سیاسی و عسکری قیادت کو مولانا ابو اکلام آزاد کے خیالات
و افکار اورپاکستان کے بارے میں کہے گئے اقتباسات کو رد کر کے غلط ثابت
کرنا ہو گا کہ تاریخ خود کو ہر بار بلکہ ہمیشہ نہیں دہراتی ۔ آغا شورش
کاشمیری کی ادارت میں شائع ہونے والے ہفت روزہ رسالہ چٹان میں مولانا ابو
الکلام آزاد نے انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کے مستقبل کے بارے میں کیا پیشن
گوئیاں کی تھیں اورپاکستان کے دولخت ہونے سے پہلے اپریل 1946میں ہی مولانا
نے جن شکوک وشبہات کا اظہار کیا تھاوہ آج تک تو سوفیصد سچ ثابت ہو رہے
ہیں۔مولانا ابوالکلام آزاد فرماتے ہیں کہ’’جناح اور لیاقت علی خان جب تک
زندہ ہیں اس وقت تک مشرقی پاکستان کا اعتما د متزلز ل نہیں ہو سکتا، لیکن
دونوں رہنماؤں کے چلے جانے کے بعد ایک چھوٹا سا واقعہ بھی ناراضگی اور
اضطراب پیدا کر سکتا ہے ۔میں محسوس کرتا ہوں کہ مشرقی پاکستان کے لیے بہت
طویل مدت تک مغربی پاکستان کے ساتھ رہنا ممکن نہ ہو گا۔ دونوں خطوں میں
کوئی بھی قدر مشترک نہیں ہے سوائے اس کے دونوں اطراف کے رہنے والے اپنے آپ
کو مسلمان کہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں مسلمان کہیں بھی پائیدار
سیاسی اتحاد پیدا ہی نہیں کر پائے،عرب دنیا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ مشرقی
پاکستان کی زبان ، رواج اور رہن سہن مغربی پاکستان کی اقدار سے مکمل طور پر
مختلف ہیں۔پاکستان کے قیام کی گرم جوشی ٹھنڈی پڑتے ہیں اختلافات سامنے آنا
شروع ہو جائیں گے، جو جلد ہی اپنی بات منوانے کی حد تک پہنچ جائیں گے۔
عالمی قوتوں کے مفادات کی جنگ میں یہ اختلافات شدت اختیار کریں گے اور
پاکستان کے دونوں حصے الگ ہو جائیں گے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد
مغربی پاکستان خطے میں موجود تضادات اور اختلافات کا میدان جنگ بن جائیگا ۔
پنجاب ، سندھ، خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کا قومیائی تشخص بیرونی مداخلت
کے دروازے کھول دے گا۔ وہ وقت دور نہیں ہو گا جب عالمی قوتیں پاکستان کی
سیاسی قیادت میں موجود مختلف عناصر کو استعمال کر کے اس کو بخرے کر دیں گی،
جیسا کہ بلکان اور عرب ریاستوں کے ساتھ کیا گیا تھا۔اس وقت ہو سکتا ہے کہ
ہم اپنے آپ سے یہ سوال کریں گے کہ ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟اصل مسئلہ
یقینی طور پر مذہب کانہیں بلکہ معاشی ترقی کاہے ۔مسلمان کاروباری قیادت کو
اپنی صلاحیت اور ہمت پر شکوک وشبہات ہیں۔ مسلمان کاروباری حضرات کو سرکاری
سرپرستی اورمہربانیوں کی اتنی عادت پڑ چکی ہے کہ وہ نئی آزادی اور خود
مختاری سے خوفزدہ ہیں۔وہ دو قومی نظریے کی آڑ میں اپنے خوف کو چھپاتے ہیں
اور ایسی مسلمان ریاست چاہتے ہیں، جہاں وہ بغیر کسی مقابلے کے معیشت پر
اپنی اجارہ داری قائم رکھ سکیں،یہ دیکھنا انتہائی دلچسپ ہو گا کہ وہ کب تک
اس فریب کاری کوزندہ رکھ سکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اپنے قیام سے ہی
