کالم نگار محمد احمد سبزواری کی رحلت
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
معروف کالم نگار ، ماہر معاشیات محمد احمد سبزوار جو ایم اے سبزواری کاے نام سے معروف تھے 104سال کی عمر میں کراچی میں جمعہ 15 جولائی 2016 کو انتقال کر گئے۔ہماری ویب ’رئیٹرز کلب‘ کالم نگار محمد احمد سبزواری کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتا ہے۔ ہم دعا گو ہیں کہ اﷲ محمد احمد سبزوار کی مغفرط کرے اورانہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔
|
|
|
محمد احمد سبزواری |
|
معروف کالم نگار ، ماہر معاشیات محمد احمد
سبزوار جو ایم اے سبزواری کاے نام سے معروف تھے 104سال کی عمر میں کراچی
میں جمعہ 15 جولائی 2016 کو انتقال کر گئے۔ ایم اے سبزواری روزنامہ جنگ میں
23سال سے مختلف موضوعات پر کالم تحریر کرتے رہے، ان کا خاص موضوع معاشیات
ہو کرتا تھا ۔اس موضوع پر انہوں نے بے شمار کالم تحریر کیے۔ تاہم دیگر علمی
و ادبی موضوعات پر لکھتے رہے۔ کتابوں پر تبصرے کرنا بھی ان کا محبوب مشغلہ
تھا، وہ انجمن ترقی اردو کے ادبی رسالے ’قومی زبان ‘ میں مختلف تصانیف پر
تبصرے بھی کیا کرتے تھے۔ کالم نگاری کی دنیا میں سبزوار صاحب معمر ترین
کالم نگار تھے۔ ان کا آخری کالم روز نامہ جنگ میں 9جولائی 2016کو
بعنوان’وزیر خزانہ اور ان کی ٹیم مستحقِ داد ‘ شائع ہوا۔2013ء میں ایم اے
سبزواری صاحب سو سال کے ہوئے ، وہ جسمانی اور ذہنی اعتبار سے چاق وچوبنداور
فعال بھی تھے ۔ اس موقع پر ان کے اعزاز میں مختلف تقاریب منعقد ہوئیں تھیں۔
اس سلسلے کی ایک تقریب تحریک نفاذ اردو پاکستان کی جانب سے ’شام اعزاز محمد
احمد سبزواری:تکریم پذیرائی‘ سماعت گاہ ناظم آباد کراچی میں زیر صدارت
ڈاکٹر سید مبین اختر سرپرست اعلیٰ تحریک منعقد ہوئی تھی۔ محمد احمد سبزواری
نے اپنی صد سالہ زندگی کے واقعات اور اردو میں میٹرک تا ایم اے حصول تعلیم
و اسناد کا ذکر انتہائی فخر سے کیا تھا۔ گویا سبزوار صاحب اردو سے اپنی
وابستگی کو قابل فخر و اعزاز تصور کیا کرتے تھے۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے
پروردگار کا شکربھی ادا کیا تھا جس نے انہیں بہ ہوش و حواس بغیر کسی سہارے
کے چلنے پھرنے،پڑھنے کا اہل بنائے رکھا اور ایک صدی عمر گزارنے کا حوصلہ
بخشا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد احمد سبزواری صاحب بڑے بہ ہمت اور مضبوط
اعصاب کے مالک تھے۔
محمد احمد سبزواری کا وطن ہندوستان کا شہر بھوپال تھا ۔ بھوپھال نے بڑے بڑے
اہل علم و دانش کوجنم دیا، اردو زبان سے محبت اور اس کی ترقی کے لیے کوشاں
رہنا اہل بھوپال کے خون میں شامل تھا۔ وہ اسی مردم خیز سرزمین میں 16جنوری
1913میں پیدا ہوئے۔تقسیم پاکستان کے بعد بے شمار علمی و ادبی شخصیات نے
بھوپال سے پاکستان ہجرت کی ان میں سے ایک محمد احمد سبزواری بھی تھے۔
ہندوستان میں محمد احمد سبزواری صاحب راشنگ آفیسر تھے۔ تقسیم کے بعد وہ
محکمہ اعداد و شماریات میں ریسرچ اسپیشلٹ منسلک ہوگئے اور اسی محکمہ سے
بطور چیف اسٹیٹیکل آفیسر کے1980 میں ریٹائر ہوئے۔گویا ریٹائرمنٹ کے بعد
سبزواری صاحب 36برس زندہ رہے اور فعال رہے۔ انہوں نے پاکستان ایڈمنسٹریٹو
اسٹاف کالج لاہور میں پرجیکٹ کوآرڈینیٹر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ وہ جامعہ
کراچی میں شوشیالوجی شعبہ سے بھی وابستہ رہے ، یہاں انہوں نے خاندانی
منصوبہ بندی کے پرجیکٹ میں کوآرڈینیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔1993میں
