یوپی میں کابا ؟یوگی کہاں با؟؟

نیہا سنگھ راٹھور کا سیاسی نغمہ’یوپی میں کابا ؟‘ سبھی نے سنا ہوگا اب سوال پیدا ہوتا ہے’یوگی کہاں با؟‘ اترپردیش میں جنگل راج ختم کرنے کا دعویٰ کرکے بی جے پی برسرِ اقتدار آئی۔ وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ نے پیشہ ور مجرمین کو زمین کے نیچے یا آسمان کے اوپر بھیجنے کی خاطر فیک پولیس انکاونٹر تک شروع کردیا مگر جرائم ختم ہوئے یا بڑھ گئے؟ این سی آر بی کی سرکاری رپورٹ کے اعدادو شمار اور میڈیا میں شائع ہونے والی خبریں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ جرائم کے خاتمے کا دعویٰ ایک فریب سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اترپردیش کے اندر جرائم کا ٹھیکرا مسلمانوں پر پھوڑ کر رکن پارلیمان عتیق احمد کا قتل کروا نے کے بعد عوام کو یہ دھوکہ دیا گیا کہ اب ’سب کچھ چنگا سی‘ ۔ مختار انصاری کی موت پر خوشی منائی گئی لیکن جرائم کی تعداد کے ساتھ اس میں ہونے والی سفاکی میں بھی بہت اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ حد تو یہ ہے بی جے پی سے ہمدردی رکھنے والی بہوجن سماج پارٹی کی صدر مایاوتی کو بھی اس پر اظہار خیال کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔

بی ایس پی سپریمو نے فتح پور میں کسان خاندان کے تین افراد کے قتل کو امن و امان کی کمزوری قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ قصورواروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرکے متاثرہ خاندان کو انصاف فراہم کرے۔ مایاوتی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ، "یوپی میں، ہر روز چھوٹے چھوٹے مسئلے پر لوگوں کا استحصال ہوتا ہے اورانہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فتح پور ضلع میں ایک ہی کسان خاندان کے 3 ٹھاکروں اور ایک دلت کا قتل کردیا گیا ۔ اس کے سبب سے وہاں عوام میں کافی خوف و ہراس ہے۔اس معاملے میں مقتول کسان رہنما چونکہ راجپوت ہے اس لیے اس پر میڈیا میں خوب لکھا گیا مگردلت کو پوری طرح نظر انداز کردیا گیا کیونکہ یوگی راج میں ٹھاکر کا خون خون ہے اور سانبھا کا پانی! فتح پور میں حسین گنج تھانے کے تحت جس28 سالہ دلت کسان رام بابوکی لاش پیڑ سے لٹکی ملی وہ ٹریکٹر ٹرالی لے کر رات میں گیہوں کی کٹائی کے لیے گئے تھے۔ متوفی کے والد رگھوراج پال اسے خودکشی کی واردات نہیں مانتے بلکہ گاوں کے ہی راج کرن پر قتل کا الزام لگاتے ہیں۔ان کے مطابق راج کرن اور اس کی بیوی کے ساتھ ان کے بیٹے کا دو دن قبل تنازع ہوگیا تو اس نے رام بابو کو جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی ۔

یوگی راج میں ٹھاکروں کے خلاف ایک دلت کو تحفظ دینا پولیس کے لیے ناممکن ہے۔ اتر پردیش میں دلتوں پر ہونے والے مظالم کو کس طرح دبایا جاتا ہے اس کا سب سے بڑا ثبوت تو بے قصور معروف صحافی صدیق کپن ہیں ۔ ان کو ملک سے غداری کا بے بنیاد الزام لگا کر ڈھائی سال تک جیل میں رکھا گیا ۔ کپن کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ ہاتھرس میں دلت لڑکی پر ٹھاکروں کے حملے یعنی عصمت دری اور قتل کو بے نقاب کرنے کی خاطر جائے واردات پر جارہے تھے۔ اسی زمانے میں ضلع فتح پور کے اندر بھی دو دلت لڑکیوں کی موت کے بعد پولیس نے دو صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرلیا تھا ۔ پولیس کا الزام تھا کہ دونوں صحافیوں نے متوفی سے متعلق خبروں کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے۔ اس وقت پرینکا گاندھی نے فیس بک پر یوگی سرکار کی تنقید میں لکھا تھا کہ’ فتح پور میں دو بہنوں کی موت کے بعد متاثرہ خاندان کے حق میں خبر دکھانے والے دو صحافیوں کے خلاف یوپی سرکار نے مقدمہ درج کیا ہے۔ اب تک سرکار سچائی دکھانے کے لئے ایک درجن سے زیادہ صحافیوں پر مقدمہ کر چکی ہے‘۔

