دنیا ایسی ایسی الجھنوں میں الجھتی جا رہی ہے کہ جتنی بھی
عقل اور سمجھ لگا لی جائے وہ کم ہی پڑ جاتی ہے۔ آج ہم جس دور سے گزر رہے
ہیں اس میں صحیح اور غلط کا پتہ چلانا وسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی
مشکل کام نہیں ہے مگر جھوٹ نے اس آسان کام کو بہت مشکل بنا دیا ہے کیونکہ
جھوٹ پکڑنے کا کوئی آلہ ابھی تک ایجاد نہیں ہوا ہے اور اپنے اپنے مفادات کے
حصول کیلئے بے دریغ جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ اگر ہم یہ سمجھ لیں کے میاں نواز
شریف کو اقتدار سے ہٹانے کیلئے عمران خان نے میاں صاحب کے اقتدار کے پہلے
دن سے ہی تہیہ کر لیا تھا کہ انہیں کسی بھی طرح اقتدار سے اتارنا ہے۔ یہی
سنتے آئے ہیں کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے تو یہ جنگ تھی اور اس میں سب
جائز قرار پایا۔ آخرکار میاں صاحب تاحیات سیاست کیلئے نااہل قرار پاچکے
ہیں۔
ملک کی سلامتی اور تحفظ پر آنچ نا آنے کی باتیں کرنے والے جب خود ہی ان
چیزوں کیلئے اور ملک کیلئے خطرہ بن جائیں تو کون کیا کرے گا۔ کیا ہم تنقید
اور اختلاف میں اتنی شدت سے مگن ہوجاتے ہیں کہ ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ
ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باشندے ہیں ۔ ہمار ے طرز عمل سے یہ واضح ہوتا
جا رہا ہے کہ ہم نے اپنے پیارے وطن کے بہت ہی پیارے اور دنیا کو پیغام دینے
والے نام سے اسلامی اور پاکستان نکال دیا ہے، صرف اور صرف جمہوریت پر اپنا
دھیان مرکوز کیا ہوا ہے۔ ہر سیاسی جماعت کے سربراہ سے لے کر ایک کا رکن تک
یہی کہتا سنائی دیتا ہے کہ ہمیں جمہوریت کو بچانا ہے، ان بیانات کے بعد
دوباتوں کی وضاحت بھی بنتی ہے اور وہ یہ کہ اسلام اور پاکستان کو کون بچائے
گا۔ سارے کے سارے جمہوریت کا راگ آلاپ رہے ہیں نا تو اسلام کی فکر ہے اور
نا ہی پاکستان کی۔ جیسا کہ موجودہ حالات سے بہت واضح ہوتا جا رہا ہے کہ
حالات بے قابو ہوئے جا رہے ہیں ۔ لفظوں کی جنگ چھڑ چکی ہے اور لفظوں کی جنگ
میں جانیں تو نہیں جاتیں مگر عزتیں محفوظ رہنا مشکل ہوجاتاہے اور ایسا ہوتا
ہمارے ساتھ ساری دنیابھی دیکھ رہی ہے۔
ایک طرف ہمارے سیاست دانوں نے اپنے مفادات کیلئے اپنی مرضی کی سچ اور جھوٹ
کی جنگ عوام پر مسلط کر رکھی ہے تو دوسری جانب پاکستان کے غیر سیاسی ماحول
میں پرورش پانے والی خواتین اپنی سیاست اس ملک کے نام نہاد منجھے ہوئے
سیاست دانوں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتی دیکھائی دے رہی ہیں۔ ان خواتین کی
سیاسی بصیرت پر بات کرنا قبل ازوقت ہے ، خواتین کی ایسی بے باکی کو ہمارا
معاشرہ پشت پناہی نہیں کرے گا اور نا ہی ساتھ دینے کیلئے کھڑا ہوگا کیونکہ
سیاست کا جذبات سے صرف اتنا ہی تعلق ہے کہ دوران تقریر مقرر اپنے سامنے