انہوں نے بطور کالم نگار روزنامہ جنگ سے وابستگی اختیار کی جو رہتے دم تک
قائم رہی ان کے کالم ’معیشت کی جھلکیاں‘ کے عنوان سے شائع ہوا کرتے تھے۔
یوں تو انہوں نے بے شمار کالم تحریر کیے ان میں بعض کو پزیرائی حاصل ہوئی
ان میں’تعلیمی اداروں کا معیار بڑھتا رہیگا‘، شرائط زکوٰۃُ، اقوام متحدہ کا
بئیڈپارک کا رنر‘، ’مودی جی دورے‘ ،’ نادار کہاں ہیں‘،’ٹریڈ پالیسی‘، ’بجٹ
بخار‘، ’ مردم شماری‘، گوادر کو اعلیٰ شہر بنائیے‘۔ ترقی میں ملک کس سطح پر
ہے‘ شامل ہیں۔
محمد احمد سبزواری کو پڑھنے اور لکھنے سے شروع ہی سے لگاؤتھا ان کی تحریر
کردہ کہا نی 1931میں بعنوان ’جنون کی کہانیاں‘ لاہور سے شائع ہونے والے
رسالے ’تہذیب ِنسوان‘ میں شائع ہوا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ان کے
لکھنے کا دورانیہ 80برس پر محیط ہے۔ انہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی، حیدر آباد
دکن سے ایم اے کیا، انہوں نے پی ایچ ڈی کی ابتدا بھی کی۔ 1948میں پاکستان
ہجرت کی حکومت پاکستان کی ملازمت اختیار کی۔ دوران ملازمت وہ متعدد بار
امریکہ اور دیگر ممالک مختلف تربیتی کورسیز کے لیے بھی گئے۔ اردو سے
وابستگی معاشیات ان کا موضوع تھا اوران کی اولین کتاب بھی معیشت کے مختلف
پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے جو 1935میں شاہوئی ۔ اردوزبان میں ان کی کتاب
’’ہمارا بنک‘‘ 1942میں انجمن ترقی اردو نے شائع کی جو بنکنگ کے موضوع پر
اردو زبان میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی تھی۔
اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی پہلی شماریاتی رپورٹ کا اردو ترجمہ کرنے کا اعزاز
بھی انہیں حاصل تھا۔ 1997میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے ڈاکٹر محبوب الحق
کی کتاب(Human development in South Asia)کا اردو ترجمہ جو محمد احمد
سبزواری نے کیا تھا شائع کیا۔ معاشی اصطلاعات میں بھی سبزواری صاحب کی
خدمات قابل ذکر اور قابل ستائش ہیں۔ 1951میں اردو انگریزی اصطلاحات پر مبنی
کتاب ’اصطلاحات بنکاری‘ شائع ہوئی۔ یہ کتاب انگریزی اردو اصطلاحات کے حوالے
سے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ترجمہ نویسی ان کا خاص موضوع تھا۔ ہندوستان
میں رہتے ہوئے انہوں نے متعدد دستاویزات کے ترجمے کیے جو آج بھی عثمانیہ
یونیورسٹی حیدر آباد دکن کے نصاب کا حصہ ہیں۔ انہوں نے متعدد مضامین اور
دستاویزات اور کتب کے ترجمے بھی کیے۔
تبصرہ نویسی بھی محمد احمد سبزواری کے شوق میں شامل تھا ، وہ کراچی سے شائع
ہونے والے ادبی جریدے ’افکار‘ کے بعد انجمن ترقی اردو کے جریدے ’قومی زبان
‘ میں مستقل تبصرے کیا کرتے تھے۔ اردو زبا ن سے عقیدت اور محبت نے انہیں
بابائے اردو مولوی عبد الحق کے قریب بھی کردیا، انہوں نے بابائے اردو کی
ٹیم میں بھی خدمات انجام دیں۔ اسکول و کالج کے زمانے میں میگزین ایڈیٹر بھی
رہے۔ زندگی کے آخری ایام میں وہ روزنامہ جنگ میں کالم لکھ رہے تھے اور
انجمن ترقی اردو کے رسالے ’قومی زبان‘ میں مضامین و کتابوں پر تبصرے کیا
کررہے تھے۔ محمد احمد سبزواری جیسے حوصلہ مند اور با ہمت لوگ دنیا میں کم
کم پیدا ہوتے ہیں۔ان کی تخلیقات معیار اور تعداد کے اعتبار سے ہزاروں میں
ہوں گی۔ انہوں نے طویل عرصہ اردو زبان کو علمی و ادبی سرمائے سے مالا مال
کیا جو رہتی دنیا تک طالبان علم کو فیض پہنچا تا رہے گا۔اﷲ محمد احمد
سبزواری کی مغفرت کرے ۔ |
|