مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے،برطانیہ میں مقیم کشمیر
کاز کے حوالے سے سرگرم معروف شخصیت سید نزیر گیلانی نے وزارت خارجہ کے
بیانات کے حوالے سے چند اہم نکات کی نشاندہی کی ہے جس سے مسئلہ کشمیر سے
متعلق پاکستان کی پالیسی کی پسپائی کی نشاندہی ہوتی ہے۔یہ ایسا اہم معاملہ
ہے کہ جس پر مناسب طور پر توجہ دینا ضروری ہے تاکہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے
پاکستان کو کمزور سے کمزور تر پوزیشن کی طرف دھکیلنے کی سازشوں کو ناکام
بنایا جا سکے۔جمعرات 13جولائی 2017 کو دفتر خارجہ کی پریس بریفنگ میں کشمیر
کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ
The 56 Member Council of the Foreign Ministers recognized Kashmir as the
core issue between India and Pakistan and underscored that its
resolution was the key to ensuring lasting peace and security in the
region. The Council rejected Indian attempts to equate Kashmiris'
indigenous movement for self-determination with terrorism.
یہ خوش آئند بات ہے کہ کشمیر پر قائم OIC کے رابطہ گروپ نے کشمیرکو
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان core issue قرار دیا ہے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ خود پاکستان نے جون 1997 کے 19 تا 23جون
کے پاک بھارت مزاکرات کے بعد کے مشترکہ اعلامیے میں کشمیرکی Core حیثیت ختم
کر دی اور 8 حل طلب issues میں کشمیرکو بھی ایک issue قرار دیا ۔کشمیر کی
core حیثیت کو disturb کرنے پر JKCHR نے 30 جون 1997 کو حکومت پاکستان کو5
صفحات پر مشتمل ایک یادداشت اور احتجاجی نوٹ بھیجا۔حکومت پاکستان (دفتر
خارجہ)کی کشمیر کاز کے ساتھ اتنی بڑی غفلت پہلی اور آخری نہیں تھی۔ کمال تو
یہ ہوا کہ آر پار بہت سارے کشمیری بھی اسی تبلیغ کا حصہ بن گئے۔ البتہ اس
جرم میں شریک کشمیری آزمائش کے لمحات میں ہمت اور استقلال کا وضو بر قرار
نہ رکھ سکے۔دفتر خارجہ نے ایسی ہی بڑی غلطی 2000 ء میں گڑگائوں بھارت میں
25 تا 26 نومبر کو ہونے والے Steps In Jammu and Kashmir: Give Peace a
Chance Symposium on Next
کے لئے انسٹیٹیوٹ آف ریجنل سٹیڈیز پاکستان اور انٹرنیشنل سینٹرفار پیس
انیشیٹیو ،انڈیا کی طرف سے مشترکہ روڈ میپ'' دی بگنننگ آف دی فیوچر جائنٹ
اپروچ پیپر''کی تیاری میں بھی کی گئی۔اس روڈ میپ کے Process part II صفحہ 7
اور 8 پر تسلیم کیا گیا کہ
Talks between GOI and All Parties Hurriyat Conference (APHC) besides
other Kashmiri groups, with a limited and clearly spelt out agenda as
suggested here
(1) to discuss the process and not substance of resolving the Kashmir
conflict
(2) to discuss possible co-operation by GOI to facilitate talks between
Kashmiri groups on both sides of LOC
یہ روڈ میپ بیک وقت اسلام آباد پاکستان اور بمبئی ہندوستان میں شائع کیا
گیا۔اس روڈ میپ میں کشمیریوں اور ان کے قائدین کی مسئلہ کشمیر کے حل میں جس
طرح قدروقیمت مقرر ہوئی ہے اس پر دفتر خارجہ کی فہم ودانش کے معیارپر جتنا
بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے دفتر خارجہ کے اس بیان
کہ
"Pakistan has consistently maintained that the Jammu and Kashmir dispute
can be resolved only through realisation of the right of
self-determination through a fair, free and transparent plebiscite under
the auspices of the UN in accordance with the UNSC resolutions."
