امریکہ کو وزیر اعظم نواز شریف سے متعلق ہمیشہ کنیوژن رہی
ہے۔ا ن کا اکھڑ پن اسے پسند نہیں۔ا ن سے ہر قسم کی منوالینا ممکن نہیں۔اور
انہیں کسی بھی حدتک لے جانا آسان نہیں۔امریکہ کو ایسے لوگ ناپسندہیں۔اسے تو
سیدھے سادے یس میں گوارہ ہیں۔جو سوچ بچار میں نہ پڑیں۔براہ راست سودے بازی
پر آجائیں۔مشر ف اگر امریکہ فون پر اوکے نہ کہتا وقت مانگ لیتا۔مشاروتیں
شروع کرلیتا تو امریکہ کے لیے اس کے ساتھ چلنا نا ممکن ہوجاتا۔جنرل کی فوری
اوکے کی ادا امریکہ کو اتنی پسند آگئی کے اگے کئی برس تک وہ دہشت گردی کے
خلاف مشرف حکومت کی کوتاہیاں اور ناٹک برداشت کرتارہا۔امریکہ کو اان
کوتاہیوں کے سبب وار آن ٹیررزم میں کافی مشکلات پیش آئیں۔مگر پاک فوج کے
تعاون کے بغیر معاملات بن نہ رہے تھے۔لہذا مشر ف کی نااہلیوں کو نظر انداز
کیا جاتارہا۔مشرف حکومت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوئی مستقل اور مربوط
پالیسی کی بجائے ڈنگ ٹپاؤ طریقہ اپنایا گیا۔مشرف کا خیال تھاکہ جب تک دہشت
گردی کا جن بوتل سے باہر رہے گا۔اس کی غیر آئنی حکومت پر امریکہ چھتر ی تنی
رہے گی۔اسے ڈر تھا کہ اگر دہشت گردی کا معاملہ نبٹ گیا۔تو امریکہ کی نظر
میں پاکستان اور اس کی حکومت سے متعلق کچھ دلچسپی نہ باقی رہے گی۔امریکہ نے
پاکستانی حکومت کی اس بے جان پالیسی کے سبب پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف
براہ راست کاروائیاں شروع کرنا پڑیں۔ پاکستانیوں کو پہلی بار ڈرون حملوں کی
بازگشت سننے کوملی۔اور پھر یہ سلسلہ ایک روٹین کی کاروائی بن گیا۔۔امریکہ
کو اپنی یہ مداخلت زرداری دور میں بھی یوں جاری رکھنا پڑی کہ وہ دور اس سے
بھی زیادہ لاتعلق لوگوں کا تھا۔جو دہشت گردی کے معاملے کو خاص پاک فوج کا
معاملہ قرار دے کر مفاہمتی سیاست میں غرق ہوگئے۔نواز شریف کا اکھڑ پن
امریکہ کو کھٹکتاہے۔مگر دہشت گردی کے خلاف جو ایفرٹس ان کی حکومت میں کی
گئیں۔امریکہ نے ا ن کے مؤثر ہونے کے اعتراف میں ڈرون حملے بند کردیے۔
وزیر اعطم نواز شریف ان دنوں مشکلات کا شکار ہیں۔جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے کے
بعد ان کے استعفے کا مطالبہ بڑھ رہاہے۔وزیر اعظم کا موقف ہے کہ ان کا دامن
صاف ہے۔وہ استعفی نہیں دیں گے۔مقابلہ کریں گے۔وزیر اعظم کے اس موقف پر
اپوزیشن مذید سیخ پاہوکر استعفی کے مطالبے سے ایک قدم آگے بڑھ رہی ہے۔کچھ
اپوزیشن پارٹیاں اب وزیر اعظم کے استعفی کی بجائے نئے الیکشن کروانے کا
مطالبہ کرنے لگی ہیں۔اس نئے مطالبے کو وزیر اعظم کے لیے غیبی مددتصور کیا
جارہا ہے۔یہ نیا مطالبہ متحدہوتی اپوزیشن میں پھوٹ ڈالنے کا سبب بن
رہاہے۔تین جماعتیں جن میں تحریک انصاف ۔ق لیگ ۔اور عوامی تحریک شامل ہیں۔وہ
فوری نئے الیکشن کا مطالبہ کر رہی ہیں۔جبکہ متحدہ ۔پی پی اور جماعت اسلامی
اس مطالبے کے حق مین نہیں ۔صر ف وزیر اعظم کے استعفی تک اپنا مطالبہ رکھے
ہوئے ہیں۔اپوزیشن کی کچھ جماعتیں سپریم کورٹ کے فیصلے تک وزیر اعظم کا
