شیوسینا کے سنجے نروپم پر ہندوتوا کا بخارسر چڑھ کر بول
رہا ہے۔اس ہذیانی کیفیت میں من کی بات ازخود زبان پر آگئی۔ وقف ترمیم بل
پر دھمکی آمیز لہجے میں انہوں نے کہہ دیا ’ شاہین باغ بنا تو جلیانوالا
باغ بنادیں گے‘ ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے کل ہند احتجاج پر اس ردعمل نے
ہندوتوا کی تاریخ بے نقاب کردی ۔ احتجاج کے حق کو کچلنے کی خاطر بغیر کسی
مقدمے کے لوگوں کو حراست میں لینے کی خاطر برطانوی حکومت نے رولٹ ایکٹ نامی
قانون بنایا ۔13 اپریل 1919 کو اس کے خلاف مجاہدین آزادی نے احتجاج کیاتو
جلیانوالا باغ میں جنرل ڈائر کی قیادت میں برطانوی فوجیوں نے ایک پرامن
اجتماع پر گولیاں برسا کر سینکڑوں نہتے ہندوستانیوں کا قتل عام کردیا ۔
سوال یہ ہے کہ کیا سنجے نروپم اپنے آپ کو جنرل ڈائر کا وارث سمجھتے ہیں؟
اس کاجواب ہاں ہے کیونکہ اس زمانے میں ہندوتوا نواز ساورکر اپنے معافی
ناموں میں انگریزوں سے بلاشرط وفاداری کی دہائی دےرہے تھے اور آر ایس ایس
مخبری کررہی تھی ۔
106سال بعد بھی ان لوگوں کا ڈی این اے نہیں بدلا ۔ یہ فرق ضرور ہوا ماضی
میں ظالموں کے تلوے چاٹنے والےاب خود ظلم و جبر کے علمبردار بن گئے اور
فخرو بے حیائی سے اپنے ناپاک عزائم کا اظہار کررہے ہیں ۔ قتل عام کے بعد
برطانیہ میں ہیرو بننے والے ڈائر کو اس جرم کی پاداش میں ملازمت سے ہٹایا
گیا۔۷؍ سال کےبعد اسے لقوہ مارگیا اور وہ بہرا ہوکر تنہائی کے عالم میں چل
بسا۔ جنرل ڈائر کے پیروکار بھی اپنے آقاوں کی مانند عوامی احتجاج سے ڈرتے
ہیں اور اسے بزور قوت کچلنے سے نہیں کتراتے مگر انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ
جس طرح جلیان والا باغ کے قاتل کی سفاکی اور وحشیانہ عمل ہندوستان کی
جدوجہد آزادی میں ایک اہم موڑ بن گیا اور آگے چل کر برطانوی سامراج کے
خاتمے کا سبب بنا وہی حشر ان لوگوں کا بھی ہوگا کیونکہ جب تاریخ اپنے آپ
کو دوہرائےگی تو ’جو ڈائر کی چال چلے گا وہ ڈائر کی موت مرے گا‘ ۔
پچھلے انتخاب میں ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا
کے امیدوار سے شکست کھانے والے سنجے نروپم نے کہا کہ شیوسینا (یوبی ٹی) کے
اراکین پارلیمنٹ نے دونوں ایوانوں میں وقف بورڈ ترمیمی بل کی پُرزورمخالفت
کی۔ یہ اعتراف کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق ہے۔ شیوسینا یو بی ٹی رکن
پارلیمنٹ سنجے راؤت نے دعویٰ کیا کہ وقف بل پر ان کی پارٹی سے حمایت حاصل
کرنے کے لیے بی جے پی نے آخر وقت تک کوشاں تھی۔ موصوف کے مطابق بی جے پی
نے نوین پٹنایک کی قیادت والی بی جے ڈی پر بھی دباؤ بناکر لوک سبھا میں
وقف بل پر اس کی حمایت طلب کی تھی۔ اس کے باوجود بی جے ڈی نے بل کی مخالفت
کا فیصلہ توکیامگر پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ کو وہپ جاری کرنے کے بجائے
اپنے ضمیر کی آواز پر دانشمندی سے ووٹ کرنے کا مشورہ دےدیا ۔ سنجے راؤت
کا کہنا ہے کہ بی جے ڈی کی طرح ہی بی جے پی والوں نے شیوسینا پر بھی ڈورے
