دورانِ طالبعلمی عمران خان میرے پسندیدہ آل راؤنڈر
تھے۔ اُس کے بعد اُن کو قومی ٹیم کا قائد بنا دیا گیا، اس دوران بھی اُن کی
قائدانہ صلاحیتیں کھل کر سامنے آئیں اور وہ پاکستان کے واحد بااختیار کپتان
تھے۔ 1992ء کا عالمی کپ بھلا کون بھول سکتا ہے۔ اُن کی قائدانہ صلاحیتوں کی
وجہ سے عالمی کپ میں پاکستان کرکٹ کا عالمی چیمئین بنا، اس فتح نے اُن کو
آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اسی فتح سے اُن کا شوکت خانم میموریل
ہسپتال کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ یہ
عمران خان کا بہت بڑا کارنامہ ہے جس پر پوری قوم کو انتہائی ناز ہے۔ یہ وہ
دور تھا جب میں نے اُن کی بڑی تصویر اپنے بیڈ روم میں لگا رکھی تھی اور میں
اُن پر نازاں تھا۔ جب اُنہوں نے عالمی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تو
اُن کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے کافی سیاسی جماعتوں نے اُن کو اپنے ساتھ
ملانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس سے پہلے جنرل (ر) ضیاء الحق نے اُن کو
وزیر بنانے کی پیشکش کی تھی جو کہ اُنہوں نے ٹھکرا دی۔ جب مختلف سیاسی
جماعتوں کی طرف سے اُن کو سیاسی میدان میں آنے کی دعوت دی جا رہی تھی تو
اُنہوں نے یہ کہہ کر یہ پیشکش ٹھکرا دی کہ ’’سیاست ایک گند ہے اور میں اس
گند میں نہیں پڑنا چاہتا‘‘۔ مگر پھر کیا ہوا اُنہوں نے اپنی سیاسی جماعت
بنا لی جس کا نام پاکستان تحریک انصاف رکھا اور سیاسی گند میں شامل ہو گئے۔
اکتوبر 1999ء میں جب آمر جنرل پرویز مشرف نے جمہوری حکومت ختم کی تو عمران
خان بھی مشرف کے حامی بن گئے اور اُن کے ریفرنڈم کی بھرپور حمایت کر ڈالی۔
اسی دوران عام انتخابات میں 1 سیٹ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور
ممبر قومی اسمبلی بن گئے۔ پھر ان کو جنرل مشرف کی حمایت سے الگ ہونا پڑا
اور بالآخر قوم سے معافی مانگ لی۔ اسی دوران عدلیہ بحالی تحریک شروع ہوئی
جس میں اُن کی جماعت نے بھرپور فعال کردار ادا کیا اور اسی دوران پہلی
مرتبہ عمران خان کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا۔ میں نے اس دوران
عمران خان سے دو تفصیلی انٹرویو کئے۔ عمران خان نے بھرپور سیاست کا آغاز
کیا۔ اُنہوں نے کسی بھی سیاسی جماعت کو نہیں بخشا۔ پاکستان پیپلز پارٹی،
پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان مسلم لیگ (ق)، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور
ایم کیو ایم کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا۔ ایم کیو ایم کے خلاف تو وہ لندن
عدالت تک چلے گئے اور اُن کے بارے میں دہشت گرد تنظیم اور ٹارچر سیلوں تک
کا ذکر کیا۔ اسی دوران اُن کا لب و لہجہ مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کے
خلاف دھیما پڑ گیا اور لندن عدالت کا بھی کچھ پتہ نہ چلا۔ میڈیا پر جب اُن
کی خاموشی کی خبریں چلیں تو اُنہوں نے یہ کہہ دیا کہ معاملہ عدالت میں چل
رہا ہے، اگر اس کو زیادہ ہائی لائٹ کیا گیا تو گواہان وغیرہ کو نشانہ بنایا
جا سکتا ہے اس لئے فی الحال خاموشی سے کام جاری ہے مگر میں ایم کیو ایم کو
چھوڑوں گا نہیں۔ مگر اب یہ خاموشی طویل ہو چکی ہے اور لندن کی عدالت کا کچھ
پتہ نہیں کہ وہاں کیا کارروائی ہوئی۔ اب تو یہاں تک بات چلی گئی ہے کہ
عمران خان ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے بارے میں کہتے ہیں کہ اُن کے
مقاصد نیک ہیں، دُوسرے لفظوں میں عمران خان الطاف حسین کا کچھ نہیں بگاڑ
سکے۔ اس وقت اُن کی سیاست صرف اور صرف مسلم لیگ (ن) کی مخالفت میں چل رہی
ہے۔ کوئی بھی قومی معاملہ ہو وہ نواز شریف کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔
2013ء کے عام انتخابات سے تھوڑا عرصے پہلے عمران خان کی جماعت تحریک انصاف
کو بامِ عروج حاصل ہوا تھا اور عام خیال یہی تھا کہ عمران خان واضح اکثریت
حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے مگر 2013ء کے عام انتخابات کے نتائج
تحریک انصاف کی توقعات کے برعکس آئے یوں اُن کی سیاست نے احتجاجی سیاست کا
لبادہ اُوڑھا، جلسے، احتجاج اور یہاں تک کہ اسلام آباد کے ڈی چوک پر طویل
احتجاجی دھرنا بھی دیا گیا۔ ایک منتخب جمہوری حکومت کے راستے میں روڑے
اٹکائے گئے اور اُن کو کام کرنے سے روکنے کی کوشش کی گئی مگر احتجاجی
دھرنوں سے کچھ بھی حاصل نہ ہوا اور حکومت اپنے 5 سال پورے کرنے کو ہے اور
2013ء اور 2017ء میں بہت بڑا فرق نظر آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انتخابی
اصلاحات عمران خان کا اہم ایجنڈا تھا مگر اس پر کچھ بھی کام نہ ہو سکا۔
دھاندلی کا بہت شور شرابہ کیا گیا مگر کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ اب جے آئی ٹی
اپنا کام کر رہی ہے اس سے کیا نکلے گا یہ بھی آنے والے دنوں میں پتہ چل
جائے گا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پانامہ پیپرز میں 220 پاکستانیوں کے نام
ہیں مگر صرف ایک خاندان کا احتساب کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ عمران خان اگر
خیبر پختونخواہ میں بہترین حکومت کرتے اور اُن کے دئیے ہوئے مینڈیٹ کی قدر
کرتے تو یقینا آنے والے انتخابات میں اُن کو بہتر نتائج مل سکتے تھے۔ ایک
بات نوٹ کر لیں کہ جمہوری معاشرے میں آخری فیصلہ عوام کا ہی ہوتا ہے۔ اگر
آپ اچھے کام کریں گے تو یقینا عوام کے دلوں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو
جائیں گے ورنہ عوام کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ وہ جس کو چاہیں ہیرو بنائیں
اور جس کو چاہیں زیرو بنا دیں۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
|