(۱) ……امام احمد بن حنبل کے دور میں معتزلہ نے غلو کیا
اور کہا کہ قرآن پاک حادث ہے تو امام احمد بن حنبل نے انکی پر زور تردید کی
اور یہ نعرہ عام کیا کہ القرآن کلام اﷲ غیر مخلو ق اس کی وجہ سے امام احمد
بن حنبل کو ابتلا ء پیش آیا حکومت وقت نے آپ کو بہت تکلیفیں دیں پھر وہ دور
تو گزر گیا پھر امام احمد بن حنبل کے شاگرد اور دوسرے بعض لوگوں نے یہاں تک
غلو کیا کہ رحل جس پر قرآن پاک رکھا جاتا اس کو بلکہ اوراق گتے اور سیاہی
تک کو بھی قدیم کہہ دیا تو امام بخاری نے اپنے زمانہ میں ان کی سخت تردید
کی چنانچہ ایک دفعہ نیشاپور تشریف لے گئے تو وہا ں آپ کے استاذ محمد بن یحیٰ
ذہلی رہتے تھے تو انہوں نے فرمایا کہ تمہارے پاس ایک صالح اور عالم یعنی
امام بخاری آرہا ہے اس کا استقبا ل کرو اور میں بھی کروں گا چنانچہ سب لو
گوں نے امام بخاری کا استقبال کیا اور بہت محبت کا اظہار کیا جو بعض حاسدین
کو ناگوار گزرا امام بخاری کے ہاں مستفیدین کا جمگھٹا لگ گیا یہاں تک کہ
دوسرے لو گوں کی مجلسیں پھیکی پڑ گئیں جب خلق کا ان کی طرف دبہت رجو ع ہو ا
تو بعض حاسدین کے سمجھا ئے ہوئے لوگوں نے پو چھا کہ الفاظ قرآن کے بارے میں
آپ کا کیا خیا ل ہے کہ مخلو ق یعنی حادث ہیں یا نہیں آپ نے التفات نہ
فرمایا انہوں نے تین دفعہ سوال کیا تیسری دفعہ آپ نے جواب دیا کہ القرآن
کلام اﷲ غیر مخلوق وافعال العباد مخلوقۃ تو لوگوں میں یہ شور مچ گیا کہ
امام بخاری نے یہ الفاظ کہے ہیں لفظی بالقرآن حادث وہ بدعتی ہے حالانکہ آپ
نے یہ الفاؒظ نہیں فرمائے تھے البتہ اس کا مفہوم اداکردیا تھا یعنی قرآن پا
ک تو قدیم ہے لیکن قرآن پاک کے جن الفاظ سے ہم اداکرتے ہیں وہ حادث ہیں جب
یہ بات مشہور ہوئی تو آپ کے استاذمحترم محمد بن یحی ذہلی نے کہا کہ جو شخص
یہ کہے کہ لفظی بالقرآن حادث وہ بدعتی ہے اس کے پاس بیٹھنا اور اس سے حدیث
سننا درست نہیں ہے تو اس کی وجہ سے بعض لوگ امام بخاری کو چھوڑ گئے مگر
امام مسلم اور امام احمد بن سلمہ دونوں امام بخاری کے ساتھ رہے بلکہ امام
مسلم نے امام ذہلی کی لکھی ہوئی حدیثیں انکو واپس کر دیں اور اپنی ساری
کتاب میں ذہلی کی کو ئی حدیث نہیں لائے جب امام بخاری نے دیکھا کہ حالات ان
کے موافق نہیں رہے تو نیشار پور چھوڑ کر بخارا تشریف لے گئے ۔
بخارا سے جلا وطنی :۔مگر وہاں کے مشائخ اور حکام کو بر انگیختہ کیا گیا پھر
بخارا سے بھی نکالے گئے اور اسکا ظاہری سبب یہ پیش آیا کہ بخار ا کا حاکم
خالد بن احمد اس نے امام بخاری سے کہا کہ میرے بیٹوں کو میرے گھر آکر جامع
اور تاریخ پڑھائیے تو آپ نے فرمایا کہ العلم یوتی ولایاتی پھر کہا کہ چلو
اپنے گھر پڑھائیے لیکن علیحدہ مجلس کا اہتمام کیجئے تو آپ نے اس سے بھی
انکا ر کردیا تو وہ آپ کا مخالف ہو گیا اور حریث بن ابی الورقاء نامی شخص
کی امداد سے امام بخاری کو تکلیف پہنچائی اور وہاں سے نکال دیئے گئے تو آپ
کے دل کو بڑا دکھ ہوااور مظلومانہ حالت میں اﷲ تعالیٰ سے فریا د کی ایک ماہ
نہیں گزراتھا کہ بددعا کا اثر ظاہر ہوگیا حاکم کو گدھے پر بٹھا کر شہر میں
پھرایا گیا اور جیل میں ڈال دیا گیا اور وہ وہیں مرا اور حریث پربھی بڑی
مصیبتیں آئیں ولنعم ماقال
بترس از آہ مظلوماں کہ ہنگا م دعا کردن اجابت از در حق بہرا استقبال می آید
پھر وہاں سے آپ سمر قند کے لوگوں کی درخواست پر سمر قند جانے کاارادہ
فرمایا اور جانے کیلئے تیا ر ہوئے سواری پر سوار ہوئے موزے پہنے اور عما مہ
باندھا پھر آپ نے کمزور ی محسو س کی اور وہیں ٹھہر گئے اس بستی میں آپ کے
