جب سے ملک میں نا اہل اعظم نواز شریف صاحب اور اس کے
خاندان کے خلاف احتساب کا عمل شروع ہوا ہے انہوں نے ملک کی عدلیہ اور فوج
کے خلاف زبان درازی شروع کی ہوئی ہے۔ فوج کے ساتھ ان کے تین ادوارِ حکومت
میں بھی کشمش رہی ۔شایدوہ فوج کو پنجاب کی گلو بٹ پولیس جیسی پوزیشن میں
دیکھنے کے خواہش مند رہے ہیں مگر پاکستان کی فوج ایک پیشہ ور بہادر فوج ہے۔
نواز شریف کی ایسی ذاتی خواہشات کو پورا نہیں کر سکتی۔ عدلیہ کے خلاف اس کے
نا اہل کرنے کے فیصلے کے بعد کھل توہین عدالت کرنے کا مشن جاری کیا ہوا ہے۔
نواز شریف خود، ان کی بیٹی،بیٹے،سمدی،وزیر اورنواز لیگ کے کارکن یعنی ہر
کوئی ان ملک دشمن مہم میں شریک ہے۔ اس طرح یہ لوگ نادانستہ یا جان بوج کر
گریٹ گیم والوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔ اگر پاکستانی عوام کے سامنے اس
کی تشریع اور تجزیہ کیا جائے تو ہمارے سامنے تین کردار آتے ہیں جو اس مہم
کے خالق ہیں۔ ہم انہیں اپنے کالموں میں پاکستان کی خلاف جاری گریٹ گیم کے
ہر کارے لکھتے آئے ہیں۔
اوّل ۔پاکستان کا ازلی دشمن بھارت جس نے پاکستان کو کبھی بھی دل سے تسلیم
نہیں کیا۔جو کہتا ہے پاکستان کے بانی قائد اعظمؒ نے ان کی ماں دھرتی کے دو
ٹکڑے کر کے پاکستان بنایا ۔اس کو ہر حالت میں واپس آپس میں جوڑنا ہے جسے
عرف عام میں اکھنڈ بھارت کہتے ہیں۔ اسی ڈاکٹرئین پر عمل کرتے ہوئے بھارت نے
پاکستان کے ساتھ اس کے قیام کے وقت سے دشمنی کا رویہ رکھا ہوا ہے۔ تقسیم کے
وقت اثاثہ جات کی تقسیم میں پاکستان کے ساتھ زیادتی کی۔ سازش سے ریڈ کلف نے
گرداس پور مسلمانوں کی اکثریت والے علاقہ کو بھارت میں شامل کر کے کشمیر کا
مسئلہ کھڑا کیا۔ غدار وطن اگر تلہ سازش کے بانی شیخ مجیب کے ساتھ مل مکتی
باہنی اور اپنی کے فوج کے ساتھ پاکستان کے دو ٹکڑے کیے۔ بھارت اب بھی
پاکستان ،خصوصاً بلوچستان اور گلگت و بلتستان میں کھلی ہوئی دہشت گردی کر
رہا ہے۔ اس کے وزیر داخلہ کہتے ہیں پہلے پاکستان کے دو ٹکڑے کیے تھے اب اس
کے دس ٹکڑے کریں گے۔بی جے پی کی سرپرست دہشت گرد تنظیم راشٹریہ سوامی سیکوک
سنگھ(آر ایس ایس) جو ہندستان کو ایک متشدد ہندو قوم پرست اسٹیٹ بنانے کا
ایجنڈا رکھتی ہے اور اس پر عمل پیرا بھی ہے۔ جس پر اپنے دور حکومت میں
انگریزوں نے بھی پابندی لگائی تھی۔ اس دہشت گرد تنظیم کی بنیادی رکنیت
رکھنے والا دہشت گرد نریندر مودی نے پاکستان کو توڑنے کے کھلے ایجنڈے پر
کام کر رہا ہے۔کراچی میں غدار وطن الطاف حسین کو کھڑا کیا گیا۔ اس نے
پاکستان کو ستر فی صد ریوینیو دینے شہر کو تیس سال تک اپنی دہشت کا مرکز
بنائے رکھا ۔ہزاروں شہریوں کو قتل کیا۔ پاکستان کی بنیاد پر دہلی میں یہ
کہہ کر حملے کیے کہ پاکستان کا بننا ایک تاریخی غلطی تھی۔را سے کھلم کھلا
ٹریننگ مددفنڈنگ لی۔ آئی ایس آئی کو ختم کرنے کے لیے برطانیہ کے وزیر اعظم
کو خط تک لکھا۔
دوم ۔اسرائیل جس کو ہمارا قرآن اﷲ کی طرف سے دھتکاری ہوئی قوم کہتا ہے۔ سود
جس کو قرآن اﷲ اوررسولؐ کے خلاف اعلان جنگ کہتا ہے۔اُسی سودی نظام کے تحت
دنیا کی ساری دولت اور پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر قبضہ کیا ہوا ہے ۔وہ
دنیا میں کیسے اﷲ کے نام لا الہ الا اﷲ پر بنی ہوئی ایٹمی مملکت اسلامی
جمہوریہ پاکستان کو برداشت کر سکتا ہے جو دین کے بنیاد پر اس کی مخالف بھی
ہے۔وہ بھارت اور امریکا کی کھل کر مدد کرتا ہے۔
سوم۔ شیطان کبیر کی مسلم دشمن صلیبی حکومت جس کا دنیا میں ورلڈ آڈر چل رہا
ہے۔ اس نے مسلمانوں کی خلافت کو ختم کرتے وقت مسلمان کو درجنوں راجوڑوں میں