ڈالے مگر وہ تیار نہیں ہوئی ۔ شیوسینا اگر بی جے پی کے دباو میں آجاتی تو
سنجے نروپم بغلیں بجاتے مگر ناکام ہوگئے تو اول فول بکنے لگے ۔
شیوسینا یو بی ٹی لیڈر کے رہنما سنجے راوت کا دعویٰ ہے کہ یہ بل قانونی
ڈھانچے میں بدعنوانی کوفروغ دینے اور 2 لاکھ کروڑ روپے کی زمین بی جے پی کے
قریبی صنعت کاروں کوعطاکرنے کے لیے لایا گیا ہے۔ایسے میں اگر سنجے نروپم
الزام لگاتے ہیں کہ ادھو ٹھاکرے نے اپنے اراکین پارلیمنٹ کو فون کرکے اس بل
کے خلاف ووٹ ڈالنے کا حکم دیا تو کیا غلط کیا ؟ وہ تو اچھا ہوا کہ ان میں
سنجے نروپم جیسی کالی بھیڑ نہیں تھی ورنہ وہ ہندوتوا کی روایت کو آگے
بڑھاتے ہوئے بِک جاتی ۔ سنجے نروپم نے یہ بھی کہا کہ شیوسینا (یوبی ٹی)
کےاراکین پارلیمنٹ کو اپنی مرضی کے خلاف کو مسلم ووٹ اور اقتصادی دباؤکے
سبب ووٹنگ کرنی پڑی۔ سچ تو یہ ہے کہ اقتصادی لالچ کو ٹھکرا کر یہ ووٹنگ کی
گئی ۔مسلم ووٹ پر لعن طعن کرنے والے سنجے نروپم بھول گئے کہ موصوف نے
مسلمانوں کی ناز برداری کے لیےشیوسینا سے غداری کرکے کانگریس میں شمولیت
اختیار کی تھی ۔ مسلمانوں نے ہی انہیں ایوان زیریں کے لیے ووٹ دے کر کامیاب
کیا تھا ۔ یہ سنجے نروپم کی نمک حرامی ہے کہ اب وہ پالا بدل کر مسلمانوں کو
جلیانوالا باغ کی دھمکی دے رہے ہیں لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ مسلمان
ان کی طرح ڈرپوک اور ابن الوقت نہیں ہیں جو لالچ اور خوف سےرنگ بدلتے رہتے
ہیں ۔
سنجے نروپم نے ادھو ٹھاکرے پر شیوسینا کو کانگریس میں تبدیل کرنے کا الزام
لگایا جبکہ وہ خود کئی سال شیوسینا سے نکل کر کانگریس میں برا جمان رہے۔
ادھوٹھاکرے پرتنقید کرتے ہوئے نروپم نے کہا کہ بالا صاحب ٹھاکرے ہمیشہ
ہندوؤں کے لئے کام کرتے رہے، لیکن ادھوٹھاکرے نے وقف پرووٹنگ کرکے مسلم
تنظیموں کوخوش کرنے کی کوشش کی۔ سوال یہ ہے وہ کس کی خوشنودی کے لیے
کانگریس میں گئے تھے؟ کیا انہوں نے ہندووں کی خاطر بالا صاحب سمیت شیوسینا
کو خیر باد کیا تھا ۔’ بالا صاحب کی روح ادھو ٹھاکرے کوکبھی معاف نہیں کرے
گی‘ کہنے والے سنجے نروپم کو بتانا چاہیے کہ آنجہانی کے نظروں کے سامنے
پارٹی سے غداری کرکے کانگریس میں جانے والے کو کیا ان کی روح معاف کردے گی؟
سنجے نروپم نے کہا کہ آج اردواخباروں میں مسلم لیڈران کے ذریعہ ادھو ٹھاکرے
کی تعریف کی جارہی ہے اور انہیں ‘مسلمانوں کا ہیرو’ قراردیا جا رہا ہے۔ یہ
سنجے نروپم کا احساسِ محرومی ہے۔ ایک زمانے میں وہ مسلمانوں کے ہیرو اور
رکن پارلیمان تھے ۔ اس کے بعد جب انہوں نے چولا بدلا تو نہ لوک سبھا کا ٹکٹ
ملا اور نہ راجیہ سبھا میں نامزد کیا گیا ۔ اسمبلی کا ٹکٹ ملا تو ہار گلے
پڑی اس لیے اب جنرل ڈائر بن گئے ۔ سنجے نروپم کا ہم زادبہار ی نائب وزیر
اعلیٰ وجے کمار سنہا کہہ رہا ہے کہ ، ’’یہ ہندوستان ہے، پاکستان نہیں، لوک
سبھا اور راجیہ سبھا میں بل پاس ہونے کے بعد بھی جو لوگ اسے قبول نہ کرنے