بیٹھی عوام کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کر سکے۔ ان خواتین کی پشت
پناہی سماجی میڈیا پر تو ہر کوئی کرتا دیکھائی دیگا مگر خدانخوانستہ برے
وقت میں کوئی شائد کوئی نظر بھی نا آئے۔ یہاں تو ملک کی اعلی ترین عدلیہ کے
فیصلوں کو شکوک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے تو کسی عام آدمی کو اپنی سچ بات
منوانے کیلئے بھی بہت محنت اور مشقت کرنا پڑے گی۔
میڈیا اپنا کردار اتنا احسن طریقے سے ادا نہیں کر پا رہا جیسا کہ ریاست کو
مستحکم رکھنے کیلئے درکار ہے۔ کہیں تو اسی میڈیا پر حکومت کی مظلومیت
دیکھائی دیتی ہے اور کہیں مخالفیں حق بجانب دیکھائی دیتے ہیں ۔ عوام جو کہ
حقائق تک رسائی نہیں رکھتے میڈیا پر چلنے والی خبروں کے طوفان میں ہچکولے
کھاتے رہتے ہیں کسی خاص نقطے پر پہنچے سے قاصر ہی رہتے ہیں۔ میڈیا خبر کو
پہلے پہنچانے اور سنسنی پہلانے میں اول نمبر پر آنے کی دوڑ میں کچھ بھی نشر
کرنے سے گریز نہیں کرتے ۔ یہاں معاشرتی اقدار کا تو جنازہ نکل ہی چکا ہے اب
ملک کی سالمیت کی باری آئی ہوئی ہے۔
قومی نافرمانیوں کی ایک طویل فہرست مرتب ہونے جا رہی ہے جس میں ہمارے بچوں
کی نافرمانیاں نہیں بلکہ ہمارے سیاسی نمائندوں کی نافرمانیاں تحریر کر
جائینگی ۔پاکستان کی ۷۰ ویں سالگرہ پر تمام سیاسی رہنماؤں کو یہ فہرستیں
تحفے میں دینی چاہئیں تاکہ انہیں علم ہوسکے کہ ہم نے اپنی عوام کے ساتھ
اپنے ملک کے ساتھ زیادتیوں کی حد کر رکھی ہے ۔ سارے کے سارے سیاستدان کراچی
سے لے کر خیبر تک ذاتی سطح کی سیاست کرتے دیکھائی دیتے ہیں ۔ ہمارے یہاں
سیاسی جماعتیں کم گھریلو جماعتیں زیادہ ہیں اور یہ جماعتیں سیاست کو بھی
گھریلو طرز پر کرتی محسوس ہورہی ہیں۔ جیسا کہ پاکستان کی سیاست نے خواتین
کی چھیڑ چھاڑ(معذرت کیساتھ)ایک نیا باب کھولا ہے اور اب سیاست دان ایک
دوسرے پر غیر اخلاقی الزامات کی بوچھاڑ کرینگے۔ پہلے میڈیا میں کم غیر
اخلاقی مواد دیکھایا اور سنایا جاتا ہے اب باقی کثر ہماری خبریں اور ٹاک
شوز پورا کرینگے۔ ہم جب تک جمہوریت کا جھنجھنا چھوڑ کر اسلام اور پاکستان
کی بقاء کیلئے سیاست نہیں کرینگے تب تک نا تو دہشت گردی ختم ہوگی اور نا ہی
کرپشن سے جان چھڑوائی جا سکتی ہے۔
پاکستان میں سیاست کو کبھی بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا اور نا ہی کسی
خاندان نے اپنی اولاد کو سیاست میں بخوشی جانے کی اجازت دی، موروثی سیاست
اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اب ہمارے سیاستدانوں کے مزاج اور عملی
کارناموں سے یہ بات ہمیں سمجھ لینی چاہئے کہ اب بس وہی فیصلے مانے جائینگے
جو حشر کے میدان میں ہونگے ہیں وہ بھی اسلئے کے وہاں اپیل کا کوئی حق نہیں
ہوگا اور نا ہی وہاں کسی جمہوری یا کسی اور نظام کی ضرورت ہوگی۔
|