اقبال اور تحریک پاکستان

اگر چہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال بنیادی طور پر مفکر تھے لیکن مسلمانوں کی سیاسی حالت زار اور ہندوستان کے سیاسی حالات سے بالکل بھی بے خبر نہیں تھے۔ 1908جب وہ انگلینڈ میں تھے تو ا س وقت مسلم لیگ کی وہاں نئی نئی بنی شاخ کے وہ ممبر چنے گئے تھے۔1931 اور 1932 میں انھوں نے انگلینڈ میں منعقدہ گول میز کانفرنس میں حصہ لیا تھا اور ہندوستان کے سیاسی مستقبل پر ایک سیر حاصل گفتگو کی تھی۔اور بہترین انداز میں مسلمانوں کا نقطہ نظر پیش کیا تھا۔ 1930 کے ایک اجلاس میں انھوں نے ہندوستان مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ بھی کیا تھا۔اگرچہ علامہ اقبال کی وفات پاکستان بننے سے پہلے 1938 میں ہوچکی تھی، لیکن انہی کی تعلیمات پاکستان کی تخلیق کے پیچھے ایک روحانی طاقت بنی تھیں۔سر سید احمد خان کے دو قومی نظریہ پر تعمیر کرتے ہوئے، علامہ شبلی نعمانی، سید امیر علی، حسرت موہانی اور دوسرے عظیم مسلمان مفکرین اور سیاستدانوں کی تعلیمات کو جذب کرتے ہوئے، ہندو ؤں اور انگریزوں کی چالاکیوں کو محسوس کیا۔ اور قریبا 50 سال تک ہندوستان کے غیر یقینی حالات کا تجزیہ کرنے کے بعد انھو ں نے جانا اور یہاں کے لوگوں اور رہنماؤں کو، خاص طور پر قائد اعظم محمد علی جناح کو قائل کیا کہ: ’’ ہم دونوں یہاں اپنی سرزمین پر مہاجر ہیں ، لیکن دونوں ایک ہی پیارے وطن کے مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ‘‘

یہ پیارا وطن پاکستان تھا۔ یہ اور بات کہ وہ اس پیارے وطن کو اپنی آنکھوں کے سامنے بنتا نہ دیکھ سکے۔ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ 1930 الہ آباد میں انکے خیالات ایک مسلم ریاست کے نظریہ کا آغاز بنے۔ انھوں نے کہا : ’’ میں پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبے، سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتا ہوں۔ چاہے ایک خودمختار حکومت کے طور پر یا انگریز راج کے اندر۔ شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کی یہ متحدہ ریاست کم از کم شمال مغربی ہندوستان میں عنقریب مسلمانوں کی آخری منزل ثابت ہو گی۔‘‘بیج بو دیا گیا۔ جڑیں بڑھتی رہیں۔ نظریہ کا درخت پروان چڑھتا گیا۔اور بہت جلد دنیانے دیکھا کہ یہ درخت ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی مسلم اکثریتی علاقے پر مشتمل ایک مسلمان ریاست کا روپ دھار چکا تھا۔جیسا کہ اقبال کے قائد اعظم کو لکھے ایک خط سے ظاہر ہے، جو انھوں نے 21جون 1937 ، اپنی وفات سے دس ماہ پہلے لکھا تھا۔’’ مسلم صوبوں پر مشتمل ایک علیحدہ فیڈریشن کا ان خطوط پر قیام ، جن کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے، ہی پر امن ہندوستان اور غیر مسلموں کی حکمرانی سے نجات کا ضامن ہے۔ شمال مغربی ہندوستان اور بنگال پر کے مسلمانوں کو ایک علیحدہ قوم کیوں تصور نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ ہندوستان میں اور ہندوستان سے باہر دوسری قوموں کو سمجھا جاتا ہے ´ ‘‘کچھ تنقید نگار کہتے ہیں کہ علامہ اقبال الہ آباد میں خطاب کرنے کے بعد اپنے نظریہ کو نظر انداز کر گئے تھے اور اس پر ان کی کوئی توجہ نہیں تھی۔ لیکن سچ کوئی دور نہیں ہے۔ ان کے دماغ میں یہ نظریہ ہمیشہ سے موجود رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس نظریہ کو پروان چڑھنا تھا جس میں وقت تو لگتا ہے۔ انھیں یقین کامل تھا کہ برصغیر کے مسلمان عنقریب اپنے لیے ایک علیحدہ ریاست حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

