برما کے مظلوم مسلمانوں کی حالت زار دیکھ کر ہرکوئی
دکھ اور کرب میں مبتلا ہے۔ پچاس سے زائد اسلامی ممالک خاموش تماشائی بنے
بیٹھے ہیں ماسوائے ترکی جس نے اس مسئلہ پر نہ صرف بھر پور آواز اٹھائی ہے
بلکہ عملی اقدامات بھی کیے ہیں۔ مالدیپ جیسے چھوٹے سے ملک نے برما کے ساتھ
تجارتی تعلقات منقطع کرکے اپنا کرادر ادا کیا لیکن دیگر اسلامی ممالک اس
ظلم اور قتل عام کو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ لوگ بار بار سوال پوچھتے
ہیں کہ باقی اسلامی ممالک کیوں خاموش ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہاں تک لکھا گیا
ہے34 ممالک کی اسلامی ممالک کی فوج کو برما کا راستہ دیکھایا جائے لیکن
ایسا لکھنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ریاست جموں کشمیر کے لوگ ستر
سالوں سے جدوجہد آزادی کے لئے جانوں کے نذرانے دے ہیں اور خواتین کی عزتیں
پامال ہورہی ہیں لیکن ان کی مدد کوامت مسلمہ سے نہ کوئی آیا اور ہی کوئی
آواز بلند ہوئی۔ دنیا میں اور بہت سے مقامات اور خطوں میں مسلمان ظلم اور
جبر کی چکی میں پس رہے ہیں جن میں فلسطین، فلپائن اور سنگکیانگ شامل ہیں۔
یمن، شام، عراق، لیبیا میں اپنے کی جلائی ہوئی آگ میں انسان لقمہ اجل بن
رہے ہیں اور امت مسلمہ کی قیادت یہ سب تماشا دیکھ رہی اور اپنی عیاشیوں میں
مبتلا ہے۔
ان گفتہ بہ حالات کے باوجود سویڈش روہنگا ایسوسی ایشن کے صدر ابوالکلام کو
توقع ہے کہ اگر حکومت پاکستان عملی اقدامات اٹھائے تو برما میں مسلمانوں کا
قتل عام اور ظلم رک سکتا ہے۔ انہیں یہ امید اس لئے ہے کہ پاکستان کے برما
درمیان طویل عرصہ سے دوستانہ تعلقات ہیں اور اگر پاکستان صرف دفاعی شعبہ
میں ہی تعاون ختم کرنے کی دھمکی دے تو یہ کارگر ہوگی ۔ انہوں نے بتایا کہ
روہنگا مسلمانوں پر طویل عرصہ سے مظالم ہورہے ہیں اور 1942 میں بھی ان کی
نسل کشی کی گئی ۔1971سے پہلے جب مشرقی پاکستان تھا ، اس وقت بھی برما میں
1952 اور 1962میں روہنگا مسلمانوں کے خلاف پرتشدد واقعات ہوتے تھے لیکن
پاکستان کی مداخلت اور دباؤ کی وجہ سے حالات بہتر ہوجاتے تھے لیکن اب
پاکستان کی خاموشی سے یہ سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ روہنگا رہنماء
کا یہ بھی کہناہے کہ پاکستان کے بہت سے صحافی، تجزیہ نگار اور کالم نویس
روہنگا مسلمانوں کی تاریخ اور حقائق سے بے خبر ہیں اور میڈیا میں بہت سی بے
بنیاد باتیں کررہے ہیں۔ ان کا مشورہ ہے کہ کہ پہلے درست معلومات حاصل کریں
پھر اس مسئلہ پر اظہار خیال کریں۔ ان کے مطابق چٹاگانگ میں مقیم مورخ
پروفیسر محب اﷲ، کینڈا کے ڈاکٹر عابد بہار اور امریکہ میں مقیم ڈاکٹر حبیب
صدیقی کی تحقیق کا مطالعہ کرنا چاہیے یا پھر کراچی میں مقیم روہنگا پس منظر
رکھنے والے کالم نگار سیف اﷲ خالد اور مولانا نورالبشر سے رابطہ کیا جاسکتا
ہے تاکہ درست حقائق سے آگاہی حاصل ہوسکے۔ابوالکلام نے عالم اسلامی کی بے
حسی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا اگر مسلمان ممالک برما پر سفارتی دباؤ
ہی ڈالیں تو کوئی وجہ نہیں یہ ظلم کا دور ختم نہ ہو۔ ان کا سوال تھا کہ
اسلامی ممالک کیوں اپنے محکوم اور مجبور مسلمان بھائیوں کی مدد نہیں کرتے۔
روہنگا رہنماء کا سوال اپنی جگہ پر لیکن تاریخ میں یہ کوئی پہلی بار نہیں
ہوا۔ مسلمانوں کی تاریخ شاہد ہے کہ محکوم اور مجبور مسلمان ظلم کا شکار رہے
لیکن ان کی کسی نے مدد نہ کی۔ صلاح الدین ایوبی اور یوسف بن تاشفین جیسے
ہیرو مسلم تاریخ میں خال خال ہی ملتے ہیں۔مسلمان حکمران یک دوسرے کے ساتھ
