ٹائٹینک جہاز اس نام سے تو بچہ بچہ واقف ہے اور اس بحری جہاز سے متعلق کئی باتیں مشہور ہیں کہ یہ یوں ڈوبا تو ویسے ڈوبا لیکن آج ہم آپکو وہ رواز بتائیں گے کہ جن کی وجہ سے یہ جہاز ڈوبا۔ یہ وہ حقائق ہیں جو آج سے پہلے کبھی آپ نے نہیں سنیں ہوں گے۔
ٹائٹینک کو بنانے والی کمپنی کا دعویٰ اور یہ جہاز کتنے عرصے میں مکمل بنا :
تاریخ کے اس انتہائی بڑے جہاز کو "وائٹ اسٹار لائن کمپنی " نے 5 سال کے طویل عرصے میں مکمل بنایا لیا تھا اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دعویٰ کر دیا گیا تھا کہ جہاز کبھی بھی نہیں ڈوبے گا اس لیے اس کا نام " دی ان سینک ایبل ٹائٹینک" رکھا گیا تھا جس کا مطلب بھی یہی تھا کہ یہ جہاز کبھی نہیں ڈوب سکتا۔
ٹائٹینک کی رفتارکیوں بڑھا دی گئی تھی:
یہ جہاز 22 اپریل سن 1912 کو 22سو سے زائد مسافروں کو لے کر انگلینڈ کے شہر ساؤتھ ہمپٹن سے امریکی ریاست نیویارک جا رہا تھا۔ اس جہاز کے کپتان تھے "سر ایڈورڈ اسمتھ" جو کہ اپنے وقت کے سب سے زیادہ ماہر کپتان تھے انہیں جہاز کا کپتان رکھنے کا فیصلہ بھی اسی لیے کیا گیا تھا کہ جہاز کبھی ڈوبے نہیں دیں گے لیکن قدرت کو تو کچھ اور ہی منظور تھا۔
جہاز کے کپتان "سر ایڈورڈ اسمتھ" کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ 7 دنوں کے اندر اندر اس جہاز کو نیو یارک پہنچایا جائے کیونکہ اس کو بنانے والی کمپنی یہ نہیں چاہتی تھی کہ یہ اپنے پہلے ہی سفر میں وقت پر منزل پر نہ پہنچے۔
تو جب ٹائٹینک کو اس کی نارمل اسپیڈ سے بڑھا کر بہت تیز کر دیا گیا تو ایک وقت آیا کہ جہاز کے کپتان کا جہاز پر کنٹرول نہیں رہا اور یہ رات کی تاریکی میں ایک بڑے سے برف کے ٹکڑے سے ٹکرا گیا۔ اس جلد بازی کے نتیجے میں 15 سو زائد افراد کو اپنی جان سے ہاتھ دھو پڑا۔
ٹائٹینک سے کچھ دور ایک جہاز نے خطرے کی اطلاع بھی جہاز کے عملے کو دی تھی:
اپنے سفر کے تیسرے روز یعنی کہ 14 اپریل سن 1912 کو رات وقت سمندر میں ہر طرف گہرا قہر چھایا ہوا تھا جس کی وجہ سے آس پاس کچھ نظر نہیں آرہا تھا تو اس وقت ٹاٹینک سے 1 گھنٹے کی دوری پر سفر کرتے ہوئے ایک چھوٹے جہاز نے خطرے کی اطلاع بھی جہاز کے عملے کو الیکٹرونک ویو کے زریعے دی کہ آگے بڑے بڑے برف کے ٹکڑے موجود ہیں۔
تحقیقی اداروں میں کام کرنے والے بتاتے ہیں کہ اس چھوٹے جہاز نے صرف 1 نہیں بلکہ 6 سگنلز بھیجے گئے تھے جس پر جہاز کے تمام عملے نے کان نہ دہرے اور وی آئی پی مسافروں کی خاطر داری میں مصروف رہے۔
جہاز کی سیکیورٹی پر مامور افراد کے پاس دوربین موجود نہیں تھی:
تیسری غلطی تھی تو بہت چھوٹی مگر کبھی کبھار یہ چھوٹی غلطی بہت بڑا نقصان کر جاتی ہے جیسا کہ ٹائٹینک کی سیکیورٹی پر مامور افراد کے پاس دور بین نہیں موجود نہیں تھی جس کی وجہ سے انہیں فٹبال گراؤنڈ جتنی بڑا برف کا ٹکڑا نظر نہیں آیا اور انہیں یہ برف کا ٹکڑا تب نظر آیا جب جہاز اس کے بہت نزدیک پہنچ گیا تھا اور تب جہاز کے کپتان نے جہاز کے تمام انجن بند کرنے اور اس کا رخ دوسری طرف موڑنے کا حکم دے دیا تھا۔
لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی اور جہاز اس برف کے ٹکڑے سے ٹکرا گیا تھا۔
برف کے ٹکرے سے ٹکرانے کے بعد بھی جہاز نہ ڈوبتا اگر اسجہاز کو اپس میں جوڑنے والے پرزے اچھے لگے ہوتے:
برف کے ٹکڑے سے ٹکرانے کے بعد بھی یہ جہاز نہ ڈوبتا اگر ٹائٹینک کے مختلف حصوں کو آپس میں جوڑنے کیلئے جن پرزوں(ریورٹس) کا استعمال کیا گیا تھا وہ کمزور نہ ہوتے تو اور پھر یہ اسٹیل کے بھی بنے ہوئے نہیں تھے تو جب جہاز اس برف کے ٹکرے سے ٹکرایا تو یہ ریوٹس ٹوٹ گئے اور جہاز کے مختلف حصوں میں پانی داخل ہونے لگ گیا۔
اس کبھی نہ ڈبنے والے جہاز کو بنانے والی کمپنی کا دعویٰ تھا کہ یہ جہاز کہ ایک تو یہ جہاز کبھی ڈوب نہیں سکتا اگر اس جہاز میں پانی داخل بھی ہوا تو تیسرے فلور سے اوپر تک نہیں جائے گا ۔ لیکن دنیا جانتی ہے کہ پانی چوتھے فلور تک چلا گیا تھا ۔
لائف بوٹس کم تھیں ،وی آئی پی مسافروں کو اس میں بٹھا دیا گیا تھا :
اتنے بڑے جہاز میں جہاں 60 لائف بوٹس ہونی چاہیے تھی وہاں صرف 20 لائف بوٹس موجود تھیں اور ان جب جہاز کے کپتان کیپٹن اسمتھ نے اعلان کیا کہ جہاز ڈوبنے والا ہے اور لائف بوٹس (کشتی)بھی بہت کم ہیں تو سب سے پہلے عورتوں اور بچوں کو لائف بوٹس (کشتی)میں بٹھا دیا جائے لیکن اب جہاز میں افراتفری مچ گئی تھی۔
لوگ اپنے گھر والوں کے ساتھ لائف بوٹس میں بیٹھ گئے جہاں ایک لائف بوٹ میں 20
سے 25 بندوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی وہاں لوگ اپنے گھر والوں یا پھر چند افراد کو بٹھا کر چلتے بنے اور پھر دوسری طرف اس موقع پر بھی جہاز انتظامیہ نے وی آئی پی مسافروں کو ترجیح دی اور بقیہ لائف بوٹس میں بٹھا کر انہیں روانہ کر دیا پھر کیا تھا اس ٹائٹینک کے 2 حصے ہو گئے اور یہ جہاز سمندر میں ڈوب گیا جس کے نتیجے میں 1500 سے زائد افراد اس حادثےمیں جانے سے گئے۔