۱۴ جولائی کو ٹویٹر پر کچھ دیر کے لیے اس کالم کا عنوان
ٹاپ ٹرینڈ رہا ۔ ٹرینڈ بنانے والے نے کمال مہارت کے ساتھ ساتھ اپنی ذہنی
صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے الفاظ کا وہ چناؤ کیا کہ ٹویٹر استعمال کرنے
والوں نے اس ٹرینڈ پڑھ کر میری طرح لازمی ٹٹولا ہوگا ۔ اسی لیے یہ ٹرینڈ
پاناما اور جے آئی ٹی رپورٹس کے آفٹر شاکس کی موجودگی میں کچھ دیر ہی سہی
مگر ٹاپ پر آگیا ۔جس پر جماعت اسلامی کی سوشل میڈیا ٹیم دادِتحسین کی مستحق
ہے ۔
اٹک کی عوام،بیشترتجزیہ نگاروں اور خاص کر اٹک کی سیاسی جماعتوں کو جماعت
اسلامی کے اتنے بڑے جلسہ کی امید نہیں تھی مگر ۱۴جولائی کو اٹک کے مشہور
اور تاریخی لالہ زار ہاکی سٹیڈیم میں ہونے والے جماعت اسلامی کے کامیاب
جلسہ نے جماعت اسلامی ضلع اٹک کے کارکنان کی انتھک محنت کو چار چاند لگا
دیے اورساتھ ساتھ مخالف سیاسی پارٹیوں کو عوامی پاور شو سے حیران کر دیا ۔میری
یاداشت میں جماعت اسلامی کا یہ پہلا اکیلا جلسہ تھا جس میں عوام کاٹھاٹھیں
مارتا سمندردیدنی تھا ۔ شدید گرمی اور حبس نے عوام کے قدموں کو لالہ زار
ہاکی سٹیڈیم میں جمائے رکھا جو کامیاب جلسہ کی ایک وجہ ہے۔
جلسہ میں عوام کی تعداد کتنی تھی؟جواب کے حصول کے لیے جماعت اسلامی اٹک کے
سرگرم رکن اور پی پی ۱۵ اٹک کے سابق امیدوار اقبال ملک سے رابطہ کیا مگر
تاحال ان کی طرف سے جواب موصول نہ ہوا ۔ہوسکتا ہے ملک صاحب کامیاب جلسہ کے
انعقاد کے بعد آرام کر رہے ہوں یا مصروفیات زندگی میں مصروف ہوں۔ خیر تین
دن جواب موصول نہ ہونے کے بعد میڈیا سیل جماعت اسلامی اٹک کے انچارج حبیب
افضل اعوان کی وساطت سے قائم مقام امیر جماعت اسلامی اٹک اقبال خان نے جلسہ
میں عوام کی تعداد دس سے بارہ ہزار بتائی، مخالف سیاسی جماعتوں نے یہ تعداد
پانچ سے چھے ہزار بتائی جب کہ غیر جانبدار ذرائع کے مطابق یہ تعداد نو سے
دس ہزار تھی ۔خیر یہ سبھی جانتے ہیں کہ پاکستان میں بڑے جلسے الیکشن میں
کامیابی کی ضمانت نہیں ہیں مگر یہ ہے کہ بڑے جلسہ سے مخالفین پر دھاک بیٹھ
جاتی ہے ۔
۲۰۱۳ء کے الیکشن سے پہلے مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی نے بھی اسی تاریخی لالہ
زار ہاکی سٹیڈیم میں جلسہ کیا تھا ، دونوں جلسوں میں یہ ہاکی سٹیڈیم عوام
سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ۔ جماعت اسلامی کے حالیہ جلسہ کے بعد سوشل میڈیا
پر ان تین جلسوں کی بحث گرما گرمی سے چل رہی تھی اور تینوں پارٹیوں کے
کارکن اپنی پارٹی کے بڑے جلسہ کو ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور اخلاق
کے اندر اور باہر رہتے ہوئے لگا رہے تھے۔ان تینوں جلسوں میں ، مَیں شامل تو
ہوا مگر سوشل میڈیا پر ہونے والی بحث سے میں نے کنارہ کشی ہی کی اور اسی
میں عافیت بھی جانی ۔ مگر ان تینوں جلسوں میں ایک چیز جو جماعت اسلامی کے
جلسہ میں تھی وہ عوام کا سٹیڈیم میں جمے رہنا تھا ، اس جلسہ میں عوام دوسرے
دو جلسوں کی نسبت آخر تک جمے رہے نواز شریف اور عمران خان کے جلسہ گاہ میں
دیر سے آنے کے بعد بیشتر لوگ جلسہ گاہ سے چلے گے تھے مگر جماعت اسلامی کی
اس جلسہ میں ایسا نہیں تھا حالاں کہ سراج الحق بھی اعلان کردہ وقت کے ڈیڑھ
گھنٹا بعد جلسہ گاہ آئے تھے۔یہ ایک واضح فرق تھا جو اس چیز کا عندیہ دیتا
ہے کہ جماعت اسلامی اٹک سے منسلک لوگ مستقل مزاج ہیں اب یہ جماعت اسلامی
اٹک کے عہدیداران پر ہے کہ وہ اس جلسہ کے بعد کیا لائحہ عمل اختیار کرتے
ہیں کہ لوگ اسی طرح اگلے سال ہونے والے الیکشن تک جماعت اسلامی کے معاملہ
میں مستقل مزاج رہیں ۔
۱۴ جولائی کو ہونے والے جماعت اسلامی کے جلسہ کے بعد میرا یہ تجزیہ ہے کہ
جماعت اسلامی ۲۰۱۳ ء کی نسبت اٹک میں کافی منظم اور ایکٹیو ہوگئی ہے جس پر
یقینا جماعت اسلامی ضلع اٹک کے کارکنان مبارک باد کے مستحق ہیں مگر اس کے
ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کو کسی خوش فہمی میں بھی مبتلا نہیں ہونا چاہیے اور
اپنی محنت اور کوشش کو جاری رکھے رہنا چاہیے کیوں کہ کامیابی کے بعد محنت و
کوشش کو چھوڑنا او رخوش فہمی میں مبتلا ہونا ناکامی کا پیش خیمہ ہے اس کے
علاوہ جماعت اسلامی اٹک کو ملک امین اسلم جیسے شریف اور پڑھے لکھے ، میجر
طاہر صادق جیسے معمار اٹک اور شیخ آفتاب احمد جیسے نواز شریف کے وفادار کا
سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کے غلامانہ ذہن سے بھی مقابلہ کرنا ہے ۔
|