پاکستان میں ایرانی ہوٹلوں کا آغاز کب اور کیوں ہوا اور یہ ہمیشہ کارنر پر ہی کیوں ہوتے ہیں؟

image

شہرِ کراچی میں ایرانیوں کے ہوٹل ایک طویل عرصے تک شہر کے سماجی اور معاشرتی منظر نامے کا اہم حصہ رہے ہیں۔ پرانے وقتوں میں کراچی کے سندھی، پنجابی، بلوچی ہوٹلوں میں گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لئے گراموفون پر پرانے سنگیت چلائے جاتے تھے مگر ایرانی ہوٹلوں میں گراموفون موجود نہیں ہوتے تھے ۔ اس کے باوجود ان کے ہوٹلوں میں صبح سے رات تک کھانے پینے کے لئے آئے گاہکوں کا رش لگا رہتا تھا ۔ان ہوٹلوں کی چائے اور کھانے کی اشیاء کا بہت عمدہ ذائقہ ہوتا تھا۔

ایرانی ہوٹلوں کے حوالے سے دلچسپ ترین بات یہ ہے کہ اس زمانے کے لوگ خاص طور پر اپنے ہوٹلز کارنر(نُکڑ) پر بنایا کرتے تھے۔ اس کے وجہ یہ تھی کہ کیفے کے لئے دو جانب کھلی جگہ درکار ہوتی ہے جس کے باعث دونوں طرف سے ہوا کا گزر ہوتا رہتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہر گاہک کو ہوٹل دُور سے نظر آجاتا ہے ۔ اس زمانے میں لوگ خصوصی طور پر کارنر (نُکڑ) کی جگہ ڈھونڈ کر ہی اس پر کیفے یا ہوٹل تعمیر کرتے تھے۔

یہ 1910ء یا 1912ء کی بات ہے جس وقت ایران میں تیل اور گیس کے ذخائر دریافت نہیں ہوئے تھے، نہ وہاں کی معاشی صورتحال بہتر تھی، اور نہ ہی زراعت کی پیداوار اچھی تھی۔ یہی وہ وجوہات تھیں جن کے باعث ایران سے مہاجرین ہجرت کر کے ہندوستان کے شہر ممبئی میں رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ بعد ازاں ان ہجرت کرنے والوں میں سے چند لوگ کراچی آگئے تھے جو اب پاکستان کا اہم کاروباری شہر ہے۔

1924ء میں ’پرشین ریسٹورنٹ‘ قائم ہوا جو بعد میں ’پرشین بیکری‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ ’پرشین بیکری‘ آج بھی موجود ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ کاروباری لحاظ سے ایم اے جناح روڈ (بندر روڈ) سے صدر اور ریگل تک کا علاقہ بشمول ایمپریس مارکیٹ کراچی کے ایک انتہائی اہم تجارتی اور معاشی مرکز ہیں۔

ایک وقت ایسا بھی آیا جب کراچی کا کوئی علاقہ ایسا نہیں تھا جہاں کسی ایرانی ہوٹل کا وجود نہ ہو۔ ان میں سے چند ایک نام غور کیجئے ، اگر آپ ایمپریس مارکیٹ سے شروعات کریں تو وہاں ’کیفے شاہ پور‘ ایک بڑا نام تھا، اس کے بالمقابل ’کیفے رائل تھا۔ اس سے تھوڑا آگے چلیں تو ’ابدان ٹی شاپ‘ تھی۔ اس سے آگے ’پرشین ریسٹورنٹ‘ موجود تھا۔ اس سے آگے ’پرشین بیکری‘ اور اس کے سامنے ’کیفے جارج‘ ایک انتہائی مشہور جگہ تھی اور اس سے آگے ’کیفے یوروز‘ واقع تھا۔ اس سے تھوڑا اور آگے بڑھیں تو ’کیفے ریگل‘ موجود تھا۔ اس سے تھوڑا آگے ’کیفے عادل‘، ’کیفے نشاط‘، ’کیفے پف‘، ’براڈ وے‘، ’کیفے شہناز‘، ’کیفے آئیڈیل‘، ’کیفے شمس‘ اور ’کیفے رائزنگ سن غرض کہ کیفے ہوٹلوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔

تمام دکانوں میں ’کیفے پرشین ریسٹورنٹ اور ’کیفے جارج‘ 2 بڑے مشہور ریسٹورنٹ تھے ۔ کیفے جارج ریسٹورنٹ کا قیام 1940ء میں ہوا تھا لیکن یہ 1979ء میں ختم ہوگیا۔ سنہ 1961ء تک یہ جگہ کراچی میں بہت مشہور رہی کیونکہ اس وقت کراچی پاکستان کا دارالحکومت تھا۔ کیفے جارج اپنے زمانے کا فائیو اسٹار ہوٹل تھا۔ اس ہوٹل کی سب سے مشہور سوغات یہاں کے پیٹیس اور فش فرائی تھیں اور یہ تازہ بیچے جاتے تھے۔

ایرانی ہوٹلوں کی ایک خاص شناخت ان کے ہوٹلوں کا پائیدار فرنیچر بھی ہوتا ہے۔ آپ کراچی سے میرپور خاص اور ٹنڈو آدم تک کسی بھی شہر کے ایرانی ہوٹل میں جائیں تو آپ کو فرنیچر اور ہوٹل کے ماحول میں ایک یکسانیت سی محسوس ہوگی۔

صدر کے علاقے میں لکی اسٹار کے قریب کیفے سبحانی جو عام طور پر چلوکباب سیستانی کے نام سے زیادہ مشہور تھا، کسی دور میں مشہور ایرانی ہوٹل ہوا کرتا تھا۔ ایم اے جناح روڈ اور عبداللہ ہارون روڈ کے انٹر سیکشن پر بھی پہلوی ریسٹورنٹ کے نام سے ایرانی ہوٹل تھا۔ اس کے ساتھ ایک اور ایرانی ہوٹل کیفے درخشاں کے نام سے ہوتا تھا لیکن یہ تمام ہوٹل قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ اتنے بڑے شہر میں گنتی کے ایرانی ہوٹل رہ گئے ہیں۔


Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts