سید انور محمود: بے باک کالم نگار

سید انور محمود معدودِ چند کالم نگاروں میں سے تھے جو ہر موضوع پر بے باکی ، نڈر اور بلا خوف سچ کو سچ اور غلط کو غلط لکھا کرتے تھے۔سید صاحب جیسے بہادر لکھاری کم کم پائے جاتے ہیں۔سید انور محمود سے میرا تعلق علمی ، ادبی ، سماجی اور کالم نگار کے حوالے سے تھا۔ ہمارے درمیان تعلق کی بنیاد اردو کی معروف ویب سائٹ ’’ہماری ویب‘‘ ہے۔ ہماری ویب نے کالم نگار کی حیثیت سے میراتعلق سید صاحب سے قائم جوڑا۔ آج صحافت کے پیشے سے تعلق رکھنے والے اور کالم نگار بڑی تعداد میں میرے قریبی دوست ہیں ۔ بات مختصر کر کے سید انور محمود صاحب کی شخصیت ، ان کی کالم نگاری اور ان کی جدائی کا حال جو مجھے بہت پہلے لکھنا چاہیے تھا ، میں نہیں لکھ سکا، اس کی وجہ یہ رہی کہ میرے ذہن نے ابھی تک یہ قبول ہی نہیں کیا کہ سید صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے۔میں 25 اگست کو حج پر گیا چند دن قبل ایک تقریب میں انہوں نے پھولوں کے ہار ڈالے ، مجھے دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا ، یہی نہیں جب میں سعودی عرب پہنچ گیا تو انہوں نے میری ایک تصویر اپنے ریکارڈ میں سے بطور خاص ڈھونڈ کر میرے حج پر جانے کی پیشگی مبارک باد کے ساتھ فیس بک پر وائرل کی اور مجھ سے دعاؤں کے لیے کہا ، وطن سے محبت اورپاکستانی عوام کی فکر تو دیکھئے کہ انہوں نے اپنے لیے دعا کی بات نہیں کی، اپنی صحت کے لیے دعا کی بات نہیں کی بلکہ انہوں نے لکھا جس سے سید انور محمود کے محب الوطن ہونے، عوام کا دکھ محسوس کرنے والے کالم نگار کا حقیقی چہرہ سامنے آجاتا ہے۔ آپ نے لکھا ’’بروز جمعہ 25اگست کو ہماری ویب رائیٹرز کلب کے صدر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی صاحب حج کرنے کے لیے سعودی عرب تشریف لے جارہے ہیں دعا ہے کہ ان کا سفر خوشگوار گزرے اور حج کے ارکان آسانی سے پورے ہوں۔ ڈاکٹر صاحب سے التماس ہے کہ وہ دونوں حرم پاک میں پیارے وطن پاکستان اور پاکستان کے عوام کے لیے ضرور دعا فرمائیں ۔ ڈاکٹر صاحب کو پیشگی مبارک باد‘‘۔

سید انور محمودکی بیٹی کی شادی چند دن قبل ہی انجام پائی تھی ۔دعوت تو مجھے بھی دی تھی لیکن میں اپنی طبیعت کی خرابی کے باعث شرکت نہ کرسکا۔ شادی بخیر و خوبی انجام پائی ۔ شادی کے بعد سید صاحب نے فیس بک پر چند جملے لکھے اور ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی شادی کے موقع پر ادا کی جانے والی رسم کے بارے میں لکھا ۔ یہ رسم ہے شادی میں مہمانوں کا میزبان کو’ لفافہ‘ دینا ۔ صحافت میں صحافیوں کے حوالے سے لفافہ بہت مشہور ہے۔ بعض لوگ اسے لفافہ صحافت بھی کہتے ہیں۔ سید صاحب نے شادی میں دیے جانے والے لفافوں کے بارے میں لکھا ۔’بیٹی کی شادی تھی جس کو بلایا وہ آئے ملنے والے لفافوں میں سے چار خالی تھے ۔ ان آنے والوں کا شکریہ ہم اس بکواس رسم کو بدل کیوں نہیں دیتے ۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ میری دو بیٹیوں کی شادی میں کوئی لفافہ قبول نہیں کرونگا‘۔