مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی

امام ربانی مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سر ہندی رحمۃ اﷲ علیہ ۹۷۱؁ھ کو ہند و ستا ن کے مشر قی پنجا ب کے علاقہ سرہند میں پیدا ہوئے، آپ کے والد شیخ عبدا لا حد چشتی رحمۃ اﷲ علیہ(م ۔ ۱۰۰۷؁ھ /۱۵۹۷؁ء ) اپنے وقت کے جلیل القد ر عالم وعارف تھے …… حضرت مجدد الف ثانی کا سلسلہ نسب ۲۹؍واسطوں سے امیر المو منین سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ ‘ سے جا ملتاہے ……آپ نے بیشتر علو م اپنے والد ماجد سے حاصل کیے، مولانا کمال الدین کشمیر ی ‘ مولانا یعقو ب کشمیر ی ‘ اور قاضی بہلو ل بد خشی وغیرہ سے علو م معقو لہ ومنقولہ کی تحصیل فرمائی ۔ اسارتِ قلعہ گوا لیا ر کے زمانے میں قرآن حکیم بھی حفظ فرمایا تھا ……تھا نیسر کے شیخ سلطان تھانیسری کی صاجنر ادی سے عقد مسنو ن ہوا جو کہ اکبر بادشاہ کے مقر بین میں سے تھے ، جس کی وجہ سے شاہی دربار سے ایک تعلق پیدا ہوگیا جو کہ تبلیغ وار شاد کا ذریعہ بنا ……آپ بر صغیر کے معروف بزرگ حضرت خواجہ با قی باﷲ رحمۃ اﷲ علیہ (م ۔ ۰۱۲ ۱؁ھ /۱۶۰۳؁ ء ) سے سلسلہ نقشبندیہ میں بیعت ہوئے اور ۱۰۰۸؁ھ میں اجازت وخلا فت سے نوازے گئے جبکہ سلسلہ چشتیہ میں والد شیخ عبد الا حدچشتی اور سلسلہ قادریہ میں حضرت شاہ کمال قادری کیتھلی رحمۃ اﷲ علیہ سے خر قہ ٔ خلا فت پہلے ہی حاصل تھا ……آپ حضرت خواجہ باقی باﷲ کے منظور نظرمریدوں میں تھے جس کی بدولت آسمان علم وعرفان پر آفتا ب بن کر چمکے اور عہد اکبر ی کی تاریک فضا ؤں کو نوار ایمان سے روشن کر دیا ……
آپ کی اصلاحی کو ششوں کا آغاز اکبر بادشاہ کے عہد سے ہوا اور جہا نگیر بادشاہ کی حکو مت میں یہ کو ششیں با ر آور ہوئیں ……اکبر بادشاہ نے جن مقاصد کے حصول کے لیے جد وجہد کی ان کو تین نکا ت میں تقسیم کیاجاسکتا ہے ……(۱)ہندوؤں سے مفاہمت (۲)قومی حکومت کا قیام (۳)اورمتحد ہ ہندوستا ن…… یہ تینوں مقاصد حضرت مجدد الف ثانی کے مقاصد جلیلہ کی ضد تھے، آپ نے ’’ اسلامی حکومت کے قیام ‘‘ ……’’ اسلا می ہند کی تعمیر وترقی ‘‘ اور ہندوؤں سے عد م مفاہمت ‘‘کے لیے بھر پو ر جدو جہد کی ……سیاسی مقاصد کے حصو ل کے لیے اکبر نے ’’ دین الٰہی ‘‘ کے نا م سے ایک نئے مذہب کی بنیا د رکھی جس کا مقصد مسلمانوں اور ہندوؤں کو ملا کر ایک قو م بنانا تھا ،اکبر کے اس’’ ایک قو می نظر یہ‘‘ کے خلا ف حضرت مجدد الف ثانی نے ’’دوقومی نظر یہ‘‘ کا اعلا ن فرمایا اور یہ بتایا کہ کفر و اسلا م دوعلیٰحد ہ چیز یں