عزیز واقارب رہتے تھے آپ نے رمضان بھی وہیں گزارا ۔
امام بخاری کی وفات :۔جب امام بخاری بخاراسے جلاوطن کئے گئے تو آپ نے اہل
سمر قند کی درخواست پر سمر قند جا نے کا ارادہ کیا اور سفرشروع فرمادیا سمر
قند سے جب دو فرسخ کا فا صلہ رہ گیا تو پتہ چلا کہ میرے وہاں جا نے کی وجہ
سے اختلا ف اور فتنہ ہو رہا ہے تو آپ اپنے اقارب کے ہاں ایک بستی خرتنگ میں
ٹھہر گئے پھر اہل سمر قند کا آدمی آپ کو لینے کیلئے آگیا آپ نے جانے کا
ارادہ فرمالیا اور موزے پہنے عمامہ باندھا چند قدم چلے ہی تھے کہ آپ کو ضعف
محسو س ہونے لگا ٹھہر گئے پھر وہیں دعائیں مانگیں اس کے بعد آپ کی وفات
ہوگئی۔
امام بخاری کا جنازہ :۔امام بخاری کے جنازہ میں خلقت کا بے حد ہجو م ہو ا
یہاں تک کہ جس بستی میں جنا زہ تھا وہاں کیلئے سواری کا ملنا مشکل ہو گیا
اور گدھوں کی سواری جو کم درجہ کی سواری ہے وہ بھی مہیا نہ ہوتی تھی اسی
وجہ سے اس بستی کا نا م خر تنگ رکھا یعنی جہاں گدھے کم ملتے ہیں ۔
امام بخاری کی کرامات :۔(۱)امام بخاری فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میر اخرچ
ختم ہوگیا اور کھا نے پینے کیلئے کوئی چیز نہ رہی مگرکسی سے سوال نہیں کیا
حتیٰ کہ گھا س کھا کر گزارہ کرتے رہے جب تین دن اسی حالت میں گزرگئے تب ایک
غیبی شخص نے آپ کو ایک تھیلی ہدیہ میں دی جس میں سونے کے دینا ر تھے ۔
(۲)جب سمر قند جارہے تھے تو راستہ میں خرتنگ بستی میں ٹھہر ے ایک رات تہجد
کی نماز کے بعد دعامانگی اللھم قد ضاقت علی الارض بمارحبت فاقبض الیک یعنی
اے اﷲ زمین باوجو د فر ا خ ہونے کے مجھ پر تنگ ہوگئی اب مجھے اپنے ہاں بلا
لیجئے دعا قبول ہوئی اور جلد ہی وفات ہوگئی یہ شبہ نہ کیا جائے کہ موت کی
تمنا کر نے سے حدیث میں منع کیا گیا پھر کیسے دعا کی کیونکہ منع اس وقت ہے
جب دنیوی ضرر کی بنا پر دعا مانگے اور اگر ضرردینی کا خطرہ ہو یا اﷲ تعالیٰ
کی ملا قات کا شوق ہو جیسا کہ امام بخاری کو تھا تو پھر کوئی حر ج نہیں ۔
(۳)وفات کے بعد بھی آپ کو پسینہ آتا رہا حالا نکہ وفات کے بعد پسینہ آنا
بہت بعید ہے علما ء نے اس کو حسن خاتمہ کی علا مت لکھا ہے ۔
(۴)جب آپ کو قبر میں دفن کیا گیا تو قبر سے خوشبو آئی اور مسلسل کئی دن تک
آتی رہی اور لوگ بطو ر تبر ک کے قبر سے مٹی اٹھا تے یہاں تک کہ قبر پر گڑھا
پڑ گیا بالآخر قبر مبارک پر خاص طریقہ سے لکڑ یا ں نصب کی گئیں تاکہ لوگ
مٹی نہ اٹھا سکیں مگر لو گ پھر بھی باز نہ آئے باہر سے اٹھا نے کی کو شش
کرتے رہے قبر سے خو شبو محسو س کر کے امام بخاری کے بہت سے مخالفین او ر
حاسدین نے توبہ کی اور ندامت کا اظہار کیا ۔
(۵)بخارا کے حاکم اور دوسرے جن لوگوں نے امام بخاری کی جلاوطنی میں حصہ لیا
تھا اور اذیتیں پہنچائی تھیں سب پر کئی قسم کے وبال آئے او رمصائب وآلا م
میں گر فتار ہوئے ۔
(۶)امام بخاری کی قبر مبارک قبولیت دعا کی جگہ ہے چنا نچہ شیخ ابو الفتح
سمر قندی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ سمر قند میں قحط ہو ا بارش بند ہو گئی لو
گوں نے بہت دعائیں کیں مگر بارش کا کہیں نام نشان ظاہر نہ ہو ا بالآخر ایک
خدا رسید ہ بزرگ سمر قند کے قاضی کے پاس آئے اور کہا کہ میں ایک مشور ہ
دیتا ہوں کہ آپ اور دوسرے لو گ امام بخاری کی قبر پر چلیں اور وہاں جا کر
بارش کی دعا کریں ان شاء اﷲ قبول ہوگی چنانچہ قاضی اور دوسرے لو گوں نے
مشورہ قبول کیا اور قبر پر جا کر دعا مانگی اور دعا قبول ہوئی اور سات دن
تک لوگ اس بستی سے بارش کی وجہ سے نکل نہ سکے |