سید صاحب نے درست لکھا ، وہ اپنے وعدے پر قائم و دائم رہیں گے۔ اُن کی کون کون سی باتوں کو بیان کیا جائے۔ ان کے کالموں کا مطالعہ کیا جائے تو ہر بات کام کی ملے گی۔ عید کے موقع پر عید کی مبارک باد مخصوص لوگوں کو، دوستوں ، رشتہ داروں کو نہیں بلکہ آپ نے لکھا ’’تمام مسلمانوں کو عید الضحیٰ مبارک ہو ‘‘۔آج (6نومبر)کے اخبار میں خبر پڑھی کراچی میں صرف ڈیڑھ کروڑ آبادی کو گنا گیا اور باقی ڈیڑھ کروڑ آبادی کو لاپتہ کردیا گیا۔ یہ بات کراچی کی ایک بڑی اور نمائندہ سیاسی جماعت کے جلسے میں پارٹی رہنما نے کہی۔ یہی بات سید صاحب نے 31اگست2017کو فیس بک پر لکھی ’’کراچی پوچھ رہا ہے کہ میرے 1کروڑ 40لاکھ لوگ کہا ں ہیں‘‘۔ یہ ہوتی ہے ایک کالم نگارکی نگاہ اور سوچ ، حق اور سچ کو بر وقت کہہ دینے کی صلاحیت۔ ان کی صاف گوئی اور بے باکی ان کے کالموں سے صاف عیاں تھی۔وہ ’’کڑوا سچ‘‘ کے عنوان سے لکھا کرتے تھے۔ موضوعات بھی زیادہ ترسیاسی ہی ہوا کرتے تھے۔ سیاست میں صاف گوئی، سیاسی لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث ہوتی ہے ۔ لیکن کالم نگار وہی ہے جوکسی بھی مصلحت کے تابِع نہ ہو، جو بہتر اور سچ جانے دو ٹوک الفاظ میں لکھ دے ۔ یہی سید صاحب کی خوبی تھی۔ان کے کالم’ہماری ویب‘ پر شائع ہوا کرتے تھے۔ اب چند اور ویب سائٹس پر بھی ان کے کالم آنے لگے تھے۔ خاص طور پر مکالمہ پر۔کالموں کے علاوہ سو لفظوں کی کہانیاں لکھنا بھی ان کا معمول تھا۔

اگست کا مہینہ تھا میرے حج پر جانے کے دن قریب آرہے تھے ، خواہش تھی کہ ہماری ویب رائیٹرز کلب کے زیر اہتمام کوئی پروگرام منعقد ہوجائے تو اچھا ہے، زندگی کا کوئی پتہ نہیں۔ 14اگست بھی آچکی تھی یکا یک خیال آیا کہ 14اگست 2017کو پاکستان 70برس کا ہورہا ہے کیوں نہ اس حوالے سے ستر برسوں کی یادوں کا محاسبہ کیا جائے ۔ چنانچہ ایک موضوع تشکیل دیا جو کچھ اس طرح تھا’’پاکستان کی آزادی کے 70سال اور موجودہ تحریکیں‘‘، سیمینار کا اعلان کردیا گیا۔ 19اگست کو یہ پروگرام ورکرز کلب، گلشن اقبال میں منعقد ہوا ۔ جس میں سید انور محمود صاحب بھی شریک تھے۔ ساتھیوں نے اس موقع کو غنیمت جان کر مجھے حج پر رخصت کرنے کا بھی اہتمام کیا اور پھولوں کے تحفے دے کر اپنی دعاؤں میں مجھے رخصت بھی کیا۔ سید صاحب سے یہ میری آخری ملاقات تھی۔ تقریب میں وہ میرے دائیں جانب کچھ فاصلے پر تھے۔ انہوں نے سیمینار کے موضوع پر تفصیلی اظہارخیال بھی کیا۔ نہیں معلوم کیوں تقریب کے دوران میری نظر بار بار سید صاحب پر پڑرہی تھی، اس دوران یہ خیال بھی آیا کہ سید صاحب کو میرے ہمراہ اسٹیج پر ہی ہونا چاہیے تھا ، تقریب کے دوران اپنی اس سوچ پر عمل مشکل ہوگیالیکن میں انہیں بار بار دیکھتا ضرور رہا خاص طور پر جب بھی وہ کسی نقطہ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے۔ اب بات سمجھ آئی کہ اصل معاملہ یہ تھا ۔ میرے ایک شاعر دوست عابد خورشید کا شعرجو اس نے اپنی مرحوم ماں کے لیے کا لیکن یہاں سید صاحب کے حوالے سے کیا خوب لگ رہا ہے ؂
میں اِس لیے بھی اُسے بار بار دیکھتا تھا
