پاکستان، روس اور چین کے د رمیان طاقتور اتحادی بننے
کاسفر تیزی سے جاری ہے اور تینوں ممالک کے ہرسطح پررابطے مستحکم ہو رہے
ہیں۔پاکستان اور روس کے درمیان سردجنگ کا طویل اور تلخ دورانیہ سالوں پر
محیط ہے لیکن اب جہاں چین کے ساتھ مل کرطاقتور اتحادی مثلث بننے جارہے ہیں
وہاں خوشگوار باہمی تعلقات کے ذریعے خطے میں امن وامان لانے کیلئے سر
جوڑکربیٹھے ہیں۔ بہرحال اب یہ طے ہوگیاہے کہ ماسکو اوراسلام آبادکے تعلقات
اب مخالف سمت میں سفر نہیں کرسکتے اوریہ بھی واضح ہوگیاہے کہ امریکاکواب
افغانستان یااس خطے میں امن سے کوئی دلچسپی نہیں ہے،اس لئے خطے میں امن
وامان اورافغانستان کے مسائل کے حل کیلئے چین،روس اورپاکستان کااتحادبہت
ضروری ہے۔
افغان جنگ اوراس کی وجہ سے سرحدوں پرفروغ پانے والی دہشتگردی اورانتہا
پسندی سے نمٹنے کیلئے ان ممالک کے درمیان دوفریقی اورسہ فریقی مذاکرات
ہوچکے ہیں۔پاکستان کوپچھلے کئی برسوں سے دہشتگردی کے حملوں کاسامنارہا ہے
جبکہ ماسکوبھی بم حملوں کی زدمیں رہاہے۔پاکستان اورماسکومیں دہشتگردی کی
حالیہ لہراس بات کااشارہ کررہی ہے کہ دہشتگردی ایک بارپھران دونوں ممالک کی
سرحدوں پردستک دے رہی ہے۔ چین اپنے صوبے سنکیانگ میں ایک عرصے سے دہشت گردی
کاسامناکررہاہے لیکن اب سی پیک منصوبے کی کامیابی کیلئے پاکستان اور چین مل
کرامن وامان کویقینی بنانے کیلئے انتھک محنت کررہے ہیں تاکہ گوادرسے
سنکیانگ تک سی پیک پرکام جاری رہ سکے۔
امریکااپنے مفادات کیلئے افغان جنگ کوخطہ میں پھیلاناچاہتاہے خصوصاًاسلام
آباد،ماسکواوربیجنگ کے درمیان بڑھتے ہوئے رابطے امریکاکے مفادمیں نہیں ہیں۔
سیاسی ماہرین کایہ خیال ہے کہ افغانستان میں شام جیسی صورتحال پیدا کرنے کی
کوشش ہورہی ہے لیکن یہ تین ملکی اتحادایشیا کی صورتحال بھی تبدیل کردے
گا۔موجودہ حالات میں امریکااورپاکستان کے تعلقات اب پہلے جیسے نہیں رہے اسی
لیے ایک طرف روس اورپاکستان اورروس کے تعلقات مضبوط ہوتے جارہے ہیں تودوسری
طرف امریکانے بھارت کوگودمیں لے لیاہے۔ چین،روس اور پاکستان کے تعلقات نہ
صرف پوری دنیاکیلئے حیران کن ہیں بلکہ کئی ممالک اس طاقتوراتحادی مثلث
کاحصہ بنناچاہتے ہیں تاکہ مستقبل میں ملکوں کے درمیان معاشی،تجارتی اورفوجی
تعلقات بہترہوسکیں۔
کچھ عرصہ پہلے ایران نے افغان جنگ کے سیاسی حل کیلئے روس،چین اور پاکستان
کے اتحادی دائرے میں شامل ہونے کی خواہش کااظہارکیاتھا۔ یورپی یونین میں
ترکی کی شمولیت کی امیدیں دم توڑچکی ہیں اورترکی اب اس اتحادی دائرہ میں
شمولیت کاخواہاں ہے۔افغانستان میں امن اورخطہ میں استحکام کیلئے
روس،پاکستان اورچین نے اپنی کوششوں کوتیزکردیاہے۔ پاک فوج کے ذرائع نے ٹرمپ
انتظامیہ کوخبردارکیاہے اگرافغان مسئلے کاپائیدارحل نہیں نکالاگیاتویہ کام
اب روس کرے گا۔مودی کوخوش کرنے کیلئے ٹرمپ کے بیانات پربھی جان مکین کی
قیادت میں آنے والے اعلیٰ سطحی امریکی وفدکواپنے شدیدخدشات سے آگاہ
کردیاہے۔حقانی نیٹ ورک کے بارے میں تمام الزامات کومستردکرتے ہوئے ایک
مرتبہ پھرسارے وفدکووزیرستان کے ان علاقوں کو دورۂ بھی کروایاگیاجس کو
دہشتگردوں نے اپنے آقاؤں کی مددسے ناقابل تسخیربنارکھاتھااوران کے مستقبل
کے ناپاک ارادوں مکمل طورپرخاک میں ملادیا گیاہے۔ ادھرپاکستان نے نصر
میزائل کے کامیاب تجربے کے بعدبھارتی ''کولڈسٹارٹ'' کو مکمل طورپرٹھنڈاکر
دیاہے اور خطے میں ہونے والی سازشوں کے جواب میں مزیدمیزائل تجربوں کے
تسلسل کا بھی امکان ہے۔
روس، چین اورپاکستان کاتین ملکی بین الاقوامی اتحاد خطہ میں امن واستحکام
کیلئے کوشاں ہے اورحالیہ دنوں میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق
ماسکو،اسلام آباد اور بیجنگ کے دفتر خارجہ اور فوج کے حکام نے افغان جنگ
کاسیاسی حل تلاش کرنے کیلئےبات چیت کی ہے۔ تین ملکی اتحادی مسلسل اس بات کا
خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ واشنگٹن اب افغان جنگ کوختم کرنے میں دلچسپی نہیں
رکھتا، پاکستانی حکام کاکہناہے کے وہ اسلام آباد پریہ دباؤڈال رہے ہیں کہ
خطہ کے اہم ملکوں کومذاکرات میں شامل کرکے جلدازجلد افغان جنگ کے مسئلے
کاسیاسی حل نکالاجائے۔افغان جنگ کے مسئلے پرروس، چین اور پاکستان کے درمیان
کئی بار مذاکرات ہوچکے ہیں اوران میں سے اکثر میں امریکااوربھارت کوشریک
نہیں کیاگیاہے،رواں مہینے کے آخرمیں روس ایک بار پھرافغان مسئلے پر مذاکرات
کرناچاہ رہاہے اوراس میں امریکااوربھارت کے علاوہ دوسرے ممالک کی شرکت بھی
متوقع ہے،ان مذاکرات کامقصدافغان حکومت اورطالبان کے درمیان
سمجھوتاکرواناہے تاکہ افغانستان کی طویل جنگ کا خاتمہ ہو سکے۔پاکستان،روس
اورچین خطہ میں پائیدار امن کا قیام چاہتے ہیں یہ تینوں ممالک صرف
معاشی،سفارتی اوردفاعی تعلقات ہی بہتر بنانا نہیں چاہتے بلکہ یہ اپنی اور
سرزمین اوراپنی سرحدوں سے انتہاپسندی دہشتگردی کامکمل خاتمہ چاہتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق داعش کے سینکڑوں جنگجوافغانستان میں داخل ہوچکے ہیں اور
امریکی معاونت سے تورا بورا کے اہم علاقوں پرداعش کے قبضے کے بعدآئندہ کے
امریکی لائحہ عمل کے خطرناک ارادوں کابھی پتہ چل گیاہے کہ اب اپنے مقاصد کے
حصول کیلئے داعش کے ذریعے ان تینوں ممالک کیلئے بڑے مسائل پیداکرکے اپنی
موجودگی کا جواز اور سی پیک کوناکام بنانے کی پوری کوشش کی جائے گی یہی وجہ
ہے کہ یہ تینوں اتحادی ممالک امن کا قیام یقینی بنانا چاہتے ہیں تاکہ سی
پیک بھی محفوظ رہے اوراس کے ساتھ ساتھ ایشیا میں اقتصادی اورکاروباری مواقع
بھی پیداہوں۔روس کے پاکستان اورچین سے بہترین تعلقات کے بعد اب یہ تینوں
ممالک علاقائی منصوبوں پرمل کر بہتراندازمیں کام کرسکیں گے۔
روس اورپاکستان کے درمیان مفاہمت ٢٠١١ء میں اس وقت شروع ہوئی، جب امریکا نے
پاکستان پراسامہ بن لادن کوپناہ دینے کاالزام لگایااورایک خفیہ آپریشن میں
اسے ہلاک کردیااس کے ساتھ ساتھ نیٹوافواج نے ہوائی حملہ کرکے۲۴ پاکستانی
فوجی جوانوں کو شہید کردیا، یہی دونوں واقعات پاک امریکا تعلقات میں بگاڑ
کا سبب بنے ہیں۔آنے والے سالوں میں پاکستان کی پرخلوص کوششوں کے باوجودکچھ
ممالک سے تعلقات بگڑرہے ہیں اوررابطے ختم ہورہے ہیں،ایسے میں پاکستان نے
اپنی خارجہ پالیسی کوتبدیل کیااوراسے وسیع بنیادوں پراستوار کرتے ہوئے
ماسکوسے اپنے تعلقات کوبہتربنانے کافیصلہ کیا۔۲۰۱۴ءمیں روس نے پاکستان پرسے
اقتصادی پابندی اٹھالیں،روس کے اس مثبت اقدام نے دونوں ممالک کے درمیان
دفاعی اورسیکورٹی شراکت داری کے دروازے کھول دیے ہیں اور ستمبر میں پہلی
باران دوریاستوں کے مابین مشترکہ فوجی مشقوں کاآغازہواہے۔
امریکاکے طالبان سے بات چیت نہ کرنے کے واضح مؤقف کے باوجودپاکستان، روس
اورچین نے حالیہ ملاقاتوں میں افغان جنگ کے اختتام اورافغانستان میں امن
واستحکام کیلئے کابل اورطالبان کے درمیان پرامن مذاکرات پر اتفاق کیا
ہے۔افغان جنگ کو ختم کرنے کیلئے چاہے شام جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے
روس، پاکستان اور چین مل کر اس کا پرامن حل نکالیں گے، اگر تین ملکی اتحاد
افغان جنگ کوپرامن طریقے سے ختم کرنے میں کامیاب ہوگیا تویہ اتحادی مثلث
طاقتورترین اتحادمیں شمارکیاجائے گااوریہ تینوں ممالک آئندہ دنیاکے امن کے
نقیب کے طورپرپہچانے جائیں گے۔
|