یوں بر سرپیکار رہے ہیں کہ جیسے جانی دشمن ہوں اور ان کے زوال کی بڑی وجہ
بھی یہی ہے۔ جب میں نے یہ پڑھا کہ محمد بن قاسم جو کہ ہمارا عظیم ہیرو ہے
اسے خلیفہ وقت کے حکم پر پھانسی چڑھایا گیا تو کئی دن سکون کی نیند نہ آئی۔
فاتح اسپین عظیم جرنیل موسیٰ بن نصیر کے ساتھ خلیفہ وقت کا انسانیت سوز
سلوک پڑھا تو دل خون کے آنسو رویا۔امویوں اور عباسیوں نے خلافت کے نام پر
جو انسانی خون نہایا اسے کون بھلاسکتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے سلطان بایزید
یلدرم جس نے ہنگری، فرانس، رومی اور دوسرے یورپی ممالک کی مشترکہ فوج کو
نکوپولس کے مقام پر زبردست شکست دے کر یورپ میں ان کی کمر توڑ دی ، اسی
یلدرم کی سلطنت پر امیر تیمور نے حملہ کرکے تاراج کیااور یلدرم کو قید
کردیا جہاں اسی حالت میں وہ انتقال کرگیا۔ یہی امیر تیمور جو کہ حافظ قرآن
بھی تھا ، نے اسلامی دنیا میں زبردست قتل و غارت کی اور شام، عراق، ایران
اور ثمر قند پر قبضہ کیا۔ امیر تیمور نے ہندوستان پر حملہ کرکے شاہ
نصیرالدین تغلق کو شکست دے کر دہلی پر بھی قبضہ کر لیا۔ امیر تیمور کا ظلم
اور سفاکی اپنے جد امجد چنگیز خان سے بھی بڑھ کر تھی۔ سپین میں جب اشبیلہ
ور قرطبہ میں مسلم حکومتیں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی تھیں تو اسلامی دنیا کے
حکمرانوں نے ان کی کوئی مدد نہ کی بلکہ انہوں نے مخالفین کی حمایت کی۔ جب ا
سپین میں آخری مسلم حکومت غرناطہ کئی ماہ محاصرے میں رہی تو سلطنت عثمانیہ
اور دیگرمسلم حکمرانوں میں سے کوئی ان کی مدد کو نہ آیا اورآخر کارسقوط
غرناطہ کی صورت میں آٹھ صدیوں سے جاری مسلم حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ ستم
بالائے ستم یہ ہے کہ وہ بھی مسلمان حکمران ہی تھے جنہوں نے غرناطہ کے محصور
مسلمانوں اور اسپین میں آخری مسلم ریاست کی مدد کرے کی بجائے فاتح عیسائی
بادشاہ فرنینڈس کو فتح پر مبارک باد دی۔ اسپین میں رہ جانے والے مسلمانوں
پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے گئے جس کے گواہ غیر جانبدار یورپی مورخین بھی ہیں
لیکن کیا کسی مسلمان حکومت نے ان کی داد رسی کی۔ کیا کسی نے ان کے لئے آواز
اٹھائی ۔اسپین کے مسلمان ظلم کی چکی میں پستے رہے اور مسلمان حکمران اسی
طرح بے حس رہے جیسے ہمارے دور کے حکمران کشمیر، برما، فلسطین اور دیگر
جگہوں میں ہونے والے ظلم پر خاموش ہیں۔ جو لوگ آج بھی مسلمان حکمرانوں
کومظلوموں کی مدد کے لئے پکار رہے ہیں وہ تاریخ سے نابلد ہیں۔
قطب الدین ایبک سے بہادر شاہ ظفر تک آپس میں لڑنے کی تلخ تاریخ ہمارے سامنے
ہے۔ نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں اور غارت گری نے مغلوں کی رہی
سہی ساکھ بھی ختم کردی اورنتیجہ پنجاب میں سکھوں اور ہندوستان میں انگریزوں
کا قبضہ ۔ جب ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ نے انگریزوں سے لڑتے ہوئے شہادت
پائی، اس وقت ہندوستان کے دیگر مسلمان حکمران یا تو انگریزوں کے حلیف تھے
یا غیر جانبدار۔ مسلمان کبھی بھی مذہب کے نام پر متحد ہوکر نہیں لڑے یہ
عیسائی ہی تھے جنہوں نے متحد ہو کر مسلمانوں کے خلاف چودہ صلیبی جنگیں
لڑیں۔ دل خراش واقعات کی فہرست طویل ہے اور کالم کا دامن تنگ، مسلم دنیا کے
حکمرانوں کو اپنے اقتدار سے غرض ہے انہیں محکوم اور مجبور مسلمانوں سے کوئی
غرض نہیں چاہے وہ روہنگا ہوں، کشمیری ہوں ، فلسطینی ہوں یا کوئی اور۔ مظلوم
روہنگا کسے پکار رہے ہیں، علامہ اقبال تو یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ
شور ہے، ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود |