ۔کہیں نہ کہیں عام عوام بھی اس نیٹ ورک کا آلہ کار بنتے جارہے ہیں ۔ عوام الناس کو چایئے کہ وہ اپنے صدقات، خیرات، عطیات مکمل تحقیق کے بعد دیں کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے دیئے ہوئے عطیات ہمارے ہی خلاف استعمال ہوں ، کہیں ہماری دی ہوئی رقم ہماری ہی جان نہ لے۔

Abdul Bari
About the Author: Abdul Bari Read More Articles by Abdul Bari: 2 Articles with 1549 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.