470ھ تا 562ھ
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی کی ولادت یکم رمضان 470ھ بمطابق
1077ءمیں ایران کے جنوبی ساحلی علاقہ قصبہ گیلان (جیلان) میں ہوئی ۔آپ
تصوف کی دنیا کے عظیم بزر گ اور سلسلہ قادریہ کے بانی ہیں اور آپ کا
شمارعالم تصوف کے روحانی پیشواں میں ہوتا ہے ۔آپ نے اپنی تعلیمات سے عالم
اسلام کے مسلمانوں کے قلوب میں خوف خدا اور عشق مصطفی ﷺ کی شمع روشن کی ۔آپ
کے والد گرامی کا نام حضرت سیدابوصالح موسیٰ ؒ اور والدہ کا نام حضرت سید ہ
بی بی ام الخیر ہے۔ والد کی طرف سے آپ کا سلسلہ نسبؒ حضرت امام حسن ؓ سے ہے
جبکہ والدہ کی طرف سے آپ کا سلسلہ نسب حضرت امام حسین ؓ سے ملتاہے اسی لیے
آپ کو الحسنی الحسینی کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔آپ کا خاندان دین دار
اور علم و معرفت کا آفتاب گھرانہ تھا ۔آپ ؒ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد
گرامی سے حاصل کی آپ فطری طور پر بہت ذہین تھے بہت ہی کم عمر میں قرآن مجید
حفظ کیا تقریباً 4یا 5سال کی عمر میں گیلان کے مقامی مدرسہ جیلان میں داخلہ
لیااور 5برس تک وہاں دینی تعلیم حاصل کرنے میں مشغول رہے۔اسی دوران آپ کے
والد کا وصال ہوگیا اور آپ اپنے نانا حضرت شیخ عبداﷲ صمعی ؒ کے زیر سایہ
پرورش پاتے رہے ،حضور غوث الاعظم کی شخصیت نہایت ہی شفیق ،صابرو شاکر تھی ،بچپن
میں زیادہ تر وقت ذکر اذکار میں گذارا کرتے ،کھیل کود کی طرف کبھی مائل نہ
ہوتے ۔مدرسہ جیلان سے تعلیم حاصل کر نے کے بعد اعلی تعلیم کے لیے بٖغداد کی
طرف ہجرت کا سفر شروع کیاتقریباً 400میل دور مسافت طے کر کے 488ھ میں
بمطابق 1090 میں آپ بغداد پہنچے ۔ ان دنوں بغداد کاشمار ترقی یافتہ شہروں
میں ہوتا تھا اس لیے وہاں کم دینارکے ساتھ گذر بسر کرنا بہت مشکل تھا ،
بغداد کی جامعہ نظامیہ میں داخلہ لیا اور وہاں حضرت ابو سعید المخرمی ،حضرت
ابوغالب احمد ،حضرت ابو قاسم علی،حضرت ابوزکریا یحییٰ طبریزی جیسے معروف
علماء کرام سے درس نظامی کی کتب فقہ ،تفسیر ،علم حدیث،صرف و نحو کی کتابیں
پڑھی،آپ حضرت امام احمد بن حمبل کے مقلد تھے ، طالب علمی کے دور میں ایک
مرتبہ بغداد میں زبردست قحط پڑا اور اتنا سخت کہ نوبت یہاں تک آگئی کہ لوگ
درختوں کے پتے کھا کر گذارا کرتے آپ ان دنوں بھوک کی شدت پر صبر فرماتے اور
پتوں کی تلاش میں دریائے دجلہ کے کنارے تشریف لے جاتے وہاں پہلے سے لوگوں
کا ہجوم دیکھ کر آپ واپس لوٹ آتے ۔
آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ طالب علمی کے دورمیں ایسی سختیاں اور مصیبتیں میں
نے برداشت کی ہیں کہ اگر وہ کسی پہاڑ پر آتی تو وہ پھٹ جاتا جب بھی مجھ پر