بھارت نے جواب میں کہا ہے کہ
As far as the Kashmir issue itself is concerned, the governments
position has been very consistent and clear
We have been ready to have dialogue with Pakistan among other issues
(including) J&K in a bilateral framework. That position of addressing
all issues with Pakistan including the Kashmir issue in a bilateral
framework has not changed
13 جولائی کی پریس بر یفنگ میں پوچھے گئے کشمیر میں چینی مداخلت کا سوال،
Reportedly, a Chinese think tank has said that at the request of
Pakistani Government, China can send its military in Indian occupied
Kashmir as India did in the case of Sikkim sector on behalf of Bhutan.
Is there any contact between China and Pakistan in this context? Your
comments please! (Syed Mohsin Raza - Asas Group of Publications)
کے جواب میں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ '' We do not comment on media
reports.''
دفتر خارجہ کی طرف سے یہ کہا جا سکتا تھا کہ یہ ذمہ داری اقوام متحدہ کے
رکن ممالک بشمول چین اور پاکستان پر ہے۔ اس کے علاو ہ پاکستان اکتوبر
1947میں بھارتی افواج کے کشمیر میں داخلے کو نا جائز ر فوج کشی قرار دیکر
ہر کاروائی کا حق محفوظ قرار دیکر، چینی فوجی مداخلت اور اقوا متحدہ کی
فوجی مداخلت کو ممکنات میں قرار دے سکتا تھا۔'' ہم میڈیا رپورٹس پر تبصرہ
نہیں کرتے'' ِکا جواب بانجھ اور بے جان ہے۔ دفتر خارجہ کا چینی تھنک ٹینک
کا حوالہ دیکر یہ کہہ دینا ایک فائیدہ مند بحث کی شروعات کی بنیاد بنتا کہ
ہم ان اطلاعات کی تحقیق اور جائیزہ لے رہے ہیں۔یہاں تو پاکستان کے دفتر
خارجہ کے ہاتھ کشمیر کیس کے حق میں جواب دینے کا ایک سنہری موقع آیا تھا۔
درج بالا تحریر میںگیلانی صاحب نے بنیادی نوعیت کے اہم معاملے کی طرف توجہ
مبذول کرائی ہے اور اچھے انداز میں پاکستان کے ہندوستان کے ساتھ ان اتفاق
کردہ امور کا ترتیب سے تذکرہ کیا ہے جس سے، پہلے ہندوستانی قید میں
موجودتقریبا93ہزار پاکستانی فوجیوں کی رہائی اور جنگ میں مغربی پاکستان کے
کئی علاقوں کو ہندوستانی فوج سے چھڑانے کے لئے ،کشمیر کے عالمی مسئلے کو
پاکستان اور ہندوستان کا باہمی معاملہ قرار دینے سے اتفاق کیا گیا۔ اس بات
کی بھی درست نشاندہی کی گئی ہے کہ '' جون 1997 کے 19 تا 23جون کے پاک بھارت
مزاکرات کے بعد کے مشترکہ اعلامیے میں کشمیرکی Core حیثیت ختم کر دی اور 8
حل طلب issues میں کشمیرکو بھی ایک issue قرار دیا۔ ''اب ہم دیکھ لیں کہ
پاکستان کے ارباب اختیار کس طرح'' لحظہ لحظہ لہجہ ''بدلتے ہوئے مسئلہ کشمیر
کے حوالے سے قدم پیچھے کرتے چلے آ رہے ہیں۔پاکستان اور ہندوستان کے کشمیر
کے حوالے سے کئی عارضی اتفاق ہوئے جو مسلسل پاسداری کی وجہ سے مستقل نوعیت
کے نظر آتے ہیں۔