مجھے خبر تھی آخر اُسے نہیں رہنا

ملاقات میں بیٹی کی شادی میں شرکت نہ کرنے کی معذرت بھی چاہی، یہ بھی کہا کہ میں حج سے واپس آکر آپ کے گھر حاضرہوں گا۔ صدارتی کلمات میں اپنے ان تمام ساتھیوں سے گزارش کی کہ وہ سب ہی لکھاری ہیں ۔ آج جس موضوع پر سیمینار منعقد ہوا ہے ، اس کی روداد نہ سہی کم از کم آپ نے جو کچھ اس موضوع کی مناسبت سے کہا ہے اس پر ایک مختصر مضمون لکھ کر ہماری ویب پر پوسٹ کردیں۔میری اس خواہش کا سید صاحب نے جلد احترام کیا اور ایک مضمون ’’پاکستان کے ستر سال اور ہماری ویب کے دس سال مکمل‘‘ لکھا جو ہماری ویب کے علاوہ فیس بک وال پر بھی وائرل ہوا۔ انہوں نے اس مضمون میں لکھا کہ’’ ہماری ویب پر میرا پہلا مضمون 8جنوری2013میں شامل ہوا ۔ ہماری ویب میں اپنی شمولیت کے بارے میں آپ نے لکھ کہ’ میں پہلی مرتبہ مارچ2014میں منعقد کی جانے والی ہماری ویب کی میٹنگ میں شریک ہواجہاں پر ان کی ملاقات ابرار صاحب و دیگر دوستوں سے ہوئی ۔ 10جنوری 2015کی ہماری ویب کی میٹنگ میں ’’ہماری ویب رائیٹرز کلب ‘‘ کے قیام کو حتمی شکل دی گئی ‘‘۔ سید صاحب اپنے اسی مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’ بروز ہفتہ 19اگست2017کی شام ورکرز ٹرسٹ گلشن اقبال میں ایک مجلس مکالمہ بعنوان ’’پاکستان کی آزادی کے 70سال اور موجودہ تحریکیں‘‘ ہماری ویب رائیٹرز کلب کے زیر اہتمام منعقد ہوا۔ اس مضمون میں آپ نے لکھا جو ان کی زندگی کے آخری ایام کے مضامین میں سے ایک ہے۔ مجلس مکالمہ میں سید صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ’پاکستان میں سب سے زیادہ توجہ تعلیم پر دی جائے، انہوں نے تعلیم کے حوالے سے آکسفورڈ یونیورسٹی اور تاج محل کا ذکر بھی کیا۔ ان کاکہنا تھا کہ شاہجہاں تاج محل کی جگہ ایک اسکول بنا جاتا تو اچھا ہوتا ۔ شاہجہاں نے تاج محل اپنی تیسری بیوی ارجمند بیگم عرف ممتاز محل کی محبت میں بنوایا تھا۔ ممتاز محل کی موت شا ہجہاں کے 14ویں بچے کو جنم دیتے ہوئے ہوئی تھی‘۔ گویا سید صاحب تعلیم کوکسی بھی ملک کی ترقی کی سب سے اہم وجہ گردانتے تھے۔ انہوں نے یکم ستمبر یعنی اپنے انتقال سے دو دن قبل حسب ذیل سو لفظی کہانی بہ عنوان’ نا معلوم’ لکھی۔ مختصر الفاظ ، بے باکی، صاف گوئی، سچائی کی کی واضح مثال:
بلاول 19سال کا تھا تب ظالموں نے اس کی ماں کو مار دیا
وہ اور اس کی بہنیں اپنی ماں کا غم منارہے تھے
آصف زرداری مستقبل کی پلانگ کر رہے تھے
الیکشن جیتنا پیپلز پارٹی کی حکومت بنائی
خود صدر بنے
ملک کو لوٹ کر کنگال کردیا
بیوی کے قاتل کو کبھی نہیں ڈھونڈا
اب بلاول 28سال کا ہے
وہ مشرف کے بیرون ملک جانے سے بہت ناراض ہے
وہ پوچھ رہا ہے کہ اس کی ماں کا قاتل کون ہے
میں نے بے نظیر کی پولیٹکل سیکریٹری ناہید خان سے پوچھا
انہوں نے کہا قاتل نا معلوم ہے اور نامعلوم کبھی پکڑا نہیں جاتا۔