مشکلات آتی یا فاقہ کی حالت میں جسم کمزوری محسوس کرتا تو میں قرآن کریم کی
اس آیت کا کثرت سے ورد کیا کرتا
ــ بے شک ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔
دینی تعلیم سے سیراب ہونے کے بعد اب علم تصوف کی جستجو پیدا ہوئی عقل کی
دنیا تو روشن ہو ہی چکی تھی اب قلب کی دنیا روشن کرنے کے لئے طلب تھی ایک
کامل شیخ کی جس کے دامن سے وابستہ ہو کر تصوف طریقت کی منازل طے کی جائیں
حقیقت بھی یہی ہے کہ انسان اگرچہ کتنی ہی کتابیں پڑھ لے مگر تصوف وطریقت کی
منازل کے ارتقاء کے لیے کسی بزرگان دین کا دامن تھامنا ازحد ضروری ہے حضور
شیخ عبدالقادر جیلانی کامل شیخ کی تلاش میں بغداد کی بستیوں میں سفر کرتے
اورایک دن آپ کی ملاقات بغداد کے ایک مشہور صوفی بزرگ حضرت شیخ حماد بن
مسلم سے ہوئی آپ اپنے مرشد کی بارگاہ میں فیوض برکات اور علم طریقت سیکھنے
کے لیے ان کی محافل میں باقا ئدگی سے شریک ہوا کرتے ایک مرتبہ آپ کے شیخ نے
تزکیہ نفس کی اصلاح کی نیت سے آپ کو دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ تم مولوی لوگ
کا ہم درویشوں کی محفل میں کیا کام ؟ لیکن آپ پھر بھی اپنے شیخ کی محفل میں
باقائدگی سے شریک ہوتے ۔اس واقعہ کے بعد کچھ لوگوں نے آپ پر لعن طعن شروع
کر دی مگر آپ صبر و تحمل سے اپنی منزل کی جانب روادوا رہے جب اس معاملہ کی
اطلاع آپ کے شیخ کو ملیں تو آپ کے شیخ نے ان مریدوں کی سخت سرزش فرمائی اور
فرمایا کہ عبدالقادر ابھی معرفت کی منازل طے کر رہا ہے اسی لیے میں اس کی
نفس کی اصلاح کے لیے کبھی کبھی سختی کرتا ہوں مگر تم لوگوں کو کوئی حق نہیں
پہچتا کہ تم عبدالقادر کو کچھ برا بھلا کہو ،عبدالقادر جیلانی افتاب کی وہ
روشنی ہے جب وہ اجاگر ہوگی تو تم سب کے روشن چراغ ٹم ٹما جائیں گے ۔
معرفت کی منازل طے کرنے کے بعد شیخ حماد نے آپ کو خرقہ ولایت عطا کیا اور
آپ کو اپنے مدرسہ کا مہتہم مقرر فرماکر خود گوشہ نشینی اختیار کرلی، اس طرح
یہاں سے آپ کی تدریسی وتبلیغی زندگی کا آغاز ہوا ۔آپ جب ممبرپر وعظ و نصیحت
فرمایا کرتے اور کثیر تعداد میں عوام کا مجمعہ آفتاب ولایت کے روحانی فیض
سے سیراب ہوا کرتا اسی دوران کچھ شاگرد آپ کے ملفوظات تحریری طور پر محفوظ
فرمایا کرتے تھے دور تدریس و تبلیغ میں آپ نے بہت سی کتابیں تصنیف فرمائی
جن میں سے کچھ مشہور تصانیف یہ ہیں،فتح الغیب ،الفتح الربانی،
جلاالخواطر،آداب السلوک والتوصل الی منازل السلوک،حزب الرجاء
والانتہاء،الحزب الکبیر،دعائاور ادالفتحیہ،الرسالتہ فی الاسماء
آپ کی روحانی اور علمی شخصیت سے بے شمار لوگ سیراب ہوئے ہیں اور آپ کے
خلفاؤں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے جن میں سے ابوعمرو عثمان بن مرزوق
