پرویز مشرف نواز حکومت کو چلتا کر کے اقتدار میں آئے تو
سال چھ ماہ بعد جی او سی مری اشفاق کیانی مظفر آباد آئے ‘ اقوام متحدہ کے
مبصر دفتر کے ساتھ سات آٹھ اخبار نویسوں کا انتخاب کر کے بلایا گیا ‘ راقم
بھی شامل تھا ‘ سلام دُعا تعارف کے بعد آزادکشمیر کے نظام ‘ عوامی مسائل ‘
مشکلات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا ‘ بہتری ‘ اصلاح کیلئے رائے بھی طلب کی
گئی سب سے آخر میں راقم نے تجویز پیش کی کہ اگر عدلیہ کا نظام درست ہو جائے
تو سب کچھ بہتر ہو جائے گا ‘ اشفاق کیانی نے فرمایا ہم نے تو اپنے خیر
خواہوں کو بلایا تھا آپ یہ کیسی بات کر رہے ہیں ‘ عرض کیا انصاف ہو گا تو
سب کچھ بہتر ہو گا تاہم ان کا موقف تھا عدلیہ سے لڑائی نہیں کرتے ‘ راقم کی
مثال گدھے والی ہے جب تک اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لو بات سمجھ نہیں آتی ‘
لہٰذا کچھ بھی سمجھ نہیں آیا البتہ گیارہ سال بعد جب پرویز مشرف حکومت نے
عدلیہ سے لڑائی کی اور جسٹس افتخار نے اپنے ساتھ ججز کے ساتھ معرکہ آرائی
کی ٹھان لی تو پرویز مشرف کی رُخصتی پر عقل ٹھکانے آئی ‘ واقعی عدلیہ کے
متعلق اشفاق کیانی درست کہتے تھے اور اب پھر میاں محمد نواز شریف کی رخصتی
کی توثیق کر دی جو خود اور انکے حامی سارا ملبہ ایک قومی ادارے اس کے ذیلی
شعبہ پر ڈال رہے ہیں بلکہ فیصلے سے بہت پہلے ہی سلطان راہی کی طرح فلم
چلاتے رہے مگر جب فیصلہ آیا تو سارے سلطان راہی شریف بچوں کی طرح تحفظات ‘
خدشات کے موقف پر آ گئے ہیں ‘ مجھے یقین ہو گیا ہے ناصرف نواز شریف کی
نااہلی ان کی اور ان کی ٹیم کی وجہ سے ہوئی ہے ‘ بلکہ مکافات عمل کا نتیجہ
ہے ‘ نواز شریف ان کے حامی جن کی جانب اشارے ‘ غم و غصہ کا اظہار کرتے رہے
وہ سب عدلیہ کا دل جان سے احترام کرتے ہیں اور باقی سب کو بھی کرنا چاہیے
ورنہ ایسی بے شمار مثالیں ہیں انسان جس جرم کا شکار ہوتا ہے اس کی بھول
بھلیوں کا تصور بھی نہیں کر سکتا ‘ اور اپنے ماضی کے بھولے بڑے جرائم کی
سزا کاٹ رہا ہوتا ہے ‘ قدرت کے قانون کے تحت ایسے اسباب ہو جاتے ہیں جن کے
سبب ایسی پکڑ ہوتی ہے خود انسان کو سمجھ نہیں آتی وہ کس جرم میں پھنس گیا
ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے ہاتھوں وہ کام ہو جاتا ہے جو وہ کبھی کرنے
کا سوچ بھی نہیں سکتا جیسا کہ شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنا دیا گیا ہے
جو کبھی خود بھی اس کا سوچ نہیں سکتے تھے ان سے بھی بڑے قد کاٹھ والے تھے ‘
ناخداﺅں جیسا مزاج رکھتے ہوئے ناک پر مکھی بھی نہیں بیٹھنے دیتے ہیں سب
دیکھتے ہی رہ گئے اور شاہد خاقان عباسی وزیراعظم بن گئے ہیں جن کو شاید سب
سے سادہ سمجھ کر بنایا گیا ہے جو ان سے زیادہ ہوشیار مگر سادھے ہیں وہ
کابینہ میں شامل کر دیئے گئے ہیں اب میاں محمد نواز شریف وہ سب کچھ جو وہ
خود کرتے تھے ان کو شاہد خاقان عباسی کو کہنے پڑے گا خود کام کرنے اور
دوسرے کو کہہ کر کام کرانے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے اور خود سیاہ و
سفید کا مالک بن کر جو چاہے کر گزرنے کے مزاج والوں کو دوسروں کو کام کہنا
پڑ جائے اس سے بڑی اذیت ‘ سزا کوئی اور نہیں ہو سکتی ہے ورنہ بظاہر تو نواز
شریف اب بھی بادشاہ والے راحت و سکون میں ہیں ‘ مرکز سمیت دو صوبوں اور
گلگت بلتستان ‘ آزادکشمیر میں ان کی جماعت کی حکومتیں ہیں ‘ ان کے وسائل
اسباب سب کچھ حاضر ہے ‘ رہی پہلے والی شان آن رواں دواں ہے ان کی حفاظت سفر
سرگرمیوں کےلئے سرکار کے ہیلی کاپٹر سے لیکر مہنگی ترین بلٹ پروف گاڑیاں
ہزاروں کمانڈوز سمیت سب کچھ حاضر نظر آ رہا ہے ‘ آتا رہے گا پھر بھی کہتے
ہیں انصاف نہیں ہوا ہے ‘ یہ بات تو بھٹو سے لیکر بے نظیر تک کے ماننے والوں
کو کرنی چاہیے جن کے لیڈر کو پھانسی پر چڑھے ‘ جیلوں میں سڑے ‘ کوڑے کھائے
اور مارے گئے ‘ آپ کو تو چھاﺅں میں رکھا گیا ہے ہاں وہ پہلے والی شان بے
نیازی نہیں رہی ہے ‘ پھر بھی کہتے ہیں انصاف نہیں ہوا ہے ٹھیک کہتے ہیں
انصاف ہوتا تو آپ کے ارد گرد سب وعدہ معاف گواہ ہوتے ‘ اور آپ پتہ نہیں
کہاں ہوتے بہتر ہو گا کہ آپ سمیت سب سیاستدان خصوصا جماعتوں کے قائدین اپنے
مزاج اور جماعتوں میں بھی صحیح معنوں میں جمہوریت لائیں اور عوام جس طرح
جیتے ہیں اُن کی طرح زندگیاں بسر کرتے ہوئے عجزو انکساری لاتے ہوئے خدمت
خلق کا فریضہ بطریق احسن ادا کریں ۔تو پھر آپ کو یہ حق حاصل ہو گا کہ آپ جج‘
جنرل ‘ جرنلسٹ سمیت سب کے احتساب کی بات کریں ورنہ چوہدری نثار نے راز کی
بات بتا دی ہے کہ سب حکومتیں خوشامدیوں کی خوشامد کی وجہ سے برے حالات پر
پہنچیں۔اس سے توبہ کر لیں تو ملک و ملت اور سارا نظام ٹھیک ہو جائے گا جو
حضرت قائداعظم اور حضرت علامہ اقبال کا خواب تھا ۔ |