رنگت کا کالا یا گورا ہونا پاکستانی اور ہندوستانی معاشرے میں حد سے زیادہ عام ہے جس کا نہ تو کوئی سر ہے اور نہ پیر کیونکہ انسانی رنگت وہ اپنے ہاتھ سے نہیں بناتا بلکہ اس کا اختیار خدا کے ہاتھ میں ہے اور پھر کسی کو بھی اس کے رنگ کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنانا عقل والوں کی نشانی نہیں ہے بلکہ عاقل تو وہ لوگ سمجھے جاتے ہیں جو رنگ، نسل اور زبان پر کسی بھی فرد کو اُف تک نہ کہیں۔

کالے اور گورے کا تعصب امریکی و یورپی معاشروں میں بھی پایا جاتا ہے کہ سیاہ فام امریکیوں کو تنقیدی نقطہ نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جبکہ گوروں کو محترم سمجھا جاتا ہے۔ لیکن آج سوشل میڈیا پر امریکہ کے سب سے بڑے سالانہ شوبز میلے میٹ گالا میں امریکی اداکارہ و ماڈل اور سوشل میڈیا انفلوئنسر
کم کارڈیشن نے مکمل سیاہ لباس پہن کر تاریخ رقم کر دی اور یہ بات واضح کردی کہ کالا یا گورا ہونا کامیابی کی علامت نہیں بلکہ انسان اپنے ہنر اور کردار، محنت اور وقار کی بناء پر کامیاب ہوتا ہے۔
مگر سوشل میڈیا پر جہاں لوگ کم کارڈیشن کے لباس کی وجہ سے انہیں ہیری پوٹر کے کردار ڈیمینٹر سے ملا رہے ہیں تو کہیں مزاحیہ میمز شیئر کرکے ان کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
تعصب پسند لوگ کارڈیشن کو کالے کبوتر سے ملا رہے ہیں وہیں کچھ مکتبِ فکر اور ادبی حلقوں میں کارڈیشن کی تعریف کی جا رہی ہے کہ میٹ گالا جیسے بڑے میگا ایونٹ پر یوں کالے رنگ کے سر سے پاؤں تک کپڑے پہن کر انہوں نے کالے اور گورے رنگ کے تعصب کو خاک میں ملا دیا اور حقیقت میں انسان کو ایسا ہی ہونا چاہیئے۔