کانگریس کے سابق ریاستی صدر اجے کمار للو نے اس واقعہ کے بعد یوگی سرکار پر الزام لگایا تھا کہ "وہ ملک کو دوہرے نظریہ سے دیکھتے ہیں ‘۔ انہوں وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کو خبردار کیا تھا کہ’ آپ جمہوریت کا قتل کرنے پر آمادہ ہیں، آپ دستور کی بنیادی ڈھانچہ ختم کرنے پر آمادہ ہیں۔ اتر پردیش اور ملک کبھی آپ کو معاف نہیں کرے گا‘۔اتر پردیش میں صحافیوں کے خلاف نہ صرف ایف آئی آر درج کی گئی بلکہ کئی صحافیوں کا قتل بھی کیا گیا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال سیتا پور میں صحافی راگھویندر باجپئی کے قتل ہے۔اس کی سپاری کوری دیو مندر کے پجاری بابا شیوانند عرف وکاس مشرا نے دی تھی۔ یوگی کے جنگل راج میں امسال 8 مارچ کو ریلوے اوور برج پر دن دہاڑے گولی مار کررگھویندر کوہلاک کردیا گیا ۔ تحقیقات کے بعد پولیس نے انکشاف کیا کہ بابا کا ایک نابالغ لڑکے سے ناجائز رشتہ تھا۔واجپائی کو پجاری کی بدفعلی کو سب کے سامنے لانے کی بات کہی تو ڈھونگی بابا نے 4 لاکھ روپے دے کر کرایہ کے شوٹر سے صحافی کا قتل کروا دیا۔ اس طرح آسا رام باپو کی فہرست طویل ہوگئی۔ کیا یہی رام راجیہ ہے؟

اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ریاست کی ہمہ جہت ترقی کے دعووں کے باوجود حکومت نے پچھلے سالوں میں ریاست کے ساڑھے چار کروڑ سے زیادہ اَن آرگنائزڈ سیکٹر کے مزدوروں کے لیے کچھ نہیں کیا ہے۔

ریاست کا بجٹ 8 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ ہے، لیکن حیرت کی بات ہے کہ یوگی حکومت نے گزشتہ چار سالوں میں اَن آرگنائزڈ سیکٹرکے مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی رقم خرچ نہیں کی۔

دی وائر نے 17 فروری کو معلومات کے حق کے قانون کے تحت ریاستی حکومت کی طرف سے اَن آرگنائزڈ سیکٹر کے مزدورں کے لیے چلائی جانے والی اسکیموں کے بارے میں ایک درخواست داخل کی تھی۔ اس درخواست کے ذریعے ریاست کے سوشل سکیورٹی بورڈ سے اَن آرگنائزڈ مزدروں کے لیے اسکیموں اور ان پر پچھلے چار سالوں میں کیے گئے اخراجات کی تفصیلات مانگی گئی تھیں۔

اتر پردیش کے اَن آرگنائزڈ سیکٹر کے مزدوروں کا رجسٹریشن اور ان کے لیے سماجی تحفظ کی اسکیموں کے نفاذ کی ذمہ داری سوشل سکیورٹی بورڈ کی ہے۔

درخواست میں سوال پوچھا گیا تھاکہ مالی سال 2021-22، 2022-23، 2023-24 اور 2024-25 میں ریاستی حکومت نے اَن آرگنائزڈ سیکٹرکے مزدوروں کے لیے کس اسکیم کے تحت کتنا بجٹ منظور کیا اور اس بجٹ کا کتنا حصہ خرچ کیا گیا؟
اس کے جواب میں بورڈ نے بتایا کہ؛

‘پہلے تین مالی سالوں میں 112 کروڑ روپے’ ​​اور ‘2024-25 میں 92 کروڑ روپے’ ​​مختلف اسکیموں کے لیے مختص کیے گئے ۔ لیکن یہ رقم خرچ نہیں ہو سکی کیونکہ اَن آرگنائزڈ مزدوروں کے لیے کوئی اسکیم نہیں چلائی جا رہی تھی۔’