قرشی،نزیل مصر،شیخ ابومدین،قاضی ابویعلیٰ محمد بن الفرا،ابو محمد حسن
الفارسی،ابو محمد عبداﷲ بن احمد بن خشاب،عبدالمغیث بن زہر،حافظ العراق ،ابو
عمر و عثمان بن اسماعیل بن ابراہیم سعدی،ابو عبداﷲ محمد بن ابراہیم معروف
ابن الکیرانی،ابومحمداسلان بن عبداﷲ ،ابوالسعوداحمد بن ابی بکر الحریمی،ابو
عبداﷲ محمد بن ابی المعالی وغیرہ کے علاوہ شاگردوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے
جو عالم دنیا میں دین متین کی خدمت کے لیے پھیل گئے تھے۔
اولیاکاملین کا شروع دور سے یہ معمول رہا ہے کہ وہ بارگاہ خداوندی میں
نہایت عجز و انکساری کے ساتھ سرجھکاتے ہیں اور کبھی اپنے گلے میں دنیا کا
طوک نہیں پہنتے وہ ہمیشہ اپنے رب کے حضور سربسجود رہتے ہیں اور دنیا کے تخت
و تاج کے ساتھ کسی بھی قسم کی وابستگی سے اپنے آپ کو منسلک نہیں کرتے ،سیدنا
غوث پاک کی شخصیت میں بھی ہمیں کچھ ایسے معملات دیکھنے کو ملتے ہیں چناچہ
قلائد الجواہر میں حضرت خضر سے منقول ہے کہ میں تیرہ سال حضور محبوب سبحانی
کی بارگاہ میں حاضر خدمت رہا میں نے کبھی حضرت کو کسی بڑے دنیا دار آدمی کے
لیے کھڑے ہو کر استقبال کرتے نہیں دیکھا یا کبھی میں نے انہیں بادشاہ سے
سوال کرتا نہ پایا ،کبھی دنیا دار لوگوں کی محفل میں ان لوگوں کے ساتھ
کھانا تناول فرماتے نہیں دیکھا یہاں تک کہ بادشاہوں کے نرم آرام دے بستروں
پر بیٹھنے کو ایسی سزا قرار دیتے تھے جو انسان کو اس دنیا میں دے دی گئی
ہوبسا اوقات کسی محفل میں بادشاہ یا وزراء کی شرکت ہو رہی ہوتی تو آپ کا یہ
معمول تھا کہ آپ گھر تشریف لے جاتے ،جب وہ لوگ آکر بیٹھ جاتے تو آپ تشریف
لاتے اس طریقہ کا مقصد یہ تھا کہ کھڑے ہو کر ان کا استقبال نہ کرنا پڑے ۔ان
کو ہمیشہ مؤثر انداز میں نصیحت فرماتے اور سلطان الوقت آپ کے سامنے عجز و
انکسار کا پیکر بن کر حاضر ہوا کرتا اور غور سے آپ کی نصیحت سنا کرتاتھا ،ایک
دفعہ خلیفہ وقت مستنجدباﷲ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوااور ساتھ ہی درخواست کی
کہ مجھے کچھ وعظ و نصیحت فرمائیں وہ اپنے ساتھ حضرت کی بارگاہ میں نظرانے
کے طور پر کچھ بورے بھی لایا ہوا تھا جس میں درہم و دینار بھرے ہوئے تھے جب
اس نے یہ بورے آپ کی خدمت میں پیش کیے کہ آپ اس نظرانے کو قبول فرمائیں تو
آپ نے صاف انکار کر دیا جب اس نے زیادہ اصرار کیا تو آ پ نے اس میں سے دو
بورے اٹھائے اور ہاتھوں میں دبائے بورے کے دبانے پر ان میں سے خون ٹپکنے
لگا آپ نے فرمایا اے ابو المظفر ! تمہیں اﷲ سے حیا نہیں آتی لوگوں کا خون
چوس کر لاتے ہو اور مجھے پیش کرتے ہو یہ منظر دیکھ کر سب حیرا ن رہ گئے اور
خلیفہ بہت زیادہ شرمندہ ہوا۔
حضور غوث پاک کی شخصیت ایک عالم تصوف تک محدود نہ تھی بلکہ آپ ایک انتہائی
