امریکا اور چین کی تجارتی جنگ

چین ہر سال امریکہ کو تقریباً پانچ سو ارب ڈالر کی چیزیں بیچتا ہے، جبکہ وہ امریکہ سے صرف ڈیڑھ سو ارب ڈالر کی چیزیں خریدتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین کو تجارت میں تین سو پچاس ارب ڈالر کا فائدہ ہو رہا ہے۔ لیکن یہ مسئلہ صرف اتنا سا نہیں ہے۔ یہ ساری چیزیں چین کی اپنی کمپنیوں کی بنی ہوئی نہیں ہوتیں۔ بہت سی امریکی اور یورپی کمپنیاں چین میں اپنی فیکٹریاں لگاتی ہیں۔ وہ چیزیں چین میں بنائی جاتی ہیں، لیکن اصل میں وہ امریکی کمپنیوں کی ہوتی ہیں۔ مثلاً ایپل فون چین میں بنتا ہے، لیکن یہ امریکہ کی کمپنی ہے اور وہ فون آخرکار امریکہ یا دوسرے ملکوں میں جا کر فروخت ہوتا ہے۔ اسی طرح کئی گاڑیاں جو چین میں بنتی ہیں، وہ بھی امریکی یا یورپی کمپنیوں کی ہوتی ہیں۔

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ چین کی جو ایکسپورٹ ہے، اس میں کئی ایسی چیزیں شامل ہیں جو اصل میں امریکہ کی اپنی کمپنیوں کی ہیں۔ تو یہ سوچنا ٹھیک نہیں کہ ٹیرف لگانے سے صرف چین کو نقصان ہو گا۔ اصل میں چین کے اندر امریکہ کی بہت زیادہ سرمایہ کاری ہے۔ امریکہ کی کمپنیاں سستی لیبر کی وجہ سے چین میں چیزیں بناتی ہیں اور پھر وہی چیزیں امریکہ میں لا کر بیچتی ہیں۔ اس لیے اگر ہم صرف اعداد و شمار دیکھیں تو ٹیرف وار میں چین کو اتنا نقصان نہیں ہو رہا جتنا نظر آ رہا ہے۔ حقیقت میں تصویر کچھ اور ہے۔

امریکہ نے جو ٹریڈ وار شروع کی ہے وہ اپنی بگڑتی ہوئی معاشی حالت کو سنبھالنے کی ایک کوشش ہے لیکن سچ یہ ہے کہ امریکہ اقتصادی جنگ پہلے ہی ہار چکا ہے۔ دو ہزار آٹھ میں جب مالی بحران آیا تھا، تب سے امریکہ بس ڈالر چھاپ رہا ہے۔ وہ اصل میں کوئی ایسی چیز نہیں بنا رہا جو دنیا میں بڑی تعداد میں بک سکے۔ ٹیسلا جیسے ادارے بھی سرکاری امداد پر چل رہے ہیں۔ اسپیس ایکس کو بھی امریکہ کی حکومت پیسے دیتی ہے، کیونکہ اس کا بڑا خریدار خود امریکہ ہے۔

اب اگر بات ہو گوگل، فیس بک یا ٹوئٹر جیسی کمپنیوں کی، تو وہ بھی اس وجہ سے کامیاب ہوئیں کہ امریکہ کا مالی نظام ان کے پیچھے تھا۔ لیکن اب دنیا بدل رہی ہے۔ دوسری طرف دیکھیں تو چین کے پاس اپنی بڑی مارکیٹ ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ چیزیں چین میں ہی کھپتی ہیں۔ ایپل ہو یا جاپانی یا جرمن کاریں، سب سے زیادہ خریداری چین میں ہی ہوتی ہے۔ اور چین اپنی خریداری ین چھاپ چھاپ کر نہیں کرتا۔ وہ سچ مچ کی معیشت پر انحصار کرتا ہے، اس کی خریداری رئیل ہے، امریکہ کے برعکس جو ڈالر چھاپ کر چیزیں خریدتا ہے۔

اگر امریکہ چین سے تجارتی جنگ کرے گا، تو اسے ایک بہت بڑی مارکیٹ کھونا پڑے گی۔ چین اب تقریباً ہر وہ چیز خود بنا سکتا ہے جو امریکہ یا یورپ بناتے ہیں۔ اگر چین اور دوسرے ایشیائی ملک مل کر کام کریں، تو چین کو امریکہ یا یورپ کی بالکل بھی ضرورت نہیں رہے گی۔ چین خود ایک بہت بڑی دنیا ہے۔ سوا سو سال پہلے پوری دنیا کی آبادی ڈیڑھ ارب تھی، آج اکیلا چین اتنے لوگوں پر مشتمل ہے۔

اس سب کا مطلب یہ ہے کہ اگر امریکہ اپنی تجارتی جنگ جاری رکھے گا، تو اسے اس کا بہت نقصان ہوگا۔ امریکہ کو اپنی معیشت بچانے کے لیے اور بھی زیادہ ڈالر چھاپنے پڑیں گے۔ جب ڈالر بہت زیادہ ہو جائیں گے، تو ان کی قیمت کم ہو جائے گی۔ اور ایک دن آئے گا جب دنیا ڈالر کو چھوڑنے لگے گی۔ پھر ڈالر کی قیمت اتنی گر جائے گی کہ اس سے کچھ خریدنا بھی ممکن نہیں رہے گا۔ جو لوگ اقتصادیات کی تھوڑی بھی سمجھ رکھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ جب نوٹ بہت زیادہ چھاپے جائیں، تو وہ آخرکار بے کار ہو جاتے ہیں۔

اسی لیے اب دنیا کی نظریں اس بات پر ہیں کہ امریکہ کیا کرتا ہے۔ اگر وہ گرم جنگ یعنی اصل لڑائی شروع کرتا ہے، تو شاید کچھ وقت کے لیے اپنے نقصان کو روک سکے۔ لیکن اگر ایسا نہ ہوا، تو پھر دنیا کی قیادت اب آہستہ آہستہ چین کے ہاتھ میں جا رہی ہے۔
 

Rasheed Ahmed
About the Author: Rasheed Ahmed Read More Articles by Rasheed Ahmed: 15 Articles with 4058 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.