یومِ اقبال اور تحفظِ ناموسِ رسالت ﷺ

شاعر مشرق علامہ اقبال مرحوم ایک انجمن کا نام تھا ایک تحریک کانام تھا ایک جماعت کا نام تھا ان کا ایک جماعت و تحریک ہی کر سکتی ہے ان کی خدمات ہر شعبہ ہائے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے نمونہ ہے
علامہ اقبال علیہ الرحمہ کا مدار فکر اور معیار تمدن ہمیشہ اسوہ حسنہ رہا۔ ان کا دماغ علم سے پر رہا اور دل عشق سے معمور رہا۔ علم سے انہوں نے راستہ معلوم کیا اور عشق سے منزل کو پایا۔ فلسفے کا تھوڑا علم انسان کو خدا سے بیزار اور گہرا علم خدا کا پرستار بنادیتا ہے اور اقبال علیہ الرحمہ بلاشبہ فلسفے کے گہرے عالم تھے۔ وہ بڑی گہرائی میں اتر کر عشق رسول کے موتی چن کر باہرلائے اور انہیں اپنے دامن میں سجاکر پوری دنیا کو دعوت نظارہ دی اور بڑی بلند آہنگی اور خود اعتمادی سے کہا: اے منطق و کلام کے متوالو!اور اے افلاطون اور ارسطو کے شیدائیو!ان کی بارگاہ میں پہنچ کر کچھ سیکھو جن کے ہاتھوں نے تختی کو چھوا اور نہ ان کی انگلیوں نے کبھی قلم پکڑا۔ لیکن لوح و قلم کے سارے رازان پر منکشف ہوگئے۔
اسوہ حسنہ پر عمل کرو!
ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ رسول مقبولﷺ کا دیدار کیسے ہوسکتا ہے؟ آپ نے جواب دیا پہلے حضورﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرو اور اپنی زندگی کو اسی میں ڈھالو اور پھر اپنے آپ کو دیکھو۔ یہی ان کا دیدار ہے۔ کسی نے پوچھاکہ آپ کو اتنی بصیرت کیسے حاصل ہوئی۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا کہ اکثر اوقات رسول کریمﷺ پر درود بھیجتا رہتا ہوں۔ اب تک ایک کروڑ مرتبہ درود شریف کا ورد کیا ہے۔
آپ کے صاحبزادہ ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں کہ میں نے اماں جان کی موت پر بھی انہیں روتے نہیں دیکھا مگر قرآن سنتے وقت یا رسول اکرمﷺ کا نام زبان پر آتے ہی ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے۔ 1933 میں ایک نوجوان نے حکیم الامت سے اس بارے میں استفسار کیا کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ فرماتے تھے آنحضرتﷺ جب چلتے تھے تو درخت تعظیم سے جھک جاتے۔ اس کا کیا مفہوم ہے؟ کیونکہ یہ بات ماورائے فطرت معلوم ہوتی ہے۔ علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے جواب دیا کہ تمہارا ذہن مختلف راستے پر منتقل ہوگیاہے۔ تم الجھ کر رہ گئے ہو۔ قدرت کے مظاہرے اور درختوں کے جھکنے میں بھائی یہ واقعہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا عشق بتاتا ہے۔ کہ ان کی آنکھ یہ دیکھتی ہے اگر تمہیں عمر رضی اﷲ عنہ کی آنکھ نصیب ہو تو تم بھی دیکھو گے کہ دنیا ان کے سامنے جھک رہی ہے (ماہنامہ فکر ونظر مارچ 1979 رسالت مآب اور اقبال رحیم بخش شاہیں)
ہم آپ کو ڈھونڈتے ہیں اور آپ ہماری آنکھوں سے دور ہیں
نہیں یہ بات نہیں، آپ سامنے ہیں، مگر ہم اندھے ہیں
کوہِ احد پر لرزہ طاری ہوگیا