اس بات سے بھی اتفاق ہے کہ ترجمان وزارت خارجہ نے چین کی طرف سے کشمیر میں
فوج داخل کرنے سے متعلق سوال کا مناسب جواب نہیں دیا۔چین کی ویسٹ نارمل
یونیورسٹی میں انڈین سٹیڈیز شعبے کے ڈائریکٹر لونگ زنگچن نے' گلوبل ٹائمز'
میں شائع ایک مضمون میں کہا ہے کہ جس طرح ہندوستانی فوج بھوٹان میں داخل
ہوئی ہے اسی طرح ایک تیسرے ملک(چین ) کی فوج پاکستان کی درخواست پر متنازعہ
ریاست کشمیر میں داخل ہو سکتی ہے۔واضح رہے کہ ' گلوبل ٹائمز' چین کا سرکاری
اخبار ہے۔ہمارے ترجمان وزارت خارجہ نے چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کا یہ
بیان بھی نظر انداز کر دیا کہ
چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان گنگ شوانگ نے بیجنگ میں ایک نیوز کانفرنس میں
انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے سوال پر بڑھتی ہوئی کشیدگی پر تشویش
ظاہر کی اور کہا کہ کنٹرول لائن پر دونوں ملکوں کے درمیان جس طرح کا ٹکرا
ہو رہا ہے اس نے صرف دونوں ملکوں کا امن و استحکام خطرے میں پڑے گا، بلکہ
یہ کشیدگی پورے خطے پر اثر انداز ہوگی۔چین نے کہا کہ بھارت اور پاکستان
جنوبی ایشیا کے اہم ممالک ہیں لیکن کشمیر کے کشیدہ حالات کے سبب اب اس
تنازع کی طرف سبھی کی توجہ مبذول ہورہی ہے۔
ہمارے ترجمان وزارت خارجہ کی توجہ میں یہ بات نہیں آ سکی کہ ویٹو کی حامل
دنیا کی پانچ ایٹمی طاقتوں میں شامل،دنیا میں تیزی سے پھیلتی ہوئے اقتصادی
اور فوجی طاقت چین کی وزارت خارجہ کا کشمیر کے حوالے سے درج بالا بیان کتنا
اہم معاملہ ہے؟ پاکستان کو تو چین کے اس بیان کی خوب تشہیر اور اس کے لئے
کام کرنا چاہئے۔یوں مسئلہ کشمیر عالمی مسئلہ تھا ،جسے شملہ سمجھوتے میں
باہمی مسئلہ اور پھر مربوط مزاکرات کے عمل میں آٹھ امور میں شامل ایک مسئلہ
قرار دیا گیا۔مشرف دور میں ہندوستان کو جنگ بندی لائین پر خار دار تاروں کی
باڑ لگانے کی اجازت سمیت آزاد کشمیر کے خطے کو تحریک آزادی کشمیر کی
کاروائیوں سے لاتعلق کر دیا گیا۔پاکستان کو کشمیر کاز کے حوالے سے محدو د
سے محدود تر اور لاتعلق کرنے کی سازشیں جاری ہیں۔اب پاکستان کو ہندوستان کی
شرائط کے مطابق مزاکرات شروع کرنے کے حوالے سے دبائو میں لانے کے''تانے
بانے'' بنے جا رہے ہیں۔پاکستانی عوام ارباب اختیار سے یہ پوچھنے میں حق
بجانب ہیں کہ مسئلہ کشمیر پر کی جانے والی یہ پسپائی کب تک اور کہاں تک؟''
ہر کشمیری کو مہجور کا یہ شعر زبانی تو یاد ہے کہ ''کری کس بلبلا آزاد
پنجرس منز نالاں چھک'' ، لیکن ہر کشمیری اس شعر کی حقیقت کو تسلیم کرنے کے
باوجود اس پر عمل پیرا نہیں ہوا، پہلے نہ ہونے کی مضبوط وجوہات ہو سکتی ہیں
لیکن سوشل میڈیا اور دیگر کئی وسائل کی وجہ سے اب کشمیر کے اہل علم و دانش
و اہل وسائل کو مہجور کے شعر کے دوسرے مصرے کے لئے کام نہ کرنے کو قابل
معافی قرار نہیں دیا جا سکے گا۔ |