اس کا مطلب ہے کہ پچھلے چار سالوں میں یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے نہ تو کوئی اسکیم نافذ کی اور نہ ہی ریاست کے اَن آرگنائزڈ مزدوروں کے لیے ایک پیسہ خرچ کیا۔
اگلا سوال یہ تھا کہ کیا اتر پردیش کے اَن آرگنائزڈ مزدوروں کے لیے اعلان کردہ اسکیموں کی تشہیر کا کوئی نظام ہے؟ اگر ہاں تو اس کے لیے مذکورہ چار سالوں میں کتنا بجٹ مختص کیا گیا اور کتنا خرچ کیا گیا۔
سوشل سکیورٹی بورڈ نے جواب دیا کہ مالی سال 2021-22 میں پانچ لاکھ روپے اور سال 2022-23، 2023-24 اور 2024-25 میں سات لاکھ اسی ہزار روپے ان سکیموں کی تشہیر کے لیے مختص کیے گئے تھے، لیکن یہ رقم خرچ نہیں ہو سکی کیونکہ کوئی اسکیم نہیں چل رہی تھی۔

ظاہر ہے کہ جب محکمہ کوئی اسکیم نہیں چلا رہا تھا تو ان کی تشہیر کا کوئی مطلب نہیں تھا۔

سوشل سیکورٹی بورڈ سے یہ بھی پوچھا گیا کہ ان مالی سالوں میں اَن آرگنائزڈ سیکٹر کے مزدوروں سے لیبر ڈپارٹمنٹ کو مالی مدد کے لیے کتنی درخواستیں موصول ہوئیں اور کتنے مزدوروں کی مدد کی گئی۔ جواب میں بورڈ نے کہا کہ اسے ایسی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔

‘حکومت ہند کے پورٹل ای شرم کے مطابق، ملک میں 30.68 کروڑ سے زیادہ اَن آرگنائزڈ مزدرو ہیں، جن میں نصف سے زیادہ خواتین (53.68 فیصد) ہیں۔ اس میں سے تقریباً 8 کروڑ 38 لاکھ مزدور اتر پردیش سے رجسٹرڈ ہیں ۔ یہ ملک میں رجسٹرڈ مزدوروں کا تقریباً 27.5 فیصد ہے۔ اَن آرگنائزڈ مزدوروں کی اتنی بڑی تعداد ہونے کے باوجود ریاستی حکومت کے پاس ان کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

ریاست میں کانٹریکٹ ورکرز کو ہراساں کرنا عام ہے اور بازار میں مزدوروں کی دستیابی ان کی اجرت کی شرح کو کم کرتی ہے۔ اس کے باوجود حکومت کا کہنا ہے کہ اسے پچھلے چار سالوں میں ان مزدوروں کی مدد کے حوالے سے کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔

اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ستمبر 2022 میں جہاں غیر ہنر مند مزدورکی کم از کم اجرت 367 روپے، نیم ہنر مند مزدور 403 روپے اور ہنر مندمزدور کی 452 روپے یومیہ تھی، وہیں یہ 31 مارچ تک بالترتیب 412 روپے، 463 روپے اور 503 روپے یومیہ مقرر کی گئی ہے۔ بے قابو مہنگائی کے مدنظریہ اضافہ انتہائی ناکافی اور ایک عام مزدور کی روزمرہ کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہے۔

خواتین مزدوروں کی حالت کہیں بدتر
چونکہ ملک میں اَن آرگنائزڈ سیکٹر میں کام کرنے والے کل مزدوروں میں سے 53 فیصد سے زیادہ خواتین ہیں، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اتر پردیش میں اَن آرگنائزڈ سیکٹر میں چار کروڑ سے زیادہ خواتین کام کرتی ہیں۔ انہیں یہ روزگار زراعت، تعمیرات اور گھریلو کام کی صورت میں ملتا ہے۔ ریاست میں زراعت کے شعبے میں کام کرنے والی خواتین کو اوسطاً 200 روپے
یومیہ اجرت ملتی ہے۔ یعنی اتر پردیش کی خواتین مزدور چھ سے آٹھ ہزار روپے ماہانہ پر کام کرنے کو مجبور ہیں۔

وہیں، مردوں کی اوسط ماہانہ تنخواہ دس سے گیارہ ہزار کے قریب پہنچتی ہے۔ ریاستی حکومت کے پاس اس بڑی آبادی کو کم از کم اجرت یقینی بنانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ اَن آرگنائزڈ سیکٹر میں کام کرنے والوں کا تعلق ریاست کے دلت، قبائلی اور پسماندہ طبقات سے ہے۔ یہ کمیونٹی اپنی بنیادی ضروریات کے لیے روزانہ جدوجہد کرتی ہے۔

جب دی وائر نے ریاست کے محنت اور روزگار کے وزیر منوہر لال سے پوچھا کہ حکومت نے ان مزدوروں کی بہبود کے لیے مختص رقم کیوں خرچ نہیں کی، تو انھوں نے جواب دیا، ‘اس موضوع پر انھیں کوئی معلومات نہیں ہے۔’

جب ہم نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ریاستی ترجمان راکیش ترپاٹھی سے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی کہا، ‘میرے پاس اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں ہے۔