سید نذیر نیازی کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک صاحب نے علامہ اقبال کے سامنے بڑے اچنبھے کے ساتھ اس حدیث کا ذکر کیا کہ رسولﷺ اصحاب ثلاثہ کے ساتھ احد تشریف رکھتے تھے۔ اتنے میں احد لرزنے لگا اور حضورﷺ نے فرمایا ٹھہر جا، تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دوشہیدوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔ اس پر پہاڑ ساکن ہوگیا علامہ اقبال نے حدیث سنتے ہی کہا اس میں اچھنبے کی کون سی بات ہے؟ میں اس کو استعارہ ومجاز نہیں، بالکل ایک مادی حقیقت سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک اس کے لئے کسی تاویل کی حاجت نہیں۔ اگر تم حقائق سے آگاہ ہوتے تو تمہیں معلوم ہوتا کہ ایک نبی کے نیچے مادے کے بڑے سے بڑے تودے بھی لرز اٹھتے ہیں۔ مجازی طور پر نہیں، واقعی لرز اٹھتے ہیں (اقبال کامل ص 64 اور جوہر اقبال ص 38)
تماشہ تو دیکھو کہ دوزخ کی آتش
1929 کا واقعہ ہے کہ انجمن اسلامیہ سیالکوٹ کا سالانہ جلسہ تھا۔ علامہ اقبال اس جلسے کے صدر تھے۔ جلسے میں کسی خوش الحان نعت خواں نے مولانا احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ کی ایک نظم شروع کردی جس کا ایک مصرعہ یہ تھا۔
خدا کی رضا چاہتے ہیں دوعالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمد
نظم کے بعد علامہ اقبال اپنی صدارتی تقریر کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور یہ دو شعر ارشاد فرمائے۔
تماشہ تو دیکھو کہ دوزخ کی آتش
لگائے خدا اور بجھائے محمد
تعجب تو یہ ہے کہ فردوسِ اعلی
بنائے خدا اور بسائے محمد
قیمتی آنسو
ڈاکٹر محمد اقبال علیہ الرحمہ کی زندگی کا سب سے زیادہ ممتاز، محبوب اور قابل قدر وصف جذبہ عشق رسولﷺ ہے۔ اس کا اظہار ان کی چشم نمناک اور دیدہ تر سے ہوتا تھا کہ جہاں کسی نے حضورﷺ کا نام نامی ان کے سامنے لیا، ان پر جذبات کی شدت اور رقت طاری ہوجاتی تھی اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہوگئے۔ رسول اکرمﷺ کا نام آتے یا آپﷺ کا ذکر چھڑتے ہی علامہ اقبال علیہ الرحمہ پر وارفتگی طاری ہوجاتی۔ رسول اکرمﷺ کی محبت میں علامہ اقبال علیہ الرحمہ کے احباب نے انہیں بارہا آنسو بہاتے دیکھا تھا۔ فقیر سید وحید الدین لکھتے ہیں میں نے ڈاکٹر صاحب کی صحبتوں میں عشق رسولﷺ کے جو مناظر دیکھے ہیں ان کا لفظوں میں پوری طرح اظہار بہت مشکل ہے۔ وہ کیفیتیں بس محسوس کرنے کی تھیں(فقیر سید وحید الدین، روزگار فقیر جلد اول، ص 94)
فقیر صاحب لکھتے ہیں ڈاکٹر صاحب کا دل عشق رسولﷺ نے گداز کررکھا تھا۔ زندگی کے آخری زمانے میں تو یہ کیفیت اس انتہا کو پہنچ گئی تھی کہ ہچکی بندھ جاتی تھی۔ آواز بھرا جاتی تھی۔ اور وہ کئی کئی منٹ مکمل سکوت اختیار کرلیتے تھے تاکہ اپنے جذبات پر قابو پاسکیں اور گفتگو جاری رکھ سکیں(فقیر سید وحید الدین، روزگار فقیر جلد اول، ص94)
نبوت کے اجزا
سید نذیر نیازی کے نام خط میں انہوں نے لکھا:
ختم نبوت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص بعد اسلام اگر یہ دعوی کرے کہ مجھ میں ہر دو اجزا نبوت کے موجود ہیں یعنی یہ کہ مجھے الہام وغیرہ ہوتا ہے اور میری جماعت میں داخل نہ ہونے والا کافر ہے تو وہ شخص کاذب ہے اور واجب القتل۔ مسیلمہ کذاب کو اسی بنا پر قتل کیا گیا تھا