پاکستان کوبہت سنگین مسائل کا سامنا رہے گاجیسے کہ(1) کئی مسلم ممالک کی
طرح پاکستان کی نااہل سیاسی قیادت فوجی آمروں کی راہ ہموار کرے گی۔ (2)
بیرونی قرضوں کا بھاری بوجھ ہو گا۔(3)پڑوسیوں سے دوستانہ تعلقات کا فقدان
اور جنگ کے امکانات ہو ں گے۔ (4)داخلی شورش اور علاقائی تنازعات ہوں گے۔(5)پاکستان
کے صنعتکاروں اور نو دولتیوں کے ہاتھوں قومی دولت کی لوٹ مار ہو گی۔ (6) نو
دولتیوں کے استحصال کے نتیجے میں طبقاتی جنگ کا تصور ہو گا۔(7)نوجوانوں کی
مذہب سے دوری اور عدم اطمینان اور نظریہ پاکستان کا خاتمہ ہو جائے گا‘‘۔
مولانا ابوالکلام آزاد کی باتوں کو سامنے رکھ کر ہمیں اپنے ماضی کی تاریخی
غلطیوں کا محاسبہ کرنا ہوگا کہ ہم نے وہ کونسے گناہ کیے ہیں جن کی وجہ سے
ہمارے ملک کے حالات کبھی مستحکم نہیں رہے ۔قرآن مجید فرقان حمید میں اﷲ
تعالی ارشاد فرماتے ہیں ’’اور بے شک انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کے لیے اس
نے کوشش کی‘‘۔ ہمارے ملک کے حقیر انسان سے لیکر چوٹی کے راشی، کرپٹ اور
ضمیر فروش انسان تک تقریبا سبھی ناانصافی، بے عملی اور زیادتی سے بھرپور
نظر آتے ہیں لیکن یقین کامل اﷲ کی رحمت پر رکھتے ہیں۔ ہمارا معیار دہر ا ہو
چکا ہے کہ ایک طرف ہم روزانہ گناہ کبیرہ قتل وغارت، لوٹ کھسوٹ، سود خوری ،
عوام کو انصاف کی عدم فراہمی ،حکمرانوں کی اربوں کھربو ں ڈالرز کی کرپشن کی
معافی وغیرہ جیسے بڑے گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں ، تو دوسری طرف حضورﷺ کی
سفارش کبرٰی پر کامل بھروسہ بھی رکھتے ہیں۔ ہم اپنے عوام کو گڈ گورننس نہیں
دیتے ، عوام کے خون پسینے کو نظر انداز کرتے ہیں اور ہم اپنے معاشرے میں
بگاڑ اور فساد کا سبب بنتے ہیں لیکن پھرارض پاکستان کو کسی ولی کی کرامت یا
اسکی محنت سمجھتے ہیں ۔ ہم نااہل شخص کو ووٹ ڈال کر کسی مسیحا کا انتظار
کرنے والی قوم ہیں ۔بقول مولانا ظفر علی خان ـ، خدا نے آج تک اس قوم کی
حالت نہیں بدلی ، نہ ہو جس کو خیال اپنی حالت کے بدلنے کا۔
ہم نے اپنے لیے خود ساختہ اصول بنا لیے ہیں کہ اچھے یا برے مقصد کے لیے
محنت کریں گے تو پیٹ بھریں گے لیکن دوسری طرف جب بات حقوق العبادیعنی
معاشرتی حقوق یا اﷲ کے احکامات ماننے کی ہو ،وہاں ہم اصولوں کوپاؤں تلے
روندھ ڈالتے ہیں ۔اور ایسے بن جاتے ہیں کہ پھر ’ ’مفلس شہر کو دھنوان سے ڈر
لگتا ہے ۔ پر نہ دھنوان کو رحمان سے ڈر لگتا ہے ۔اب کہاں ایثار و اخوت وہ
مدینے جیسی ،اب تو مسلم کو مسلمان سے ڈر لگتا ہے۔‘‘ آج 73ء سال گزر جانے کے
بعد بھی مولانا کی باتیں حرف بہ حرف سچ ثابت ہو رہی ہیں۔ اے کاش !ہم ہوش کے
ناخن لیں اور اپنی اس دھرتی ماتا کو اپنا سمجھ کر چلائیں تاکہ دشمن کو ایسا
کرارا جواب ملے کہ وہ منہ کے بل گرکر پاک دھرتی کی عظمت کو تسلیم کرے۔ وہ
وقت دور نہیں کہ جب یہاں انصاف کا بول بالا ہوگا اور پھر کسی میلی آنکھ کی
ہمت نہیں ہوگی کہ وہ کسی انتشار یا سازش سے ہمیں شکست دے سکے۔ |