استعفی نہ ماننے کا موقف بھی رکھتی ہیں۔اس صورتحال نے وزیر اعظم کو موجودہ
صورتحال کے مطابق نئی حکمت عملی تیاری کرنے کا موقع فراہم کردیا۔دوسری طرف
حکومتی حلیف جماعتوں نے کھل کر وزیر اعظم کو ڈٹ جانے کا مشورہ دے
دیا۔مولانا فضل الرحمان اور محمو د خاں اچکزئی نے واشگاف انداز میں وزیر
اعظم کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔جبکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں نے بھی وزیر اعظم
کو رائے دی کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کی بنیاد پروزیر اعظم استعفی نہ دیں۔خود
وزیر اعظم کی جماعت کے اندر بھی ایسے لوگوں کی کمی ہے۔جو دفاعی حکمت عملی
کا کہہ رہے ہیں۔اکثریت کا مشور ہ جارحانہ انداز اختیار کرنے کا ہے۔ان کے
نذدیک یہی جارحانہ انداز اگلے الیکشن کی کمپئین کے دوران کام آئے گا۔وہ
الیکشن بھلے ہی چار چھ ماہ پہلے ہی ہوجائے۔ لیکن اگر پسپائی دکھائی تو
بالکل دیوارسے لگادیاجائے گا۔
نواز شریف کے خلاف پچھلے کئی سالوں سے جال بنا جاہا ہے۔کبھی یہ جال تن لیا
جاتاہے۔اور کبھی ڈھیلا کردیا جاتاہے۔جال بننے والے کنیوژڈ معلوم پڑتے
ہیں۔اگر وہ میاں صاحب کی اکڑ کو دیکھیں تو ایک دقیقہ بھی برداشت نہ کریں۔ان
لوگوں کو اپنے سے بڑا کسی کو سمجھنے کی عادت ہے ۔نہ انہیں ایسی تربیت دی
جاتی رہی ہے۔اس لیے نواز شریف کی من مرضیاں انہیں چبھتی رہتی ہیں۔وہ انہیں
ایک لمحہ بھی جھیلنے کو آمادہ نہیں۔ان کی اس سوچ کے باعث کئی باریہ جال بہت
زیادہ تن دیا گیا۔مسئلہ یہ ہے کہ معاملہ بالکل سمیٹ دینے کا یارہ بھی نہیں
ہورہا۔دائیں بائیں نظر پڑتی ہے تو میاں صاحب کو برداشت کرنے کا کڑوہ گھونٹ
بھرنے کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا ۔جو مصنوعی لیڈر شب تیار کی گئی ہے۔اس
کی تو گلی کا کوئی کتا بھی نہ مانے پھر یہاں جو پورے کا پورا آوہ بگڑا ہوا
ہے۔اس کے آگے اس دو نمبر قیادت کی کیا حیثیت ہے۔ہمارے ہاں اداروں کی اسی
اکڑفوں کے سبب کوئی نظام نہیں بن پایا ۔بس الٹے سیدھے تجربات ہی ہوتے
رہے۔اگر میاں صاحب کو ہٹادیا جاتاہے۔تو پھر جو حاضر موقع کی تابع قیادت
موجود ہے۔وہ تو سوائے بگاڑ میں اضافے کے کچھ نہ کر پائے گی۔نواز شریف کو
ہٹانا تو شاید کوئی مشکل کام نہ ہو۔مگر جتنے اینڈ میاں صاحب نے سمبھال رکھے
ہیں ۔ان کے لیے متبادل نہیں مل رہا۔ پاکستان کے اندر تونوا زشریف کو جیب کی
گھڑی تصور کیا جاتاہے۔مگر دنیا الگ سوچ رکھتی ہے۔میاں صاحب کو لوگ ایک قابل
۔مخلص اور محب وطن لیڈر تصور کرتی ہے۔بالخصوص جن حالات میں ان کے خلاف
دھرنے اور عدالتی جنگ شروع کی گئی۔ان حالات میں نواز شریف کی پر فارمنس
مثالی تھی۔پوری دنیا پاکستان کی طرف متوجہ تھی۔ایسے میں پندرہ بیس سال
معاملات کی بنیاد پر انہیں آؤٹ کروانے کی سازش دنیا کی نظر میں نواز شریف
کی اہمیت اور بڑھا گئی۔مقتدر حلقے اپنی تہی دامنی دیکھ کر جال ڈھیلا کرنا
پڑتاہے۔جال کاکبھی تان لینا کبھی ڈھیلا چھوڑدینا مقتدر حلقوں کی کنفیوژن کا
غماز ہے ۔جانے یہ کنفیوژن کب دور ہوگی۔ |