(انوار اقبال مرتبہ بشیر احمد ڈار، ص 45-46)
دیدار نبیﷺ
حضور نبی کریمﷺ کے دیدار سے مشرف ہونے کی علامہ محمد اقبال رحمتہ اﷲ علیہ نے بہت عمدہ اور دلچسپ تفسیر و توجیہ کی ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ اتباع رسول اور تقلید نبوی میں ڈوب جانے کا نام ہی دیدار رسول ہے۔ دنیا میں ایسے زندگی بسر کرو جیسے رسول پاکﷺ کا اسوہ حسنہ تم کو تلقین کرتا ہے۔ اگر تم ایسا کرو گے تو تم کو جن و انس سب میں مقبولیت حاصل ہوجائے گی۔ آپ کی سنت کی پیروی میں ڈوب کر خود شناسی حاصل کرو۔ یہی آپ کا دیدار ہے۔
(اقبال اور محبت رسول، ڈاکٹر محمد طاہر فاروقی)
روئے تو ایمان من قرآن من
جلو داری دریغ از جان من
آپ کا چہرہ ہی میرا ایمان اور میرا قرآن ہے
آپ اپنے دیدار سے مجھے کیوں محروم رکھتے ہیں
ختم نبوت
ختم نبوت کے عقیدے پر گفتگو میں انہوں نے فرمایا کہ ختم نبوت کے عقیدے کی ثقافتی قدروقیمت یہ ہے کہ آنحضرتﷺ نے ہمیشہ کے لئے اعلان فرمادیا کہ آئندہ کسی انسان کے ذہن پر کسی انسان کی حکومت نہیں ہوگی۔ میرے بعد کوئی شخص دوسروں سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ میری بات کو بلاچوں و چرا تسلیم کرلو۔ ختم نبوت ایسا عقیدہ ہے جس کی بدولت انسانی علم کے دائرے کو وسعت نصیب ہوگئی۔
(ملفوظات اقبال، یوسف سلیم چشتی)
جذبہ عمل کے تین طریقے
1926 میں لاہور میں سیرۃ النبی ﷺ کے جلسے کی صدارت کرتے ہوئے علامہ اقبال نے جذبہ تقلید اور جذبہ عمل قائم رکھنے کے تین طریقے بتائے۔ پہلا طریقہ درود سلام ہے جو مسلمان کی زندگی کا جزولاینفک ہے۔ دوسرا طریق اجتماعی ہے کہ مسلمان کثیر تعداد میں جمع ہوں اور کوئی آقائے دوجہاں ﷺکے سوانح حیات بیان کرے اور تیسرا طریقہ اگرچہ مشکل ہے لیکن بہرحال اس کا بیان کرنا نہایت ضروری ہے۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ یاد رسول اس کثرت اور ایسے انداز میں کی جائے کہ انسان کا قلب، نبوت کے مختلف پہلوؤں کا خود مظہر ہوجائے یعنی آج سے تیرہ سو سال پہلے جو کیفیت سرور کائنات ﷺ کے وجود مقدس سے پیدا ہوتی تھی، وہ آج ہمارے قلوب کے اندر پیدا ہوجائے۔
شاعر مشرق کو حضور ﷺسے غیر معمولی وابستگی کا ثمر یوں عطا ہوا کہ ان کے نعتیہ اشعار بقائے دوام حاصل کرگئے۔ زمانہ صدیوں کی مسافتیں طے کرتا رہے گامگر اقبال علیہ الرحمہ کے نعتیہ کلام کی آب و تاب میں کمی رونما نہیں ہوگی۔ بلکہ ہر آنے والا دور اس سے فیض یاب ہوتے ہوئے فخر محسوس کیا کرے گا۔ نئے سے نیا پیغام، نئی سے نئی تجلی، غرضیکہ تجلیات نعت کی فراوانی نے ان کی نعت کو عالمگیریت عطا کردی ہے۔ اس طرح انہوں نے تحفظ ناموس رسالت کا فریضہ سرانجام دیا۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اﷲ پاک علامہ اقبال مرحوم کی قومی وملی خدمات کو قبول فرمائے (آمین)
 

Tariq Noman
About the Author: Tariq Noman Read More Articles by Tariq Noman: 70 Articles with 95362 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.