باعمل عالم شریعت بھی تھے فرائض اور دیگر واجبات کی پابندی فرماتے اور
نوافل کثرت سے پڑھا کرتے آپ کے نزدیک اعمال کے بغیر اقوال کی کثرت کوئی
فائدہ نہیں ۔ آپ کے انداز بیان میں خوف خدا اور زہد تقوٰ ی کے سنہرے موتی
جھڑتے ہوئے نظر آتے ہیں جس کا اندازہ آپ ان کے اس خطبہ سے کیجیے جس میں یہ
شہر والوں سے خطاب کر رہے ہیں آپ شہر والوں کو اپنی طرف متوجہ کر کے ارشاد
فرماتے ہیں ’’ شہر والو ! تمہارے اندر نفاق بڑھ گیا ہے اور اخلاص کم ہوگیا
ہے ،اعمال کے بغیر اقوال کی کثرت ہے عمل کے بغیر قول فائدہ نہیں دیتا ،وہ
تیرے حق میں نہیں بلکہ تیرے مخالف دلیل ہے وہ بے جان جسم ہے وہ ایک ایسا بت
ہے جس کے نہ ہاتھ ہیں نہ پاؤں اور نہ ہی اس میں پکڑنے کی صلاحیت ہے ،تمہارے
اکثر اعمال بے روح لاشے ہیں ،روح کیا ہے ؟اخلاص ،توحید ،اﷲ تعالیٰ کی کتاب
اور رسول ﷺکی سنت پر ثابت قدمی‘‘(حوالہ:الفتح الربانی)
علماء کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ علم چھلکا ہے اور عمل مغز
چھلکے کی حفاظت اس لیے کی جاتی ہے کہ مغز محفوظ رہے اور مغز کی حفاظت اس
لیے کی جاتی ہے کہ اس سے تیل نکالا جائے وہ چھلکا کس کام کا جس میں مغز نہ
ہو اور وہ مغز کس کام کا جس میں تیل نہ ہو علم ضائع ہو چکا ہے کیوں کہ جب
علم پر عمل نہ رہا تو علم بھی ضائع ہوگیا،عمل کے بغیر علم کا پڑھنا کیا
فائدہ دے گا ؟اے عالم ! اگر تو دنیا اور آخرت کی بھلائی چاہتا ہے تو اپنے
علم پر عمل کر اور لوگوں کو علم سکھا(ایضاً)
حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی ؒ کے دور میں مسلمان کئی فتنوں کا شکار تھے آپ نے
ان سب فتنوں کا بڑی دلیری سے مقابلہ کیا اور امت مسلمہ کی ڈوبتی کشتی کو
سہارا دینے میں کوئی کثر نہ چھوڑی ۔ حکمرانوں کے باہمی جھگڑے اور اختلافات
اور اقتدار پر قبضہ جمائے رہنے کی ہوس رعایا کے ساتھ ظالمانہ رویے ،علماء
سو کی وزراء کی چاپلوسی اور احکام شریعت کو پس پشت ڈال کر دنیا کا مال جمع
کرنااور صوفیاء کرام کی تبلیغ دین سے بے رخی اور دنیاوی مال و متاع کی محبت
اور مسلمانوں کے سیاسی زوال کے نتیجے میں جو نت نئے فتنہ امت میں پیدا ہوئے
ان سب کے ادراک کے لیے حضور سیدنا شیخ عبدالقادرجیلانی نے ممبر و محراب میں
وعظ و نصیحت کے ذریعے ان سب فتنوں کا بڑی دلیری سے مقابلہ کیا ۔یہی وجہ ہے
کہ حضور محبوب سبحانی کے خطبوں میں اخلاص ،ﷲیت اور خشیت الہی کا ذکر نظر
آتا ہے اور سامعین کو ساتھ ساتھ اعمال صالحہ کی طرف متوجہ ہونے کی ترغیب دی
جاتی ہے ،مسلمانوں کے سیاسی اور فکری طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے دشمنان
دین کے نئے ہتھکنڈوں سے اسلام پر حملہ آورہونے کے سبب اسلام کی حقانیت اور