ہیں جو کسی طرح بھی یکجا نہیں ہوسکتیں ……اس پا کیز ہ نظریہ کی تر ویج واشاعت کے لیے آپ نے بے شمار مکتوبات تحر یر فرمائے جو کہ ’’ مکتوبات مجدد الف ثانی ‘‘کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوئے ہیں ……یہ وہی دوقومی نظریہ تھا جس کی آگے چل کر حضرت امام احمد رضاقادری حنفی رحمۃ اﷲ علیہ نے چودھویں صد ی ہجر ی میں تجدید کرکے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور محمد علی جناح کو فعال کیا اورپھر ان حضرات نے اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر جو جدوجہد کی اس کی بدولت ایک اسلا می ریاست بن کر پاکستان دنیا کے نقشہ پر اُبھر ا ۔
ہند وستانی مسلم معاشرہ کی اصلا ح اور تر قی کے لیے آپ نے جو کچھ کیا وہ کسی سے پوشید ہ نہیں ، شریعت سے بیگا نہ ہوجانے والوں کو اپنے علمی مکالمات اور مکتوبات کے ذریعے آشنا ئے شریعت کیا …… جو صوفیہ راہِ طریقت کی حقیقت سے نا واقفیت کی بنا پر گمر اہ ہوگئے تھے‘ ان کو طریقت کا واقف کا ر بنا یا …… ’’ نظریہ وحد ۃ الو جو د ‘‘ کی غلط تعبیر ات کی وجہ سے لوگ گمر اہ ہورہے تھے‘ آپ نے اس نظر یہ کی لا ج رکھتے ہوئے اس کے ساتھ ’’ نظر یہ وحد ۃ الشہو د ‘‘ پیش فرمایا جو دل اور دماغ دونوں کے قریب تھا ،اور یہی وہ نظر یہ تھا جس نے شاعر مشر ق ڈاکٹر علا مہ محمد اقبال کی فکر میں انقلا ب پیدا کیا ’’نظریہ وحدۃ الو جو د‘‘ کی غلط تعبیر ات سے جو ہلا کت پھیل رہی تھی‘حضرت مجدد الف ثانی کے’’ تصور وحد ۃ الشہو د‘‘ نے اس کا مو ثر دفاع کیا اور ناقابل فہم کو عام لوگوں کے لیے قابل فہم بنادیا، جو فکر مسلم کی ہر سطح پر اصلا ح کرتا ہوا ایک عظیم انقلاب کا سبب بنا ……حضرت مجدد الف ثانی نے ظالم وجا بر حاکم وقت کے غلط فیصلوں پر بر وقت تنقید کی، حتیٰ کہ آپ کو قیدوبند سے دوچارہونا پڑا ، اسا رتِ قلعہ گوالیا ر اور پھر نظر بندی نے آپ کی اصلاحی کو ششوں کے اثر ات کو عوام اور حکومت وقت میں اور دیر پا و مستحکم بنادیا ، آپ کی اسیر ی اسلا می نظا م حکومت کے لیے رحمت بن گئی ، آپ منزل مقصود کی جانب رواں دواں رہے اور عزیمت پسند ی کی ایسی شاندار مثالیں قائم کیں جس سے مر دہ دل زندہ ہوگئے اور ایک عظیم انقلا ب آگیا ……با دشاہ کے حضور سجد ۂ تعظیمی تر ک کر دیا گیا ……شراب اور دیگر خرافات پر پابندی لگا دی گئی ، گائے کی بند قربانی سر عام ہونے لگی ……آپ کی انتھک کو ششوں سے شعا ئر اسلا م کاخوب فروغ ہوا اور سیا سی سطح پر اسلا می حکومت کا قیا م ممکن ہوگیا۔پھر جہانگیربادشاہ کی تخت نشینی کے بعد آپ ہی کی کوششوں سے سلطنت میں امو ر مذہب وسیا ست میں مشورہ کے لیے علماء کا با قا عدہ کمیشن مقر ر کر دیا گیا جو حکومت وقت کو احکا م اسلامی سے بر وقت خبر دار ر کھتا تھا ۔