کیا آپ یقین کریں گے کہ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم کو چوہوں نے کتر کر خراب کر دیا؟ ایسا دعویٰ غازی پور ریلوے اسٹیشن کے کچھ افسران نے کیا ہے۔ اتر پردیش کے غازی پور ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر 2 پر گرینائٹ لگا کر پلیٹ فارم تیار کیا گیا ہے، اس کے باوجود پلیٹ فارم جگہ جگہ سے دھنس چکا ہے۔ اس کی جانچ کے لیے جب رکن پارلیمنٹ افضال انصاری اے ڈی آر ایم افسران کے ساتھ پہنچے اور پلیٹ فارم دھنسنے کی وجہ پوچھی تو افسران نے بتایا کہ یہ چوہوں کی کارستانی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ چوہوں نے پلیٹ فارم کو کتر دیا، جس کی وجہ سے پلیٹ فارم جگہ جگہ پر دھنس گیا۔

غازی پور ریلوے اسٹیشن پر پلیٹ فارم نمبر 2 کے علاوہ دیگر کئی مقامات پر زمین جگہ جگہ سے دھنس چکی ہے۔ ٹرین سے اترنے والے مسافروں کو اس سے کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رکن پارلیمنٹ افضال انصاری جب دہلی سے ایوان کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد واپس غازی پور پہنچے اور ٹرین سے اترے تو ان کی نظر پلیٹ فارم پر لگے گرینائٹ پر پڑی، جو جگہ جگہ سے ٹوٹ کر دھنس گیا تھا۔ انھوں نے دیکھا کہ اس سے مسافروں کو بہت دقت ہو رہی تھی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق منگل کے روز بنارس میں ریلوے مشاورتی بورڈ کی ایک میٹنگ منعقد ہوئی تھی جس میں تقریباً 32 اراکین پارلیمنٹ شامل ہوئے تھے۔ میٹنگ میں غازی پور کے رکن پارلیمنٹ نے غازی پور ریلوے اسٹیشن پر چل رہے تعمیری کام میں بدعنوانی کا الزام عائد کرتے ہوئے شکایت کی۔ اس کے بعد وہاں موجود ریلوے جنرل منیجر اور ڈی آر ایم نے فوراً اے ڈی آر ایم کی صدارت میں ایک جانچ کمیٹی بنائی اور اگلے ہی دن، یعنی 9 اپریل کو غازی پور ریلوے اسٹیشن پر بھیج دیا۔ یہاں جانچ غازی پور کے رکن پارلیمنٹ کی دیکھ ریکھ میں ہونی تھی۔ جب ٹیم اور رکن پارلیمنٹ ریلوے اسٹیشن کی جانچ کر رہے تھے اور وہاں پر پلیٹ فارم دھنسنے اور گرینائٹ ٹوٹنے کی وجہ پوچھی گئی، تو افسران نے بتایا کہ پلیٹ فارم کو چوہوں نے اندر ہی اندر کتر دیا ہے۔ اس وجہ سے پلیٹ فارم جگہ جگہ دھنس رہے ہیں۔ یہ بات رکن پارلیمنٹ افضال انصاری کو ہضم نہیں ہوئی، کیونکہ اگر چوہوں کی وجہ سے پلیٹ فارم کا اتنا بڑا نقصان ہوا ہے تو ریلوے کی طرف سے چوہوں کو پکڑنے کے لیے کچھ ترکیب کی جانی چاہیے تھی۔ اس کا جواب افسران کے پاس موجود نہیں تھا۔

پلیٹ فارم کا جائزہ لینے کے بعد رکن پارلیمنٹ افضال انصاری نے بتایا کہ پلیٹ فارم دھنسنے کے پیچھے افسران نے چوہے کی کارستانی بتائی، لیکن یہ بات محض بدعنوانی کو دبانے کے لیے کہی گئی ہے۔ اگر چوہا یا دیمک پلیٹ فارم کا نقصان کر رہے ہیں تو اس کا بھی کوئی نہ کوئی علاج ہوگا، کیونکہ آج سائنس بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ چھوٹی چھوٹی دقتوں کے لیے اتنا بڑا نقصان اور لوگوں کے لیے پیدا مسائل کا حل مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ رکن پارلیمنٹ نے یہ بھی بتایا کہ ریلوے ان گرینائٹ کو لے کر دعویٰ کرتا ہے کہ یہ زلزلہ کو برداشت کرنے والا ہے اور اگلے 100 سالوں تک کسی بھی طرح کا زلزلہ آتا ہے تو اس کو نقصان نہیں ہوگا۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2143 Articles with 1633486 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.