3ستمبر کی صبح کراچی سے ارشد قریشی نے مجھے میسنجر پر اطلاع دی ’’بہت دکھ کے ساتھ آپ کو خبر دے رہا ہوں کہ ہمارے دیرینہ ساتھی سید انور محمود صاحب کا آج صبح ہارٹ فیل ہونے کی سبب انتقال ہوگیاہے۔ انااللہ وانا الیہ راجیعون‘‘۔ اس وقت میں منیٰ کی خیمہ بستی کے ایک خیمے شریک حجاج اکرام کے درمیاں تھا۔ جی بھر کر افسوس بھی نہ کرسکا ، افسوس کی بات کرتا بھی تو کس سے ، اس لیے کہ وہاں سب ہی اجنبی ، دل ہی دل میں سید صاحب کی مغفرت کی دعا کی، اگلے دن طواف زیارہ کے لیے جانا تھا ، وہاں جا کر خانہ کعبہ کے سامنے سید صاحب کی مغفرت کی خصوصی دعا کی۔ سید صاحب پر ایک مضمون ارشد قریشی نے تحریر کیا جس میں انہوں نے سید صاحب سے اپنی آخری ملاقات اور ان سے اپنی گفتگو کی تفصیل لکھی ہے۔ صاحبِ مضمون نے لکھا ’’سید انور محمود کا قلم ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا‘‘، لکھتے ہیں ’’میری زندگی کی یہ وہ تحریر ہے جسے سید انور محمود صاحب نہیں پڑھیں گے۔ اپنی ہر تحریر، ہر شعر اور ہر فیس بک پوسٹ پر مجھے ان کی رائے کا شدت سے انتظار رہتا تھا اور آج نہایت کرب کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ان کے بارے میں لکھی یہ پہلی تحریر ہوگی جس پران کی کوئی رائے نہیں ہوگی۔ آہ! آج آپ کے کالموں پر درج تحریر’سچ کڑوا ہوتا ہے‘ پر شدت سے یقین ہوچلا کہ سچ اس قدر کڑوا ہوتا ہے اور یہ سچ ہے کہ آپ ہم میں نہیں رہے‘۔ پھر ارشد قریشی نے لکھا ’’2ستمبر بروز ہفتہ عید الضحیٰ کی صبح 05بج کر 28منٹ پر انہوں نے اپنی فیس بک وال پر ایک عید کارڈ پوسٹ کرتے ہوئے تمام مسلمانوں کو عید کی مبارک باد پیش کی۔ دن بھر قربانی کی مصروفیات رہیں شام میں مغرب کی نماز کے بعد میں فیس بک پر آیا تو دو نہایت معزز اور قابل احترام شخصیات کی پوسٹ میرے سامنے تھیں ایک پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی مکہ مکرمہ سے حج کی تکمیل کے بارے میں اور دوسری محترم سید انور محمود صاحب کی عید مبارک دونوں قابل احترام اساتذہ کو مبارک باد دی اور ساتھ ہی انور محمود صاحب کی پوسٹ پر رات 07بج کر57منٹ پر ایک کمنٹ لکھا جو ان کی گزشتہ عید الا ضحیٰ کی ایک شوخ سی پوسٹ کے بارے میں تھا جس کے جواب میں انور محمود صاحب نے10بج کر16منٹ پر مجھے لکھا’اس محبت کا شکریہ ‘ ابھی میں ان کا کمنٹ پڑھ ہی رہا تھا کہ میسنجر پر وہی پیغام آیا کہ کیا ہم اس وقت بات کرسکتے ہیں۔میرے جواب کے بعد ان کا اگلا پیغام تھا کہ ’یار تم بہت محبت کرنے والے انسان ہو لوگ مرنے کے بعد باتیں یاد کرتے ہیں تم میرے جیتے جی میری باتیں یاد رکھتے ہو‘ ۔ پھر قربانی کے حوالے سے گفتگو ہوئی اور ان کے اختتامی الفاظ یہ تھے چلو میرے جوان پھر اب ملاقات ہوگی صمدانی صاحب کی حج سے واپسی پر انشاء اللہ اور یہی ان کی زندگی کے میرے لیے آخری الفاظ بھی ثابت ہوئے اسی رات01بج کر 31منٹ پر جب دن اتوار اور تاریخ03ستمبر میں داخل ہوچکی تھی انہوں نے اپنی فیس بک وال پر ایک سو لفظوں کی کہانی بعنوان ’’کوئز مقابلہ ‘‘ تحریرکی جو ان کی زندگی کی آخری پوسٹ ہے۔اسی دن اتوار کی شام اچانک دل دہلا دینے والی خبر سننے کو ملی کہ سید انور محمود صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے‘‘۔سید صاحب کی زندگی کی آخری پوسٹ سو لفظوں کی کہانی ’’کوئز مقابلہ‘‘ یہ ہے۔