توحید پر بہت زیادہ زور دیا گیا اور ملت اسلامیہ کے تمام فرزندوں کو
کامیابی کا راستہ صرف اور صر ف مسلمان بننے پر قرار دیا گیا ہے،چھٹی صدی
میں خلافت عباسیہ کے دور میں منطق اور فلسفہ اور دیگر علوم کا مواد دوسری
زبانوں سے عربی زبان میں منتقل کیا اور اس کام کا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمانوں
میں فلسفی افکار اور نظریات سے متاثر ہونے لگے اور یوں آپ نے ممبر و محراب
کے ساتھ قلم کے ذریعے بھی ان فتنوں کا سدباب کیا ۔ حضرت عبدالقادر جیلانی ؒ
نے سچے جذبے کے ساتھ دین متین کی خدمت کا کام انجام دیا اور اسے اپنی زندگی
کا مقصد بنالیا اور اتنی لگن کے ساتھ دین کی خدمت میں مصروف رہا کرتے تھے
کہ جب کبھی آپ کی اولاد میں سے کسی کی وفات کی اطلاع ملتی تو مجلس اور خطاب
کو جاری رکھتے اور جب جنازہ حاضر ہوتا تو کرسی سے اتر کر نماز جنازہ ادا
فرماتے ، حضرت محبوب سبحانی اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میرے ہاں جب کسی بچہ
کی ولادت ہوتی تو میں اسے ہاتھوں میں اٹھا کر کہا کرتا کہ یہ میت ہے اس کے
پیدا ہوتے ہی میں اسے اپنے دل سے نکال دیتا تھا،(الطبقات الکبرٰی)
آپ کا وصال 11 ربیع الثانی 562ھ کو بمطابق1166ء کو ہو اوصال کے وقت آپ
کافی علیل تھے ۔ آپ کا عرس ہر سال دنیا بھر میں عقیدت واحترام سے منایا
جاتا ہے جبکہ لاکھوں عقیدت مند آپ کے ایصال ثواب کے لیے نظر و نیاز کا
اہتمام کرتے ہیں اور قرآن خوانی و محافل ذکر و اذکار کا گیاروین شریف کے
نام سے شاندار طریقے سے انعقاد کیا جاتا ہے آخری وقت میں آپ کے صاحبزادے
حضرت عبدالوہاب نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے وصیت فرمائیے کہ آپ کے
بعد کیا عمل کروں تو آپ نے فرمایا تم پر خدا سے ڈرنا واجب ہے ،اس کے علاوہ
کسی سے بھی خائف نہیں ہونا اورنہ کسی سے کوئی امید رکھنا اپنے سب کام
خداتعالیٰ کے سپرد کر دینا اس کے سوا کسی پر بھروسہ نہ کرنا اور اپنی ہر
حاجت اس سے مانگنا اس کے سوا کسی پر وثوق نہ کرنا توحید پر قائم رہنا اس پر
سب کا اجماع ہے جب بندے کا لگاؤخدا کے ساتھ ہوجاتا ہے تو ماسویٰ اﷲ میں سے
کوئی چیز نہ اس میں داخل ہوتی ہے نہ باہر جاتی ہے میں ایسا مغز ہوں جس کا
پوست نہیں میں بظاہر تمہارے ساتھ ہوں مگر باطن میں کسی اور کے قریب ہوں تم
پر اﷲ کی سلامتی ہو رحمتیں اور برکتیں ہوں اﷲ تعالیٰ ہماری اور تمہاری
مغفرت فرمائے اور بسم اﷲ ہماری اور تمہاری طر ف اس طرح رجوع کرے کہ وداع نہ
ہو۔۔۔۔
اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے ہمیں اپنے بزرگان دین کی سیر ت و کردار کی پیروی کرنے
کی توفیق عطافرمائے اور ہمارا خاتمہ بھی ایمان پر کرے ۔ آمین |