کی بات کر رہے ہیں، وہ ملک دشمن ہیں، ایسے لوگوں کو فوراً گرفتار کر کے جیل
میں ڈال دینا چاہیے۔‘‘ وجے کمار سنہا جیسے جاہلوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ
’بدنامِ زمانہ کسان بل ‘ بھی دونوں ایوانوں میں منظور ہوچکا تھا ۔ اس کے
باوجود دہلی کی سرحد پر اس کے خلاف احتجاج جاری رہا ۔
وجئے کمار بتائیں کہ کیا وہ ملک دشمن تحریک تھی؟ اور اگر تھی تو اس کے آگے
مودی سرکار کیوں سجدہ ریز ہوگئی؟ اس نے اپنی ناک گھس کر کسان قانون کوکیوں
واپس لیا َ؟ وزیر اعظم نریندر مودی نے سرجھکا کر ایوان پارلیمان میں اپنی
ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے یہ کیوں کہا کہ ہم کسانوں کو اپنا موقف سمجھانے
میں ناکام ہوگئے اس لیے اسے واپس لیتے ہیں؟ مسلمانوں کو وقف بل کی مخالفت
کے نتیجے میں جیل بھیجنے کی دھمکی دینے والے والے وجئے کمار سنہا کو معلوم
ہونا چاہیے کہ یہ قوم ایسی گیدڑ بھپکیوں سے نہیں ڈرتی ۔ ہماری صفوں میں
ہاردک پٹیل جیسے بزدل نہیں ہیں جو جیل جانے سے بچنے کے لیے بی جے پی میں
چلے جاتے ہیں بلکہ ہم عمر خالد اور شرجیل امام جیسے جیالے اپنے اندر رکھتے
ہیں جو ٹوٹ تو سکتے ہیں مگر جھک نہیں سکتے ۔
بی جے پی والےاحتجاج سے کس قدر ڈرتے ہیں اس کا مظاہرہ یوگی انتظامیہ نے
رمضان المبارک کے جمعۃ الوداع یعنی 28 مارچ کو کیا ۔ اس دن ملک کے طول و
عرض میں مساجد کت اندر مسلمانوں نے نمازِ جمعہ کے وقت اپنے بازو پر سیاہ
پٹی باندھ کر اپنا وقف ترمیمی بل کے خلاف خاموش احتجاج درج کرایا۔ سارے ملک
میں کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہوا مگر مظفر نگر میں سیاہ پٹی پہن کر مظاہرہ
کرنے والے 24؍ افراد کے خلاف نوٹس جاری کردیا گیا ۔ ان پر کارروائی کرتے
ہوئے احمق انتظامیہ نے انہیں 2-2 لاکھ روپے کا بانڈ بھرنے کی ہدایت بھی دے
دی ۔ پولیس اب سی سی ٹی وی فوٹیج کی بنیاد پر احتجاج کرنے وا لے مزید لوگوں
کو ڈھونڈ رہی ہے۔
ان بے قصور مظاہرین کو 16؍ اپریل کے دن عدالت میں پیش ہوکر بانڈ جمع کرنےکے
لیے کہا گیا ہے۔ پولیس کی اس اوٹ پٹانگ کارروائی نے سبھی کو حیرت زدہ کردیا
۔ لوگ باگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ کیا اب خاموش احتجاجی مظاہرہ بھی
خلافِ قانون ہو گیا؟ یوگی سرکار اسی طرح کی حماقتوں کے سبب آئے دن عدالت
میں رسوا ہوتی رہتی ہے۔اس کی تازہ مثال سپریم کورٹ کے ذریعہ پریاگ راج میں
بلڈوزر سے ڈھائے جانے والے مکینوں کو دس دس لاکھ ہرجانہ ادا کرنے کا حکم ہے
۔ کسی باوقار ادارے یا سرکار کے لیےدس لاکھ جوتوں سے کم نہیں ہے مگر
زعفرانیوں کو شرم نہیں آتی۔ بعید نہیں کہ مظفر نگر معاملے میں بھی پھر سے
یوگی انتظامیہ کو اسی طرح کی رسوائی کا سامنا کرنا پڑے؟ بی جے پی کی رسوائی
و ڈھٹائی پر امیر مینائی کا ایک شعر ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے؎
ملا کر خاک میں بھی ہائے شرم ان کو نہیں آتی
زباں لمبی کئے وہ سامنے مدفن کے چیخے ہیں
|