سوال: کیا آپ پاکستان کے دو مشہور جڑواں بھائیوں کے نام بتا سکتے ہیں؟
جواب: پہلے کا نام ’نامعلوم‘ اور دوسرے کا نام ’عام آدمی‘
سوال : کیا آپ نے ان کو دیکھا ہے؟
جواب: جی نہیں۔ ان کو صرف حکمراں دیکھ سکتے ہیں۔
سوال: ان دونوں میں کیا کیا خصوصیات ہیں۔
جواب: قتل ہو، ٹارگٹ کلنگ ہو، چوری ہو یا لوٹ مار، ان تمام جرائم میں ملوث ہونے کے باوجود نہیں پکڑے جاتا
وہ ’نہ معلوم‘ اور’ عام آدمی‘ وہ ہے جس پر نہ تو مہنگائی کا اثر ہوتا ہے اور نہ ہی کسی ٹیکس کا۔
سید صاحب کی باتیں ، ان کی تحریریں ،کڑوا سچ کے تحت ان کے کالم اور سو لفظی کہانیاں اب بہت یاد آتی ہیں، کھلے بندں تنقید کرنا، بلا خوف حکمرانوں اور سیاست دانوں کے بارے میں لکھنا۔ بس اب ان کی تحریریں ہیں اور ان کی یادیں۔چلتے چلتے ایک اور بات یاد آئی چند ماہ سے میں اپنے کالموں کا مجموعہ’رشحاتِ قلم ‘ ترتیب دینے کی کوششوں میں تھا، اس میں صرف وہ کالم شامل ہیں جو روزنامہ جناح میں شائع ہوچکے ہیں۔ مناسب جانا کہ کچھ احباب سے اس کتاب پر ان کی رائے بھی شامل کر لوں ۔ ان میں سید انور محمود بھی شامل تھے ۔ میں نے انہیں کتاب کا مسودہ سافٹ کاپی بھیجی اور درخواست کی کہ اس پر اظہار خیال کریں۔ ان کا یہ اظہار اس کتاب میں شامل ہوگا یہاں۔ آپ نے لکھ’’ ڈاکٹر صمدانی گزشتہ چالیس سال سے مسلسل لکھ رہے ہیں،ان کی 34ویں کتاب اس وقت میرے پیش نظر ہے۔میں اکثر ان کے کالم پڑھتا ہوں ، ایک بات جو میں نے نوٹ کی وہ یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب ایک مکمل غیر جانبدار لکھاری ہیں بقول ان کے ’لکھاری کو تو سچ اور حق کا علم بردار ہونا چاہیے، سیاسی وابستگی کے ساتھ جو لکھے گا وہ لکھاری نہیں کسی کا نمائندہ بن جائے گا‘۔ ایک غیر جانب دار لکھاری کی تحریروں کا سب سے زیادہ فائدہ اس کے قاری کو ہوتا ہے ، ہوسکتا ہے ایک قاری لکھاری کی بات سے اتفاق نہیں کرتا لیکن وہ پھر بھی اس لکھاری کو پڑھتا ہے اس یقین کے ساتھ کہ یہ لکھاری غیر جانبدار ہے۔ ان کے کالموں میں آپ کو جانبداری کی زرا سی بھی جھلک نہیں ملے گی۔ یہی وجہ ہے ڈاکٹر صاحب کے پڑھنے والوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ مجموعی طور پر اردو زبان میں لکھی جانے والی یہ کتاب سیاست، ادب، شخصیات اور عام موضوعات پر ایک گرانقدر اضافہ ہے‘‘۔

موت برحق ہے ،ہر ایک کو اپنے مقررہ وقت پر اس دنیا سے چلے جانا ہے، سید صاحب کے لیے مغفرت کی دعا،وہ اب ہم میں تو نہیں لیکن ہم سے بہت اچھی جگہ ہیں ، یقیناًوہاں بھی وہ اسی نعرے کے ساتھ کہ’ سچ کڑوا ہوتا ہے‘ مصروف عمل ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ سید صاحب کی مغفرت فرمائے ،درجات بلند کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے۔ آمین
مرنے والے مرتے ہیں فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں
20نومبر2017
 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1439815 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More