بانٹ کر اپنے پٹھو حکمران بیٹھا دیے تھے جو اب بھی اس کی پالیسیوں پر عمل
کرتے ہوئے مسلمان عوام کو دبا کر رکھتے ہیں۔ عوام کی آزاد رائے سے تبدیلی
کے خلاف کام کرتے ہیں۔ اسلامی دنیا کو راجوڑوں میں تقسیم کرتے وقت امریکہ
کے وزیر دفاع نے کہا تھا کہ دنیا میں کہیں بھی خلافت یعنی مسلمانوں کی
سیاسی حکومت نہیں بننے دی جائے گی۔ اسی ڈاکٹرائین پر عمل کرتے ہوئے
الجزائر، مصر کی اسلامی جمہوری اورطالبان کی اسلامی حکومتیں ختم کی گئیں۔
صاحبو! اس تجزیہ کی روشنی میں نا اہل نواز شریف کی طرف سے فوج اور عدلیہ کے
خلاف جاری مہم کو ملک دشمن نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے۔پہلے کہا گیا
کہ فوج پاکستان میں جمہوریت کو ڈی ریل کرنا چاہتی ہے۔ دنیا نے دیکھا کہ
آئین کے مطابق نواز شریف کے نا اہل ہونے کے بعد اسی ہی کی پارٹی کا نیا
وزیر اعظم آگیا ۔وہ ملک کے نظام کو چلا رہا ہے۔ ان کا یہ دعویٰ غلط ثابت
ہواکہ فوج ملک میں جمہوریت کو ڈی ریل کرنا چاہتی ہے۔ ایٹمی پاکستان کے
مخالف تو پہلے سے اس مہم میں لگے ہوئے تھے۔ فوج کوبدنام کرنے کا کوئی بھی
موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ ہمارے ازلی دشمن بھارت نے سندھ کے ہندو
سرمایہ داروں اور ان کے حمائیتی ملک دشمن مرحوم غلام مصطفےٰ شاہ المعروف (
جی ایم سید) کوپاکستان توڑنے کی مہم پر لگایا۔ ایک امریکی سرمایہ دار
قادیانی شہری نے ملک دشمن حسین حقانی کے ساتھ مل میمو گیٹ کا مسئلہ گھڑا
کیا۔ اس کیس کامقدمہ اب بھی پاکستان کی عدلیہ میں چل رہا ہے اورحسین حقانی
ملک سے فرار ہے۔ حسین حقانی پاکستان کی فوج کے خلاف بیانات دیتا ہے اور
کتابیں بھی لکھتا ہے۔برطانیہ میں غدار وطن الطاف حسین سے ملاقاتیں کرتا ہے۔
بدقسمتی دیکھیں کہ ملک کا وزیر داخلہ پاک فوج کے سپہ سالار کے معیشت پر
بیان کو کہتا ہے کہ ایسے بیانات سے اجتناب برتا جائے۔سپہ سالانے ملک کے
سرمایہ داروں کے ایک اجتماع میں ملک کی معیشت پر تبصرہ کیا تھا۔ جو سو فی
صد صحیح تھا۔ جس کو فوج کی روایات کے مطابق آئی ایس پی آر کے ڈایکٹر نے
عوام کے سامنے رکھا ۔ وزیر داخلہ اس اس پر غیر ضروری طور پر کہا کہ ان کو
ملکی معیشت پر بیان نہیں دینا چاہیے۔ بھائی !یہ فوج کے سپہ سالار کے بیان
کی ترجمانی کی گئی تھی۔کیا فوج جو ملک کی اندرونی بیرونی سرحدوں کی محافظ
ہے اس کو اپنی ملک کے سرمایا داروں کے سامنے پاکستانی قرضوں کی معیشت جس کے
تحت ہر پاکستانی کو نواز شریف حکومت نے تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار کو مقروض
بنا دیا ہے پر گفتگو نہیں کرنی چاہیے۔ یاد رکھیں کہ معیشت اور سلامتی لازم
ملزوم ہیں۔ کو شش کر کے سب ادارے اپنے تک ہی معدود رہیں۔ فوج کے ادارے میں
ٹانگ نہ ماریں۔ فوج کا ترجمان اپنے کہنے پر قائم ہے اور آپ نے اپنے بیان سے
روجوع کر لیا۔پہلے بھی آپ لوگوں نے گردان چلائی تھی ہمیں روک سکتے ہو روکو۔
عدالت نے آپ کو نا اہل قرار دے کر مذید کرپشن کرنے سے روکدیا۔پھر آپ نے
کہا، مجھے کیوں نکالا گیا ۔اس لیے نکالا گیا کہ آپ آئین کی دفعہ ۶۲۔ ۶۳ کے
مطابق امین و صادق نہیں رہے۔ ہمیں احتساب عدالت میں جانے سے کیوں روکا گیا۔
اس لیے روکا کہ آپ قانون کی پابندی نہیں کر رہے تھے۔ پاک فوج پر آپ نے
الزام لگایا دیا تو اسی آئی ایس پی آر نے وضاعت کی کہ اگر سپہ سالار بھی
بغیر کارڈ کے کہیں داخل ہو گا تو سپائی اسے روک دیتا ہے۔ حکومتی اہل کاروں
کے لیے بہتر ہے کہ وہ فوج اور عدلیہ کے خلاف اپنے بیانات سے گریٹ گیم کے
اہل کاروں کے ہاتھ مضبوط نہ کریں۔ روز روز کے پشیمان ہونے سے بچیں اور اپنا
رویہ درست کریں۔ اسی میں ملک کا بھلا ہے۔ |