21 مارچ 1932 کو لاہور میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں علامہ اقبال نے صدارتی خطبہ دیا۔اس خطاب میں بھی انھوں نے قومیت پر زور دیا اور مسلمانو ں کے مطالبہ کو موجودہ حالات کو سامنے رکھتے ہوئے پرزور انداز میں پیش کیا۔ 1931 میں دوسری گول میز کانفرنس میں جوکہ لندن میں منعقد ہوئی ، انھوں نے ہندوؤں اور سکھوں کے متعصبانہ رویہ کو شدت سے محسوس کیا۔ انھوں نے انگریزوں کے ذہن کو بھی پڑھا جو کہ ہندوؤں کی طرف داری پر مائل تھا۔اسلیے انھوں نے بار بار اپنے اعتراضات کا اظہار کیا۔اور مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت پرزور دیا۔ انھوں نے کہا کہ جہاں تک ہماری پالیسیوں کی بنیادی باتوں کا تعلق ہے، مجھے کوئی نئی چیز بتانے کی ضرورت نہیں۔اس کے متعلق میں اپنے خیالات کا اظہار مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں کر چکا ہوں۔ اس وقت میں آپ کی توجہ جس چیز کی طرف کرنا چاہتا ہوں وہ ہمارے اس مسلم وفد کے ساتھ معاندانہ رویہ ہے۔جو کہ اس گول میز کانفرنس میں ہمارے ساتھ اختیار کیا گیا ہے۔انھوں نے شرکا ئے کانفرنس کو یہ بھی باور کرایا کہ وزیر اعظم کے اعلان میں باقاعدہ ایک نئی پالیسی بنائی جائے جس میں پورے ہندوستان کے حالات کا جائز ہ لیا گیا ہو۔ یہ ذہن میں رہے کہ مولانا محمد علی جوہر 1931 میں لندن میں ہی انتقال کر گئے تھے اور قائداعظم بھی لند ن میں رہ گئے تھے۔ تو ہندوستان کے مسلمانوں کی بہتر رہنمائی کے لیے ساری ذمہ داری آپ کے کندھوں پر آ پڑی تھی۔ انھوں نے یہ ذمہ داری بہ احسن طریقے سے 1935 ، قائد اعظم کی واپسی تک نبھائی۔برٹش گورنمنٹ کے ساتھ ایک میٹنگ میں انھوں نے ہندوستانے کے صوبوں کو براہ راست انگریزوں کے ماتحت رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا جس میں ہندوستان کی مرکزی حکومت کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔انھوں نے خود مختار مسلم صوبوں کا نظریہ دیا۔کیونکہ انڈین یونین کے تحت انھیں یہ خوف دامن گیر تھا کہ مسلمانوں کو بہت سے معاملات میں بالخصوص اپنی ایک علیحدہ شناخت میں بہت مشکل پیش آئے گی۔ اپنی وفات سے تین ماہ پہلے تک بھی وہ اسی قسم کے خیالات کا اظہار کرتے رہے۔ ایک موقع پر علامہ اقبال نے کہا۔ ’’صرف ایک ہی طریقہ ہے۔ مسلمان قائد اعظم کے ہاتھ مضبوط کریں۔مسلم لیگ میں شامل ہوں۔ ہندوؤں اور انگریزوں کا مقابلہ کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم سب متحد ہوں۔ اسکے بغیر ہمارے مطالبات کو نہیں سنا جائے گا۔لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے مطالبات کا رجحان کمیونزم کی طرف ہے۔ یہ صرف ایک پروپیگنڈہ ہے۔ بلکہ یہ مطالبا ت تو ہماری قومی بقا کے ضامن ہیں۔ ‘‘ انھوں نے مزید کہا۔ ’’متحدہ محاذ صرف مسلم لیگ کے جھنڈے تلے ہی قائم رہ سکتا ہے۔ اور مسلم لیگ صرف قائد اعظم کے بل بوتے پر کامیاب ہو سکتی ہے۔ قائد اعظم کے علاوہ اس وقت مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے کوئی بہتر شخصیت نہیں ہے۔‘‘مطلوب الحسن کہتے ہیں کہ 23مارچ 1940 کی قرارداد کی منظوری کے بعد قائد اعظم نے ان سے کہا۔ ’’ آج اگر اقبال زندہ ہوتے تو وہ بہت خوش ہوتے کہ جو انھوں نے سوچا تھا، آج حقیقت کا رخ اختیار کر چکا ہے۔‘‘ لیکن قصہ یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتا۔ علامہ اقبال نے 29 مارچ 1937 کو قائد اعظم کو ایک خط میں کچھ یوں لکھا۔ ’’اگر چہ ہم ملک میں موجود دوسری جماعتوں کے ساتھ تعاون تو کر رہے ہیں، لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ایشیاء میں اسلام کی اخلاقی اور سیاسی بقا صرف ہندوستان کے مسلمانوں کی مکمل تنظیم میں موجود ہے۔‘‘ اقبال قائد اعظم کو نہ صرف ہندوستان کے مسلمانوں کا نجات دہندہ سمجھتے تھے بلکہ تمام ایشیا ء کے مسلمانوں کا رہنما ء سمجھتے تھے۔ علامہ اقبال نے نہ صرف ہندوستان کے مسلمانوں میں آزادی کا شعور پیدا کیا ، بلکہ وطن سے باہر جہاں بھی گئے وہاں ایک آواز بلند کی۔ اور وہ آزاد وطن کی ہی صدا تھی۔ انھوں نے ایک خواب دیکھا تھا، جس کی تعبیر اﷲ تعالیٰ نے قائد اعظم کے ہاتھوں لکھی تھی۔ لیکن یہ ان دونوں کے نصیب میں نہ تھا کہ وہ پاکستان کو آج بھیڑیوں کے منہ سے بھنبھوڑتا ہوا دیکھتے۔ اور یہ اچھا ہی ہوا تھاورنہ قائدِ اعظم کے زرخیز دماغ سے کچھ بھی متوقع تھا ۔ ۔۔۔۔

Ibn e Niaz
About the Author: Ibn e Niaz Read More Articles by Ibn e Niaz: 79 Articles with 63868 views I am a working, and hardworking person. I love reading books. There is only specialty in it that I would prefer Islamic books, if found many types at .. View More