حضرت مجدد الف ثانی کے اصلا حی کا رنا موں کو بیان کرنے کے لیے طویل دفتر کی ضر ورت ہے ،( پاکستان کے ممتاز ماہر تعلیم و مؤرخ پرفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمدکے زیر سر پرستی ایک تین رکنی بورڈ جس میں راقم بھی شامل ہے‘ نے ۲۰۰۷؁ء میں ہزاروں صفحات پر مبنی پندرہ جلدی’’ انسائیکلو پیڈیا جہان امام ربانی مجدد الف ثانی‘‘ مرتب کیا ہے جسے امام ربانی فاؤنڈیشن کراچی نے شائع کیا )حضرت مجدد الف ثانی پاک وہند کے مصلحین میں ممتاز مقام رکھتے ہیں ‘ ان کی مومنا نہ بصیر ت نے چند بر سوں میں خون کا ایک قطرہ بہے بغیر عظیم انقلا ب برپا کر کے مسلمانان بر صغیر کو مذہبی ، سیاسی اور روحانی سطح پر استحکا م بخشا ۔
آپ کی مشہور تصانیف میں فارسی ’’ مکتوبات مجدد الف ثانی ‘‘ زیا دہ مشہو ر ہوئے ۔ ان کے عر بی، اردو،ترکی اورانگریزی زبانوں میں تراجم بھی شائع ہوچکے ہے جبکہ یہ تصانیف بھی آپ کی یاد گا رہیں ٭اثبا ۃ النبو ۃ،رسالہ درعلم حدیث،رسالہ در مسئلہ وحد ۃ الو جو د،مبد أومعاد،مکا شفات غیبیہ/ عینیہ، معارف لدنیہ،ردالر فضہ،شرح ربا عیا ت خواجہ بیر نگ،رسالہ تعیین ولا تعیین ،رسالہ مقصود الصالحین،آداب المرید ین،اوررسالہ جذب وسلو ک۔
مسلمان مصلحین کو بنظر تحقیق دیکھیں تو حضرت مجدد الف ثانی ہر طبقے میں اعلیٰ وارفع نظر آئیں گے اور نہ صرف یہ بلکہ ہر صنفِ کمال میں اکمل ہونے کے ساتھ آپ بیک وقت ساری خوبیوں کے جامع بھی نظر آتے ہیں اسی بناء پر آپ کے سر پر’’ تجدید ِالف ثانی‘‘ کا تا ج رکھا گیا ولایت میں ایک اونچامقام ہے ……حضوراکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد کے بموجب ہر صد ی کے آغاز میں مجد د پیدا ہوئے اور انہوں نے تجد ید دین کی خدمات انجام دیں لیکن جب ہم اُن کے حالات زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ انہوں نے دین کے کسی خاص شعبے میں ہی تجدیدی کارنامے انجام دیے لیکن ایسی جامعیت اور ہمہ گیر ی کہیں نظر نہیں آتی جو حضرت مجدد الف ثانی کی سیر ت طیبہ میں ہے ۔اس حقیقت سے’’ مجد دمأۃ ‘‘اور’’ مجدد الف‘‘ کا فرق روزِ روشن کی طرح عیاں ہے ۔اس کے علاوہ یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ ان مجد دین کے بارے میں علماء کا اختلاف پایا جاتا ہے ۔ بعض علماء جس ہستی کو ایک صدی کا مجدد قراردیتے ہیں دوسرے علماء اسی صد ی کا مجد ددوسری ہستی کو تسلیم کرتے ہیں لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی کے مجدد ہو نے پر سب اکا بر اُمت، علماء و اولیاء اورسب اہلِ بصیر ت متفق ہیں کسی دوسری ہستی کو آپ کے مقابل نہیں لایا گیا ……اور یہ حقیقت قابل توجہ ہے کہ قبائے تجدید آپ کے قامت اقدس پر کچھ ایسی موزوں ہوئی ہے کہ جب’’ مجد د‘‘ کہاجاتا ہے تو فورًا ذہن آپ کی طرف منعطف ہوجاتا ہے، کوئی دوسر ی شخصیت ذہن میں نہیں آتی بلکہ اُمت مسلمہ آپ کو مجد د ہی کے لقب سے جانتی ہے …… علامہ عبد الحکیم سیال کوٹی علیہ الرحمۃ نے حضرت مجدد کو ’’مجد د الف ثانی‘‘ کے خطاب سے یاد کیا تھا ،یہ ایک ایسی واضح اور روشن حقیقت تھی کہ اس کی صدائے بازگشت عالمِ اسلام میں سنی گئی،اور سب اعاظم واکابر نے آپ کو ’’ مجد د الف ثانی ‘‘ تسلیم کیا، اور ہر عہد میں اسی خطاب سے یاد کیا، اور آپ کے تجدید ی کا رناموں کا اعتراف کیا چنانچہ حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ حضرت مجد د کے ایک رسالہ کی شرح میں اُمتِ محمد یہ ﷺ پر جوآپ کے احسانات ہیں ان کی تفصیل لکھنے کے بعد لکھتے ہیں کہ:
’’ حضرت مجد د سے وہی شخص محبت رکھے گا جو مومن تقوٰی شعار ہوگا اور ان سے وہی بغض رکھے گا جو بدبخت فاجراور شقاوت وثار ہوگا۔۔۔آج جو مساجد میں اذانیں دی جاری ہیں اور مدارس سے قال اللّٰہ تعالیٰ وقال رسول اللّٰہ ﷺ کی دل نواز صدائیں بلند ہورہی ہیں اور خانقاہوں میں جو ذکر وفکر ہورہاہے اور قلب وروح کی گہرائیوں سے جوا ﷲ کی یا د کی جاتی ہے یا لاالہ الااللّٰہ کی ضربیں لگا ئی جاتی ہیں ان سب کی گردنوں پر حضرت مجد دکا بارِمنت ہے اگر حضرت مجد د اس الحادوا رتدادکے اکبری دور میں اس کے خلاف جہاد نہ فرماتے اور وہ عظیم تجدیدی کا رنامہ انجام نہ دیتے تو نہ مساجد میں اذانیں ہوتیں ، نہ مدارس دینیہ میں قرآن ، حدیث فقہ او رباقی علوم دینیہ کا درس ہوتا اور نہ خانقا ہوں میں سالکین وذاکرین اﷲ ، اﷲ کے روح افزاذکر سے زمز مہ سنج ہوتے الاماشااﷲ ‘‘۔
آج مسلمان جس طرح فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور اس سے جو واقعات رونماں ہوا کرتے ہیں، سب جانتے ہیں۔ اس وقت ہمارے سامنے مختلف مکاتیب فکر ہیں ان میں سے بعض حضرت مجد د سے عقید ت ومحبت رکھتے ہیں، ان کی عظمت کے قائل ہیں ، ان کی تعریف وتوصیف میں رطب اللسان ہیں اور ان کو اپنا امام و رہبر سمجھتے ہیں، مگر ؂
ز بہر آمہ چوں شمع و چوں گل
گرفتہ جنگ بار پروانہ بلبل!
یعنی‘ اس چاند کے لیے پروانہ اور بلبل میں لڑائی ہورہی ہے ۔پروانہ کہتاہے کہ وہ شمع ہے اس لیے میرا محبوب ہے اور بلبل کہتا ہے کہ وہ پھول ہے اس لیے جان ودل سے میں اس پر فداہوں۔
ان مکاتیب فکر کے اختلاف کی وجہ سے اسلام کو عالمی سطح پر عظیم نقصان پہنچ رہا ہے اس لیے کم از کم وہ مکاتیب فکر جو حضرت مجد د کو اپنا رہنما تسلیم کرتے ہیں‘وہ ہی آپ کی تعلیمات وہدایات کو سامنے رکھ کر متحد ومتفق ہوجائیں تواسلام کے خلاف پروپیگنڈہ اور دہشت گردی پر کافی قابو پایا جا سکتا ہے ۔
حضرت مجددطریقت کے چاروں سلسلوں سے فیض یاب ہوئے ،گویاسلسلہء مجددیہ کی مثال اس دریا کی سی ہے جس میں چاروں طرف سے نہریں آکر ملتی ہیں اس دریا سے اگر کوئی چلوبھرپانی پی لیتا ہے تو اس نے حقیقت میں سب نہروں کا پانی پی لیا، اس لیے سلسلۂ عالیہ مجد دیہ کے متوسلین کوچاروں سلاسل کا فیض پہنچ رہا ہے ۔
حضور اکر م ﷺ نے فرمایا تھا کہ بڑا جہاد جابر حکمر اں کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنا ہے ‘ حضرت مجدد الف ثانی اس حدیث کی عملی تفسیر تھے آپ نے دوجا بر حکمرانوں کے سامنے حق کا پر چا ر کر کے احیا ء اسلا م اور تجدید دین کا اہم فریضہ سرانجا م دیا جس پر ملت اسلا میہ نے آپ کے ’’ مجدد الف ثانی ‘‘ہونے کا اقرارکیا ……آپ کی علمی اور روحانی فضیلت کو پاک وہند کے ہرمسلک و سلسلے کے اکا بر علماء وصو فیہ نے مانا اور سر اہا اور اپنی تصانیف میں جابجا آپ کے حوالے دیے،اور حضرت مجدد الف ثانی کے اقو ال وار شادات سے استد لا ل کیا ہے …… جن میں اما م احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمۃ جیسی ہستیاں بھی شامل ہیں ……شاعر مشر ق ڈاکٹر علا مہ محمد اقبال جب سرہند شریف حاضر ہوئے تو حضرت مجدد الف ثانی کے روحانی کمالات سے متاثر ہو کر ان اشعا میں خراج عقیدت پیش کیا …… ؂
حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر …… وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلع انوار
اس خاک کے ذروں سے ہیں شرمندہ ستارے …… اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحب اسرار
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے …… جس کے نفس گرم سے ہے گرمئی احرار
وہ ہند میں سرمایہء ملت کا نگہبان …… اﷲ نے بروقت کیا جس کو خبردار
حضرت مجددالف ثانی نے اسلا میان ہند کی رشد وہد ایت کے لیے سلاسل طریقت چشتیہ،قادریہ، نقشبندیہ کو رواج دیا اور سلسلہ نقشبندیہ تو بعد میں آپ کی نسبت سے ’’ نقشبند یہ مجدد یہ ‘‘ کے نا م سے معروف ہوا آ ج دنیا کے ہر خطے میں اس سلسلے کے فیضیا فتہ حضرات پائے جاتے ہیں…… حضرت مجدد اپنی اصلا حی کو ششوں کے دور ان ایک سال (۱۰۲۷؁ ھ……۱۰۲۸؁ ھ)قلعہ گوا لیا ر میں نظر بند بھی ر ہے جبکہ دورپابند ی پانچ سال اور دورزباں بند ی چھے ماہ پر محیط گزرا ……ایا م آخر میں آپ اپنی خانقا ہ (سرہند ) میں خلوت گز یں ہوگئے اور اسی خلوت گزینی میں ۲۹؍صفر المظفر ۱۰۳۴؁ھ کو وصال فرمایا…… سر ہند شریف میں آج بھی مر قد انور مر جع خاص وعا م ہے……امام ربانی مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی کی تعلیمات دنیا ئے اسلا م کا سنگھا ر اورا قلیم تصوف کا نور ہیں ۔
 

Dr.Iqbal Ahmad
About the Author: Dr.Iqbal Ahmad Read More Articles by Dr.Iqbal Ahmad: 30 Articles with 46651 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.